• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

دعویٰ ہائے مرزا غلام احمد قادیانی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دعویٰ ہائے مرزا غلام احمد قادیانی


حیات مسیح سے انکار اور دعویٰ مثیل مسیح:

مسئلہ حیات مسیح یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ جسد عنصری سمیت اٹھایا جانا ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی بھی پہلے حیات مسیح کا قائل تھا۔چنانچہ مرزاقادیانی ایک جگہ رقم طراز ہے کہ:
’’بلکہ میں بھی تمھاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کر دیا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 111 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ111)
محترم قارئین! بعدازاں مرزا غلام احمد قادیانی نے حیات مسیح کی نفی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی کا وفات مسیح کے عقیدے کے اظہار کے پیچھے جو مقصد پوشیدہ تھا وہ یہ تھا کہ جن احادیث نبویہ میں نزول مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے ان کو اپنے اوپر چسپاں کرلے اور اپنے آپ کو مثیل مسیح قرار دے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے ’’فتح اسلام‘‘ نامی رسالہ تالیف کرکے 1891ء میںشائع کیا اوراس میں اپنے آپ کو مثیل مسیح قرار دیتے ہوئے لکھا:
’’حضرت مسیح ابن مریم بھی درحقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والا تھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد پیدا ہوا۔ اس زمانہ میں جب یہودیوں کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہو گئی تھی اور وہ بوجہ کمزوری ایمان کے ان تمام خرابیوں میں پھنس گئے تھے جو درحقیقت بے ایمانی کی شاخیں ہیں۔ پس جب کہ اس امت کو بھی اپنے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی بعثت کے عہد پر چودہ سو برس کے قریب مدت گزری تووہی آفات ان میں بھی بکثرت پیدا ہو گئیں جو یہودیوں میں پیدا ہوئی تھیں تاوہ پیشگوئی پوری ہو جو ان کے حق میں کی گئی تھی۔ پس خدا تعالیٰ نے ان کے لیے بھی ایک ایمان کی تعلیم دینے والا مثیل مسیح اپنی قدرت کاملہ سے بھیج دیا مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے ۔ چاہو تو قبول کرو۔۔۔۔ حضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اوراسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تاکہ صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میںصلیب کو توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ میں آسمان سے اترا ہوں ۔ ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لیے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا، بلکہ کر رہا ہے۔ اور اگر میں چپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لیے دیے گئے ہیں۔‘‘ (فتح اسلام حاشیہ صفحہ 15تا17مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 11,10)
محترم قارئین! جب مرزا غلام احمد قادیانی کے مثیل مسیح ہونے کے دعویٰ پر اعتراض کیا گیا کہ مسیح تو نبی تھے کیا مرزا غلام احمد قادیانی بھی نبی ہے تو مرزا غلام احمد قادیانی نے ان اعتراضات کے جواب دینے کے لیے ایک اور رسالہ لکھ دیا جس کا نام ’’توضیح المرام‘‘ رکھااوراس میں مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہیے کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح کے لیے ہمارے سید و مولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہی لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہوگا اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہوگا۔ اوراس سے زیادہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرے گاکہ میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا امام ہوں‘‘ (توضیح المرام صفحہ 19 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 59)
مزید وضاحت کرتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی ایک جگہ رقم طراز ہے کہ
’’یہ بات سچ ہے کہ اﷲ جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے ۔ سو میں اسی الہام کی بنا پر اپنے تئیں جو موعود مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں مجھے اس بات سے انکار بھی نہیں کہ میرے سوا کوئی اور مثیل مسیح بھی آنے والا ہو۔ بلکہ ایک آنے والا تو خود میرے پر بھی ظاہر کیا گیا ہے، جو میری ذریت میں سے ہوگا۔ لیکن اس جگہ میرا دعویٰ جو بذریعہ الہام مجھے یقینی طور پر سمجھایا گیا ہے صرف اتنا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث میں میرے آنے کی خبر دی گئی ہے ۔ میں اس سے ہرگز انکار نہیں کر سکتا اور نہ کروں گا کہ شاید مسیح موعود کوئی اور بھی ہو اور شاید یہ پیش گویاں جو میرے حق میں ہیںروحانی طور پرظاہری طور پر اسی پر جمتی ہوں اور شاید سچ مچ دمشق میں کوئی مثیل مسیح نازل ہو۔ لیکن میرے پر یہ کھول دیا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم جن پر انجیل نازل ہوئی تھی فوت ہو چکا ہے‘‘ (خط مرزا صاحب بنام عبدالجبار صاحب 11فروری 1891مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلداوّل 176-173 طبع چہارم )
ایک اور جگہ مرزا غلام احمد قادیانی تمام مسلمانوں کے نام ایک اشہتار میں رقم طراز ہے کہ
’’مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے۔ جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے اس طرح میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے اشد درجہ کی مناسبت رکھتی ہے۔‘‘
(ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجہ جمیع مسلمانان انصاف شعار و حضرات علمائے نامدار مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 215طبع چہارم)
ایک اور مقام پر اپنے دعوے کی وضاحت کرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’اس عاجز کی طرف سے بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مسیحیت کا میرے وجود پر ہی خاتمہ ہے اور آئندہ کوئی مسیح نہیں آئے گا بلکہ میں تو مانتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزار سے بھی زیادہ مسیح آ سکتا ہے اور ممکن ہے ظاہری جلال و اقبا ل کے ساتھ بھی آئے اور ممکن ہے اوّل وہ دمشق میں ہی نازل ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 296مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 251)
’’ میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار مثیل مسیح آجائیں ۔ ہاں اس زمانے کے لیے میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے۔۔۔ پس اس بیان کی رو سے ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آ سکیں۔ کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا۔ درویشی اور غربت کے لباس میںآیا ہے اور جب کہ یہ حال ہے تو علماء کے لیے اشکال ہی کیا ہے۔ ممکن ہے کسی وقت ان کی یہ مراد بھی پوری ہو جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 199مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 197)
’’بالآخر ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہمارے بعد کوئی اور بھی مسیح کا مثیل بن کر آئے۔ کیونکہ نبیوں کے مثیل ہمیشہ دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیش گوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ذریت سے ایک شخص پیداہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی ۔ وہ آسمان سے اترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا۔ وہ اسیروں کو رست گاری بخشے گا اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہا ئی دے گا۔‘‘
(فرزند دل بند گرامی وارجمند مظہر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء)
(ازالہ اوہام صفحہ 156,155 مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ 180,179)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی کی تمام تحریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح ابن مریم یعنی عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ خود مثیل مسیح ہے اور اس کے بعد بھی کئی مثیل مسیح آ سکتے ہیں۔ بلکہ اس کی ذریت سے بھی ایک مثیل مسیح ضرور آئے گا۔ مرزا قادیانی کے ان دعووں کی بنیاد عقیدہ وفات مسیح پرہی ہے۔ آئیے ذرا اس عقیدہ(حیات مسیح) کے بارے میں قرآن و حدیث سے رہنمائی لیں:
مسئلہ حیات مسیح قرآن و حدیث کی روشنی میں:
محترم قارئین ! سب سے پہلی بات کہ اگر مرزا قادیانی کے اس دعویٰ کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیںتب بھی یہ سوال پید اہوتا ہے کہ کیا اﷲ تعالیٰ فوت شدہ کو زندہ کرنے پر قادر نہیں؟ یقینا اﷲ رب العزت فوت شدہ کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ اسے قادیانی بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اسی قدرت کومدنظررکھتے ہوئے نبی کریم علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فرمان پر غورکریںچنانچہ فرمان نبوی ہے کہ
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ أنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلَ الْخَنْزِیْرَ وَیَضَعَ الْجِذْیَۃَ وَیَفِیْضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ اَحَدٌ حَتّٰی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا ثُمَّ یَقُوْلُ اَبُوْھُرَیْرَۃَ وَاقْرَؤُوْا إنْ شِئْتُمْ :
{وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا}

ترجمہ: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ قریب ہے کہ ابن مریم تم میں تشریف لائیں۔ وہ حاکم اور عادل کی حیثیت سے آئیں گے ۔ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کر دیں گے ۔ مال ودولت کی فراوانی ہوگی حتی کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیااور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہوگا۔‘‘
پھر ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ اگر تم چاہو تواس آیت کی تلاوت کرو۔ ’’ اور اہل کتاب میں سے سب کے سب اس (مسیح علیہ السلام ) پر اس کی موت سے پہلے ضرور ایمان لائیں گے اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہی دیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم حدیث3448)
یعنی نبی کریم علیہ السلام نے قسم اٹھا کر فرمایا کہ ابن مریم علیہ السلام قیامت سے قبل ضرور نازل ہوں گے۔ تو کیا اﷲ رب العزت اپنے نبی اور سب سے زیادہ محبوب شخصیت جناب محمدرسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی قسم کو پورا کرنے کے لیے عیسیٰ ابن مریم کو دوبارہ زندہ نہیںکرسکتے ،یقینا کر سکتے ہیں۔ تو پھر بھی مرزا غلام احمد قادیانی مثیل مسیح یا مسیح موعود ثابت نہیں ہوتا۔
آئیے سب سے پہلے اس آیت کا جائزہ لیتے ہیں جس سے تمام مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا ثابت کرتے ہیں اور اسی آیت سے مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کی ذریت وفات مسیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔
{اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّـبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکَ فَاحْکُمْ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ }(آل عمران :55)
ترجمہ: اور جب اﷲ تعالیٰ نے کہا: اے عیسیٰ ! میں آپ کو پوری طرح لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جن لوگوں نے انکار کیا ہے میں ان سے آپ کو پاک کرنے والا ہوں۔ اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنھوں نے تجھ سے کفر کیا۔ پھر تم سب کومیری طرف ہی لوٹنا ہے۔تمھارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔
یہاں پر یہ بات یاد رہے کہ ’’المتوفی‘‘ کا مصدر تَوَفِّیْ اور مادہ وَفْیٌّ ہے، جس کے اصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اسی لیے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لیے جاتے ہیں ۔ اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پرمعطل کر دیے جاتے ہیں۔ اسی لیے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصلی معنی پورا پور لینے کے ہی ہیں۔ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ میں یہ اس اپنے حقیقی اور اصلی معنوںمیں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اے عیسیٰ ! میں تجھے یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لو ں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔(تفسیر احسن البیان)
محترم قارئین! اس آیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بارے میں یہود ونصاریٰ کے عقیدے کا بھی علم ہو کیونکہ متنبی قادیانی مرزا غلام احمد بھی وفات مسیح کے متعلق دلیل دیتے ہوئے یہ اصول بیان کرتاہے کہ
’’بائیسویں آیت وفات مسیح پر یہ ہے کہ{فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ}یعنی اگرتمھیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کے واقعات پر نظر ڈالو تاکہ اصل حقیقت تم پر منکشف ہو جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اوّل صفحہ 616 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 433)
محترم قارئین ! نزول قرآن کے وقت مسیح علیہ السلام کے متعلق دو قسم کے خیالات تھے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’اوریہودیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ خیال تھا کہ وہ قتل ہو گئے ہیں اور صلیب بھی دیے گئے ، بعض کہتے ہیں کہ پہلے قتل کرکے پھر صلیب پر لٹکائے گئے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ پہلے صلیب دے کر پھر ان کو قتل کیا گیا۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ136مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ345)
عیسائیوں کا جو خیال تھا بالفاظ مرزا متبنی قادیاں یہ ہے کہ
’’ عیسائیوں کا یہ بیان کہ درحقیقت مسیح پھانسی کی موت سے مر گیا جس سے یہ نتیجہ نکالنا منظور تھا کہ مسیح عیسائیوں کے گناہ کے لیے کفارہ ہوا۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 373 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 292)
مرزا قادیانی یہ بھی مانتاہے کہ اس خیال باطل پر نصاریٰ کے تمام فرقے متفق تھے اس بات کا اظہارکرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطراز ہے
’’ کیونکہ تمام فرقے نصاریٰ کے اس قول پر متفق نظر آتے ہیں کہ تین دن تک حضرت عیسیٰ مرے رہے اور پھر قبر میں سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 248 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 225)
قادیانی گروہ قرآن وحدیث کے خلاف عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت پر اصرار ، صلیب پر چڑھنے کا اقرار اور رفع الی السماء کا انکار کرتاہے ۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتاہے کہ
’’رفع سے مراد روح کا عزت کے ساتھ اٹھایا جانا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 386 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 299)
اور صلیب پر چڑھنے کا واقعہ مرزا قادیانی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’پھر بعداس کے مسیح ان کے حوالہ کیا گیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب نے دیکھا ۔ آخر صلیب دینے کے لیے تیار ہوئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور عصر کا وقت اور اتفاقاً یہ یہودیوں کی عید فسخ کا بھی دن تھا۔ اس لیے فرصت بہت کم تھی اور آگے سبت کا دن آنے والا تھا۔ جس کی ابتدا غروب آفتاب سے ہی سمجھی جاتی تھی کیونکہ یہودی لوگ مسلمانوں کی طرح پہلی رات کو اگلے دن کے ساتھ شامل کر لیتے تھے اور یہ ایک شرعی تاکید تھی کہ سبت میں کوئی لاش صلیب پر لٹکی نہ رہے۔ تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا تا شام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 32 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 296)
مگر قرآن مجید نے اس عقیدہ کو لعنتی ٹھہرایا ہے اور مسیح علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا ظاہر کیا ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر55 سے پہلی آیت میں اﷲ رب العزت فرماتے ہیں کہ
وَمَکَرُوْا وَمَکْرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ
(اور انھوں (یہودیوں)نے(عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ) تدبیر کی اور اﷲ نے بھی تدبیر کی جب کہ اﷲ تعالیٰ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
اگر اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ رب العزت فرماتے ہیں:سے مراد موت لی جائے جیسے مرزائی لیتے ہیں تو پھر یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ یہودیوں کی تدبیر کامیاب رہی کیونکہ وہ بہرحال عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن اﷲ رب العزت نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل سے بچا کر زندہ آسمانوں پر اٹھالیا جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ النساء کی آیت 158میں موجودہے۔ چنانچہ اﷲرب العزت فرماتا ہے کہ
{وَقَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰــکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَاقَتَلُوْہُ یَقِیْنًا O بَل رَّفَعَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا}
ترجمہ:او ریوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اﷲ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ توانھوں نے اسے قتل کیا ، نہ صلیب دیا بلکہ ان کے لیے وہی صورت بنا دی گئی تھی۔ یقین جانو کہ عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں،انھیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے ۔ اتنا یقینی ہے کہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیابلکہ اﷲ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اور اﷲ بڑا زبردست ، بڑی حکمت والا ہے۔
ان آیات کا مضمون بڑا واضح ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو نہ سولی دی گئی اور نہ وہ قتل کیے گئے۔ بلکہ اﷲ رب العزت نے انھیں اپنی طرف اٹھالیا۔ یہاں پر مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کی ذریت رفع سے مراد درجات کی بلندی لیتی ہے۔ اگر ان کی بات کو تسلیم کر لیا جائے توآیت کے آخری حصے میں اﷲرب العزت کا یہ فرمانا کہ اﷲ بڑا ہی زبردست ، بڑی حکمت والا ہے ،کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔ جب کہ یہی بات واضح کرتی ہے کہ اﷲ رب العزت نے عیسیٰ علیہ السلام کو کسی ایسے طریقے سے اوپر اٹھایا ہے جو خارق عادت ہے ۔ مزید یہ کہ شہادت میں تو درجات کی بلندی اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر یہود ونصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کر دیتے تو کیا درجات کی بلندی نہ ہوتی۔ دوسری بات یہ کہ اﷲ رب العزت نے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا کر عیسائیوں کے عقیدہ کفارہ کو مکمل طو رپر نیست و نابود کر دیا ہے، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جان دے کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا، جو کہ بالکل غلط ہے اور اﷲ رب العزت نے اس بات سے ان کے اس عقیدے کی مکمل طور پر نفی فرما دی ہے۔ اگر سورہ آل عمران کی آیت نمبر55میں اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کا معنی فوت لیا جائے تو پھراس کو ترجمہ کرتے ہوئے بعد میں پڑھیں گے اور رَافِعُکَ پہلے پڑھیں گے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے کئی ایک مقامات پر اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کو ترجمہ کے دوران بعد میں پڑھنے پر اعتراض کیا ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ واؤ کا لفظ ترتیب کے لیے نہیں ہوتا۔ اگراس کی مثال قرآن مجید سے چاہیں تو سنیے ۔ ایک مال دار شخص کا سال یکم رمضان کو ظہر کے وقت پورا ہوا ۔ اب بحکم آیت وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاَتُوا الزَّکٰوۃَ (مرزائی اصول کے مطابق)مسلمان پر فرض ہے کہ پہلے نماز پڑھے اور پھر زکوٰۃ دے۔اگر پہلے زکوٰۃ ادا کردی تو شاید گناہگار ہو جائے گا اور اس کی زکوٰۃ بھی ادانہ ہوگی۔ کیا کوئی بھی انسان اس مسئلہ میں قادیانیوں کے ساتھ ہوگا۔دوسری آیت وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَکے بموجب(قادیانی اصول کے مطابق) ضروری ہے کہ پہلے نماز پڑھے اور اس کے بعد شرک چھوڑے۔ اگر پہلے شرک چھوڑ دے گا تو شاید قادیانی اس سے خفا ہوں گے۔ تیسری آیت میں اﷲ تعالیٰ نے فرعون کے جادوگروں کے قول کو ایک جگہ یوں فرمایا کہ بِرَبِّ مُوْسٰی وَہَارُوْنَ (پارہ 9رکوع 4) دوسری جگہ فرمایا بِرَبِّ ہَارُوْنَ وَمُوْسٰی (پارہ 9رکوع 4) جو پہلے کے الٹ ہے حالانکہ جادوگروں نے صرف ایک ہی طریق سے کہا ہوگا ۔ اگر یہاں پر قادیانی اصول کے مطابق واؤ کا لفظ ترتیب کے لیے مان لیا جائے تو پھر مندرجہ بالا آیات میں اگر جادوگروں کاکہنا طریق اول ہوگا تو دوسرے میں کذب آئے گا۔
اگر دوسرا ہے تو پہلے میں جھوٹ ہوگا ۔ علاوہ اس کے کئی مقام پر انبیاء سابقین کا لاحقین سے پیچھے ذکر کیا ہے ۔ چنانچہ کَذٰلِکَ یُوْحِی اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ اللّٰہُ پس جب واؤ کا لفظ ترتیب کے لیے نہیں ہوتا بلکہ محض جمعیت کے لیے ہے تو متوفی کے معنی رافع سے پیچھے کر لینے میں کونسی قباحت ہے۔
محترم قارئین! قرآن مجید میں مزید بھی ایسے دلائل موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھالیا گیا ہے۔ لیکن طوالت کے باعث ان ہی پراکتفا کیا جاتا ہے۔اب چند احادیث نبوی نزول مسیح علیہ السلام کے بارے میں ذکرکرکے اس بحث کو سمیٹتا ہوں۔
حضرت ابوہریرہرضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
یَمْکُثُ عِیْسٰی فِی الْاَرْضِ بَعْدَ مَا یَنْزِلُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ وَیُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ وَیَدْفِنُوْنَہ‘ (مسند ابی داود طیالسی حدیث 2664)
ترجمہ: عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد چالیس سال زمین پر رہیں گے پھر آپ فوت ہوجائیں گے ۔ مسلمان آپ کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور دفن کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا!
(( یَنْزِ لُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اِلیَ الْاَرْضِ فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہُ وَیَمْکُثُ خَمْسًاوَاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ فَیُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِی فَاَقُوْمُ اَنَاوَعِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ فِیْ قَبْرٍوَاحِدٍبَیْنَ اَبِیْ بَکَرٍوَعُمَرَ))
(رَوَاہُ اِبْن الْجَوْزِیْ فِیْ کِتَابُ الْوَفَاء)

یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام زمین کی طرف اتریںگے ‘وہ شادی کریں گے‘ان کی اولادہوگی‘اور پنتالیس سال تک زندہ رہیں گے پھرفوت ہوں گے اورمیرے ساتھ میرے مقبرے میںدفن کیے جائیں گے پھر میں(محمدرسول اللہﷺ)اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی مقبرہ سے قیامت کو اٹھیں گے جبکہ ابوبکرؓوعمرؓکے درمیان ہوں گے
اسے ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں روایت کیاہے۔(بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح‘ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام‘ حدیث نمبر 5272)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا :
یَقْتُلُ ابْنُ مَرْیَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدّا
یعنیابن مریم دجال کو باب لد پر قتل کریں گے۔ (مسند ابی دائود طیالسی حدیث 2662)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُھِلَّنَّ ابْنُ مَرْیَمَ مِنْ فَجِّ الرَّوْحَائِ بِالْحَجِّ أوْ بِالْعُمْرَۃِ اَوْ لَیَشْنِیَنَّھُمَا (مسلم: حدیث1252)
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ابن مریم مقام فج الروحاء سے حج یا عمرہ یا دونوں کے لیے ضرور تلبیہ پڑھیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (بخاری ، احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم حدیث3449)
ترجمہ:تمھاری اس وقت کیسی حالت ہوگی جب ابن مریم تم میں نازل ہوںگے اور تمھارا امام تم میںسے ہی ہوگا۔
رسول اﷲصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
یَخْرُجُ اَعْوَرُ الدَّجَّال مَسِیْحُ الضَّلَالَۃِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ فِیْ اَزْمُنِ اخْتِلَافٍ مِنَ النَّاسِ وَ فُرْقَۃٍ فَیَبْلُغُ مَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ یَّـبْلُغَ مِنَ الْاَرْضِ فِیْ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا اَللّٰہُ اَعْلَمُ مِقْدَارِھَا فَیَلْقَی الْمُؤْمِنُوْنَ شِدَّۃً شَدِیْدَۃً ثُمَّ یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَآئِ فَیَؤمُّ النَّاسَ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنْ رَکْعَتِہٖ قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ قَتَلَ اللّٰہُ مَسِیْحَ الدَّجَّالِ وَظَھَرَ الْمُسْلِمُوْنَ)) وَاَحْلِفُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَبَا الْقَاسِمِ الصَّادِقَ الْمَصْدُوْقَ قَالَ: اِنَّہ‘ لَحَقٌّ وَاَمَّا أنَّہ‘ قَرِیْبٌ فَکُلُّ مَا ھُوَ آتٍ فَھُوَ قَرِیْبٌ
ترجمہ: کانا دجال مسیح گمراہی لوگوں کے اختلاف وافتراق کے دور میں مشرق کی طرف سے نکلے گا اور وہ چالیس روز میں جس قدر اﷲ چاہے گا زمین کے حصے کو فتح کرے گا اور اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی مقدار کتنی ہوگی۔ مومنوں کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے (اورپھر لوگوںکو نماز پڑھائیں گے) جب وہ رکوع سے سر اٹھائیں گے تو ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ کہنے کے ساتھ ہی ’’اﷲ تعالیٰ مسیح دجال کو ہلاک کردے گااور مومن غالب آجائیں گے۔کہیں گے راوی کہتے ہیں میں قسم اٹھاتاہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو صادق ومصدوق ہیں نے فرمایا: بے شک یہ حق ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ قریب ہے توہر وہ چیز جو آنے والی ہے تو وہ قریب ہے۔ (صحیح ابن حبان حدیث 6773)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
لَمْ یُسَلَّطْ عَلٰی قَتْلِ الدَّجَّالِ اِلَّا عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمُ (مسند ابی داود طیالسي حدیث 2626)
ترجمہ: دجال کے قتل پر صرف عیسیٰ ابن مریم ہی مسلط و مقرر کیے گئے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ جن کو بدعا ء نبوی علم قرآن حاصل تھا اور اس کا اعتراف مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ان الفاظ میں کیا ہے کہ
’’حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں۔ اوراس بارہ میں ان کے حق میں آنحضرت کی ایک دعا بھی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 247 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 225)
یہی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اللہ تعالیٰ کے فرمان :
{وَاِنَّہ‘ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِھَا} (الزخرف 61)
ترجمہ: بے شک وہ (عیسیٰ علیہ السلام ) قیامت کی ایک علامت ہیں۔ پس تم اس کے بارے میں شک نہ کرو۔
کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ
اس علامت سے مراد قیامت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہے۔(صحیح ابن حبان حدیث 6778,6817)
رسول اﷲ کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
عِصَابَتَانِ مِنْ اُمَّتِيْ اَحْرَزَھُمُ اللّٰہُ مِنَ النَّارِ عِصَابَۃٌ تَغْزُوْا الْھِنْدَ وَعِصَابَۃٌ تَکُوْنُ مَعَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامِ
ترجمہ: میری امت کی دو جماعتیں ہیں جنھیں اﷲ نے آگ سے بچالیا ہے۔ ایک جماعت وہ ہے جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری جماعت وہ ہے جو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگی ۔ (مسند احمد 278/5)
اوس بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
یَنْزِلُ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ شَرْقِیَّ دِمَشْقَ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث590)
ترجمہ: ۔ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس نازل ہوں گے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک روایت تفسیر معالم میں مرقوم ہے۔ امام ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی سند کوصحیح قراردیاہے روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فَبَعَثَ اللّٰہُ جِبْرَائِیْلَ فَاَدْخَلَہ‘ فِیْ خَوْجَۃٍ فِیْ سَقْفِھَا رَوْزَنَۃٌ فَرَفَعَہ‘ اِلَی السَّمَآئِ مِنْ تِلْکَ الرَّوْزَنَۃَ فَاَلْقَی اللّٰہُ شِبْہَ عِیْسَی عَلَیْہِ السَّلَام فَقَتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ (تفسیر معالم جلد 2 صفحہ 238)
ترجمہ:۔ جب وہ شخص جو مسیح علیہ السلا م کو پکڑنے کے لیے گیا تھا مکان کے اندر پہنچا تو خدا نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیج کر مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا ور اسی بدبخت یہودی کو مسیح کی شکل پر بنا دیا۔ پس یہود نے اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا۔
محترم قارئین ! اتنے بین اور واضح دلائل کے باوجود اگر کوئی حیات مسیح کا انکار کرے تو پھر اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ آیئے اب آخر میں ایک اور حدیث بیان کرکے بحث کو سمیٹیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ایک طویل حدیث بیان میںکرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَنْزِلُ اَخِیْ عِیْسَی ابْن مَرْیَمَ مِنَ السَّمَآئِ عَلٰی جَبَلٍ آفِیْقٍ امَامًا ھَادِیًا وَحَکَمًا عَادِلًا (کنز العمال جلد 7 صفحہ 268)
ترجمہ:تواس وقت میرے بھائی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آسمان سے جبل افیق پر امام و رہنما اور عادل حاکم بن کر نازل ہوں گے۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ یَعْنِیْعِیْسٰی عَلَیْہِ السّلام نَبِیٌّ وَاِنَّہُ نَازِلٌ فَاِذَا رَأَیْتُمُوْہُ فَاعْرِفُوْہُ رَجُلٌمَّرْبُوْعٌ اِلَی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ بَیْنَ مُمَصَّرَتَیْنِ کَاَنَّ رَاسَہُ یَقْطُرُوَاِنْ لَّمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ فَیُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَی الْاِسْلَامِ فَیَدُقَّ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخَنْزِیْرَوَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیُھْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَااِلَّاالْاِسْلَامَ وَیُھْلِکُ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفّٰی فَیُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ (سنن ابو دائود کتاب الملاحم باب خروج الدّجّال حدیث:4324)
((انبیاء علاتی بھائی ہیں۔ ان کا باپ ایک اور مائیں الگ الگ ہیں اور ان کا دین ایک ہی ہے۔ عیسیٰ ابن مریم کا میں زیادہ حق دار اور تعلق دار ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ لہٰذا جب تم انھیں دیکھو توا نھیں پہچان لینا کہ وہ درمیانے قد والے سرخ و سفید رنگ والے اور سیدھے بالوں والے ہیں۔ گویا ان کے بالوں سے پانی ٹپکتا محسوس ہوگا۔اگرچہ وہ گیلے نہیں ہوں گے۔ وہ زردی مائل کپڑوں میں ملبوس ہوں گے۔ وہ صلیب توڑیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے اوراسلام مخالف لوگوں سے قتال کریں گے،حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ ان کے زمانے میں مسیح گمراہ ،دروغ گو دجال کو ہلاک کرے گا۔ ان کے زمانے میں روئے زمین پر امن قائم ہو جائے گا حتیٰ کہ کالا ناگ اونٹوں کے ساتھ ، چیتے گائے کے ساتھ ، بھیڑیے بکریوں کے ساتھ چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے۔ کوئی کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اور جس قدر اﷲ تعالیٰ چاہے گا وہ زمین پر رہیں گے۔ پھر وفات پا جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھائیں گے۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
محترم قارئین!مرزاقادیانی اور اس کی ذریت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پراٹھائے جانے کے عقیدہ کو شرک قرار دیتی ہے لیکن اس کے برعکس مرزاقادیانی موسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ موجود ہونے کاقائل تھا۔چنانچہ مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’یہ وہی موسیٰ مردخداہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اورہم پرفرض ہوگیاکہ ہم اس بات پرایمان لاویں کہ وہ زندہ آسمان میںموجودہے اورمردوںمیں سے نہیں۔‘‘ (نورالحق حصہ اول صفحہ50مندرجہ روحانی خزائن جلد8صفحہ68‘69)
مزیدایک مقام پرمرزاقادیانی اپنے اسی عقیدے کو بیان کرتے ہوئے رقمطرازہے کہ
’’اعیسیٰ حی ومات المصطفی؟تلک اذاقسمۃ ضیزی!اعدلواھو اقرب للتقوی۔واذاثبت ان الانبیاء کلھم احیاء فی السموات‘فای خصوصیۃ ثابتۃ لحیاۃ المسیح‘اھویاکل ویشرب وھم لایاکلون ولایشربون؟بل حیاۃ کلیم اللہ ثابت بنص القرآن الکریم‘الاتقرء فی القرآن ماقال اللہ تعالیٰ وعزوجل: فلا تکن فی مریۃ من لقائہ ؟انت تعلم ان ھذہ الآیۃنزلت فی موسٰی فھی دلیل صریح علیٰ حیاۃ موسیٰ علیہ السلام ۔‘لانہ لقی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والاموات لا یلاقون الاحیاء‘ولاتجدمثل ھذہ الآیات فی شان عیسٰی علیہ السلام ‘ نعم جاء ذکروفاتہ فی مقامات شتّٰی فتدبر فان اللّٰہ یحب المتدبرین۔‘‘ (حمامۃ البشریٰ ص35مندرجہ روحانی خزائن جلد7ص 221‘222)
یعنی کیاعیسیٰ ؑزندہ ہیں اورمصطفیٰﷺ فوت ہوگئے یہ تو بھونڈی تقسیم ہے۔انصاف کرووہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور جب یہ ثابت ہوگیاکہ تمام انبیاء آسمان میں زندہ ہیں توپھرحیات مسیح کی کونسی خصوصیت ثابت ہوتی ہے۔کیاوہ وہاں کھاتاپیتاہے اوردوسرے انبیاء کھاتے پیتے نہیں بلکہ حضرت موسٰی علیہ السلام کازندہ ہوناقرآن کریم سے ثابت ہے ۔ کیاتوقرآن کریم میں نہیں پڑھتاکہ اﷲ نے فرمایا:فلاتکن فی مریتہ من لقائہ(تواس ملاقات کے بارے میں شک نہ کر)اورتوجانتاہے کہ یہ آیت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اتری ہے اورآپ کی زندگی پرصریح دلیل ہے کیونکہ انھوں نے رسول اﷲﷺ سے ملاقات کی اورمردے زندوں سے نہیں ملتے۔اورتواس جیسی آیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں نہیں پائے گا۔ہاں ان کی وفات کا ذکرمختلف مقامات پرآیاہے۔پس توتدبرکرکیونکہ اﷲتدبرکرنے والوں کوپسندکرتاہے۔
نوٹ:۔مندرجہ بالا ترجمہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہورکی طرف سے شائع ہونے والی مترجم کتاب حمامۃ البشریٰ سے لیاگیاہے۔کتاب میں اردو ترجمہ کے ساتھ ساتھ عربی متن بھی دیاگیاہے۔
محترم قارئین!آپ قادیانیوں سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کریں گے تو ان کی تان مسئلہ حیات مسیح پر ہی ٹوٹے گی جبکہ اس کے برعکس مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’اوّل تویہ جانناچاہیے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہماری ایمانیات کی کوئی جزویاہمارے دین کے رکنوںمیں سے کوئی رکن ہوبلکہ صدہاپیشگوئیوںمیں سے یہ ایک پیشگوئی ہے۔جس کوحقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں جس زمانہ تک یہ پیشگوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھااورجب بیان کی گئی تواس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ140مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ171)
’’اورمسیح موعودکے ظہور سے پہلے اگرامت میں سے کسی نے یہ خیال بھی کیاکہ حضرت عیسیٰ( علیہ السلام)دوبارہ دنیامیں آئیں گے توان پرکوئی گناہ نہیں صرف اجتہادی خطاہے جواسرائیلی نبیوں سے بھی بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے میں ہوتی رہی ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی صفحہ30مندرجہ روحانی خزائن جلد22صفحہ32)
’’ہماری یہ غرض نہیں کہ مسیح علیہ السلام کی وفات حیات پرجھگڑے اورمباحثہ کرتے پھرو یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ جلد1صفحہ352طبع چہارم)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دعویٰ مجددیت:
مرزا غلام احمد قادیانی اپنے مجدد ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ:
’’ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لا الہ الا اﷲ محمدرسول اﷲ کے قائل ہیں اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ وحی ولایت جو زیر سایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم اولیاء اﷲ کو ملتی ہے اس کے ہم قائل ہیں۔۔۔۔۔۔۔غرض جب کہ نبوت کا دعویٰ اس طرف بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے۔ (اشتہار مرزا قادیانی مورخہ 20شعبان 1314ھ مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 2 طبع چہارم)
دعویٰ محدثیت:
محترم قارئین ! دعویٰ مجددیت کے بعد مرزا قادیانی محدث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ:
’’ہمارے سید رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے کوئی نبی نہیں آ سکتا، اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔‘‘ (شہادت القرآن صفحہ 28 مندرجہ روحانی خزائن جلد6 صفحہ 224-223)
’’لست بنبی ولکن محدث اللہ وکلیم اللہ لا جدد دین المصطفی ۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 383 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 383)
’’ نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 422 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ320)
بقول مرزاقادیانی اللہ تعالیٰ نے اسے الہام کیا کہ
’’ انت محدث اللہ‘‘یعنی تومحدث اللہ ہے۔(بحوالہ تذکرہ صفحہ82طبع چہارم)
مذیدمرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’اس (محدثیت) کو اگر مجازی نبوت قرار دیا جاوے یا ایک شعبہ قویہ نبوت کا ٹھہرایا جائے توکیا اس سے نبوت کا دعویٰ لازم آگیا ۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ422 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 321)
محترم قارئین!محدث کی تعریف کرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطراز ہے کہ
’’محدث جو مرسلین میں سے ہے امتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی امتی وہ اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نبیوں کا سا معاملہ اس سے کرتا ہے اور محدث کا وجود انبیاء اور امم میں بطور برزخ کے اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔وہ اگرچہ کامل طور پرامتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے۔ اور محدث کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہواور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 569 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 407)
محترم قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب حمامۃ البشری میںسیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کو ملہم اور محدث قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’کما زعمہ عمرالذی یجری الحق علی لسانہ و لہ شان عظیم فی الرای الصائب ولرأیہ موافقۃ باحکام القرآن فی مواضع ومع ذلک ھو ملھم ومن المحدثین؟‘‘ (حمامۃ البشریٰ صفحہ 81 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 246)
ترجمہ:جیسا کہ خیال کیا حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے جس کی زبان پر حق جاری ہوتا ہے اور جو صائب الرائے ہونے میں عظیم الشان اور جن کی رائے کئی مقام پراحکام قرآن کے موافق ہوئی اوراس کے ساتھ وہ ملہم اور محدثین سے ہے۔‘‘
یعنی عمر رضی اﷲ عنہ کو یہاں نہ صرف محدث قرار دیا گیا ہے بلکہ ملہم (جس پر الہام الٰہی ہو) بھی قرار دیا ہے۔ جب کہ اوپر دی گئی ازالہ اوہام کی عبارت میں مرزا غلام احمد قادیانی محدث کے لیے کسی نہ کسی نبی کا مثیل ہونا اوراس نبی کا نام پانا لازمی شرط قرار دیتا ہے۔کیا قادیانی ذریت یہ بتانا پسند کرے گی کہ حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے کس نبی کے مثیل ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور کس نبی کانام پایاتھاکب انھوں نے ملہم ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟
محترم قارئین ! آئیے مرزا قادیانی کے دعویٰ محدثیت کے متعلق اس کی ایک اور تحریرملاحظہ فرمائیں:
’’ماسوائے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لیے محدث ہو کر آیا ہے اور محدث بھی ایک معنی سے نبی ہوتا ہے ۔ گواس کے لیے نبوت تامہ نہیں مگر تاہم جزئی طور پر وہ ایک نبی ہی ہے۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتا ہے اور امور غیبیہ اس پر ظاہر کیے جاتے ہیں اور رسولوں اور نبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخل شیطان سے منزہ کیا جاتا ہے اور مغز شریعت اس پر کھولا جاتا ہے اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہو کر آتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیںبآواز بلند ظاہر کرے اوراس سے انکارکرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹھہرتا ہے اور نبوت کے معنی بہ جز اس کے اور کچھ نہیں اور امور متذکرہ بالا اس میں پائے جاتے ہیں۔‘‘ (توضیح المرام صفحہ 18 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 60)
مسیح موعود یعنی عیسیٰ بن مریم ہونے کا دعویٰ:
محترم قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ مسیح موعود یعنی عیسیٰ بن مریم ہونے کے بارے میں مرزا کی اس تحریر کو غور سے پڑھیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کس طرح اس نے اپنی ہی بات کا رد کرتے ہوئے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
’’مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے توفقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے ایسے ہی میری روحانیت حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے اشد درجہ مناسبت رکھتی ہے۔‘‘ (ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجہ جمیع مسلمانان انصاف شعارو ائے نامدار مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 215 طبع چہارم )
اب مرزا غلام احمد قادیانی کے مسیح موعود یعنی عیسیٰ ابن مریم ہونے کا دعویٰ اس کی زبان میں ملاحظہ ہو ۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابوں میں پیش گوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانے میں ظاہر ہوگا۔‘‘(تحفہ گولڑویہ صفحہ 195 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 295)
’’اور یہی عیسیٰ ہے جس کی انتظار تھی اور الہامی عبارتوں میں مریم اور عیسیٰ سے میں ہی مراد ہوں ۔ میری نسبت ہی کہا گیا ہے کہ ہم اس کو نشان بنا دیں گے۔ اور نیز کہا گیا ہے کہ یہ وہی عیسیٰ بن مریم ہے جو آنے والا تھا۔ جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔ یہی حق ہے اور آنے والا یہی ہے اور شک محض نافہمی ہے‘‘۔(کشتی نوح صفحہ 48، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ52)
محترم قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی کی عبارتوں کو مدنظر رکھ کرغور کیجیے کہ کس طرح اس نے مسیح موعود ہونے کا انکار کیا اور بعد میں کس طرح مسیح موعود یعنی واضح طور پر عیسیٰ بن مریم ہی نہیں بلکہ خود ہی عیسیٰ اور خود ہی مریم بن بیٹھا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے عیسیٰ بن مریم بننے کی کہانی بھی عجیب ہی ہے۔ جسے میں نے ’’عجائبات مرزا‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ نہ صرف ایک عجوبہ ہے بلکہ عجیب لطیفہ بھی ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دعویٰ نبوت:
محترم قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی طویل عرصہ تک تو نہ صرف دعویٰ نبوت سے انکار کرتا رہا بلکہ داعی نبوت کوکافر اور ملعون قرار دیتا رہا پھر اس نے 1901ء میں ایک کتابچہ بعنوان ’’ایک غلطی اور اس کا ازالہ‘‘ شائع کیا جس میں دعویٰ نبوت کیا۔ قبل اس کے کہ مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کو بیان کروں ۔ پہلے اس نے ایک داعی نبوت کے بارے میں جو کچھ تحریر کیا ہے وہ بھی بیان کرتا چلوں تاکہ لوگوں کو پتا چل سکے کہ کس طرح اس عوام کو دھوکا اور فریب دینے کی کوشش کی ہے۔
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے1890ء کے آخر اور 1891ء کے آغاز میں ’’فتح الاسلام‘‘ اور ’’توضیح المرام‘‘ نامی کتابچے شائع کیے جن میں حیات مسیح کا انکار کرتے ہوئے خود کومثیل مسیح قرار دیا ۔ جب لوگوں نے یہ اعتراض پیش کیا ۔ مسیح علیہ السلام نبی تھے تو مرزا قادیانی نے جوا ب دیاکہ
’’اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہیے کیونکہ مسیح نبی تھا تواس کا اوّل جواب تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح کے لیے ہمارے سید مولا صلی اﷲعلیہ وسلم نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی۔‘‘(بحوالہ توضیح المرام صفحہ 11مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 59)
مزید مرزا قادیانی عقیدہ ختم نبوت پر اپنی پختگی کا اظہار کرتے ہوئے خود کو اپنی کتاب ’’حمامۃ البشریٰ‘‘ جو اس نے 1894ء میں تحریر کی ہے ، نہ صرف محدث قرار دیتا ہے بلکہ ختم نبوت کا واضح اقرار بھی کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
الا تعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبینا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبینا فی قولہ لا نبي بعدی ببیان واضح للطالبین؟ ولو جوزنا ظھور نبی بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم لجوزنا انفتاح باب وحی النبوۃ بعد تغلیقھا وھذا خلف کما لا یخفی علی المسلمین وکیف یحئ نبی بعد رسولنا صلی اللہ علیہ وسلم وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اللہ بہ النبین ؟
ترجمہ: کیا تو نہیں جانتا کہ فضل اور رحم کرنے والے رب نے ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کانام بغیرکسی استسناء کے خاتم الانبیاء رکھااورآنحضرت ﷺنے لانبی بعدی سے طالبوں کے لیے بیان واضح سے اس کی تفسیر کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اگر ہم آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے ظہور کو جائز قرار دیں تو وحی نبوت کے دروازہ کے بند ہونے کے بعد ان کاکھلنا جائز قرار دیں گے، جو بالہدایت باطل ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر مخفی نہیں۔ اور ہمارے رسولؐ کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے جب کہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی ہے اور اﷲ نے آپ کے ذریعے نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔ (حمامۃ البشری صفحہ34مندرجہ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 200)
مرزا غلام احمد مزید رقم طراز ہے کہ
’’وما کان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین۔‘‘
ترجمہ: اور میرے لیے جائز نہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے نکل جاؤں اور کافروں سے مل جاؤں۔(بحوالہ حمامۃ البشریٰ صفحہ 131 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7صفحہ297)
’’وانی کتبت في بعض کتبی ان مقام التحدیث اشد تشبھا بمقام النبوۃ ولا فرق الا فرق القوۃ والفعل وما فھموا قولی وقالوا ان ھذا الرجل یدعی النبوۃ ۔۔۔وانی واللہ أو من باللہ ورسولہ و أو من بانہ خاتم النبینن نعم قلت ان اجزاء النبوۃتوجدفی التحدیث کلھا ولکن بالقوۃ لا بالفعل فالمحدث نبي بالقوۃ ولو لم یکن سدباب النبوۃ لکان نبیا بالفعل.‘‘
ترجمہ: اور میں نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ مقام محدثیت مقام نبوت کے ساتھ گہری مشابہت رکھتا ہے اوران میں سوائے قوت اور فعل کے اور کوئی فرق نہیں لیکن لوگوں نے میری بات کو نہ سمجھا اور کہہ دیا کہ یہ شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اور اﷲ کی قسم میں اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہوں کہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ ہاں میں نے کہا ہے کہ اجزائے نبوت محدثیت میں پائے جاتے ہیں لیکن بالقوۃہے نہ کہ بالفعل۔ پس محدث نبی بالقوۃ ہے اور اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوتا تو بالفعل نبی ہوتا(حمامۃ البشریٰ صفحہ 134 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 300)
ایک اور مقام پر مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’ صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنااور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کودھوکا لگ جانے کا احتمال ہو۔‘‘(انجام آتھم صفحہ 27، مندرجہ روحانی خزائن جلد11صفحہ27)
’’ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہل سنت جماعت کا عقیدہ ہے ۔ ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا ومولانا حضرت محمدصلی اﷲعلیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کوکاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲ محمد مصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔‘‘(مجموعہ اشتہارات، جلداول صفحہ 214 مورخہ 2اکتوبر1891 ، طبع چہارم)
’’میں نہ نبوت کامدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر۔۔۔۔۔۔ اور سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ232 مورخہ 2اکتوبر1891 طبع چہارم)
محترم قارئین ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح مرزا قادیانی داعی نبوت کو کافر اور کاذب قرار دیتا ہے لیکن پھر خود ہی 1901 میں اپنے ایک کتابچے ’’ایک غلطی اور اس کا ازالہ ‘‘ میں دعویٰ نبوت کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ
’’ہماری جماعت میں بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل کر سکے ۔ وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لیے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہو اکہ جس کی تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے ، اس میں ایسے الفاظ رسول، مرسل اور نبی کے موجود ہیں۔ نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ پھر کیوںکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 206)
متنبی مرزا غلام احمد قادیانی ایک اور مقام پر رقم طراز ہے کہ
’’اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح سے کیا نسبت ہے ، وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقرربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تھا تو میں اس کو جزوی قرار دیتا تھا، مگر بعد میں خدا کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی۔ اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیا۔ مگراس طرح سے ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ۔‘‘(حقیقت الوحی صفحہ 149مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 153)
محترم قارئین ! مرزا غلام احمد قادیانی کذاب کا شاطرانہ پن ملاحظہ کریں کہ جب اس نے دعویٰ نبوت کیا تواسے بھی اس بات کا اندازہ تھا کہ پہلے تو میں نے داعی نبوت کو لعنتی اور دائرہ اسلام سے خارج قر اردیا ہے لہٰذا اپنے سابقہ عقیدے اور دعویٰ نبوت میں تطبیق دینے کے لیے لکھتا ہے کہ
’’اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں اپنے رسول مقتدا سے علم باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لیے ا س کا نام پاک اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے ۔ رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا، بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا ہے۔ سو اب بھی میں ان معنوں میں نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔‘‘ (ایک غلطی اور اس کا ازالہ صفحہ 7,6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 211,210)
محترم قارئین ! اس عبارت میں مرزا قادیانی متنبی اپنے آپ کو غیر شریعتی امتی نبی قرار دیتا اور واضح لفظوں میںیہ بات کہتا ہے کہ میں نے اس سے انکار نہیںکیا بلکہ شریعتی نبی ہونے سے انکار کیا جب کہ جن عبارتوں میں اس نے دعویٰ نبوت سے انکار کیا وہاں پر شریعتی یا غیرشریعتی الفاظ بالکل موجود نہیں ہیں۔ قبل اس کے کہ میں مرزا قادیانی کے شریعتی نبی ہونے کے دعویٰ کا ذکر کروں اس کے دعویٰ نبوت کے حوالے سے ایک اور عبارت ملاحظہ فرمائیں ۔ چنانچہ مرزا قادیانی کذاب رقم طراز ہے کہ
’’صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا ہے۔ا گر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتاتو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے۔ اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں مگر نبوت کے معنی اظہار امر غیب ہے اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے ۔ یعنی عبرانی میں اس لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنی ہیں۔ خدا سے خبر پا کر پیش گوئی کرنے اور نبی کے لیے شارع ہونا شرط نہیں ہے، یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں۔ پس میں جب کہ اس مدت (5نومبر1901ء)تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صا ف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیوں کر انکار کر سکتا ہوں۔ اور جب کہ خود خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیوںکر رد کروں یا اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں۔ مجھے اس خدا کی قسم جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بناکر مجھے بھیجا ہے۔ اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں، جو مجھے ہوئی۔ جس کی سچائی متواتر نشانیوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اﷲ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اسی خدا کا کلام ہے، جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔‘‘(ایک غلطی اوراس کا ازالہ صفحہ 6,5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 210,209 )
محترم قارئین ! یہ عبارت بھی بالکل واضح ہے کہ مرزا قادیانی شریعتی نبی کا انکار کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دو ٹوک اور واضح الفاظ میں اپنے اوپر ہونے والے شیطانی الہام کو اﷲ تعالیٰ کا کلام قرار دیتا ہے۔ اس پر بس نہیں بلکہ یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ مجھے اپنی وحی پر اس طرح ایمان اور یقین ہے جس طرح نبی کریم علیہ السلام پر نازل ہونے والی مقدس کتاب قرآن مجید پر ایمان و یقین۔
محترم قارئین ! آئیے اب مرزا قادیانی کے شریعتی نبی ہونے کا دعویٰ ملاحظہ کریں۔ ایک تواس نے جہاد فی سبیل اﷲ کو مکمل طورپر نہ صرف حرام قرار دیا ہے بلکہ انگریزوں کی اطاعت کو بھی واجب قرار دیا ہے جب کہ شریعت محمدی میں تو جہاد و قتال فرض ہے۔ اور میرے اور آپ کے پیرو مرشد جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا۔
یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر قتال کرتی رہے گی۔ یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔(رواہ مسلم ، مشکوٰۃ کتاب ا لجہاد)
محترم قارئین ! آئیے اب واضح طور پر مرزا قادیانی کے شرعی نبی ہونے کا دعویٰ اس کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعے سے چند امر ونہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب شریعت ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی ۔ مثلاً یہ الہام قل للمومنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم یہ براہین احمدیہ میں درج ہے۔ اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ اور اس پر تیئیس برس کی مدت بھی گزر گئی ہے اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم و موسٰی یعنی قرآنی تعلیم تورات میں بھی موجود ہے۔(اربعین نمبر4 صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 436,435)
’’چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیاہے۔۔۔۔۔ اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لیے اس کو مدار نجات ٹھہرایا۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے۔‘‘ (حاشیہ اربعین نمبر4 صفحہ 6 مندرجہ خزائن جلد 17صفحہ 435)
محترم قارئین !ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے سب سے پہلے مجدد پھر مثیل مسیح ، پھر مسیح موعود اور پھر محدث اس کے بعد غیر شریعتی نبی اور پھر شریعتی نبی کا دعویٰ کیا ۔ آگے آپ اس کے مزید دعوے دیکھیں گے۔ کس طرح دعوے کرتا ہوا منزل بہ منزل دعویٰ الوہیت تک پہنچتا ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ مرزا قادیانی کے مزید دعووں کا تذکرہ کروں چاہتا ہوں کہ عقیدہ ختم نبوت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مختصر بیان کر دوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ کس طرح قادیانی دجال و کذاب نے قرآن و حدیث اور اجماع امت کو ترک کرکے امت مسلمہ کو انتشار وافتراق کا شکار کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں:۔
محترم قارئین ! اﷲ رب العزت نے اپنے تمام انبیاء و رسل کو ایک جگہ جمع کرکے وعدہ لیا کہ اگر تمھاری نبوت کے دوران میرا آخری نبی آجائے تو تمھیں نہ صرف اس پر ایمان لانا ہوگا بلکہ ہر طرح سے ا س کی مدد بھی کرنا ہوگی۔ یعنی اس کے دور نبوت میں تمھاری نبوت نہیں چل سکے گی۔ اس بات کا تذکرہ رب ذوالجلال نے قرآن مقدس میں اس طرح کیا ہے کہ
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ آتَیْتُـکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہ‘ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ (آل عمران 81)
جب اﷲ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمھیں کتاب و حکمت سے دوں ، پھرتمھارے پاس وہ رسول آئے جو تمھارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمھارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اوراس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا: ہمیں اقرار ہے۔فرمایا: توا ب گواہ رہو میں بھی تمھارے ساتھ گواہوں میںسے ہوں۔
اﷲ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں متقین کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے جن چیزوں کو ایمان کی شرائط کے طور پر بیان کیا ہے، ان میں سابقہ انبیاء علیہم السلام اور ان پر نازل ہونے والی کتب، نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قرآن مقدس پر ایمان لانا ہے۔ اگر کوئی نبی بعد میں بھی آنا ہوتا تو اﷲ تعالیٰ یہاں پر اس کا تذکرہ ضرور فرما دیتے۔ جہاں تک تعلق ہے عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا تو وہ بطور امتی ہی نازل ہوں گے ۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ(البقرۃ 6)
اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
ایک اور مقام پر اﷲ رب العزت نے اپنے پیارے پیغمبر سید الاولین والآخرین امام الانبیاء ، خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام لے کر آپ کوآخری نبی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النِّبِیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا(الاحزاب:60)
تمھارے مَردوںمیں سے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کے باپ نہیں، لیکن آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ اور اﷲ تعالیٰ ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے۔
ان تمام آیات کریمہ سے مسئلہ ختم نبوت بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ منکرین ختم نبوت ’’خاتم النبین‘‘ کامعنیٰ ’’نبیوں پر مہر لگانے والا‘‘ کرتے ہیں۔اگر یہ مفہوم تسلیم کر لیا جائے تو معنیٰ یہ کرنا پڑے گا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے انبیاء کی تصدیق وتائید کرکے ان پر مہر لگا دی ۔ بعد میں نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کو تو آپ نے کذاب اور دجال قرار دیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خاتم النبین کا صحیح مفہوم تو نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہی بنتا ہے، کیونکہ نبی رحمت نے اپنے فرامین میں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کہہ کراس مفہوم کو واضح کردیا ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
آئیے ! ذرا ان فرامین نبویہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بھی مطالعہ کریں جن میں عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت موجود ہے:
حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا :لِی خَمْسَۃُ اَسْمَائُ: اَنَامُحَمَّدٌوَاَنَااَحْمَدُوَاَنَاالْمَاحِیُ الَّذِیْ یَمْحُوْااللّٰہُ بِہِ الْکُفْرَ وَاَنَا الْحَاشِرَالَّذِی یُحْشَرُالنَّاسُ عَلَی قَدَمِی وَاَنَاالْعَاقِبُ (صحیح بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر3532)
یعنی میرے پانچ نام ہیں۔میں محمد‘احمد‘اورماحی ہوں(یعنی مٹانے والاہوں)کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفرکومٹائے گااورمیں حاشرہوں کہ تمام انسانوں کا(قیامت کے دن) میرے بعدحشرہوگا۔ اورمیں’’عاقب‘‘ہوں یعنی خاتم النبیین ہوں‘میرے بعدکوئی نیا نبی دنیامیں نہیں آئیگا۔
سیدنا جابررضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآئَ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنیٰ دَارًا فَاَتَّمَھَا وَاَکْمَلَھَا اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَدْخُلُوْنَھَا وَیَتَعَجَّبُوْنَ مِنْھَا وَیَقُوْلُوْنَ لَوْ لَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ فَاَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِیَآئَ صَلَواتُ اللّٰہِ وَسَلاَمُہ‘ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْنَ
میری مثال اور دوسرے انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک گھر بنایا اوراس کو کمال و تمام تک پہنچایا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگوں نے اس کے اندر جانا شروع کیا تو تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے: کاش ! یہ اینٹ کی جگہ بھی خالی نہ ہوتی۔ آپ ﷺنے فرمایا: میں اس اینٹ کی جگہ ہوں ۔ میں آیا اور پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا۔سب انبیاء پر اﷲ کی رحمت اور سلامتی ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلٰثِیْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ اَنـَّـہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صحیح مسلم، کتاب الفتن و اشراط الساعۃ 7342، صحیح بخاری 3609)
قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ قریباً تیس دجال وکذاب پیدا نہ ہو جائیں۔ ان میں سے ہر ایک گمان کرے گاکہ وہ نبی ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ :
وَاِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِیْ اُمَّتِیْ لَمْ یُرْفَعْ عَنْھَا إلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتّٰی تَعْبُدَ قَـبَائِلَ مِنْ اُمَّتِیْ الَاوْثَانَ وَإِنَّہ‘ سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہ‘ نَبِیُّ اللّٰہِ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرُاللّٰہ (سنن ابوداود ، کتاب الفتن والملاحم :3710 ، جامع ترمذی ، کتاب الفتن 2145)
جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ اس سے روز قیامت تک نہ اٹھائی جائے گی اور قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ میری امت کے بعض قبائل مشرکوںکے ساتھ نہ مل جائیںاور بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں۔ اور بے شک عنقریب میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے ان میںسے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اﷲ کا نبی ہے۔ جبکہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری امت کا ایک گروہ حق پر رہے گا اور وہ غالب ہوں گے ۔جو ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے حتی کہ اﷲ کا حکم آجائے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے :
خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُخَلِّفُنِیْ فِی النِّسَآئَ وَالصِّبْیَانِ؟ قَالَ أمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃَ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلاَم ؟ غَیْرَ اَنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (صحیح مسلم ، کتاب الفضائل 6218، صحیح بخاری 4416)
رسول اﷲصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علیرضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا۔ جب آپ ؐ غزوہ تبوک کو تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپؐ مجھ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ ؐنے فرمایا: تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمھارا درجہ میرے ہاں ایسا ہی ہو جیسے ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے ہاں تھا۔مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ کُلَّمَا ھََلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَہ‘ نَبِيٌّ اَخَرُ وَإِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنَ الْخُلَفَآئُ فَیَکْثُرُونَ (صحیح بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء)
ترجمہ: بنی اسرائیل کے انبیاء ان کی سیاسی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے۔ جب بھی ان کا کوئی نبی فوت ہو جاتا تواس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر نائبین بکثرت ہوں گے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا:
اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ (جامع ترمذی کتاب الرویا رواہ انس بن مالک 2198)
رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔
اس حدیث مبارکہ میں نبی اور رسول دونوں کی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آنے کی نفی کی گئی ہے۔ آئیے ذرا اس بات پر غور کریں کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہوتا ہے۔
اس ضمن میں اس دور کے سب سے بڑے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کا اپنا بیان قابل توجہ ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے:
’’ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جواس پر بذریعہ جبرائیل نازل ہوتی ہے۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 576، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 411)
قادیانی دجال نبی کی تعریف میں یوں رقم طراز ہے کہ
’’ نبی کے معنٰی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو، شریعت کا لاناس کے لیے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 306)
محترم قارئین ! قادیانی دجال کے مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول صاحب شریعت کا متبع ہوتا ہے ا ور نہ ہی وہ نئی شریعت اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے حدیث کے الفاظ پر توجہ دیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نبی کریم علیہ السلام کے بعد نہ صاحب شریعت نبی آ سکتا ہے اور نہ ہی صاحب شریعت رسول ‘رسول اور نبی دونوں کے آنے کی نفی کی ہے۔ جب کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا ہے بلکہ صاحب شریعت ہونے کا بھی مدعی ہے۔ جس کی تفصیل مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت میں موجود ہے۔
محترم قارئین ! ان تمام احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم علیہ السلام آخری نبی ہیں ۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ بمطابق فرمان نبوی کذاب و دجال ہوگا (اسی لیے ہم مرزا قادیانی کو قادیانی کذاب اور قادیانی دجال کے نام سے لکھتے اور پکارتے ہے۔ اگر کوئی انسان اتنے واضح اور بین دلائل کے باوجود عقیدہ ختم نبوت کا منکر ہوتا ہے اور نبی رحمت علیہ السلام کے بعد کسی اور کو شریعتی یا غیر شریعتی ، ظلی یا بروزی نبی مانتاہے تو وہ نہ صرف کھلم کھلا قرآن و حدیث کا انکار کرتا ہے بلکہ وہ دائرہ اسلام سے ہی خارج ہے، کیونکہ اس پر اجماع صحابہ اور اجماع امت ہے، جس کی واضح دلیل تو یہ ہے کہ دور نبوی میں ہی جب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اورنبی کریم علیہ السلام کے پاس پیغام بھیجا کہ میں آپ کو نبی مانتا ہوں لیکن اس نبوت میں میں بھی حصہ دار ہوں ۔ آدھی زمین نبوت کے لیے میری ہے اور آدھی آپ کی تو نبی کریم علیہ السلام نے جواب میں اسے کذاب کے لقب سے پکارا اور پھر طلیحہ اسدی جس نے کلمہ بھی پڑھا تھا اور شرف صحابیت بھی حاصل ہوا لیکن بعد میںمرتد ہو کردعویٰ نبوت کردیا تو دور صدیقی میں ان کے خلاف کھلا اعلان جنگ کیا گیا اور ان مرتدین سے کئی جنگیں ہوئیں ۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں صحابہ کرام اور امت مسلمہ کے جرنیل صحابہ شہید ہوئے۔ مسیلمہ کذاب کو وحشی بن حرب رضی اللہ تعالی عنہ نے واصل جہنم کیا اور طلیحہ اسدی سچی توبہ کرکے دوبارہ مسلمان ہوگیا۔الغرض یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اب جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا وہ دجال اور کذاب ہوگا وہ اوراس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہوں گے اور ایسے لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں کیا۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
محمدرسول اﷲ ہونے کا دعویٰ اور قادیانی کلمہ کی حقیقت:
محترم قارئین! قادیانی دجال نے جس دور میں نبوت کا دعویٰ کیا ،اسی دور میں محمدرسول اﷲ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھا :
’’پھراسی کتاب میں یہ وحی ہے: مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ‘ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ‘‘ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا ہے اور رسول بھی۔ پھر یہ وحی اﷲ ہے جو 557براہین میں درج ہے۔‘‘ دنیا میں ایک نذیر آیا‘‘ اس کی دوسری قراء ت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد18صفحہ 207)
مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے کہ
’’مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد جو درحقیقت خاتم النبین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں، اور نہ ہی اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے۔ کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں ، میں بموجب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وہی خاتم الانبیاء ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے۔ اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوں ، پس اس طور سے خاتم النبین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت محمدہی تک محدود رہی۔یعنی بہرحال محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نبی رہے اور نہ اور کوئی۔یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوںاور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے، میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 212)
ایک اور مقام پر قادیانی دجال اپنے دعویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ
’’عقیدہ کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کانبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگرجس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔ کیونکہ خاتم اپنے مخدوم سے جدا نہیں او نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے۔ پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں۔ جیسا کہ جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے۔ بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘(کشی نوح صفحہ 18، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ16)
اور ایک اور جگہ یہ کذاب قادیانی لکھتا ہے کہ
’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیںمگر ایک کھڑکی سیرۃ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔ اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے۔ اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے جلال کے لیے۔ اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی۔ گوبروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔۔۔۔۔۔لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میںانعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے۔ گو ظلی طور پر ۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد(ثانی) (مرزا قادیانی) اسی محمد کی تصویر اوراسی کانام ہے۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3تا5مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 1صفحہ207 تا209)
محترم قارئین! آپ نے قادیانی دجال کی مندرجہ بالاتحریریںپڑھ لیں کہ کس طرح اس نے ظلی اور بروزی کا ڈھونگ رچا کر اپنے آپ کو معاذ اﷲ محمدرسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ اگر ہم اس قادیانی کی ظلی اور بروزی کی تعریف کو مدنظر رکھیں تو ’’جیسا کہ تم جب آئینہ اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو ، اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘ (کشتی نوح ص 18، خزائن ج19 ص 16)ثابت ہوتاہے کہ محمد ی نبوت اور وحی نبوت میںشاعری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ قرآنی آیات پر جب مشرکین نے الزام لگایا کہ یہ اﷲ کا کلام نہیں بلکہ کسی کا ہن کا قول اور کسی شاعر کی شاعری ہے تو فوری طور پر رب کائنات نے اس کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ط قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ O وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ O تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ یہ کسی شاعر کا قول نہیں(افسوس) تمھیں بہت کم یقین ہے اور نہ کسی کاہن کا قول ہے(افسوس) تم بہت کم نصیحت لے رہے ہو۔ یہ تو رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔(سورۃالحاقۃ:42تا44)
وَ مَاعَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَوَمَایَنْبَغِیْ لَہُ یعنی اورہم نے اسے (محمدرسول اﷲﷺکو)شعرکہنانہیں سکھایااورنہ یہ کام اس کی شان کے مطابق تھا۔(سورہ یسین:70تفسیرصغیرازمیاںمحمودبشیرالدین ابن مرزاقادیانی)
محترم قارئین ! اس کے برعکس قادیانی کذاب جو ظلی اور بروزی نبی ہونے کا دعوے دار ہے اس کی کتب شاعری سے بھری پڑی ہیں۔ نہ صرف شاعری سے بلکہ بعض جگہ تو نیچے نوٹ دیا ہو اہے کہ یہ مصرع اس شعرمیں الہامی ہے۔ تو پھر کس طرح قادیانی دجال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ظل ہو سکتا ہے جب کہ اس ظل میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عملی تصویرکے بالکل برعکس نہ صرف شاعری ہے بلکہ نبی آخر الزمان علیہ السلام تو امی یعنی ان پڑھ تھے جب کہ مرزا قادیانی نے باقاعدہ تعلیم حاصل کی، جس کی تفصیل اسی کتاب کے باب اوّل میں آ چکی ہے۔ اور مزید یہ کہ مرزا قادیانی نے مختاری کا امتحان بھی دیا لیکن فیل ہوا۔(بحوالہ سیرۃ المہدی جلداوّل روایت150)
محترم قارئین!معروف قادیانی عالم ملک عبدالّرحمن خادم اپنی کتاب ’’پاکٹ بک ‘‘میں اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’بے شک قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرتﷺشاعرنہ تھے اورقرآن مجیدنے شاعرکی تعریف بھی کردی ہے فرمایا
اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ
وَادٍیَّھِیْمُوْنَo وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ (سورۃ الشعراء:226‘227)
کیاتونہیں دیکھتاکہ شاعرہروادی میں سرگرداں پھرتے ہیں یعنی ہوائی گھوڑے دوڑاتے ہیں اورجوکچھ وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔
گویاشاعروہ ہے ۔
1۔ جوہوائی گھوڑے دوڑائے ۔
2۔ اس کے قول اور فعل میں مطابقت نہ ہو۔
فرمایا علمنٰہ الشّعر(یٰسین:70) ہم نے آنحضرتﷺکوہوائی گھوڑے دوڑانااور محض باتیں بنانانہیں سکھایاحضرت مسیح موعودمیں بھی یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تھیں۔‘‘(پاکٹ بک ازملک عبدالرحمٰن خادم قادیانی صفحہ515)

اس کے بعد ملک عبدالرحمٰن خادم لغت کی کتابوں سے شاعر کے معنی اورمفہوم بیان کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذکرتاہے کہ
’’پس ثابت ہواکہ شعرسے مرادجھوٹ ہی ہے پس نفس شعربلحاظ کلام موزوںکوئی بری چیزنہیں۔‘‘(پاکٹ بک ازملک عبدالرحمان خادم صفحہ516)

نبی آخر الزمان علیہ السلام توغیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے جب عورتیں بیعت کے لیے آتیں تو نبی کریم علیہ السلام پردے کے پیچھے سے بیعت لیتے تھے جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں تک دبوایا کرتا تھا اور وہ بھی سردیوں کی راتوں میں۔ الغرض بے شمار ایسی باتیں ہیں جو قادیانی دجال کے ظلی نبی ہونے کے دعویٰ کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں۔
محترم قارئین ! بعض لوگ قادیانیوں کے کلمہ پڑھنے سے بھی دھوکا میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ بھی تو کلمہ پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ قادیانی گروہ کلمہ میں جب ’’محمدرسول اﷲ ‘‘کے الفاظ ادا کرتا ہے توا ن کا مقصد نبی آخر الزمان علیہ السلام نہیں ہوتا بلکہ مرزا قادیانی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم مندرجہ بالا تحریروںمیں مرزا قادیانی کے دعویٰ سے ثابت کر آئے ہیں۔
آئیے! قادیانی کلمہ کی حقیقت مزید جاننے کے لیے مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد کی درج ذیل عبارت کو بھی ملاحظہ کریں:
’’ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وماریٰ اوریہ اس لیے ہے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو دنیا میں مبعوث کرے گا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمدرسول اﷲ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہم کوکسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمدرسول اﷲ کی جگہ کوئی اور آتاتو ضرور پیش آتی۔ ‘‘(کلمۃ الفصل صفحہ158، مندرجہ ریویو آف ریلیجنز جلد 14 صفحہ 158 نمبر4)

قارئین محترم ! آخر میں مرزا قادیانی دجال کے الفاظ بھی ملاحظہ فرما لیں کہ وہ کس طرح شان رسالت میں گستاخی کا ارتکاب کرتا ہے۔ چنانچہ قادیانی کذاب رقمطراز ہے:
’’ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہ پہچاناہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ 171 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259)
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سلطان القلم ہونے کا دعویٰ:
مرزا قادیانی سلطان القلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’اﷲ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘(تذکرہ صفحہ 58طبع چہارم)
محترم قارئین ! سلطان القلم کے چند ایک قلمی نمونے بھی ملاحظہ فرما لیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ مرزا قادیانی کیسا سلطان القلم تھا:
1۔’’اب عبدالحق کو ضرور پوچھنا چاہیے کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کالڑکا کہاں گیا۔ اندر ہی اندر پیٹ میں تحلیل پاگیا یا پھر رجعت قہقہری کرکے نطفہ بن گیا۔۔۔۔۔۔اور اب تک اس کی عورت کے پیٹ میں ایک چوہا بھی پیدا نہ ہوا۔‘‘(انجام آتھم صفحہ 317,311)
2۔’’خدا تعالیٰ نے اس کی بیوی کے رحم پر مہر لگا دی۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 444، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 444)
3۔ ’’پرمیشر (ہندوؤں کا خدا) ناف سے دس انگلی نیچے ہے (سمجھنے والے سمجھ لیں)‘‘(چشمہ معرفت صفحہ106 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23، صفحہ 114)

چپکے چپکے حرام کرانا
آریوں کا اصول بھاری ہے

زن بیگانہ پر یہ شیدا ہیں
جن کو دیکھو وہی شکاری ہے

غیر مردوں سے مانگنا نطفہ
سخت خبث اور نابکاری ہے

غیر کے ساتھ جو کہ سوتی ہے
وہ نہ بیوی زن بزاری ہے

نام اولاد کے حصول کا ہے
ساری شہوت کی بے قراری ہے

بیٹا بیٹا پکارتی ہے غلط
یارکی اس کو آہ و زاری ہے

دس سے کروا چکی زنا لیکن
پاکدامن ابھی بچاری ہے

لالہ صاحب بھی کیسے احمق ہیں
ان کی لالی نے عقل ماری ہے

گھر میں لاتے ہیں اس کے یاروں کو
ایسی جورو کی پاسداری ہے

اس کے یاروں کو دیکھنے کے لیے
سربازار ان کی باری ہے

شرم وغیرت ذرا نہیں باقی
کس قدر ان میں بردباری ہے

ہے قوی مرد کی تلاش انھیں
خوف جورو کی حق گزاری ہے
(آریہ دھرم صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 75,76)
5۔ ’’اور میرے مضامین نازک اندام عورتوں کی طرح تھے، پس حسن کے ساتھ، پھر اس آواز کے ساتھ جو بطور قبا کے تھی ، دل اس کی طرف جھک گئے، اور میرے کلمے آئینہ کی طرح صاف کیے گئے ہیں۔ پس تعجب کرنے والے کی نظر اس کو ٹکٹکی لگا کر دیکھتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ نرم اندام عورتیں اسراء کی ہمارے لیے ننگی ہو گئیں اور غیروں سے وہ چھپنے والیوں کی طرح دو ر ہو گئیں۔ اور جب کہ وہ ہودہ سے زینت کے ساتھ نکلیں ۔ پس ان کا حسن اندام دیکھنے والوں کا دل لے گیا۔ اور جب ان کا حسن اپنے نور کے ساتھ چمکا پس اندھیرا یوں چلا گیا جیسا کہ وہ لوگ جوا پنے گھروں سے آوارہ پھرتے ہیں اور معشوقوں میں سے بہت کم ہوگا جس کا حسن ہمارے ان باکرہ مضامین کی طرح ہوگا اور رخسار روشن ہوں گے اور جب میں نے خدا سے کلمات فصاحت طلب کیے پس میں اپنے رب سے گونا گوں فصاحت کلام دیا گیا۔‘‘ (حجۃ اللہ صفحہ 99,90 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 247,238)
6۔ ’’جس طرح کھانگڑ بھینس کا دودھ نکالنا بہت مشکل ہے اسی طرح سے خدا کے نشان بھی سخت تکلیف کی حالت میں اترا کرتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 428 طبع چہارم )
7۔ ’’مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ مثلاً اگر مرد کی بیوی بغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہو جائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کارروائی کا ہے، بیکار اور معطل ہو جاتی ہے لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کارروائی کی کل مرد کو دے دی گئی ہے اور عورت کا تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں اگر مرد اپنی قوت مردمی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کی رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے اوراگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کر سکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے۔ کیونکہ مرد کی ہرروزہ حاجتوں کی عورت ذمہ داراور کاربرار نہیں ہو سکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کے لیے قائم رہتا ہے۔ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 282 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 282)
8۔ اور ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا محمدحسین (مولانا محمد حسین بٹالوی) کے مکان پر گیا ہوں اور میرے ساتھ ایک جماعت ہے اور ہم نے وہیں نماز پڑھی اور میں نے امامت کروائی اور مجھے خیال گزرا کہ مجھ سے نماز میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ میں نے ظہر یا عصر میں سورہ فاتحہ کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا تھا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ میں نے سورہ فاتحہ بلند آواز سے نہیں پڑھی بلکہ صرف تکبیر بلند آواز سے کہی ۔ پھر جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تومیں کیا دیکھتا ہوں کہ محمد حسین ہمارے مقابل پر بیٹھا ہے اوراس وقت مجھے اس کا سیاہ رنگ معلوم ہوتا ہے اور بالکل برہنہ ہے۔ پس مجھے شرم آئی کہ میں اس کی طرف نظر کروں ۔ پس اس حال میں وہ میرے پاس آ گیا ۔ میں نے اس سے کہا کہ وقت نہیں آیا کہ صلح کرے اور کیا تو چاہتا ہے کہ تجھ سے صلح کی جائے۔ اس نے کہاں ہاں۔ پس وہ بہت نزدیک آیا اور بغلگیر ہوا۔‘‘(سراج منیر صفحہ 78 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 80)
9۔ ’’25جولائی 1892ء اور25جولائی 1892 مطابق 20ذی الحجہ 1309ھ روز دوشنبہ’’آج میں نے بوقت صبح صادق ساڑھے چار بجے دن کے خواب میں دیکھا کہ ایک حویلی ہے۔ اس میں میری بیوی والدہ محمود اور ایک عورت بیٹھی ہے۔ تب میں نے ایک مشک سفید رنگ میںپانی بھرا ہے اور اس مشک کو اٹھا کر لایا ہوں۔ اور وہ پانی لا کر اپنے گھڑے میں ڈال دیا ہے۔ میں پانی کو ڈال چکا تھا کہ عورت جو بیٹھی ہوئی تھی یکا یک سرخ اور خوش رنگ لباس پہنے ہوئے میرے پاس آ گئی ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جوان عورت ہے۔ پیروں سے سر تک سرخ لباس پہنے ہوئے ۔ شاید جالی کا کپڑا ہے۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ وہی عورت ہے جس کے لیے اشتہار دیے تھے۔ لیکن اس کی صورت میری بیوی کی صورت میں معلوم ہوئی۔گویا اس نے دل میںکہا کہ میں آ گئی ہوں۔ میں نے کہا: یااﷲ آجاوے اور پھر وہ عورت مجھ سے بغلگیر ہوئی ۔ اس کے بغلگیر ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.
ا س سے دو چار روز پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ روشن بی بی میرے دالان کے دروازے پر آکھڑی ہوئی ہے اور میں دالان کے اندر بیٹھا ہوا ہوں۔ تب میں نے کہا: آ روشن بی بی اندر آجا۔ ‘‘(رجسٹر متفرق یادداشتیں حضرت مسیح موعود صفحہ 33مندرجہ تذکرہ صفحہ 159طبع چہارم )
محترم قارئین ! اس سے قبل میں ظلی اور بروزی کی بحث میںثابت کر چکا ہوں کہ شاعری وحی اور الہام کا حصہ نہیں اور نہ ہی نبوت محمدی علیہ السلام سے شاعری کا کوئی تعلق ہے۔ کیونکہ اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَـــہ‘ (یٰسٓ : 69)
ترجمہ: اور نہیں سکھایا ہم نے اپنے نبی کو شعر اور نہ یہ ان کے شایان شان ہے۔
جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی کی کتابوںمیں بہت زیادہ شاعری ہے اورآپ اس شاعری کا نمونہ آریوں کے اصول نیوگ کے متعلق مرزا کے اشعار میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔ آئیے ذرا اب قادیانی سلطان القلم کی عشقیہ شاعری کے نمونے بھی ملاحظہ کرلیں۔
’’ خاکسارعرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود کی ایک شعروںکی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے۔ غالباً نوجوانی کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کے اپنے خط می جسے میں پہچانتا ہوں بعض شعر بطور نمونہ درج ہیں:
عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے
تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے
:: :: :: ::
ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے
مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے
اس کے جانے سے صبر دل سے گیا
ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے
:: :: :: ::
سبب کوئی خداوند! بنا دے
کسی صورت سے وہ صورت دکھا دے
کرم فرما کے آ، او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسادے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر
دلا اک بار شوروغل مچادے
:: :: :: ::
نہ سر کی ہوش ہے تم کو ، نہ پاکی
سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی
مرے بت ! رب سے پردہ میں رہو تم
کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی
:: :: :: ::
نہیں منظور تھی گر تم کو الفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
میری دلسوزیوں سے بے خبر ہو
میرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جان
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں۔ یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے،مگر پہلا ندارد ، بعض جگہ اشعار نظر ثانی کے لیے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا گیا ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 214-213 طبع چہارم)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے جہاں اتنے بڑے بڑے دعوے کیے ہیں کہ خود ہی محمدرسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بن گیا اور پھر خود ہی اﷲ تعالیٰ بن گیا جس کی تفصیل دعویٰ الوہیت میں آئے گی، ان شاء اﷲ، وہیں پر قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ نے اپنے آپ کو اس حد تک پستی میں بھی گرایا ہے کہ نہ صرف وہ اپنے آپ کوانسان کاتخم اوربندے کاپترنہیںسمجھتابلکہ خود کو بشرکی جائے نفرت اورانسانوںکی عار قرار دیتاہے۔ لہٰذا قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ کے قلم کا یہ نادر نمونہ بھی ملاحظہ کریں۔
’’کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97، مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
محترم قارئین ! مرزا قادیانی کی کتب میں بے شمار گندی گالیاں موجود ہیں جو امت مسلمہ کے جید علماء کو دی گئی ہیں۔ اور اسی طرح عیسائیوں اور آریاؤں الغرض اپنے تمام مخالفوں پر دشنام طرازیاں کی گئی ہیں۔جب مرزا قادیانی کی زندگی میں ہی لوگوں نے اعتراض کیا کہ مرزا قادیانی نے عیسائیوں اور آریاؤں کے بارے میں نہ صرف سخت زبان استعمال کی ہے۔ بلکہ اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جس کی وجہ سے ان غیر مسلموں کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اﷲ تعالیٰ کی ذات مقد س پر کیچڑاچھالا گیا جب کہ قرآن مقدس کی تعلیم تو یہ ہے کہ ان کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا نہ کہو مبادا وہ تمھارے سچے خدا کو برا کہنا شروع کر دی۔ تواس کے جواب میں مرزا قادیانی نے اپنے دفاع میں جو تحریر کیا اس سے نہ صرف توہین قرآن کا ارتکاب ہوا بلکہ غیر مسلموں ـ(ہندوؤں ، عیسائیوں اور آریاؤں) کو قرآن مقدس پر کیچڑ اچھالنے کا خوب موقع ملا۔ ذرا قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ کا توہین قرآن پر مبنی جواب ملاحظہ ہو:

’’قرآن شریف جس آواز بلند سے سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے ۔ ایک نہایت درجہ کا غبی اور سخت درجہ کا نادان بھی اس سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ مثلاً زمانہ حال کے مہذبین کے نزدیک کسی پرلعنت بھیجنا ایک سخت گالی ہے۔ لیکن قران شریف سنا سنا کر ان پر لعنت بھیجتا ہے۔۔۔۔۔۔ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی انسان کو حیوان کہنا بھی ایک قسم کی گالی ہے، لیکن قرآن شریف نہ صرف حیوان بلکہ کفار اور منکرین کو دنیا کے تمام حیوانات سے بدتر قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے :اِنَّ شَرَّ الدَّوَابِ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی خاص آدمی کا نام لے کریا اشارہ کے طور پر اس کو نشانہ بنا کر گالی دینا زمانہ حال کی تہذیب کے برخلاف ہے۔ لیکن خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض کا نام ابولہب اور بعض کا نام کلب اور خنزیر رکھااور ابوجہل تو خود مشہور ہے۔ ایسا ہی ولید بن مغیرہ کی نسبت نہایت درجہ سخت الفاظ جو بصورت ظاہر گندی گالیاں معلوم ہوتی ہیں ، استعما ل کیے ہیں۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 27,26 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 حاشیہ صفحہ 116,115)
محترم قارئین ! آئیے اب مرزا قادیانی کی گالیوں کے نمونے بھی ملاحظہ کرلیں:
-13 ’’ جو ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔‘‘(انوار الاسلام صفحہ 30، مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 31)
ان العدا صاروا خنازیر الفلا
ونسائھم من دونھم الاکلب
ترجمہ: دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں۔ (نجم الہدیٰ صفحہ 53 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 53)
15 ’’اے بدذات فرقہ مولویو!تم کب تک حق کو چھپاؤ گے ۔ کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑو گے۔ اے ظالم مولویو! تم پر افسوس ! کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالانعام کو بھی پلایا۔‘‘ (انجام آتھم حاشیہ صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 حاشیہ صفحہ 21)
-16 ’’اگر عبدالحق اس بات پر اصرار کرتا ہے۔ تو وہی قسم کھاوے اور اگر محمد حسین بٹالوی اس خیال پر زور دے رہا ہے تو وہی میدان میں آوے اور اگر مولوی احمداﷲ امرتسری یا ثناء اﷲ امرتسری ایسا ہی سمجھ رہا ہے توانھیں پر فرض ہے کہ قسم کھانے سے اپنا تقویٰ دکھلاویں۔۔۔۔۔۔۔مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ ہر گز نہیں کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں۔‘‘(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ صفحہ 25 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11حاشیہ صفحہ 309)
-17 ’’دنیا میں سب جانداروں سے زیادہ پلید اور کراہت کے لائق خنزیر ہے مگر خنزیر سے زیادہ پلید وہ لوگ ہیں جو اپنے نفسانی جوش کے لیے حق اور دیانت کی گواہی کو چھپاتے ہیں۔ اے مردارخورمولویو!اورگندی روحوتم پرافسوس کہ تم نے میری عداوت کے لیے اسلام کی سچی گواہی کوچھپایا۔اے اندھیرے کے کیڑو۔‘‘(انجام آتھم صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد11صفحہ 305)
-18 ’’ تلک الکتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ و ینفع من معارفھا ویقبل ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا۔‘‘
یعنی میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے، مگر کنجریوں یعنی بدکار عورتوں کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔ (آئینہ کمالات اسلام ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 548-547)
محترم قارئین ! مرزا قادیانی کی اصل عبارت عربی میں ہے اور مرزا قادیانی نے لفظ بغایا کا ترجمہ انجام آتھم ص 282 مندرجہ روحانی خزائن ج 11 ص 282 پر ’’نسل بدکاراں ‘‘ کیا ہے۔ اور اسی طرح اپنی کتاب خطبہ الہامیہ ص69 مندرجہ روحانی خزائن ج16 ص 49 پر عربی عبارات (وَالتَّشَوُّقَ اِلٰی رَقْصِ الْبَغَایَا) کاترجمہ (اور شوق کرنا بازاری عورتوں کی طرف ) کیا ہے۔ اور مرزا قادیانی اپنی کتاب ’’نور الحق‘‘ حصہ اول صفحہ123مندرجہ روحانی خزائن جلد8صفحہ163 پر رقم طراز ہے:
’’واعلم ان کل من ھو من ولد الحلال ولیس من ذریۃ البغایا ونسل الدجال فیفعل امراً من امرین اما کف اللسان بعد وترک الافتراء والمین واما تالیف الرسالۃ کرسالتنا۔‘‘
ترجمہ: اور جاننا چاہیے کہ ہر ایک شخص جو ولد الحلال ہے، اور خراب عورتوں کی اولاداور دجال کی نسل میں سے نہیں ہے وہ دو باتوں میں سے ایک بات ضروراختیار کرے گا یا تو بعد اس کے دروغ گوئی اور افترا سے باز آجائے یا ہمارے اس رسالہ جیسا رسالہ بنا کر پیش کرے گا۔‘‘
محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے مندرجہ بالا عبارت میں بھی لفظ بغایا کا ترجمہ خراب عورتیں کیا ہے۔ ا س سے آپ قادیانی ’’سلطان القلم‘‘ کے قلم سے نکلے ہوئے نادر نمونے ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ جن کی عزت مآب مائیں اپنی عفت و عصمت کی محافظ ہیں اور ان کے چہرے کو بھی کسی غیر محرم نے نہیں دیکھا، قادیانی دجال کی کتابوں کو محبت کی نظر سے نہ دیکھنے اور قادیانی دجال کی دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ سے بدکار اور کنجریاں کہلائی گئی ہیں۔
ایک طرف یہ بدزبانی اور دوسری طرف مرزا قادیانی کے یہ بیانات بھی ملاحظہ کر کے فیصلہ کریں کہ مرزا قادیانی کون تھا اور کیا تھا؟
’’میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔‘‘ (آسمانی فیصلہ صفحہ 10، مندرجہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 320)
’’مخالف جو گالیاں دیتے ہیںا ور گندے اور ناپاک اشتہار شائع کرتے ہیں ہم کو ان کا جواب گالیوں سے کبھی نہیں دینا چاہیے۔ ہم کو سخت زبانی کی ضرورت نہیں کیونکہ سخت زبانی سے برکت جاتی رہتی ہے۔ اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ اپنی برکت کم کریں۔‘‘ (ملفوظات جلد2صفحہ 161 طبع چہارم)
’’ ناحق گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کاکام ہے۔‘‘(ست بچن صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10صفحہ133)
’’بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے، جس کے دل میں یہ نجاست ہے، بیت الخلاء وہی ہے۔‘‘(قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ 42 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 458)
محترم قارئین ! اب میں جو مرزا قادیانی کی عبارت تحریر کرنے لگا ہوں ایسی فحش ہے کہ دل نہیں مانتا لیکن اصل حقائق منظر عام پرلانے کی خاطر لکھ رہا ہوں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ کیا ایسا انداز تحریر کسی عام شریف آدمی کا بھی ہو سکتا ہے؟
’’ایک معزز آریہ کے گھر میں اولاد نہیں ہوتی، دوسری شادی کر نہیں سکتا کہ وید کی رو سے حرام ہے۔ آخر نیوگ کی ٹھہرتی ہے۔ یار دوست مشورہ دیتے ہیں کہ لالہ صاحب نیوگ کروایے اولاد بہت ہو جائے گی ۔ ایک بول اٹھتا ہے کہ مہر سنگھ جو اسی محلہ میں رہتا ہے اس کا م کے بہت لائق ہے۔ لالہ بہاری لال نے اس سے نیوگ کرایا تھا لڑکا پیدا ہوگیا۔یہ لالہ لڑکا پیدا ہونے کا نام سن کر باغ باغ ہو گیا ہے۔ بولا مہارج آپ ہی نے سب کام کرنے ہیں ،میںتو مہر سنگھ کا واقف بھی نہیں۔ مہاراج شریر النفس بولے کہ ہاں ہم سمجھا دیں گے ۔ رات کو آجائے گا۔مہرسنگھ کو خبردی گئی۔ وہ محلہ میں ایک مشہور قمار باز اول نمبر کا بدمعاش تھا۔ سنتے ہی بہت خوش ہو گیا اور انھیں کاموں کو وہ چاہتا تھا۔ پھر اس سے زیادہ اس کو کیا چاہیے تھا کہ ایک نوجوان عورت اور پھر خوبصورت ‘شام ہوتے ہی آموجود ہوا۔ لالہ صاحب نے پہلے ہی دلالہ عورتوں کی طرح ایک کوٹھڑی میں نرم بستر بچھوارکھا تھا اور کچھ دودھ اور حلوا بھی دو برتنوں میں سرہانے کی طاق میں رکھوا دیا تھا تاکہ اگر بیر جدا تا کو ضعف ہو تو کھاپی لیوے۔ پھر کیا تھا آتے ہی بیرج داتا نے لالہ دیوث کے نام و ناموس کا شیشہ توڑ دیا اور وہ بدبخت عورت تمام رات اس سے منہ کالا کراتی رہی اور اس پلید نے جو شہرت کا مارا تھا نہایت قابل شرم اس سے حرکتیں کیں اور لالہ باہر کے دالان میں سوئے اور تمام رات اپنے کانوں سے بے حیائی کی باتیں سنتے رہے۔ بلکہ تختوں کی دراڑوں سے مشاہدہ بھی کرتے رہے۔ صبح وہ خبیث اچھی طرح لالہ کی ناک کاٹ کر کوٹھڑی سے باہر نکلا لالہ منتظر ہی تھے۔ دیکھ کراُ س کی طرف دوڑے اور بڑے ادب سے اس پلید بدمعاش کو کہا: سردار صاحب! رات کیا کیفیت گزری اوراس نے مسکرا کر مبارک باد دی اور اشاروں میںجتا دیا کہ حمل ٹھہر گیا۔ دیوث سن کر بہت خوش ہوئے۔ مجھے تواس دن سے آپ پر یقین ہو گیا تھا جب کہ میں نے مہاری لال کے گھر کی کیفیت سنی تھی۔ اور پھر کہا کہ وید حقیقت میں ودیا سے بھرا ہوا ہے ۔ کیا عمدہ تدبیر لکھی ہے جو خطا نہ گئی۔ مہر سنگھ نے کہا کہ ہاں لالہ صاحب سب سچ ہے کہ وید کی آگیا کبھی خطا بھی جاتی ہے۔ میں تو انہی باتوں کے خیال سے وید کو ست ودیاؤں کا پستک مانتا ہوں اور دراصل مہرسنگھ ایک شہوت پرست آدمی تھا۔ اس کو کسی وید شاستر اور شرتی سلوک کی پروا کی پروا نہ تھی۔ اور نہ ان پر کچھ اعتماد رکھتا تھا۔ اس نے صرف لالہ دیوث کی باتیں سن کر اس کے خوش کرنے کے لیے ہاں میں ہاں ملا دی لیکن اپنے دل میں بہت ہنسا کہ اس دیوث کی پتر لینے کے لیے کہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ پھر اس کے بعد مہر سنگھ تو رخصت ہوا اور لالہ گھر کی طرف خوش خوش آیا اور اسے یقین تھا کہ اس کی استری رام دئی بہت ہی خوش حالت میں ہوگی، کیونکہ مراد پوری ہوئی۔ لیکن اس نے اپنے گمان کے برخلاف اپنی عورت کو روتے پایا۔ اوراس کو دیکھ کر تو بہت روئی،یہاں تک کہ چیخیں نکل گئیں اور ہچکی آنی شروع ہو گئی۔ لالہ نے حیران سا
ہو کر اپنی عورت کو کہا: ’’ہے بھاگوان آج تو خوشی کادن ہے کہ دل کی مرادیں پوری ہوئیں اور بیج ٹھہر گیا ۔ پھر روتی کیوں ہے؟ وہ بولی میں کیوں نہ روؤں؟ تو نے سارے کنبے میں میری مٹی پلید کی اور اپنی ناک کاٹ ڈالی اور ساتھ ہی میری بھی۔ اس سے بہتر تھا کہ میں پہلے ہی مر جاتی۔ لالہ دیوث بولا کہ یہ سب کچھ ہوا مگر اب بچہ ہونے کی بھی کس قدر خوشی ہوگی۔ وہ خوشیاں بھی تو تو ہی کرے گی ۔ مگر رام دئی شاید کوئی نیک اصل کی تھی۔ اس نے ترت جواب دیا کہ حرام کے بچہ پر کوئی حرامی کا ہو تو خوشی مناوے۔ لالہ تیز ہو کر بولا کہ ہے ہے کیا کہہ دیا یہ تو ویدآگیا ہے۔ عورت کو یہ بات سن کر آگ لگ گئی ۔ بولی میں نہیں سمجھ سکتی کہ یہ کیسا ویدہے جو بدکاری سکھلاتا ہے اور زناکاری کی تعلیم دیتا ہے۔ یوں تو دنیا کے مذاہب ہزاروں باتوں میں اختلاف رکھتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں سنا کہ کسی مذہب نے وید کے سوا یہ تعلیم دی ہو کہ اپنی پاکدامن عورتوں کو دوسروں سے ہم بستر کراؤ۔ آخر مذہب پاکیزگی سکھانے کے لیے ہوتا ہے ، نہ کہ حرامکاری اور بدکاری میں ترقی دینے کے لیے ۔ جب رام دئی یہ سب باتیں کہہ چکی تو لالہ نے کہا کہ چپ رہو۔ اب جو ہوا سو ہوا۔ ایسا نہ ہو کہ شریک سنیں اور میرا ناک کاٹیں۔ رام دئی نے کہا: اے بے حیا ابھی تک تیرا ناک تیرے منہ پر باقی ہے۔ ساری رات تیرے شریک نے جو تیرا ہمسایہ اور تیرا پکا دشمن ہے ۔ تیری سہروں کی بیاہتا اور عزت کے خاندان والی سے تیرے ہی بستر پر چڑھ کر تیرے ہی گھر میں خرابی کی اور ہر ایک ناپاک حرکت کے وقت جتا بھی دیا کہ میں نے خوب بدلا لیا ۔ سو کیا اس بے غیرتی کے بعد تو جیتا ہے۔ کاش ! تواس سے پہلے مرا ہوتا۔ اب وہ شریک اور پھر دشمن باتیں بنانے اور ٹھٹھا کرنے سے کب باز رہے گا۔ بلکہ وہ تو کہہ گیا ہے کہ میں اس فتح عظیم کو چھپا نہیں سکتا کہ آج جو وساوامل کے مقابل پر مجھے حاصل وئی۔ میں ضرور رام دئی کا سارا نقشہ محلے پر ظاہر کروں گا۔ سو یاد رکھ کہ وہ ہر ایک مجلس میں تیرا ناک کاٹے گا اور ہر ایک لڑائی میں یہ قصہ تجھے جتائے گا اور اس سے کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعویٰ کرے کہ رام دئی میری ہی عورت ہے۔ کیونکہ وہ اشارۃًیہ کہہ بھی گیا ہے کہ آئندہ بھی میں تجھے کبھی نہ چھوڑوں گا۔ لالہ دیوث نے کہا کہ نکاح کا دعویٰ ثابت ہونا تو مشکل ہے البتہ یارانہ کا اظہار کرے تو کرے تاہماری اور بھی رسوائی ہو تو بہتر تویہ ہے کہ ہم دیش ہی چھوڑ دیں۔ بیٹا ہونے کا خیال تھا وہ تو ایشر نے دے ہی دیا ۔ بیٹے کا نام سن کر عورت زہر خندہ ہنسی اور کہا کہ تجھے کس طرح اور کیوں کر یقین ہو اکہ ضرور بیٹا ہوگا اوّل تو پیٹ ہونے میں ہی شک ہے اور پھر اگر ہو بھی تواس پر کوئی دلیل نہیں کہ لڑکا ہی ہوگا ۔ کیا بیٹاہونا کسی کے اختیار میں رکھا ہے ۔ کیا ممکن نہیں کہ حمل ہی خطا ہو جائے یا لڑکی پیدا ہو ۔ لالہ دیوث بولے کہ اگر حمل خطا گیا تو میں کہڑک سنگھ کو جو اسی محلہ میں رہتا ہے نیوگ کے لیے بلا لاؤں گا۔ عورت نہایت غصہ سے بولی کہ اگر کہڑک سنگھ بھی کچھ نہ کر سکا تو پھر کیا کرے گا۔ لالہ بولا کہ تو جانتی ہے کہ نرائن سنگھ بھی ان دونوں سے کم نہیں، اس کو بلالاؤں گا۔ پھر اگر ضرورت پڑی تو جمیل سنگھ، لہنگا سنگھ، بوڑ سنگھ ، جیون سنگھ ، دیال سنگھ سب اسی محلہ میں رہتے ہیں اور زور وقوت میں ایک دوسرے سے بڑھ کرہیں۔ میرے کہنے پر سب حاضر ہو سکتے ہیں۔ عورت بولی کہ اس سے بہتر تجھے صلاح دیتی ہوں کہ مجھے بازار میں ہی بٹھا دے تب دس بیس کیا ہزاروں لاکھوں آ سکتے ہیں۔ منہ کالا جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا مگر یاد رکھ کہ بیٹا ہونا پھر بھی اپنے بس میں نہیں۔ اور اگر ہوا بھی تو تجھے اس سے کیا جس کا نطفہ ہے وہ اسی کا ہوگا اور اسی کی خو بو لائے گا۔ کیونکہ درحقیقت وہ اسی کا بیٹا ہے۔ اس کے بعد رامدئی نے کچھ سوچ کر پھر رونا شروع کر دیا اور دور دور تک آواز گئی۔ آواز سن کر ایک پنڈت نہال چند نام دوڑا آیا اور آتے ہی کہا کہ لالہ سکھ تو ہے ۔ یہ کیسی رونے کی آواز آئی۔ لالہ ناک کٹا چاہتاتو نہیں تھا کہ نہال چند کے آگے قصہ بیان کرے مگراس خوف سے کہ رام دئی اس وقت غصہ میں ہے۔ اگر میں بیان نہ کروں تو وہ ضرور بیان کر دے گی ۔ کچھ کھسیانا سا ہو کر زبان دبا کر کہنے لگا کہ مہاراج آپ جانتے ہیں کہ وید میں وقت ضرورت نیوگ کے لیے آ گیا ہے۔ سو میں نے بہت دنوں سوچ کر رات کو نیوگ کرایا تھا ۔ مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے نیوگ کے لیے مہرسنگھ کو بلا لیا ۔ پیچھے معلوم ہوا کہ وہ میرے دشمن کرم سنگھ کا بیٹا اور نہایت شریر آدمی ہے۔ وہ مجھے اور میری استری کو ضرور خراب کرے گا اور وعدہ کر گیا ہے کہ میں یہ ساری کیفیت خوب شائع کروں گا۔ نہال چند بولا کہ بڑی غلطی ہوئی اور پھر بولا کہ و ساوامل تیری سمجھ پر نہایت ہی افسوس ہے ۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ نیوگ کے لیے پہلا حق برہمنوں کا ہے اور غالباً یہ بھی تجھ پر پوشیدہ نہیں ہوگا کہ اس محلہ کی تمام کھترانی عورتیں مجھ سے ہی نیوگ کراتی ہیں۔ اور میں دن رات اسی سیوا میں لگا ہوا ہوں۔ پھر اگر تجھے نیوگ کی ضرورت تھی تو مجھے بلا لیا ہوتا۔ سب کام سِدّہ ہو جاتا اور کوئی بات نہ نکلتی۔ اس محلہ میں اب تک تین ہزار کے قریب ہندو عورتوں نے نیوگ کرایا ہے مگر کیا کبھی کسی کا ذکر بھی سنا ۔ یہ پردہ کی باتیں ہیں۔ سب کچھ ہوتا ہے پھر ذکر نہیں کیا جاتا۔ لیکن مہر سنگھ توا یسانہیں کرے گا۔ ذرہ دو چار گھنٹوں تک دیکھنا کہ سارے شہر میں رام دئی کے نیوگ کا شور وغوغا ہوگا۔ لالہ دیوث بولاکہ مجھ سے سخت غلطی ہوئی۔ اب کیا کروں۔ اس وقت شریر پنڈت نے جو بباعث نہ ہونے رسم پردہ کے رام دئی کو دیکھ چکا تھا کہ جوان اور خوش شکل ہے۔ نہایت بے حیائی کا جواب دیا کہ اگر اسی وقت رام دئی مجھ سے نیوگ کرے تو میں ذمہ دار ہوتا ہوں کہ مہرسنگھ کے فتنہ کو میں سنبھال لوں گا۔ پہلا حمل تو ایک شکی بات ہے اب بہرحال یقینی ہو جائے گا۔ تب وساوامل دیوث تواس بات پر بھی راضی ہو گیا۔ مگر رام دئی نے سنکر سخت گالیاں اس کو نکالیں۔ تب وساوامل نے پنڈت کو کہا کہ مہاراج اس کا یہی حال ہے ہرگز نیوگ کرنا نہیں چاہتی۔ پہلے بھی مشکل سے کرایا تھا جس کو یاد کرکے اب تک رورہی ہے کہ میرا منہ کالا کیا۔ اسی سے تو اس نے چیخیں ماری تھیں۔ جس کو آپ سن کر دوڑے آئے ۔ تب وہ شہوت پرست پنڈت وساوامل کی یہ بات سن کر رام دئی کی طرف متوجہ ہوا اور کہا نہیں بھاگوان نیوگ کو برا نہیں ماننا چاہیے۔ یہ وید آگیا ہے۔ مسلمان بھی تو عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اور وہ عورتیں دوسرے سے نکاح کر لیتی ہیں۔ سو جیسے طلاق جیسے نیوگ۔ ایک ہی بات ہے۔ اگر کوئی مسلمان نیوگ کا طعنہ دے تو تم طلاق کا طعنہ دے دیا کرو ۔ مگر نیوگ سے انکار مت کرو کہ اس میں کچھ بھی دوش نہیں۔ بے شک مزہ سے نیوگ کرو۔ اگر ہم سے ناراض ہو تو خیر کسی اور سے ، ایک سے نہیں تو دوسرے سے، دوسرے سے نہیں تو تیسرے سے۔آخر ضرور مطلب حاصل ہوگا۔تمھاری پڑوسن بردئی نے پندرہ برس تک مجھ سے ہی نیوگ کرایا تھا۔ ایشر کی کرپا سے دش پتر ہوئے، جو اب تک زندہ موجود ہیں۔ اور ایک مدرسہ میں پڑھتا ہے۔اب تک رلیا رام ہر دئی کا شوہر ہمارا احسان مند ہے اور بہت کچھ سیوا کرتا ہے۔ اور ہمارا گن گاتا ہے کہ تم نے ہی مجھے پتر دیے ۔ تم بھی اگر چاہو تو ہم حاضر ہیں۔ اور تمھاری ابھی وستھا کیا ہے؟ تیرا چودہ سال کی عمر ہوگی۔ برابر نیوگ کراتی رہو ۔ ہاں یہ مشورہ ضرور دیتا ہوں کہ برہمن کا بیج چاہیے، موتی جیسے پتر ہوں گے اور کیا چاہتی ہو؟‘‘(آریہ دھرم صفحہ 35-31 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 35-31)
محترم قارئین! یہ فحش قصہ درج کرتے وقت مرزا قادیانی نے حاشیہ میں لکھا کہ ’’یہ قصہ جو ہم نے لکھا ہے فرضی نہیں مگر ہم نہیں چاہتے کہ کسی کی پردہ دری کریں۔ اس لیے ہم نے ناموں کو کسی قدر بدلا کر لکھ دیا۔ جب کہ اس فحش قصہ کے جھوٹ کا پول فقط اس بات سے ہی کھل جاتا ہے کہ لا لہ وساوامل کو اپنے ہمسائے اور دشمن کے بیٹے مہر سنگھ کے بارے میں بھی پتا نہ چل سکا کہ یہ کیسی فریب کاری اور دھوکا دہی ہے۔
محترم قارئین ! یہ تو تھے مرزا قادیانی کذاب کے قلمی نمونے جن کی بنا پر قادیانی گروہ اس دجال و کذاب کو سلطان القلم کہتا اور لکھتا ہے۔ اب ذرا ایک اور طرز سے اس کذاب کے قلمی نمونے کو بھی ملاحظہ کیجیے۔
مرزا قادیانی اپنی کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم ص 356 مندرجہ روحانی خزائن ج 3 ص 456پر رقم طراز ہے کہ
’’لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں۔ مومن لعان نہیں ہوتا۔‘‘
اس کے برعکس ہم مرزا قادیانی کے اپنے عمل کو دیکھتے ہیں تو کسی پر دس ہزار بار لعنت کرتا ہے تو کسی پرایک ہزار بار۔ اب دیکھیے کہ معمولی شعور کا حامل شخص بھی کسی پر ایک ہزار بار لعنت کرناچاہے تویہی کہے گا کہ تم پر ایک ہزار بار لعنت۔ جبکہ قادیانی سلطان القلم کا کردار اس کے برعکس ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’پس ان پر خدا کی طرف سے ہزار بار لعنت ہے۔ پس چاہئے کہ تمام قوم کہے آمین ۔۔۔۔۔-1لعنت ، -2لعنت ،-3لعنت ۔۔۔۔۔999لعنت ،1000 لعنت۔‘‘(نور الحق ص 122-118 مندرجہ روحانی خزائن ج 8 ص 162-158)
پس ثابت ہوا کہ مرزا اپنے دعوے کے مطابق نہ مومن تھا اور نہ ہی صادق۔
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اسمہ احمد کے مصداق ہونے کا دعویٰ:
محترم قارئین!نبی آخرالزماںجناب محمدرسول اللہﷺکے متعلق سابقہ کتب سماویہ میں پیشگوئیاںموجودہیںاورانہی پیشگوئیوںمیں سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کاایک قول قرآن مقدس میں منقول ہے چنانچہ اللہ ربّ العزت فرماتا ہے :
اِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَـیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہ‘ اَحْمَدُ ط فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (الصف6)
ترجمہ: اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا : اے (میری قوم) بنی اسرائیل ! میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں۔ اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمھیں خوشخبری سناتا ہوں جس کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ اس کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا
جادو ہے۔
اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احمد کے لقب سے پکارا گیا ہے، جس کا مفہوم ہے : بہت زیادہ تعریف کرنے والا اور اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی شک نہیں کہ اﷲ رب العزت کی حمد وثناء سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہی بیان فرمائی ہے۔ اور نبی کریم علیہ السلام ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبوت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس قادیانی کذاب و دجال اوراس کی ذریت اس آیت کو مرزا قادیانی پر چسپاں کرتی ہے۔ چنانچہ مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ:
’’میرے رب نے میرا نام احمد رکھا ہے ۔ پس میری تعریف کرو اور مجھے دشنام مت دو اوراپنے امر کو ناامیدی کے درجے تک مت پہنچاؤ اور جس نے میری تعریف کی اور کوئی قسم کی تعریف نہ چھوٹی تواس نے سچ بولا اور جھوٹ کا ارتکاب نہ کیاا ور جس نے اس بیان کو جھٹلایاپس اس نے جھوٹ بولا او ر اپنے خدا کے غصے کو بھڑکایا ہے۔‘‘(خطبہ الہامیہ صفحہ 20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 16، صفحہ 53)
محترم قارئین ! یہ تو تھے قادیانی کذاب کے الفاظ ، آئیے اب قادیانی ذریت میں مرزا قادیانی کے بڑے بیٹے میاں بشیر الدین محمود کی تحریر بھی ملاحظہ ہو۔یہاں میاں بشیر الدین محمود خلیفہ دوم قادیان رقم طراز ہے کہ:
’’ اب یہاں سوال ہوتاہے کہ وہ کون سا رسول ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آیااس کا نام احمد ہے۔ میرا اپنا دعویٰ ہے اور میں نے یہ دعویٰ یوں ہی نہیں کر دیا بلکہ حضرت مسیح موعود کی کتابوں میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح اول (حکیم نور الدین) نے بھی یہ ہی فرمایا ہے کہ مرزا صاحب احمد ہیں۔ چنانچہ ان کے درسوں کے نوٹوں میں یہی چھپا ہوا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اس آیت (اسمہ احمد) کے مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں۔‘‘(انوار خلافت صفحہ 21 مندرجہ انوار العلوم جلد3 صفحہ 85)
مذیدلکھتاہے کہ
’’پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کیا یہ سورہ صف کی آیت جس میں ایک رسول کی ، جس کا نام احمد ہوگا، بشارت دی گئی ہے ۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق ہے یا حضرت مسیح موعود کے متلق۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت (اسمہ احمد) مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں۔ لیکن ان کے خلاف کہا جا تا ہے کہ احمد نام رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہے اور آپ کے سوا کسی اور کو احمد کہنا آپ کی ہتک ہے لیکن میںجہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے کہ اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے حضرت مسیح موعود کے متعلق ہی ہے۔‘‘(انوار خلافت صفحہ 18مندرجہ انوار العلوم جلد3 صفحہ 82)
محترم قارئین کرام ! قادیانی کذاب کا دوسرا بیٹا مرزا بشیراحمد جسے قادیانی قمر الانبیاء کے لقب سے پکارتے ہیں رقم طراز ہے:
’’ سورہ صف میں جس احمد رسول کے متعلق عیسیٰ علیہ السلام نے پیش گوئی کی ہے وہ احمد مسیح موعود (مرزا قادیانی) ہی ہے جس کی بعثت حسب وعدہ الٰہی {وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُم}خود نبی کریم کی بعثت ہے۔‘‘(کلمۃ الفصل، صفحہ 141 اور مرزا بشیر احمد ابن مرزاقادیانی)
محترم قارئین ! آپ نے مرزا قادیانی اوراس کی ذریت کی مندرجہ بالا عبارتیں ملاحظہ فرما لیں کہ کس طرح انھوں نے قرآن مقدس کی آیت کو مرزا قادیانی پر فٹ کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی اپنے نام کے بارے میں ایک جگہ پر لکھتا ہے:
’’ چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کہ کیا اس حدیث کا جو الایات بعد المأتین ہے ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرہویں صدی کے پورے ہونے پرظاہر ہونے والا تھا پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور یہ نام ہے غلام احمد قادیانی ۔ اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں اوراس قصبہ قادیانی میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 186، 185 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 189,190)
محترم قارئین ! آپ نے قادیانی کذاب کی تحریر ملاحظہ کر لی کہ اس کے مطابق اس کا نام غلام احمد قادیانی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس اس آیت مقدسہ میں جس رسول کی بشارت دی گئی ہے ا سکا نام احمد رکھا گیا ہے اور کسی طرح یہ ڈھٹائی کے ساتھ اس آیت کو اپنے اوپر چسپاں کر رہا ہے۔ اگر مرزا قادیانی کے اس اصول کو قبول کر لیا جائے تو پھر کوئی غلام اﷲ نامی شخص بھی کھڑا ہو کر یہ کہہ سکتا ہے کہ قرآن مقدس میں جہاں پر لفظ اﷲ استعمال ہوا ہے اس سے مراد وہ ہے ۔ پھر وہی شخض اگر یہ کہہ دے کہ میں اﷲ ہوں اور میں نے اس خبیث قادیانی کو کب نبی بناکر بھیجا ہے تو پھر قادیانی ذریت کیا جواب دے گی؟ آجا کر اس پر کفر کا فتویٰ ہی صادر کر ے گی کہ وہ دعویٰ الوہیت کرکے کافر ہو گیا۔ اگر وہ دوبارہ کلمہ پڑھ کر اپنے دعویٰ سے تائب ہو کر مسلمان ہو جائے تو کیا قادیانی اوراس کے پیروکار بھی مسلمان ہو جائیں گے۔؟
قارئین کرام! مرزاقادیانی نے فقط ایک آیت ہی اپنی طرف منسوب نہیں کہ بلکہ اور بھی کئی ایسی آیات ہیں جو فقط نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خاص ہیں۔ لیکن مرزا قادیانی نے انھیں اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک آیات یہاں پر درج کی جاتی ہیں تاکہ قادیانی کذاب کا دجل و فریب واضح ہو سکے۔

-1 اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر O فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر ْO اِنَّ شَاْنئَِکَ ھُوَ الْاَبْتَرo (تذکرہ طبع چہارم صفحہ 235 از مرزا قادیانی)
-2 وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (تذکرہ طبع چہارم صفحہ 236 از مرزا قادیانی)
-3 ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (تذکرہ طبع چہارم صفحہ 238 از مرزا قادیانی)
-4 سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً (تذکرہ طبع چہارم صفحہ 543,63 )
-5 وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (تذکرہ طبع چہارم صفحہ321 )
-6 ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی (تذکرہ طبع چہارم صفحہ321 ،542)
-7 قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (تذکرہ طبع چہارم صفحہ292 ،اشتہار معیار الاخیار، مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ390 طبع چہارم)
-8 قُلْ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (بحوالہ تذکرہ طبع چہارم صفحہ 292 ، مجموعہ اشتہارات جلددوم، صفحہ390 طبع چہارم)
-9 وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ( تذکرہ صفحہ 547،طبع چہارم)
-10 یٰـاَیُّھَا الْمُدَّثِّرْ Oقُمْ فَاَنْذِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ ( تذکرہ صفحہ 39 ،طبع چہارم)

محترم قارئین کرام ! یہ تھیں وہ چند آیات مبارکہ جو فقط نبی آخر الزمان جناب محمدرسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے خاص ہیں، جنھیں قادیانی دجال اپنی طرف منسوب کر رہا ہے۔
تمام انبیاء کا مجموعہ ہونے کا دعویٰ:۔
محترم قارئین!مرزاقادیانی ’’تمام انبیاء کامجموعہ‘‘ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’خدا تعالیٰ نے مجھے انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کیے ہیں ۔میںآدم ہوں، میںشیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے نام کا میں مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمدا وراحمد ہوں۔(حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ73 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 76)

دعویٰ الوہیت:
محترم قارئین! قادیانی کذاب نے بے شمار دعوے کیے ہیں جن میں حجر اسود، قرآن کی مانند، اور خاتم الانبیاء ہونے کے ساتھ ساتھ خاتم الاولیاء ہونے کا دعویٰ بھی کیاہے اور ان سب سے بڑھ کر دعویٰ الوہیت بھی کیا ہے۔چنانچہ مرزا قادیانی دعویٰ الوہیت کرتے ہوئے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں رقم طراز ہے :
’’ورایتنی فی المنام عین اللہ و تیقنت اننی ھو‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص 564 ،مندرجہ روحانی خزائن ج 5ص564)

ترجمہ: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں ، میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔
’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کر لیا کہ وہی ہوں۔۔۔۔۔۔اور اسی حالت میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب وتفریق نہ تھی ۔ پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب وتفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا اور کہا: اِنَّا زَیِّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بمصَابِیْحَ۔ پھر میں نے کہا:ہم اب انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کریں گے۔(کتاب البریہ ص 87-85 مندرجہ روحانی خزائن ج 3ص 105-103)

محترم قارئین! اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں سورہ یس کے آخرمیں فرماتے ہیں کہ: اِنَّمَا اَمْرُہ‘ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَـــہ‘ کُنْ فَیَکُوْنَ وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہو جاتی ہے۔
اس آیت مبارکہ میں رب کائنات نہ صرف اپنی عظمت وشان کا ذکر کیا ہے بلکہ اپنی ایک صفت کا بھی اظہار فرمایا ہے ۔ اس آیت میں تحریف کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے کہا ہے کہ مجھ پر بھی اﷲ تعالیٰ کی وحی نازل ہوئی ہے کہ: اِنَّمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَـــہ‘ کُنْ فَیَکُوْنَ توجس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے۔(حقیقۃ الوحی صفحہ 108، مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 108 )
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
محترم قارئین!قادیانی کذاب کی اس خود ساختہ صفت کی حقیقت اس کے ان دعووں اور پیش گوئیوں سے ہی ظاہر ہو جاتی ہے۔ جن کے پورا ہونے کی حسرت لیے ہی یہ کذاب واصل جہنم ہوا۔ آئیے ان میں سے چند ایک نمونے کے طور پر ملاحظہ کیجیے۔
٭ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃاللہ علیہ جو ابتدا میں مرزا قادیانی کے دوستوں میں سے تھے ، جب اس کے یہ بدعقائد سامنے آئے توا نھوں نے نہ صرف ہر محاذ پر اس کذاب کا پیچھا کیا بلکہ سب سے پہلے اس کے خلاف فتویٰ تکفیر لکھ کر جماعت اہل حدیث کے سرخیل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ سے دستخط کروانے کے بعد سارے برصغیر سے تمام مکاتب فکر کے 200سے زائد علماء کے دستخط کروا کے مشتہرکیا ۔ انہی مولانا بٹالوی رحمۃ اﷲعلیہ کے بارے میں مرزا قادیانی رقم طراز ہے کہ
’’شیخ محمدحسین بٹالوی۔۔۔۔۔کی نسبت تین مرتبہ مجھے معلوم ہو اکہ وہ اپنی اس حالت پر ضلالت سے رجوع کرے گا اور پھر خدا اس کی آنکھیں کھولے گا: وَاﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ‘‘(سراج منیر صفحہ 78، روحانی خزائن جلد 12، صفحہ 80مندرجہ تذکرہ صفحہ 247طبع چہارم)
٭ محمدی بیگم سے نکاح کے بارے میں مرزا قادیانی کی کوششوں کا جائزہ لیں تو مرزا اﷲ تعالیٰ پر افتراء کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
’’خدا تعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر اس عاجزپر ظاہر فرمایا ہے کہ مرزااحمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہشیار پوری کی دختر کلاں (محمدی بیگم) انجام کار تیرے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو لیکن آخرکار ایسا ہی ہوگا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمھاری طرف لائے گا، باکرہ ہونے کی حالت میںیا بیوہ کرکے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھاوے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا، کوئی نہیں جواس کو روک سکے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 396 روحانی خزائن جلد 3صفحہ 305)
٭ مرزا قادیانی اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ ص 34مندرجہ روحانی خزائن ج 15 ص 201 پر رقم طراز ہے:’’ تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گزر ا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنۃ کے مکان پرجانے کا اتفاق ہوا، اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج کل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا تھا اور وہ یہ ہے کہ: بِکْرٌ وَّثَـیِّبٌ جس کے یہ معنی ہیں کہ ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کیے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا ، ایک بکر ہوگی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بکر کے متعلق تھا پورا ہو گیا اور اس وقت بفضلہ تعالیٰ چار پسر (بیٹے) اس بیوی سے موجود ہیں اور بیوہ کے الہام کا انتظار ہے۔‘‘(تذکرہ صفحہ 31طبع چہارم)
٭ ’’20فروری 1884کے اشتہار میں یہ پیش گوئی خدائے تعالیٰ کی طرف سے بیان کی کہ اس نے مجھے بشارت دی تھی کہ بعض عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اور ان سے اولاد پیدا ہوگی۔‘‘(روحانی خزائن، جلد 2 صفحہ 318، طبع چہارم اشتہار محک خیار واشرار)
محترم قارئین! مرزا قادیانی کی کن فیکون کی صفت کا حال فقط ان چند باتوں سے ظاہر ہو گیا کہ نہ تو مولانا بٹالوی رحمۃ اﷲ علیہ قادیانی ہوئے بلکہ انھوں نے ساری زندگی قادیانیوں کو ناکوں چنے چبوائے ۔ اسی طرح نہ ہی محمدی بیگم سے مرزا کا نکاح ہوا اور نہ ہی وہ مرزا کی زندگی میں بیوہ ہوئی اور اس پیش گوئی کے بعد نہ کسی بیوہ عورت سے شادی ہوئی ، نہ کنواری سے بلکہ مرزا یہ حسرت دل میں لیے ہی واصل جہنم ہو گیا۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارُ
مرزا قادیانی ایک اورمقام پر لکھتا ہے کہ:
’’اعطیت صفت الافناء والاحیاء من الرب الفعال‘‘
’’مجھ (مرز اقادیانی) کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے اور یہ صفت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو ملی ہے۔‘‘(خطبہ الہامیہ صفحہ 56,55 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 56,55)
محترم قارئین ! قادیانی دجال اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں نشان نمبر104کے تحت لکھتا ہے:
’’ایک دفعہ میرا چھوٹا لڑکا مبارک احمد بیمار ہو گیا۔ غشی پر غشی پڑتی تھی اور میں اس کے قریب مکان میں دعا میں مشغول تھا اور کئی عورتیں اس کے پاس بیٹھی تھیں کہ یک دفعہ ایک عورت نے پکار کرکہا کہ اب بس کرو کیونکہ لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ تب میں اس کے پاس آیا اور اس کے بدن پر ہاتھ رکھا اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی تو دو تین منٹ کے بعد لڑکے کو سانس آنا شروع ہو گیا اور نبض بھی محسوس ہوئی اور لڑکا زندہ ہو گیا۔تب مجھے خیال آیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا احیائے موتیٰ بھی اسی قسم کا تھا اور پھرنا دانوں نے اس پر حاشیے چڑھادیے۔‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ 253 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 265)
محترم قارئین ! ایک طرف یہ قادیانی کذاب و دجال ہے جو زندہ کرنے اور مارنے کا دعوے دار ہے تو دوسری طرف اﷲ رب العزت قرآن مقدس میں فرماتا ہے:
ھُوَ الَّذِیْ یُحْیٖی وَیُمِیْتُ فَاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ(المومن68) ’’وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور پھر جب وہ کسی کام کا کرنا مقرر کر تا ہے تواسے صرف یہ کہتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے۔
اورایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے:
وَلَمْ یَکُنْ لَّہ‘ کُفْوًا اَحَدٌ (الاخلاص: 4) ’’اور اس کا کوئی بھی ہم سر(پارٹنر) نہیں ہے۔
جب کہ اس کے برعکس مرزا قادیانی جو صفات فقط رب کائنات کے لیے خاص ہیں انھیں اپنے آپ میں شامل کردعویٰ الوہیت کر رہا ہے ۔ کیا اب بھی اس کے کافر ہونے میں کوئی شک کیا جا سکتا ہے؟
عرض کرنے لگے تواس کو جھڑک دیتے ہیں۔ اور طرفہ یہ کہ عمر جوان اور شراب پینے کی عادت اور پھر مجرد۔ اور ایک خوب صورت کسبی عورت سامنے پڑی ہے۔ جس کے ساتھ جسم لگا رہی ہے۔ کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے۔ اور اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی۔ افسوس کہ یسوع کو یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کر لیتا۔ کم بخت زانیہ کے چھونے سے اور نازواداکرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور شہوت کے جوش نے پورے طور پر کام کیا ہوگا۔ اسی وجہ سے یسوع کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ اے حرام کار عورت! مجھ سے دو ررہ۔ا ور یہ بات انجیل سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ عورت طوائف میں سے تھی اور زناکاری میں سارے شہر میں مشہور تھی۔‘‘(نور القرآن صفحہ 74، مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 449)
محترم قارئین! ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس انداز سے توہین ہے تو دوسری طرف معجزات مسیح سے بھی مکمل طور پرانکار کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف انکار کیا جارہا ہے بلکہ وہ معجزات جو قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام کے بیا ن کیے گئے ان معجزات کو مسمریزم قرار دے کر قرآن مقدس کی بھی توہین کاارتکاب کیا ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی دجال لکھتا ہے کہ:
٭ ’ ’آپ کے ہاتھوں سوائے مکر وفریب کے اور کچھ نہ تھا۔‘‘(انجام آتھم صفحہ 7 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 291)
٭ ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیںہوا۔ اوراس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا۔ اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔‘‘(حاشیہ انجام آتھم صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 230)
محترم قارئین !اﷲ رب العزت قرآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کاذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

اِذْ قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیِْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرِّبِیْنَO وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا وَّ مِنَ الصَّالِحِیْنَ O قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ اِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُo وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ O وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اِنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاَیَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ اِنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَأْکُلُوْنَ وَمَا تَدِّخُرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتمْ مُؤْمِنِیْنَ

ترجمہ: جب فرشتوں نے کہا:اے مریم ! اﷲ تعالیٰ تجھے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح ابن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے اور وہ میرے مقربین میں سے ہے اور وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور بڑھاپے میں بھی اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا۔ کہنے لگیں : الٰہی!مجھے لڑکا کیسے ہوگا، حالانکہ مجھے توکسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا فرشتے نے کہا: اسی طرح ہوگااﷲ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب کبھی کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتاہے کہ ہو جاؤ تو وہ ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اسے لکھنا حکمت تورات اورانجیل سکھلائے گا اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا۔کہ میں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانیاں لایا ہوں۔ میں تمھارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اوراپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں بتا دیتا ہوں۔ اس میںتمھارے لیے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایماندار ہو۔ (سورہ آل عمران :49-45)
ان آیات مبارکہ میں درج ذیل باتیں بیان ہوئی ہیں:
-i جناب مریم علیہا السلام پاک دامن اور عفت مآب تھیں ، انھیں کسی بھی مرد نے نہیں چھوا تھا۔
-ii عیسیٰ علیہ السلام نے بچپن میں ہی ماں کی گود میں گفتگو کی اور اسی طرح قیامت کے قریب دوبارہ نازل ہونے کے بعد بڑھاپے میں بھی گفتگو کریں گے۔
-iii عیسیٰ علیہ السلام صالح اور نیک لوگوں میں سے تھے۔
-iv عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے لکھنا سکھلایا اور توراۃ و انجیل کا علم دیا۔
-v مٹی کا پرندہ بنا کر پھونک مار کر حقیقی پرندہ بن جانا، مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، خوراک اور گھروں میں ذخیرہ شدہ چیزوں کا بتانا یہ سب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے ہیں اور یہ ساری چیزیں اﷲ رب العزت کے حکم سے رونما ہوئیں۔
محترم قارئین ! ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر مرزا قادیانی کی درج ذیل تحریروں کا مطالعہ کریں کہ کس طرح اس کذاب نے قرآن مقدس کی واضح اور بین آیات کا انکار کیا ہے۔
٭ ’’سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کاکام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے۔ اور جیسے انسان میں قویٰ موجود ہوں انہی کے موافق اعجاز کے طور پربھی مدد ملتی ہے۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 155,154مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 254,255)
٭ ’’یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر انھیں سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا۔ نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہو گیا تھا۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 322 مندرجہ روحانی خزائن جلد3 حاشیہ صفحہ 263)
٭ ’’ ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل الترب یعنی مسمریزی طریق سے بطور لہو ولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آ سکیں کیونکہ عمل الترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں، ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ155,156مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 256,255)
٭ ’’مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں ۔ اگریہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ 158، مندرجہ روحانی خزائن جلد3 صفحہ 258)
٭ ’’آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی ۔ ادنیٰ ادنیٰ بات پر غصہ میں آجاتا تھا اور اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں کیونکہ آپ توگالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘ ( انجام آتھم حاشیہ صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 289)
٭ ’’نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔ ‘‘(حاشیہ انجام آتھم مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 290)
٭ ’’مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا: ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( مرزا قادیانی ) کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی اﷲ تعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے اس پر حضور علیہ السلام (مرزا قادیانی) نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت توڑنے کے لیے ماں کا ذکر کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں ’’بھرجائی کانیے تینوں سلام آکھناواں‘‘ جس سے مقصود کانا ثابت کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلام کہنا ۔ اسی طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیت ہے نہ کہ مریم کی صدیقیت کا اظہار‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول، صفحہ 732 روایت 801)
٭ ’’ یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں ۔ یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں ۔ یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھیں ۔‘‘ (کشی نوح صفحہ 20، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
٭ ’’پانچواں قرینہ ان کے وہ رسوم ہیں جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں۔ مثلاً ان کے بعض قبائل ناطہ اور نکاح میں کچھ چنداں فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلا تکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں۔ حضرت مریم کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے مگر خوانین سرحدی کے بعض قبائل میں مماثلت عورتوں کی اپنے منسوبوں سے حد سے زیادہ ہوتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے بھی حمل ہو جاتا ہے جس کو برا نہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات کو ٹال دیتے ہیں کیونکہ یہود کی طرح یہ لوگ ناطہ کو ایک قسم کا نکاح ہی جانتے ہیںجس میں پہلے مہر بھی مقرر ہو جاتا ہے ۔‘‘ (ایام الصلح صفحہ 74، مندرجہ روحانی خزائن جلد 14، صفحہ 300)
٭ ’’مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیا تاکہ وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو اور تمام عمر خاوند نہ کرے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایاں ہو گیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام کے ایک نجار سے نکاح کر دیا اوراس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا، وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا ۔‘‘ (چشمہ مسیحی صفحہ 24، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20، صفحہ356,355)
٭ ’’اور مریم کی وہ شان ہے کہ جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا ، پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا ، گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں کیوں کر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیادڈالی گئی ۔ یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میںآوے ۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے ،نہ قابل اعتراض۔‘‘ (کشتی نوح صفحہ 20، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18)
محترم قارئین! آپ نے قرآن مقدس کی آیات کے تناظر میں قادیانی دجال کی ان تحریروں کو مطالعہ کر لیا جب قادیانی ذریت کے سامنے مرز ا قادیانی کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی گستاخی پر مبنی یہ تحریر یں پیش کی جاتی ہیں تو جواب ملتا ہے کہ اس دور میں عیسائی نبی کریم علیہ السلام کے خلاف الزامات لگاتے تھے اور انہی کی انجیل کی عبارتوں کی مرزا صاحب نے تشریح کی ہے اور یہ الزامی جواب ہے جس کے بارے میں مرزا قادیانی خود لکھتا ہے:
’’ ہمارے قلم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو کچھ خلاف شان ان کے نکلا ہے ، وہ الزامی جواب کے رنگ میں اور وہ دراصل یہودیوں کے الفاظ ہم نے نقل کیے ہیں۔‘‘ (چشمہ مسیحی صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 326)
محترم قارئین ! یہی اصول اپنا کر جب عیسائیوں نے نبی کریم علیہ السلام کی گستاخی کی تو مرزا قادیانی نے ان کے اس انداز کو بدطریق قرار دیا، لیکن خوداس بدطریق پر عمل کیا۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’جس طرح یہود محض تعصب سے حضرت عیسیٰ اور ان کی انجیل پرحملے کرتے ہیں ، اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کرتے ہیں عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اس بدطریق میں یہودیوں کی پیروی کرتے۔‘‘ (چشمہ مسیحی صفحہ 4، مندرجہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 337)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top