اسدعلی(سابقہ قادیانی)
رکن ختم نبوت فورم
رسول اکرمﷺ کے طریقے کے برعکس کوئی عمل قبول نہیں
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ (محمد :۳۳)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کر لو۔‘‘
درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں اپنے پیغمبر کی اتباع اور فرمانبرداری کا حکم بھی دیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اپنے اعمال کو باطل نہ کرو، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت نہ کرنا ، اپنے اعمال کو باطل کر لینا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تین آدمی آپ کی عبادت کا حال پوچھنے آئے، جب ان سے بیان کیا گیا تو انہوں نے اپنی عبادت بہت کم خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی برابری کس طرح کرسکتے ہیں، آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ سب معاف ہو گئے ہیں، ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، تیسرے نے کہا میں نکاح نہیں کروں گا اور عورت سے ہمیشہ الگ رہوں گا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم لوگوں نے یوں یوں کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری بہ نسبت بہت زیادہ ڈرنے والا اور خوف کھانے والا ہوں، میں روزہ رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور ساتھ ساتھ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یاد رکھو
فمن رغب عن سنتی فلیس منی
جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔(بخاری، کتاب النکاح)
یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ نیک عمل بھی وہی مقبول ہو گا جو نبی کرمﷺ کے طریقے کے مطابق اور آپﷺ سے ثابت شدہ ہو، اپنی طرف سے کوئی بھی عمل مشروع کر کے اسے ثواب کا باعث قرار دینا، فی الحقیقت سنت رسولﷺ سے اعراض کے زمرے میں آتا ہے جیسا کہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد کی محفلیں قائم کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ثواب کا کام اور رسول اللہﷺ سے محبت کا ثبوت ہے۔
جس طرح نبی کریمﷺ نے مذکورہ حدیث میں تین آدمیوں کے عمل کو رد کر دیا تھا کیونکہ ان کا یہ عمل رسول اکرمﷺ کے طریقہ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، حالانکہ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور عبادت میں ہی مگن رہنا بظاہر خود نیک عمل ہے لیکن نبی کریمﷺ کے طریقہ کار کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس نیک کام کو بھی آپﷺ نے سنت سے متصادم قرار دیا اور انہیں سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ میری سنت سے بے رغبتی ہے لہٰذا جو میری سنت سے اعراض کرے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، بالکل اسی طرح کوئی بھی ایسی عبادت یا ثواب کا کام جس کی کوئی نظیر آپﷺ کی زندگی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرزِ حیات اور تابعینِ عظام رحمہم اللہ کے دور میں کوئی نمونہ تک نہ ہو اسے عبادت یا ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے تو اس کا حکم بھی ایک طرح سے سنتِ رسولﷺ سے بے رغبتی کے زمرے میں آتا ہے اگرچہ وہ اپنے گمان میں ایک نہایت مقدس عبادت سمجھتا رہے، لیکن اس شخص کے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
رسول اکرمﷺ کے طریقے کے برعکس کوئی عمل قبول نہیں
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا
کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟وہ ہیں کہ جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بےکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ (الکہف102-103)