امت مرزائیہ کے چند مدعیان نبوت کا ذکر
مرزا قادیانی کی امت نے جب یہ دیکھا کہ ان کے پیشوا نے ختم نبوت کا مسئلہ تو ختم کر دیا اور قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ کھول دیا تو حوصلہ مند مرزائیوں کو طمع ہوئی کہ موقع ملنے پر ہم بھی مسیح موعود بن جائیں گے اور مرزا صاحب کی طرح عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے۔ اب ہم امت مرزائیہ کے چند مدعیان کا ذکر کرتے ہیں۔
۱-چراغ دین متوطن جموں
چراغ الدین نای جموں کا رہنے والا تھا۔ وہ مرزا صاحب کا مرید تھا۔ اس نے مرزا صاحب کی زندگی میں ہی نبوت و رسالت کا دعویٰ کر دیا۔ مرزا صاحب نے اس کو باغی کہہ کر اپنی جماعت سے خارج کر دیا۔
۲-منشی ظہیر الدین اروپی
یہ شخص موضع اروپ ضلع گوجرانوالہ کا رہنے والا تھا۔ اس کے نزدیک مرزا صاحب، صاحب شریعت نبی تھے۔ اس کا خیال تھا کہ قادیان کی مسجد ہی خانہ کعبہ ہے۔ نماز اسی کی طرف منہ کر کے پڑھنی چاہیے۔ لاہوری پارٹی کے جریدۂ پیغام صلح کا مدیر بھی رہا ہے۔ یہ شخص اپنے یوسف ہونے کا مدعی تھا لیکن بعد میں اپنے دعویٰ پر ثابت نہ رہا اور مرزائے قادیان کی تحریروں میں تخالف اور تضاد پر مضمون بھی لکھا جو لاہوری مرزائیوں کے رسالہ المہدی میں شائع ہوا۔
۳-محمد بخش قادیانی
یہ شخص قادیان کا رہنے والا ہے۔ اس کو الہام ہوا ”آئی ایم و ٹ وٹ“ یعنی ”میں و ٹ وٹ ہوں“۔
۴-مسٹر یار محمد پلیڈر
یہ شخص ہوشیار پور کا وکیل تھا۔ یہ شخص مرزا قادیان کا حقیقی جانشین اور خلیفہ برحق ہونے کا مدعی تھا۔ مرزا محمود سے اس کا جھگڑا رہا کہ مسند خلافت میرے لیے خالی کر دے مگر وہ کسی طرح راضی نہ ہوا۔
۵-عبداللہ تیماپوری
یہ شخص تیماپور علاقہ حیدر آباد دکن کا رہنے والا تھا۔ پہلے روح القدس کے نزول کا مدعی بنا پھر مظہر قدرت ثانیہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس شخص نے پیشگوئی کی تھی کہ مرزا محمود بہت جلد میری بیعت میں داخل ہو جائے گا۔ لیکن پیشگوئی پوری نہ ہو سکی۔ سب سے پہلے اس پر یہ وحی آئی ” یا ایھا النبی تیمار پور میں رہیو“۔ یہ شخص کہتا تھا کہ میں ظل محمد بھی ہوں اور ظل احمد بھی اور درجہ رسالت میں وہ اور مرزا صاحب دونوں بھائی ہیں اور مساوی حیثیت رکھتے ہیں اور جو فرق کرے وہ کافر ہے۔
۶-سید عابد علی
پرانا مرزائی۔ قصبہ بدو ملہی ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا تھا۔ مدعی الہام ہوا۔
۷-عبد اللطیف گنا چوری
یہ بھی ایک مشہور مرزائی مدعی نبوت ہے۔ اس نے اپنے دعویٰ کی تائید میں ایک ضیغم کتاب چشمہ نبوت شائع کی۔ جس میں لکھتا ہے کہ مرزا صاحب کا نام زمین پر غلام احمد اور آسمان پر مسیح بن مریم تھا۔ اسی طرح خدا نے زمین پر میرا نام عبد اللطیف اور آسمانوں میں محمد بن عبداللہ موعود رکھا ہے۔ جس طرح مرزا صاحب روحانی اولاد بن کر سید ہاشمی بن گئے تھے اسی طرح میں بھی آل رسول میں داخل ہوں۔
۸-ڈاکٹر محمد صدیق بہاری
یہ شخص صوبہ بہار کے علاقہ گدگ کا رہنے والا تھا۔ مرزائیوں کی لاہوری پارٹی سے متعلق تھا۔ یہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب نے پسر موعود کی پیشگوئی کی تھی، وہ میں ہی یوسف موعود ہوں، اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اہل قادیان کی اصلاح کروں۔ قادیان سے آواز اٹھ رہی کہ حضرت خاتم النبین کے بعد بھی نبوت جاری ہے۔ اسلام میں سرور دو جہان کی ذات گرامی پر اس سے بڑھ کر اور کوئی حملہ متصور نہیں ہو سکتا کہ حضور کے بعد کوئی اور نبی کھڑا کیا جائے اور بیس کروڑ مسلمانوں کو مرزا صاحب کی نبوت کا انکار کرنے کی وجہ سے خارج از السلام تصور کیا جائے۔ میں اس توہین آمیز عقیدہ کو مٹانے کی غرض سے مبعوث ہوا ہوں۔ محمودیوں اور پیغامیوں(قادیانی مرزائیوں اور لاہوری مرزائیوں) میں جھگڑا تھا اس لیے میں حکم بن کر آیا ہوں، میرے نشانات کئی ہزار ہیں۔ صرف اخلاقی نشان چون ہیں۔ یہ نعمت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہونے اور قادیان کے خلاف کرنے سے ملی۔ غیرت الہٰی نے میرے لیے مرزا صاحب کے نشانات سے بڑھ کر نشانات ظاہر کیے۔ میری بعث کے بغیر قادیان کی اصلاح ناممکن تھی۔ میں نے تلاش حق میں مرزا محمود کے ہاتھ پر بیعت بھی کی تھی لیکن عقائد پسند نہ آنے کی وجہ سے بیعت فسخ کر دی اور قادیان سے نکالا گیا۔ اب میں مسلسل بارہ سال سے محمودی عقائد کی تردید کر رہا ہوں۔
۹-احمد سعید سنبھڑیالی
یہ شخص ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا، اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس جو پہلے مرزائی تھا بعد میں نبوت کا دعویٰ کیا۔
۱۰-احمد نور کابلی
یہ شخص قادیان کا سرمہ فروش، مرزا غلام احمد کے حاشیہ نشینوں میں سے تھا۔ اس کی ناک پر پھوڑا ہو گیا، جب کسی طرح اچھا نہ ہوا تو عمل جراحی کرایا۔ جب ناک کٹ گئی تو دعویٰ نبوت کر دیا اور کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے : عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا اور آیت : ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم میرے بارہ میں نازل ہوئی۔ فتلك عشرة کامله۔
نمونہ کے طور پر ہم نے مرزائی امت کے دس مدعیان نبوت کا ذکر دیا۔ ان دس کے علاوہ اور بھی مرزائی امت میں مدعیان نبوت گزرے ہیں جن میں سے بعض تو یہ کہتے تھے میں ہی حقیقی مرزا صاحب ہوں۔ اُس شخص کا نام افضل احمد تھا جو موضع چنگا ضلع راولپنڈی کا تھا۔ یہ سب مدعیان نبوت مرزائی تھے جو بعد میں نبوت کے مدعی بن گئے۔ ان میں سے کوئی وکیل تھا اور کوئی پٹواری اور کوئی انسپکٹر تھا۔ ان مرزائی مدعیان نبوت کے مفصل حالات کتاب ائمہ تلبیس مصنفہ مولانا ابوالقاسم دلاوری مرحوم میں مذکور ہیں۔ وہاں دیکھ لیے جائیں۔ یا قادیانی مذہب مصنفہ پروفیسر الیاس برنی مطبوعہ مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان صفحہ 1010سے 1044 تک مطالعہ کر لیا جائے۔