رفع ونزولِ عيسى ابن مريم عليهما السلام اور اجماع امت
(کینیڈا میں مقیم قادیانی مربی انصر رضا کی تلبیسات کا رد)
ترتيب وتحقيق: حافظ عبيد اللهh.ubaid153@gmail.com
بسم الله الرحمن الرحيم
چند احباب نے انٹرنیٹ پر موجود ایک قادیانی بلاگ پر لکھی گئی کینیڈا میں مقیم قادیانی مربی انصر رضا کی ایک تحریر کی طرف توجہ دلائی اور استفسار کیا کہ کیا اس میں بیان کردہ باتیں اور حوالہ جات درست ہیں؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ انصر رضا نے اس مضمون میں جن علماء امت کا ذکر کیا ہے وہ تمام اس بات کے قائل تھے کہ "حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام" زندہ نہیں اور قیامت سے قبل ان کا نزول نہیں ہونا ؟؟ چنانچہ بندے نے انصر رضا کے اس مضمون کا مطالعه کیا اور اس میں دیے گئے حوالہ جات کا اصل کتب و مصادر سے جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ انصر رضا نے اسی دھوکے اور فریب کا مظاہرہ کیا ہے جو قادیانی مربیوں کا خاصہ ہے، جب بھی قادیانی مربیوں کے سامنے ان کی کتب سے کوئی حوالہ پیش کیا جاتا ہے تو اس سے جان چھڑانے کے لیے ان کا پہلا جواب یہ ہوتا ہے کہ "علماء اسلام صرف اپنے مطلب کے الفاظ ہماری کتابوں سے پیش کرتے ہیں ، اور حوالے کا سیاق و سباق نظر انداز کرتے ہیں"،لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ انصر رضا جیسے عربی عبارت سے نابلد مربی خود ایک کتاب سے چند الفاظ سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں اور یہ دعوى کردیتے ہیں کہ اس کتاب کا مصنف تو ہمارے عقیدے کے مطابق عقیدہ رکھتا ہے ، لیکن ان کو یہ نظر ہی نہیں آتا کہ اسی کتاب میں اسی جگہ اسی صفحے پر قادیانی عقیدے کی عمارت زمین بوس کی گئی ہے (تفصیل آگے آ رہی ہے). آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ قادیانی مربی انصر رضا نے کیا دعوى کیا ؟ ، لکھا ہے:
کیا حیات مسیح پر امت مسلمہ کا اجماع ہے؟"غیراحمدی علماء کی طرف سے عوام الناس کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پچھلی چودہ صدیوں میں تمام امت مسلمہ متفقہ طور پر یہ مانتی آئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم سمیت زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے تھے، ابھی تک اسی جسم سمیت وہاں زندہ موجود ہیں ، اور قرب قیامت میں اسی جسم اور زندگی کے ساتھ زمین پر اتریں گے اور یہ کہ احمدیہ مسلم جماعت نے وفاتِ مسیح کا عقیدہ پیش کرکے اس متفقہ عقیدہ کی مخالفت کی ہے اور گویا ایک نیا عقیدہ پیش کیا ہے۔احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے قرآن و سنّت سے حیاتِ مسیح کی تردید میں دلائل کے ساتھ ساتھ بزرگانِ امّت کے بھی ایسے حوالہ جات پیش کئے جاتے رہے ہیں جن میں وفاتِ مسیح کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں قدیم و جدید علماء کے ایسے چند مزید حوالہ جات پیش کئے جارہے ہیں جن میں صراحتًا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فوت شدہ ہونا بیان کیا گیا ہے"۔ انصر رضا کے ان الفاظ سے اس کا یہ دعوى نکلتا ہے کہ وہ جن قدیم و جدید علماء کے حوالے اس مضمون میں پیش کرنے جا رہا ہے وہ تمام اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام فوت شدہ ہیں اور زندہ نہیں ہیں، انہیں جسم سمیت آسمان پر نہیں اٹھایا گیا ، اور ان کا نزول نہیں ہونا ، یعنی حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام کے "رفع ونزول" پر اجماع امت نہیں .
اس سے پہلے کہ ہم انصر رضا کے پیش کردہ حوالہ جات پر نمبر وار بات کریں، یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرزا قادیانی نے حضرت عيسى عليه السلام کے بارے میں جو نیا عقیدہ پیش کیا وہ نہ اس سے پہلے امت مسلمہ میں کسی کا تھا اور نہ اسکے بعد کسی مسلمان کا آج تک ہے، بلکہ مسلمانوں کو تو ایک طرف رکھیں کسی یہودی یا عیسائی کا بھی وہ عقیدہ نہیں ، مرزا قادیانی نے جو عقیدہ پیش کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
"حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام کی عمر 33 برس اور6 ماہ تھی کہ دشمنوں نے آپ کو پکڑ کر دو چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈال دیا تھا، آپ کے جسم مبارک میں کیلیں لگائی گئیں اور آپ کو اتنی ايذاء دی گئی کہ آپ شدت تکلیف سے بے ہوش ہو گئے، یہاں تک دشمن آپ کو مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے، لیکن آپ در حقیقت ابھی زندہ تھے، آپ کو صلیب سے اتار کر آپ کے زخموں کا علاج کیا گیا اور پھر آپ وہاں سے فرار ہو کر مختلف ممالک سے ہوتے ہوے آخر کار کشمیر پہنچ گئے، اور وہاں مزید تقريباً ستاسی سال زندہ رہ کر ایک سو بیس یا ایک سو پچیس سال کی عمر میں فوت ہوے اور آپ کی قبر سری نگر کے محلہ یار خان میں آج بھی موجود ہے، اور احادیث میں جن عيسى ابن مريم کے نزول کا ذکر ہے اس سے مراد میں غلام احمد بن چراغ بی بی ہوں"(مرزا کا یہ عقیدہ اس کی کتابوں سے لیا گیا ہے ، طلب کرنے پر ہر بات کا حوالہ پیش کیا جاسکتا ہے) .
کیا انصر رضا، مرزا سے پہلے یا اس کے بعد ہونے والے کسی ایک مسلمان عالم کا کوئی ایک حوالہ پیش کر سکتا ہے جس نے اپنا نظریہ یہ بیان کیا ہو؟؟؟ ہرگز نہیں ... قادیانی مربی کمال فریب سے صرف "وفات مسیح" کا لفظ ذکر کرتے ہیں اور پھر دعوا کرتے ہیں کہ یہ عقیدہ ہم نے نہیں ایجاد کیا بلکہ اور بھی بہت سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے ، اور عوام الناس کو یہ باور کرواتے ہیں کہ گویا قادیانی عقیدہ اور ان لوگوں کا عقیدہ جن کی طرف انصر رضا جیسے لوگ "وفات مسیح" منسوب کرتے ہیں ایک ہی ہے ..
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اس امت کے خير القرون میں ، جن کے بہترین زمانے ہونے کی خبر نبی كريم صلى الله عليه وسلم نے دی ہے يعنى صحابه كرام رضي الله عنهم ، تابعين وتبع تابعين رحمة الله عليهم کے زمانے میں کسی ایک صحابی، کسی ایک تابعی یا تبع تابعى سے مستند طریقے سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت عيسى عليه السلام زندہ نہیں ہیں اور انہوں نے قیامت کے قریب نازل نہیں ہونا، اس کے بعد بھی سوائے چند معتزله اور فلسفیوں کے تمام معروف محدثین، مفسرین اور مجددین اسی بات کے قائل تھے کہ حضرت عيسى عليه السلام نے دوبارہ نازل ہونا ہے اور ان کا نزول علامت قیامت میں سے ہے ، خود مرزا قادیانی بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھتا ہے:
"واضح ہو کہ مسیح موعود کے بارے میں جو احادیث میں پیش گوئی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ جس کو صرف ائمہ حدیث میں چند روایتوں کی بناء پر لکھا ہو وبس، بلکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ پیشگوئی عقیدہ کے طور پر ابتداء سے مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں چلی آتی ہے، گویا جس قدر اس وقت روۓ زمین پر مسلمان تھے اسی قدر اس پیشگوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں، کیونکہ عقیدے کے طور پر وہ اس کو ابتداء سے یاد کرے چلے آتے تھے ........"(شهادة القرآن ، روحانى خزائن جلد 6 صفحه 304) .
یہ احادیث میں بیان کردہ کون سی پیشگوئی ہے جس کا ذکر مرزا قادیانی کر رہا ہے؟ ؟ يقينا انہی احادیث کی طرف اشارہ ہے جن کے اندر نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ "مریم کے بیٹے عيسى عليه السلام" نے نازل ہونا ہے، یوں مرزا قادیانی خود تسلیم کر رہا ہے کہ ابتداء سے تمام مسلمان "نزولِ عيسى عليه السلام" پر یقین رکھتے ہیں، اسی طرح مرزا قادیانی نے کہا :
"ایک دفعه ہم دلّي گئے تھے، ہم نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ تم نے تیرہ سو برس سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو مدفو ن اور حضرت عيسى عيسى کو زندہ آسمان پر بٹھایا...." (ملفوظات ، جلد 5 صفحه 579 ، پانچ جلدوں والا ایڈیشن)
مرزا تسلیم کر رہا ہے کہ اس سے پہلے تیرہ صدیوں سے مسلمانوں میں یہی عقیدہ چلا آرہا تھا کہ حضرت عيسى عليه السلام آسمان میں زندہ موجود ہیں .
یہ تو تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی ہجری میں اکا دکا آوازیں آنا ہوئیں کہ حضرت عيسى عليه السلام کی موت ہو چکی ہے، وہ زندہ نہیں ہیں اور اب ان کا نزول نہیں ہونا، جن میں مصر کے دو تین علماء جوبہت سی باتوں میں جمہور علماء سے الگ آراء رکھتے ہیں اور ہندوستان میں سر سید احمد خان وغیرہ نمایاں ہیں، سر سید نے تو یہ شوشہ اپنی (نام نہاد) تفسير القرآن میں اس وقت چھوڑ دیا تھا جب ابھی 1882 ء میں مرزا قادیانی اپنی پہلی تصنیف "براہین احمدیہ" شائع کررہا تھا جس میں مرزا قادیانی نے خود قرآن کی آیات سے ثابت کیا کہ حضرت عيسى عليه السلام زندہ ہیں اور انہوں نے دوبارہ آنا ہے ، الغرض! ان چند مصری علماء اور سر سید وغیرہ چند لوگوں کی رائے تیرہ صدیاں پہلے سے چلے آرہے اجماع پر اثر انداز نہیں ہو سکتی، نیز جیسا کہ میں نے بیان کیا جن لوگوں نے یہ رائے دی کہ حضرت عيسى عليه السلام زندہ نہیں ، انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اب کسی مسیح نے نہیں آنا اور اس بارے میں جو احادیث پائی جاتی ہیں وہ سب اسرائیلی اور ناقابل اعتبار روايات ہیں یوں ان کا مرزا قادیانی کو مسیح موعود ماننے کا سوال ہوئی پیدا نہیں ہوتا ، ان لوگوں نے اپنی رائے کی بنیاد یہ رکھی کہ وہ تمام احادیث جن کے اندر حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام کے نازل ہونے کا ذکر ہے صحیح نہیں (جو کہ ان کی غلط رائے تھی، یہ احادیث نہ صرف اصول حدیث کی رو سے صحیح ترین بلکہ متواتر ہیں) جبکہ مرزا قادیانی نے یہ نیا عقیدہ ایجاد کیا کہ حضرت عيسى عليه السلام تو فوت ہو کر کشمیر میں دفن ہو گئے اور احادیث میں جن کے نازل ہونے کا ذکر ہے وہ میں ہوں .
اب آئیے نظر ڈالتے ہیں انصر رضا کے پیش کردہ حوالوں پر ، سب سے پہلے اس نے ایک حوالہ پیش کیا ہے جس میں انصر رضا کے خیال کے مطابق ایک حدیث کے الفاظ یوں لکھے ہیں: ’’ لو کان عیسیٰ حیا ما وسعہ الاتباعی‘‘ اگر عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔ انصر رضا نے حوالہ یوں لکھا ہے (الفقہ الاکبر از امام ابو حنیفہ ۔ صفحہ۔۱۰۱۔ناشر دار الکتب العربیۃ الکبریٰ( پھر اس حوالے کے بارے میں انصر رضا نے ایک نوٹ بھی لکھا ہے کہ : "سب سے پہلا حوالہ جو فقہ اکبر سے لیا گیا ہے وہ کتاب جب مصر میں طبع ہوئی تو اس میں یہی الفاظ تھے ’’ لو کان عیسیٰ حیا۔۔۔‘‘ لیکن جب وہی کتاب ہندوستان سے شائع ہوئی تو اس میں تحریف کرکے اسے ’’لو موسیٰ حیا۔۔۔ ‘‘ بنادیا گیا حالانکہ اس عبارت کے سیاق و سباق میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہی ذکر ہورہا ہے۔خاکسار کے پاس یہ دونوں نسخے موجود ہیں" .
دوستو! پہلی بات یہ کہ انصر رضا کو یہ بھی علم نہیں کہ یہ الفاظ جو اس نے پیش کیے ہیں امام ابو حنیفہ رحمة الله عليه کی کتاب " الفقه الاكبر" میں نہیں جیسا کہ اس نے حوالے میں دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے، بلکہ " الفقه الاكبر" کی ملا علی قاری رحمة الله عليه نے " منح الروض الازهر" کے نام سے جو شرح لکھی ہے اسکے صرف مصری نسخے میں یہ الفاظ ملتے ہیں اور وہاں بھی طباعت کی غلطی سے لفظ "موسى" کی جگہ "عيسى" لکھا گیا ہے، اور دوسرے تمام نسخوں میں صحیح الفاظ " لوكان موسى حياً ..." ہی ہیں ، جسے انصر رضا تحریف بتا رہا ہے ، اگر انصر رضا نے یہ پڑھا ہوتا کہ اس مقام پر بیان کیا ہو رہا ہے تو وہ اتنی بڑی حماقت نہ کرتا ، کیونکہ یہاں تو بیان ہی " الفقه الاكبر" کی اس عبارت کی تشریح ہو رہی ہے جس میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام کا نازل ہونا ہے، اور جو الفاظ ملا على قاري رحمة الله عليه نے اسی صفحے پر ان الفاظ سے پہلے لکھے ہیں جو انصر رضا نے پیش کرکے دھوکہ دیا ہے وہ یہ ہیں:
"كما قال الله تعالى وانه أي عيسى لعلم للساعة أي علامة القيامة ، وقال الله تعالى : وان من أهل الكتاب الا ليؤمنن به قبل موته ، أي قبل موت عيسى عليه السلام بعد نزوله عند قيام الساعة فتصير الملل واحدة وهي ملة الاسلام الحقيقية ...... فترتيب القضية أن المهدى عليه السلام يظهر أولاً في الحرمين الشريفين ثم يأتي بيت المقدس فيأتي الدجال ويحصره في ذلك الحال فينزل عيسى عليه السلام من المنارة الشرقية في دمشق الشام ويجيء الى قتال الدجال فيقتله بضربة في الحال فانه يذوب كالملح في الماء عند نزول عيسى عليه السلام من السماء فيجتمع عيسى بالمهدي رضي الله عنه وقد اقيمت الصلاة فيشير المهدي لعيسى بالتقدم فيمتنع معللاً بأن هذه الصلاة اقيمت لك فأنت اولى بأن تكون الامام في هذا المقام ويقتدي به ليظهر متابعته لنبينا صلى الله عليه وسلم "
ترجمہ : اللہ تعالى نے فرمایا کہ وہ يعنى عيسى عليه السلام قیامت کی نشانی ہیں، نیز الله نے فرمایا : اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو عيسى عليه السلام کے قیامت کے قریب نازل ہونے کے بعد ان پر ایمان نہ لے آئے، پس تمام ملتیں (مذاہب) ختم ہو کر صرف ایک مذھب رہ جائے گا اور وہ اسلام ہوگا ...... معامله یوں ہوگا کہ پہلے حرمين شريفين میں حضرت مہدی کا ظہور ہوگا، پھر آپ بيت المقدس تشريف لائیں گے، پس دجال آئے گا اور محاصرہ کرے گا، اس وقت شام کے شہر دمشق کے مشرقی حصے میں منارے سے حضرت عيسى عليه السلام نازل ہوں گے ، اور وہ دجال کا ایک ہی ضرب سے خاتمہ کردیں گے وہ اس ضرب سے ایسے پگھل جائے گا جیسے پانی میں نمک اور یہ اس وقت ہوگا جب عيسى عليه السلام آسمان سے نازل ہوں گے، اس کے بعد حضرت عيسى عليه السلام حضرت مہدی کے ساتھ ملیں گے ، اس وقت نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی ہوگی، حضرت مہدی ان کو اشارہ فرمائیں گے کہ آگے ہو کر نماز پڑھائیں، لیکن حضرت عيسى عليه السلام یہ فرمائیں گے کہ یہ اقامت آپ کے لیے کہی گئی ہے لہذا آپ ہی کے لیے اس وقت امامت کروانا بہتر ہے، یوں حضرت عيسى عليه السلام ان کی اقتداء میں نماز ادا فرمائیں گے ، مقصد یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ اب انھیں ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کی اتباع ہی کرنی ہے" . (شرح الفقه الاكبر از ملا علي قاري ، مصري نسخه ، صفحه 101) دوستو! آپ نے دیکھا کہ یہاں ملا علی قاري رحمة الله عليه نے صاف طور پر قرآن كريم کی دو آیات پیش فرما کر ثابت کیا ہے کہ قرب قیامت حضرت مريم کے بیٹے عيسى عليه السلام نے نازل ہونا ہے، یہ بھی صاف لکھا کہ انہوں نے شام کے شہر دمشق میں نازل ہونا ہے، یہ بھی واضح لکھا کہ انہوں نے آسمان سے نازل ہونا ہے، یہ بھی صراحت فرمائی کہ حضرت مهدى اور حضرت عيسى عليه السلام دو الگ الگ شخصیات ہیں اور حضرت عيسى عليه السلام نے حضرت مہدی کے پیچھے نماز بھی ادا کرنی ہے یہ بتانے کے لئے کہ اب انہوں نے اپنی انجيلى شريعت پر عمل نہیں کرنا بلکہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی شريعت کی اتباع کرنی ہے ... یہ سب انصر رضا اور قادیانی عقیدے کا ستیاناس کیا گیا ہے یا نہیں؟؟ لیکن انصر رضا اور قادیانی مربی اس عبارت کا ذکر تک نہیں کرتے، اسکے بعد متصل مصری نسخے میں یہ الفاظ ہیں کہ :
" كما اشار الى هذا المعنى صلى الله عليه وسلم بقوله لوكان عيسى حياً لما وسعه الا اتباعى " اسی معنى کی طرف آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ فرمایا ہے کہ اگر عيسى زندہ ہوتے تو انھیں میری اتباع کے سوا چارہ نہ ہوتا ... یہ ہیں وہ الفاظ جو قادیانی مربی پیش کرتے ہیں .... اب عربی کا طالب علم اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ جب پہلے یہی ملا على قارى رحمة الله عليه خود یہ فرما رہے ہیں کہ حضرت عيسى عليه السلام نے آسمان سے شام کے شہر دمشق میں نازل ہو کر دجال کو قتل کرنا ہے اور حضرت مہدی کے پیچھے نماز بھی ادا کرنی ہے ، اور انھیں وہ قیامت کی نشانی بھی لکھ رہے ہیں تو پھر اس بات کی کیا تک بنتی ہے کہ "اگر وہ زندہ ہوتے تو انھیں میری اتباع کے سوا چارہ نہ ہوتا"؟ يقيناً یہاں " لوكان عيسى" کے الفاظ درست نہیں بیٹھتے بلکہ طباعت کی غلطی سے "موسى" کی جگہ "عيسى" چھپ گیا (ہم آگے ثابت کریں گے کہ واقعی کتب حدیث میں لوكان موسى حياً کے ہی الفاظ ہیں) .. لیکن ابھی ہم یہاں ایک اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہاں " لوكان عيسى حياً" کے الفاظ غلطی ہے، اس کے بعد خود ملا علی قاری نے لکھا ہے : " وقد بينتُ وجه ذلك عند قوله تعالى واذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول ..الآية .. في شرح الشفاء وغيره وقد ورد أنه يبقى في الارض اربعين سنة ثم يموت ويصلى عليه المسلمون ويدفنونه على ما رواه الطيالسي في مسنده وروى غيره أنه يُدفن بين النبي صلى الله عليه وسلم والصديق رضي الله عنه ... . الخ
ترجمہ: اور میں نے یہ بات شرح شفاء میں آیت کریمہ واذ أخذ الله ميثاق النبيين ... کی وضاحت کرتے وقت بیان کی ہے ....اور یہ بات بھی وارد شدہ ہے کہ حضرت عيسى عليه السلام زمین میں چالیس سال رہیں گے پھر ان کی موت ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے، اور جیسا کہ امام طیالسی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے انھیں آنحضرت صلى الله عليه وسلم اور حضرت ابو بکر صديق رضي الله عنه کے درمیان دفن کیا جائے گا.(شرح الفقه الاكبر از ملا علي قاري ، مصري نسخه ، صفحه 101)
یہاں ملا علی قاری نے اشارہ دیا ہے کہ انہوں نے اسی موضوع پر اپنی کتاب "شرح شفاء" میں بھی لکھا ہے ، نیز وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عيسى عليه السلام (نزول کے بعد) زمین پر چالیس سال رہیں گے اور پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے ... (یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی ابھی تک موت نہیں ہوئی) ... لیکن آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ملا على قارى رحمة الله عليه نے "شرح شفاء" آيت واذ أخذ الله ميثاق النبين کے ذیل میں کیا لکھا ہے:
"و اليه اشار صلى الله عليه وسلم حين رأى عمر ينظر في صحيفة من التوراة لوكان موسى حياً لما وسعه الا اتباعى" اسی بات کی طرف نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اشارہ فرمایا جب آپ نے حضرت عمر رضي الله عنه کو تورات کے ایک صحیفے پر نظر جمائے دیکھا ، آپ نے فرمایا : اگر موسى (عليه السلام) بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا . (شرح الشفاء از ملا على قاري ، جلد 1 صفحه 106 ، دار الكتب العلميه بيروت)
تو دوستو! بات واضح ہوگئی ، شرح الفقه الاكبر میں ملا علی قاری نے اپنی کتاب "شرح شفاء" کی طرف اشارہ کیا اور وہاں حضرت موسى عليه السلام کا نام ہے نہ کہ حضرت عيسى عليه السلام کا، اور میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسی "شرح شفاء" میں مزید تین چار جگہ ملا علی قاری نے یہی حدیث "لوكان موسى حياً" کے الفاظ کے ساتھ ہی ذکر کی ہے ، نیز ملا علی قاری رحمةالله عليه نے اپنی ایک تیسری کتاب "مرقاة شرح مشكوة" میں بھی تین چار جگہ یہی حدیث "لوكان موسى حياً" کے الفاظ کے ساتھ ہی ذکر کی ہے جس کے حوالے نیچے لگا دیے گئے ہیں ، یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کوئی قادیانی مربی کسی حدیث کی کتاب سے سند کے ساتھ یہ حدیث "لوكان عيسى حياً" کے الفاظ کے ساتھ نہیں دکھا سکتا ، لہذا اب یقینی طور پر ثابت ہوگیا کہ "شرح فقه اكبر" کے انصر رضا کی طرف سے پیش کردہ مصری نسخے میں غلطی سے "موسى" کی جگہ "عيسى" چھپ گیا جسے سیاق و سباق دیکھے بغیر انصر رضا نے اپنی دلیل بنا لیا ..... نیز یہ بھی واضح ہو گیا کہ ملا علی قاری رحمة الله عليه وسلم ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ حضرت عيسى عليه السلام کی موت ہو چکی ہے جیسے انصر رضا نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ..
اسی طرح انصر رضا نے علامہ ابن القيم رحمة الله عليه کی کتاب "مدارج السالكين" سے ایک حوالہ پیش کیا ہے کہ اس میں بھی یہ حدیث لکھی ہے کہ : "لوكان موسى وعيسى عليهما السلام حيين لكانا من أتباعه" اگر موسى عليه السلام اور عيسى عليه السلام زندہ ہوتے تو وہ لازماً آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے پیروکاروں میں شامل ہوتے .. اس سے انصر رضا نے یہ دھوکہ دینا چاہا ہے کہ علامہ ابن القيم کا عقیدہ بھی یہ تھا کہ حضرت عيسى عليه السلام فوت ہو چکے ہیں ..اس کے بارے میں عرض ہے کہ انصر رضا نے یہاں آدھی بات نقل کی ہے، اس کتاب میں اس سے آگے کے الفاظ یہ ہیں : "وَإِذَا نَزَلَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، فَإِنَّمَا يَحْكُمُ بِشَرِيعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ترجمہ: اور جب مريم کے بیٹے عيسى عليهما السلام نازل ہوں گے تو وہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی شريعت کے مطابق فیصلے فرمائیں گے .. (مدارج السالكين، الجزء الثانى ، صفحه 496 دار الكتب العلمية بيروت) .
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی جگہ علامہ ابن قیم یہ فرما رہے ہیں کہ عيسى عليه السلام اپنے نزول کے بعد شريعت محمديه کے مطابق فیصلے فرمائیں گے تو پھر اس سے پہلے والے الفاظ کہ "اگر موسى اور عيسى عليهما السلام زندہ ہوتے تو وہ آپ صلى الله عليه وسلم کے پیروکاروں میں ہوتے" کا کیا مطلب؟ يقيناً یہاں بھی اسی حدیث کا بیان تھا جس میں صرف موسى عليه السلام کا ذکر ہے، عيسى عليه السلام کا نام یہاں بھی کسی غلطی کی وجہ سے لکھ دیا گیا ورنہ بعد والے الفاظ کا کوئی مطلب نہیں بنتا، نیز علامہ ابن قيم رحمة الله عليه نے اپنا عقیدہ بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی دوسری کتابوں میں بھی بیان کردیا ہے ، مثلاً اپنی کتاب "هداية الحيارى في اجوبة اليهود والنصارى" میں حضرت عيسى عليه السلام کا ذکر کرتے ہوے لکھتے ہیں : " فَرَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَأَسْكَنَهُ سَمَاءَهُ وَسَيُعِيدُهُ إِلَى الْأَرْضِ يَنْتَقِمُ بِهِ مِنْ مَسِيحِ الضَّلَالِ وَأَتْبَاعِهِ، ثُمَّ يَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ بِهِ الْخِنْزِيرَ، وَيُعْلِي بِهِ الْإِسْلَامَ " الله نےان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اپنے آسمان میں رہائش دے دی، اور وہ انھیں دوبارہ زمین پر لوٹائے گا ، وہ گمراہ مسیح (یعنی دجال) اور اس کے پیروکاروں سے ان کے ذریعے انتقام لے گا ، پھر صلیب توڑے گا اور ان کے ذریعے صلیب توڑے گا، اور ان کے ذریعے اسلام کی سربلندی کرے گا .(هداية الحيارى في أجوبة اليهود والنصارى، صفحه 385 )
اسی طرح اپنی ایک اور کتاب "التبيان في ايمان القرآن" میں صاف طور پر لکھتے ہیں : "وهذا المسيح ابن مريم عليها السلا حي لم يمت" اور یہ مسیح ابن مريم عليهما السلام زندہ ہیں ، انہیں موت نہیں آئی . (التبيان في ايمان القرآن، صفحه 580)
ثابت ہوا کہ انصر رضا نے علامہ ابن القيم کو جو وفات مسیح کا قائل بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ صرف ایک فریب اور دھوکہ ہے .
اسکے بعد انصر رضا نے معروف صوفی عبدالوهاب الشعرانى رحمه الله کی کتاب "اليواقيت والجواهر، جلد 2 صفحه 174" سے حوالہ دیا ہے کہ وہاں بھی یہ حدیث لکھی ہے کہ " لوكان موسى وعيسى عليهما السلام حيين ما وسعهما الا اتباعي" اگر موسى عليه السلام اور عيسى عليه السلام زندہ ہوتے تو ان دونوں کو میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا .
اس سے انصر رضا نے پھر یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ علامه عبدالوهاب شعرانى رحمة الله عليه بھی اس بات کے قائل تھے کہ حضرت عيسى عليه السلام زندہ نہیں ہیں اور ان کا نزول نہیں ہونا ، لیکن یہاں بھی انصر رضا نے اسی صفحے پر اسی عبارت سے پانچ چھ سطریں آگے کی عبارت جان بوجھ کر نہیں لکھی ، آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ الفاظ کیا ہیں :
"ك ون عيسى عليه الصلاة والسلام اذا نزل الى الأرض لا يحكم بشرع نفسه الذي كان عليه قبل رفعه وانما يحكم بشرع محمد صلى الله عليه وسلم الذي بعث به الى امته.... " ترجمه: حضرت عيسى عليه الصلاة والسلام جب زمین پر نازل ہوں گے تو وہ اپنی اس شريعت کے مطابق فیصلے نہیں فرمائیں گے جس پر وہ اپنے رفع سے پہلے عمل کرتے تھے، بلکہ وہ اس شريعت کے مطابق فیصلے کریں گے جو شريعت حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کو دے کر ان کی امت کی طرف بھیجا گیا . (اليواقيت والجواهر ، جلد 2 صفحه 174 انصر رضا كا پیش کردہ صفحه)
آپ نے دیکھا کہ یہیں علامہ شعرانى نے یہ بھی لکھ دیا کہ حضرت عيسى عليه السلام نے زمین پر نازل ہونا ہے اور پھر شريعت محمديه کے مطابق عمل کرنا ہے نہ کہ اس شريعت کے مطابق جس پر وہ پہلے عمل پیرا تھے .
اگر ابھی بھی انصر رضا کی تسلی نہ ہوئی ہو تو ، اسی کتاب "اليواقيت والجواهر" اور اسی نسخے میں جس کا حوالہ انصر رضا نے پیش کیا ہے، علامہ عبدالوهاب شعرانى نے علامت قیامت کا ذکر کرتے ہوے حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام کے نزول کا بھی ذکر کیا ہے ، اور پھر اسی بحث میں ایک سوال جواب یوں لکھا ہے :
" فان قلتَ فاذا نزل عيسى عليه السلام فمتى يموت؟ وكيف يموت؟ فالجواب: كما قاله الشيخ في الباب التاسع الستين وثلثمائة أنه يموت اذا قتل الدجال وذلك أنه يموت هو وأصحابه في نفس واحد ..... الخ " ترجمه: اگر تم یہ کہو کہ جب عيسى عليه السلام نے نازل ہونا ہے تو پھر ان کی موت کب ہوگی؟ اور کیسے ہوگی؟ تو اس کا جواب یہ ہے جیسا کہ شيخ (محيي الدين ابن العربي) نے باب نمبر تین سو انہتر میں لکھا ہے کہ آپ (يعنى حضرت عيسى عليه السلام) کی موت اس وقت ہوگی جب آپ دجال کو قتل کر چکیں گے ، نیز آپ اور آپ کے تمام ساتھیوں کی موت ایک ہی وقت ہوگی .(اليواقيت والجواهر ، جلد 2، صفحه 290 )
علامہ شعرانى کی اس عبارت کے بعد صراحت کے ساتھ ثابت ہوگیا ہے کہ ان کے نزدیک ابھی حضرت عيسى عليه السلام کی موت نہیں ہوئی بلکہ دجال کو قتل کرنے کے بعد ہوگی ..اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ان کی کتاب میں بھی حدیث لوكان موسى وعيسى عليهما السلام حيين ما وسعهما الا اتباعي کے الفاظ میں "عيسى" کے الفاظ زیادہ ہیں جبکہ اصل حدیث میں صرف "موسى" کا ذکر ہے ، جیساکہ ہم آگے حدیث کی کتابوں سے یہ ثابت بھی کریں گے .
اس کے بعد انصر رضا نے "شرح العقيدة الطحاوية" کا بھی ایک حوالہ دیا ہے کہ اس میں بھی حدیث کے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ " لوكان موسى وعيسى عليهما السلام حيين لكانا من أتباعه " اگر موسى عليه السلام اور عيسى عليه السلام زندہ ہوتے تو وہ لازماً آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے پیروکاروں میں شامل ہوتے .
انصر رضا نے جس نسخے کا حوالہ لگایا ہے وہ "المكتب الاسلامى بيروت" کا شائع شده ہے اور اس کی احادیث کی تخریج علامہ ناصر الدين البانى رحمة الله عليه نے کی ہے، اور اس صفحے پر حدیث کے ان الفاظ کے بارے میں علامہ البانی نے حاشیے میں صاف لکھا ہے کہ " هو حديث محفوظ دون ذكر عيسى فيه فانه منكر عندي لم أره في شيء من طرقه" اس حدیث میں "عيسى" عليه السلام کا ذکر میرے نزدیک منکر ہے، اس حدیث کے کسی طریق میں یہ مجھے نہیں ملا (شرح العقيدة الطحاوية ، صفحه 511 ، حاشيه ، انصر رضا كا پیش کردہ صفحہ). لہذا ہماری بات قائم ہے کہ دنیا کی کسی کتاب میں یہ حدیث سند کے ساتھ نہیں دکھائی جاسکتی جس میں حضرت "عيسى عليه السلام" کا ذکر ہو ، بلکہ جہاں بھی ہے وہاں صرف "موسى" عليه السلام کا ہی ذکر ہے ، اور اگر کسی کتاب میں حضرت عيسى عليه السلام کے الفاظ بھی نقل ہوگئے ہیں تو یہ غلطی یا تساہل ہے .
یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ "شرح العقيدة الطحاوية" اصل میں امام ابوجعفر الطحاوي الحنفى رحمة الله عليه کے رسالے " العقيدة الطحاويه" کی شرح ہے، اور "ا لعقيدة الطحاوية" میں عقيده نمبر 129 میں لکھا ہے کہ "ہم علامات قیامت پر ایمان رکھتے ہیں" اور پھر ان علامات میں ایک علامت یوں لکھی ہے : "نزول عيسى ابن مريم عليه السلام من السماء" حضرت مريم کے بیٹے عيسى عليه السلام کا آسمان سے نازل ہونا .(متن العقيدة الطحاوية ، صفحه 31 ، دار ابن حزم)
اور انصر رضا کی طرف سے پیش کردہ "شرح العقيدة الطحاويه" کے صفحه 500 و 501 پر علامات قیامت کی تشریح میں حضرت عيسى عليه السلام کے نزول کا تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے، اس بارے میں چند احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ : " واحاديث الدجال وعيسى ابن مريم عليه السلام ينزل من السماء ويقتله ، ويخرج يأجود ومأجوج في أيامه بعد قتله الدجال فيهلكهم الله اجمعين في ليلة واحدة ببركة دعاءه عليهم ، ويضيق هذا المختصر عن بسطها" دجال کے بارے میں ، اور حضرت عيسى ابن مريم عليه السلام کے آسمان سے نازل ہونے اور دجال کو قتل کرنے ، نیز دجال کے قتل کے بعد یاجوج و ماجوج کے آپ کے زمانے میں نکلنے اور پھر ان سب کو آپ کی بد دعا کی وجہ سے ایک ہی رات میں اللہ کے ہلاک کرنے کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں، یہ مختصر کتاب ان کی تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتی .(شرح العقيدة الطحاوية ، صفحه 501 ، انصر رضا کا پیش کردہ نسخہ)
لہذا انصر رضا کا امام طحاوي رحمة الله عليه يا شرح العقيدة الطحاويه کے مصنفین کو وفات مسیح کا قائل ثابت کرنا سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں .
آخری تدوین
: