دعویٰ ہائے مرزا غلام احمد قادیانی
حیات مسیح سے انکار اور دعویٰ مثیل مسیح:
مسئلہ حیات مسیح یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ جسد عنصری سمیت اٹھایا جانا ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی بھی پہلے حیات مسیح کا قائل تھا۔چنانچہ مرزاقادیانی ایک جگہ رقم طراز ہے کہ:
’’بلکہ میں بھی تمھاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کر دیا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 111 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ111)
محترم قارئین! بعدازاں مرزا غلام احمد قادیانی نے حیات مسیح کی نفی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی کا وفات مسیح کے عقیدے کے اظہار کے پیچھے جو مقصد پوشیدہ تھا وہ یہ تھا کہ جن احادیث نبویہ میں نزول مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے ان کو اپنے اوپر چسپاں کرلے اور اپنے آپ کو مثیل مسیح قرار دے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے ’’فتح اسلام‘‘ نامی رسالہ تالیف کرکے 1891ء میںشائع کیا اوراس میں اپنے آپ کو مثیل مسیح قرار دیتے ہوئے لکھا:
’’حضرت مسیح ابن مریم بھی درحقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والا تھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد پیدا ہوا۔ اس زمانہ میں جب یہودیوں کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہو گئی تھی اور وہ بوجہ کمزوری ایمان کے ان تمام خرابیوں میں پھنس گئے تھے جو درحقیقت بے ایمانی کی شاخیں ہیں۔ پس جب کہ اس امت کو بھی اپنے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی بعثت کے عہد پر چودہ سو برس کے قریب مدت گزری تووہی آفات ان میں بھی بکثرت پیدا ہو گئیں جو یہودیوں میں پیدا ہوئی تھیں تاوہ پیشگوئی پوری ہو جو ان کے حق میں کی گئی تھی۔ پس خدا تعالیٰ نے ان کے لیے بھی ایک ایمان کی تعلیم دینے والا مثیل مسیح اپنی قدرت کاملہ سے بھیج دیا مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے ۔ چاہو تو قبول کرو۔۔۔۔ حضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اوراسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تاکہ صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میںصلیب کو توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ میں آسمان سے اترا ہوں ۔ ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لیے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا، بلکہ کر رہا ہے۔ اور اگر میں چپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لیے دیے گئے ہیں۔‘‘ (فتح اسلام حاشیہ صفحہ 15تا17مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 11,10)
محترم قارئین! جب مرزا غلام احمد قادیانی کے مثیل مسیح ہونے کے دعویٰ پر اعتراض کیا گیا کہ مسیح تو نبی تھے کیا مرزا غلام احمد قادیانی بھی نبی ہے تو مرزا غلام احمد قادیانی نے ان اعتراضات کے جواب دینے کے لیے ایک اور رسالہ لکھ دیا جس کا نام ’’توضیح المرام‘‘ رکھااوراس میں مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہیے کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح کے لیے ہمارے سید و مولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہی لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہوگا اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہوگا۔ اوراس سے زیادہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرے گاکہ میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا امام ہوں‘‘ (توضیح المرام صفحہ 19 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 59)
مزید وضاحت کرتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی ایک جگہ رقم طراز ہے کہ
’’یہ بات سچ ہے کہ اﷲ جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے ۔ سو میں اسی الہام کی بنا پر اپنے تئیں جو موعود مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں مجھے اس بات سے انکار بھی نہیں کہ میرے سوا کوئی اور مثیل مسیح بھی آنے والا ہو۔ بلکہ ایک آنے والا تو خود میرے پر بھی ظاہر کیا گیا ہے، جو میری ذریت میں سے ہوگا۔ لیکن اس جگہ میرا دعویٰ جو بذریعہ الہام مجھے یقینی طور پر سمجھایا گیا ہے صرف اتنا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث میں میرے آنے کی خبر دی گئی ہے ۔ میں اس سے ہرگز انکار نہیں کر سکتا اور نہ کروں گا کہ شاید مسیح موعود کوئی اور بھی ہو اور شاید یہ پیش گویاں جو میرے حق میں ہیںروحانی طور پرظاہری طور پر اسی پر جمتی ہوں اور شاید سچ مچ دمشق میں کوئی مثیل مسیح نازل ہو۔ لیکن میرے پر یہ کھول دیا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم جن پر انجیل نازل ہوئی تھی فوت ہو چکا ہے‘‘ (خط مرزا صاحب بنام عبدالجبار صاحب 11فروری 1891مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلداوّل 176-173 طبع چہارم )
ایک اور جگہ مرزا غلام احمد قادیانی تمام مسلمانوں کے نام ایک اشہتار میں رقم طراز ہے کہ
’’مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے۔ جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے اس طرح میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے اشد درجہ کی مناسبت رکھتی ہے۔‘‘
(ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجہ جمیع مسلمانان انصاف شعار و حضرات علمائے نامدار مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 215طبع چہارم)
ایک اور مقام پر اپنے دعوے کی وضاحت کرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’اس عاجز کی طرف سے بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مسیحیت کا میرے وجود پر ہی خاتمہ ہے اور آئندہ کوئی مسیح نہیں آئے گا بلکہ میں تو مانتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزار سے بھی زیادہ مسیح آ سکتا ہے اور ممکن ہے ظاہری جلال و اقبا ل کے ساتھ بھی آئے اور ممکن ہے اوّل وہ دمشق میں ہی نازل ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 296مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 251)
’’ میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار مثیل مسیح آجائیں ۔ ہاں اس زمانے کے لیے میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے۔۔۔ پس اس بیان کی رو سے ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آ سکیں۔ کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا۔ درویشی اور غربت کے لباس میںآیا ہے اور جب کہ یہ حال ہے تو علماء کے لیے اشکال ہی کیا ہے۔ ممکن ہے کسی وقت ان کی یہ مراد بھی پوری ہو جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 199مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 197)
’’بالآخر ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہمارے بعد کوئی اور بھی مسیح کا مثیل بن کر آئے۔ کیونکہ نبیوں کے مثیل ہمیشہ دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیش گوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ذریت سے ایک شخص پیداہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی ۔ وہ آسمان سے اترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا۔ وہ اسیروں کو رست گاری بخشے گا اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہا ئی دے گا۔‘‘
(فرزند دل بند گرامی وارجمند مظہر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء)
(ازالہ اوہام صفحہ 156,155 مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ 180,179)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی کی تمام تحریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح ابن مریم یعنی عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ خود مثیل مسیح ہے اور اس کے بعد بھی کئی مثیل مسیح آ سکتے ہیں۔ بلکہ اس کی ذریت سے بھی ایک مثیل مسیح ضرور آئے گا۔ مرزا قادیانی کے ان دعووں کی بنیاد عقیدہ وفات مسیح پرہی ہے۔ آئیے ذرا اس عقیدہ(حیات مسیح) کے بارے میں قرآن و حدیث سے رہنمائی لیں:مسئلہ حیات مسیح قرآن و حدیث کی روشنی میں:
محترم قارئین ! سب سے پہلی بات کہ اگر مرزا قادیانی کے اس دعویٰ کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیںتب بھی یہ سوال پید اہوتا ہے کہ کیا اﷲ تعالیٰ فوت شدہ کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ یقینا اﷲ رب العزت فوت شدہ کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ اسے قادیانی بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اسی قدرت کومدنظررکھتے ہوئے نبی کریم علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فرمان پر غورکریںچنانچہ فرمان نبوی ہے کہ
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ أنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلَ الْخَنْزِیْرَ وَیَضَعَ الْجِذْیَۃَ وَیَفِیْضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ اَحَدٌ حَتّٰی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا ثُمَّ یَقُوْلُ اَبُوْھُرَیْرَۃَ وَاقْرَؤُوْا إنْ شِئْتُمْ :
{وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا}
ترجمہ: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ قریب ہے کہ ابن مریم تم میں تشریف لائیں۔ وہ حاکم اور عادل کی حیثیت سے آئیں گے ۔ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کر دیں گے ۔ مال ودولت کی فراوانی ہوگی حتی کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیااور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہوگا۔‘‘
پھر ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ اگر تم چاہو تواس آیت کی تلاوت کرو۔ ’’ اور اہل کتاب میں سے سب کے سب اس (مسیح علیہ السلام ) پر اس کی موت سے پہلے ضرور ایمان لائیں گے اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہی دیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم حدیث3448)
یعنی نبی کریم علیہ السلام نے قسم اٹھا کر فرمایا کہ ابن مریم علیہ السلام قیامت سے قبل ضرور نازل ہوں گے۔ تو کیا اﷲ رب العزت اپنے نبی اور سب سے زیادہ محبوب شخصیت جناب محمدرسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی قسم کو پورا کرنے کے لیے عیسیٰ ابن مریم کو دوبارہ زندہ نہیںکرسکتے ،یقینا کر سکتے ہیں۔ تو پھر بھی مرزا غلام احمد قادیانی مثیل مسیح یا مسیح موعود ثابت نہیں ہوتا۔
آئیے سب سے پہلے اس آیت کا جائزہ لیتے ہیں جس سے تمام مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا ثابت کرتے ہیں اور اسی آیت سے مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کی ذریت وفات مسیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔
{اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّـبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکَ فَاحْکُمْ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ }(آل عمران :55)
ترجمہ: اور جب اﷲ تعالیٰ نے کہا: اے عیسیٰ ! میں آپ کو پوری طرح لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جن لوگوں نے انکار کیا ہے میں ان سے آپ کو پاک کرنے والا ہوں۔ اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنھوں نے تجھ سے کفر کیا۔ پھر تم سب کومیری طرف ہی لوٹنا ہے۔تمھارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔
یہاں پر یہ بات یاد رہے کہ ’’المتوفی‘‘ کا مصدر تَوَفِّیْ اور مادہ وَفْیٌّ ہے، جس کے اصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اسی لیے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لیے جاتے ہیں ۔ اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پرمعطل کر دیے جاتے ہیں۔ اسی لیے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصلی معنی پورا پور لینے کے ہی ہیں۔ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ میں یہ اس اپنے حقیقی اور اصلی معنوںمیں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اے عیسیٰ ! میں تجھے یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لو ں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔(تفسیر احسن البیان)
محترم قارئین! اس آیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بارے میں یہود ونصاریٰ کے عقیدے کا بھی علم ہو کیونکہ متنبی قادیانی مرزا غلام احمد بھی وفات مسیح کے متعلق دلیل دیتے ہوئے یہ اصول بیان کرتاہے کہ
’’بائیسویں آیت وفات مسیح پر یہ ہے کہ{فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ}یعنی اگرتمھیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کے واقعات پر نظر ڈالو تاکہ اصل حقیقت تم پر منکشف ہو جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اوّل صفحہ 616 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 433)
محترم قارئین ! نزول قرآن کے وقت مسیح علیہ السلام کے متعلق دو قسم کے خیالات تھے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’اوریہودیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ خیال تھا کہ وہ قتل ہو گئے ہیں اور صلیب بھی دیے گئے ، بعض کہتے ہیں کہ پہلے قتل کرکے پھر صلیب پر لٹکائے گئے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ پہلے صلیب دے کر پھر ان کو قتل کیا گیا۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ136مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ345)
عیسائیوں کا جو خیال تھا بالفاظ مرزا متبنی قادیاں یہ ہے کہ
’’ عیسائیوں کا یہ بیان کہ درحقیقت مسیح پھانسی کی موت سے مر گیا جس سے یہ نتیجہ نکالنا منظور تھا کہ مسیح عیسائیوں کے گناہ کے لیے کفارہ ہوا۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 373 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 292)
مرزا قادیانی یہ بھی مانتاہے کہ اس خیال باطل پر نصاریٰ کے تمام فرقے متفق تھے اس بات کا اظہارکرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطراز ہے
’’ کیونکہ تمام فرقے نصاریٰ کے اس قول پر متفق نظر آتے ہیں کہ تین دن تک حضرت عیسیٰ مرے رہے اور پھر قبر میں سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 248 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 225)
قادیانی گروہ قرآن وحدیث کے خلاف عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت پر اصرار ، صلیب پر چڑھنے کا اقرار اور رفع الی السماء کا انکار کرتاہے ۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتاہے کہ
’’رفع سے مراد روح کا عزت کے ساتھ اٹھایا جانا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 386 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 299)
اور صلیب پر چڑھنے کا واقعہ مرزا قادیانی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’پھر بعداس کے مسیح ان کے حوالہ کیا گیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب نے دیکھا ۔ آخر صلیب دینے کے لیے تیار ہوئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور عصر کا وقت اور اتفاقاً یہ یہودیوں کی عید فسخ کا بھی دن تھا۔ اس لیے فرصت بہت کم تھی اور آگے سبت کا دن آنے والا تھا۔ جس کی ابتدا غروب آفتاب سے ہی سمجھی جاتی تھی کیونکہ یہودی لوگ مسلمانوں کی طرح پہلی رات کو اگلے دن کے ساتھ شامل کر لیتے تھے اور یہ ایک شرعی تاکید تھی کہ سبت میں کوئی لاش صلیب پر لٹکی نہ رہے۔ تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا تا شام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 32 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 296)
مگر قرآن مجید نے اس عقیدہ کو لعنتی ٹھہرایا ہے اور مسیح علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا ظاہر کیا ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر55 سے پہلی آیت میں اﷲ رب العزت فرماتے ہیں کہ
وَمَکَرُوْا وَمَکْرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ
(اور انھوں (یہودیوں)نے(عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ) تدبیر کی اور اﷲ نے بھی تدبیر کی جب کہ اﷲ تعالیٰ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
اگر اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ رب العزت فرماتے ہیں:سے مراد موت لی جائے جیسے مرزائی لیتے ہیں تو پھر یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ یہودیوں کی تدبیر کامیاب رہی کیونکہ وہ بہرحال عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن اﷲ رب العزت نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل سے بچا کر زندہ آسمانوں پر اٹھالیا جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ النساء کی آیت 158میں موجودہے۔ چنانچہ اﷲرب العزت فرماتا ہے کہ
{وَقَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰــکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَاقَتَلُوْہُ یَقِیْنًا O بَل رَّفَعَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا}
ترجمہ:او ریوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اﷲ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ توانھوں نے اسے قتل کیا ، نہ صلیب دیا بلکہ ان کے لیے وہی صورت بنا دی گئی تھی۔ یقین جانو کہ عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں،انھیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے ۔ اتنا یقینی ہے کہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیابلکہ اﷲ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اور اﷲ بڑا زبردست ، بڑی حکمت والا ہے۔
ان آیات کا مضمون بڑا واضح ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو نہ سولی دی گئی اور نہ وہ قتل کیے گئے۔ بلکہ اﷲ رب العزت نے انھیں اپنی طرف اٹھالیا۔ یہاں پر مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کی ذریت رفع سے مراد درجات کی بلندی لیتی ہے۔ اگر ان کی بات کو تسلیم کر لیا جائے توآیت کے آخری حصے میں اﷲرب العزت کا یہ فرمانا کہ اﷲ بڑا ہی زبردست ، بڑی حکمت والا ہے ،کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔ جب کہ یہی بات واضح کرتی ہے کہ اﷲ رب العزت نے عیسیٰ علیہ السلام کو کسی ایسے طریقے سے اوپر اٹھایا ہے جو خارق عادت ہے ۔ مزید یہ کہ شہادت میں تو درجات کی بلندی اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر یہود ونصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کر دیتے تو کیا درجات کی بلندی نہ ہوتی۔ دوسری بات یہ کہ اﷲ رب العزت نے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا کر عیسائیوں کے عقیدہ کفارہ کو مکمل طو رپر نیست و نابود کر دیا ہے، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جان دے کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا، جو کہ بالکل غلط ہے اور اﷲ رب العزت نے اس بات سے ان کے اس عقیدے کی مکمل طور پر نفی فرما دی ہے۔ اگر سورہ آل عمران کی آیت نمبر55میں اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کا معنی فوت لیا جائے تو پھراس کو ترجمہ کرتے ہوئے بعد میں پڑھیں گے اور رَافِعُکَ پہلے پڑھیں گے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے کئی ایک مقامات پر اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کو ترجمہ کے دوران بعد میں پڑھنے پر اعتراض کیا ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ واؤ کا لفظ ترتیب کے لیے نہیں ہوتا۔ اگراس کی مثال قرآن مجید سے چاہیں تو سنیے ۔ ایک مال دار شخص کا سال یکم رمضان کو ظہر کے وقت پورا ہوا ۔ اب بحکم آیت وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاَتُوا الزَّکٰوۃَ (مرزائی اصول کے مطابق)مسلمان پر فرض ہے کہ پہلے نماز پڑھے اور پھر زکوٰۃ دے۔اگر پہلے زکوٰۃ ادا کردی تو شاید گناہگار ہو جائے گا اور اس کی زکوٰۃ بھی ادانہ ہوگی۔ کیا کوئی بھی انسان اس مسئلہ میں قادیانیوں کے ساتھ ہوگا۔دوسری آیت وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَکے بموجب(قادیانی اصول کے مطابق) ضروری ہے کہ پہلے نماز پڑھے اور اس کے بعد شرک چھوڑے۔ اگر پہلے شرک چھوڑ دے گا تو شاید قادیانی اس سے خفا ہوں گے۔ تیسری آیت میں اﷲ تعالیٰ نے فرعون کے جادوگروں کے قول کو ایک جگہ یوں فرمایا کہ بِرَبِّ مُوْسٰی وَہَارُوْنَ (پارہ 9رکوع 4) دوسری جگہ فرمایا بِرَبِّ ہَارُوْنَ وَمُوْسٰی (پارہ 9رکوع 4) جو پہلے کے الٹ ہے حالانکہ جادوگروں نے صرف ایک ہی طریق سے کہا ہوگا ۔ اگر یہاں پر قادیانی اصول کے مطابق واؤ کا لفظ ترتیب کے لیے مان لیا جائے تو پھر مندرجہ بالا آیات میں اگر جادوگروں کاکہنا طریق اول ہوگا تو دوسرے میں کذب آئے گا۔
اگر دوسرا ہے تو پہلے میں جھوٹ ہوگا ۔ علاوہ اس کے کئی مقام پر انبیاء سابقین کا لاحقین سے پیچھے ذکر کیا ہے ۔ چنانچہ کَذٰلِکَ یُوْحِی اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ اللّٰہُ پس جب واؤ کا لفظ ترتیب کے لیے نہیں ہوتا بلکہ محض جمعیت کے لیے ہے تو متوفی کے معنی رافع سے پیچھے کر لینے میں کونسی قباحت ہے۔
محترم قارئین! قرآن مجید میں مزید بھی ایسے دلائل موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھالیا گیا ہے۔ لیکن طوالت کے باعث ان ہی پراکتفا کیا جاتا ہے۔اب چند احادیث نبوی نزول مسیح علیہ السلام کے بارے میں ذکرکرکے اس بحث کو سمیٹتا ہوں۔
حضرت ابوہریرہرضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
یَمْکُثُ عِیْسٰی فِی الْاَرْضِ بَعْدَ مَا یَنْزِلُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ وَیُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ وَیَدْفِنُوْنَہ‘ (مسند ابی داود طیالسی حدیث 2664)
ترجمہ: عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد چالیس سال زمین پر رہیں گے پھر آپ فوت ہوجائیں گے ۔ مسلمان آپ کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور دفن کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا!
(( یَنْزِ لُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اِلیَ الْاَرْضِ فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہُ وَیَمْکُثُ خَمْسًاوَاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ فَیُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِی فَاَقُوْمُ اَنَاوَعِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ فِیْ قَبْرٍوَاحِدٍبَیْنَ اَبِیْ بَکَرٍوَعُمَرَ))
(رَوَاہُ اِبْن الْجَوْزِیْ فِیْ کِتَابُ الْوَفَاء)
یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام زمین کی طرف اتریںگے ‘وہ شادی کریں گے‘ان کی اولادہوگی‘اور پنتالیس سال تک زندہ رہیں گے پھرفوت ہوں گے اورمیرے ساتھ میرے مقبرے میںدفن کیے جائیں گے پھر میں(محمدرسول اللہﷺ)اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی مقبرہ سے قیامت کو اٹھیں گے جبکہ ابوبکرؓوعمرؓکے درمیان ہوں گے
اسے ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں روایت کیاہے۔(بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح‘ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام‘ حدیث نمبر 5272)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا :
یَقْتُلُ ابْنُ مَرْیَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدّا
یعنیابن مریم دجال کو باب لد پر قتل کریں گے۔ (مسند ابی دائود طیالسی حدیث 2662)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُھِلَّنَّ ابْنُ مَرْیَمَ مِنْ فَجِّ الرَّوْحَائِ بِالْحَجِّ أوْ بِالْعُمْرَۃِ اَوْ لَیَشْنِیَنَّھُمَا (مسلم: حدیث1252)
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ابن مریم مقام فج الروحاء سے حج یا عمرہ یا دونوں کے لیے ضرور تلبیہ پڑھیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (بخاری ، احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم حدیث3449)
ترجمہ:تمھاری اس وقت کیسی حالت ہوگی جب ابن مریم تم میں نازل ہوںگے اور تمھارا امام تم میںسے ہی ہوگا۔
رسول اﷲصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
یَخْرُجُ اَعْوَرُ الدَّجَّال مَسِیْحُ الضَّلَالَۃِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ فِیْ اَزْمُنِ اخْتِلَافٍ مِنَ النَّاسِ وَ فُرْقَۃٍ فَیَبْلُغُ مَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ یَّـبْلُغَ مِنَ الْاَرْضِ فِیْ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا اَللّٰہُ اَعْلَمُ مِقْدَارِھَا فَیَلْقَی الْمُؤْمِنُوْنَ شِدَّۃً شَدِیْدَۃً ثُمَّ یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَآئِ فَیَؤمُّ النَّاسَ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنْ رَکْعَتِہٖ قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ قَتَلَ اللّٰہُ مَسِیْحَ الدَّجَّالِ وَظَھَرَ الْمُسْلِمُوْنَ)) وَاَحْلِفُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَبَا الْقَاسِمِ الصَّادِقَ الْمَصْدُوْقَ قَالَ: اِنَّہ‘ لَحَقٌّ وَاَمَّا أنَّہ‘ قَرِیْبٌ فَکُلُّ مَا ھُوَ آتٍ فَھُوَ قَرِیْبٌ
ترجمہ: کانا دجال مسیح گمراہی لوگوں کے اختلاف وافتراق کے دور میں مشرق کی طرف سے نکلے گا اور وہ چالیس روز میں جس قدر اﷲ چاہے گا زمین کے حصے کو فتح کرے گا اور اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی مقدار کتنی ہوگی۔ مومنوں کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے (اورپھر لوگوںکو نماز پڑھائیں گے) جب وہ رکوع سے سر اٹھائیں گے تو ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ کہنے کے ساتھ ہی ’’اﷲ تعالیٰ مسیح دجال کو ہلاک کردے گااور مومن غالب آجائیں گے۔کہیں گے راوی کہتے ہیں میں قسم اٹھاتاہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو صادق ومصدوق ہیں نے فرمایا: بے شک یہ حق ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ قریب ہے توہر وہ چیز جو آنے والی ہے تو وہ قریب ہے۔ (صحیح ابن حبان حدیث 6773)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
لَمْ یُسَلَّطْ عَلٰی قَتْلِ الدَّجَّالِ اِلَّا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمُ (مسند ابی داود طیالسي حدیث 2626)
ترجمہ: دجال کے قتل پر صرف عیسیٰ ابن مریم ہی مسلط و مقرر کیے گئے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ جن کو بدعا ء نبوی علم قرآن حاصل تھا اور اس کا اعتراف مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ان الفاظ میں کیا ہے کہ
’’حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں۔ اوراس بارہ میں ان کے حق میں آنحضرت کی ایک دعا بھی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 247 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 225)
یہی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اللہ تعالیٰ کے فرمان :
{وَاِنَّہ‘ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِھَا} (الزخرف 61)
ترجمہ: بے شک وہ (عیسیٰ علیہ السلام ) قیامت کی ایک علامت ہیں۔ پس تم اس کے بارے میں شک نہ کرو۔
کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ
اس علامت سے مراد قیامت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہے۔(صحیح ابن حبان حدیث 6778,6817)
رسول اﷲ کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
عِصَابَتَانِ مِنْ اُمَّتِيْ اَحْرَزَھُمُ اللّٰہُ مِنَ النَّارِ عِصَابَۃٌ تَغْزُوْا الْھِنْدَ وَعِصَابَۃٌ تَکُوْنُ مَعَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامِ
ترجمہ: میری امت کی دو جماعتیں ہیں جنھیں اﷲ نے آگ سے بچالیا ہے۔ ایک جماعت وہ ہے جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری جماعت وہ ہے جو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگی ۔ (مسند احمد 278/5)
اوس بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
یَنْزِلُ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ شَرْقِیَّ دِمَشْقَ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث590)
ترجمہ: ۔ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس نازل ہوں گے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک روایت تفسیر معالم میں مرقوم ہے۔ امام ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی سند کوصحیح قراردیاہے روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فَبَعَثَ اللّٰہُ جِبْرَائِیْلَ فَاَدْخَلَہ‘ فِیْ خَوْجَۃٍ فِیْ سَقْفِھَا رَوْزَنَۃٌ فَرَفَعَہ‘ اِلَی السَّمَآئِ مِنْ تِلْکَ الرَّوْزَنَۃَ فَاَلْقَی اللّٰہُ شِبْہَ عِیْسَی عَلَیْہِ السَّلَام فَقَتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ (تفسیر معالم جلد 2 صفحہ 238)
ترجمہ:۔ جب وہ شخص جو مسیح علیہ السلا م کو پکڑنے کے لیے گیا تھا مکان کے اندر پہنچا تو خدا نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیج کر مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا ور اسی بدبخت یہودی کو مسیح کی شکل پر بنا دیا۔ پس یہود نے اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا۔
محترم قارئین ! اتنے بین اور واضح دلائل کے باوجود اگر کوئی حیات مسیح کا انکار کرے تو پھر اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ آیئے اب آخر میں ایک اور حدیث بیان کرکے بحث کو سمیٹیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ایک طویل حدیث بیان میںکرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَنْزِلُ اَخِیْ عِیْسَی ابْن مَرْیَمَ مِنَ السَّمَآئِ عَلٰی جَبَلٍ آفِیْقٍ امَامًا ھَادِیًا وَحَکَمًا عَادِلًا (کنز العمال جلد 7 صفحہ 268)
ترجمہ:تواس وقت میرے بھائی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آسمان سے جبل افیق پر امام و رہنما اور عادل حاکم بن کر نازل ہوں گے۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ یَعْنِیْعِیْسٰی عَلَیْہِ السّلام نَبِیٌّ وَاِنَّہُ نَازِلٌ فَاِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَاعْرِفُوْہُ رَجُلٌمَّرْبُوْعٌ اِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ بَیْنَ مُمَصَّرَتَیْنِ کَاَنَّ رَاسَہُ یَقْطُرُوَاِنْ لَّمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ فَیُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَی الْاِسْلَامِ فَیَدُقَّ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخَنْزِیْرَوَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیُھْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَااِلَّاالْاِسْلَامَ وَیُھْلِکُ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفّٰی فَیُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ (سنن ابو دائود کتاب الملاحم باب خروج الدّجّال حدیث:4324)
((انبیاء علاتی بھائی ہیں۔ ان کا باپ ایک اور مائیں الگ الگ ہیں اور ان کا دین ایک ہی ہے۔ عیسیٰ ابن مریم کا میں زیادہ حق دار اور تعلق دار ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ لہٰذا جب تم انھیں دیکھو توا نھیں پہچان لینا کہ وہ درمیانے قد والے سرخ و سفید رنگ والے اور سیدھے بالوں والے ہیں۔ گویا ان کے بالوں سے پانی ٹپکتا محسوس ہوگا۔اگرچہ وہ گیلے نہیں ہوں گے۔ وہ زردی مائل کپڑوں میں ملبوس ہوں گے۔ وہ صلیب توڑیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے اوراسلام مخالف لوگوں سے قتال کریں گے،حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ ان کے زمانے میں مسیح گمراہ ،دروغ گو دجال کو ہلاک کرے گا۔ ان کے زمانے میں روئے زمین پر امن قائم ہو جائے گا حتیٰ کہ کالا ناگ اونٹوں کے ساتھ ، چیتے گائے کے ساتھ ، بھیڑیے بکریوں کے ساتھ چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے۔ کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اور جس قدر اﷲ تعالیٰ چاہے گا وہ زمین پر رہیں گے۔ پھر وفات پا جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھائیں گے۔
آخری تدوین
: