دوسرا وہم
مرزائی دوسرا وہم یہ پیش کرتے ہیں کہ بعض دوسروں نے بھی جہاد کے بارے میں یا انگریز سے جنگ نہ کرنے کے بارے میں یوں کہا…
۱… اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ کسی کا انفرادی قول ہوسکتا ہے۔ مستقل کسی مسلمان فرقے نے یہ فیصلہ نہیں کیا۔
۲… دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی نے ’’الا ان تتقوا منہم تقٰۃ‘‘ کے تحت صرف اپنے بچاؤ کے لئے کیا ہے تو اس کی حیثیت اور ہے اور مرزاجی نے بحوالہ عبارت نمبر۱۰ صاف صاف نہیں لکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جہاد میں بڑی شدت تھی۔ سرورعالم ﷺ نے اس میں بہت سی نرمی کی، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے قتل سے روک دیا اور مسیح (یعنی مرزاجی) کے وقت بالکل ہی موقوف ہوگیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرزاجی انگریز کے لئے اسلام کا مسئلہ جہاد بالکل ختم کرنا چاہتے تھے۔ جو فرض ہے کبھی تو فرض عین اور کبھی فرض کفایہ۔
۳… مرزاقادیانی نے انگریزی نبی بن کر فتویٰ دیا۔ نبوت کے نام سے بلکہ عیسیٰ ابن مریم کے نام سے مسلمانوں کو دھوکہ دینے والے کو دوسروں پر قیاس کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟
۴… بعض فتوے جو انگریز سے جہاد کرنے کے خلاف ہیں وہ کوئی اتھارٹی نہیں ہیں۔ ان کی مثال مرزاقادیانی اور چوہدری ظفر اﷲ ہیں۔
۵… پھر فتویٰ دینے والوں نے صرف مسلط حکومت کے بارے میں فتویٰ دیا ہے۔ جہاد کو حرام یا موقوف نہیں کیا۔ (ان میں بڑا فرق ہے)