غلام نبی قادری نوری سنی
رکن ختم نبوت فورم
رفع و نزول مسیح علیہ السلام کے انکار میں اٹھنے والی چند آوازیں اور اُن کی حیثیت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ سے لیکر چودھویں صدی ہجری تک ملت اسلامیہ میں سوائے چند متعزلہ اور فلاسفہ کے کسی نے حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جسم سمیت اٹھائے جانے اور قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہونے کا انکار نہیں کیا، امت کا رفع ونزول مسیح علیہ السلام پر اجماع چلا آرہا ہے،
تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی میں کچھ ملحدانہ زہن رکھنے والوں کی اکا دکا آوازیں سننے کو ملیں جنہوں نے یہ کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ نہیں ہیں، اور انہوں نے تمام احادیث کو ناقابل اعتبار اور اسرائیلی روایات کہہ کر رد کر دیا
جن کے اندر نزول مسیح علیہ السلام کا زکر ہے اور موقف اختیار کیا کہ کسی مسیح نے نہیں آنا ، ان میں مصر کے شیخ محمد عبدہ اور ان کے چند تلامذہ کا مکتب فکل جس میں علامہ رشید رضا (جن کی سن وفات 1935ء) اور شیخ محمود شتوت (جن کی وفات سنہ 1963 میں ہوئی) قابل زکر ہیں ، خاص طور پر نظر آتا ہے، مصری علماء کا یہ مکتب فکر عقلیت کا دلدادہ اور معجزات و خوارق کا منکر تصور کیا جاتا ہے ، خود مصر کے علماء نے ان کے امت اسلامیہ سے ہٹ کر تفردات کا بڑی شد و مد کے ساتھ رد کیا ہے، لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ ان حضرات کا موقعف یہ تھا کہ
کسی مسیح نے نہیں آنا ، نہ اصلی نے نہ کسی اور نے نہ کسی مثیل نے، علامہ رشید رضا نے تو اپنی تفسیر المنار میں کئی جگہ مرزا قادیانی کا نام لیکر اُس کے دعویٰ مسیحیت کی خوب خبر لی ہے، نیز ان سب کا یہ بھی ماننا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں کہ یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام کو پکڑ کر صلیب پر ڈالا بلکہ یہود حضرت عیسی علیہ السلام تک پہنچ ہی نہ سکے تھے،۔
ہندوستان میں سرسید احمد خان نے بھی مرزا قادیانی سے پہلے وفات مسیح کا شوشہ چھوڑا تھا جس سے مرزا قادیانی کا یہ دعویٰ بھی جھوٹ ثابت ہوجاتا ہے کہ خدا نے صرف مجھ پر ظاہر کیا اور مجھ سے پہلے یہ کسی پر ظاہر نہ کیاگیا،
آج کے دور میں قریب قریب اسی فکر کا پرچار کرنے والوں میں مخٌتلف ٹی وی چینلوں پر بطور دانشور نظر آنے والے جاوید احمد غامدی بھی ہیں ، لیکن غامدی عقیدہ میں ایک نئی چیز کا اضافہ بھی ہے ، اُن کا کہنا ہے کہ یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو اللہ نے انہیں وفات دے دی اور اُ س کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کا جسم مبارک آسمان پر اٹھا لیا،
کہ کہیں یہود آپ کے جسم کی بے حرمتی نہ کریں ۔، یعنی غامدی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع زندہ جسم کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ روح نکالنے کے بعد مردہ جسم آسمان پر اٹھایا گیا، یہ بہت ہی عجیب و غریب موقعف ہے ،
جس کا مضحکہ خیز ہونا ظاہر ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا، تاہم غامدی مکتب فر بھی یہ کہتا ہے کہ اب کسی مسیح نے نہیں آنا اور وہ تمام احادیث جن کے اندر نزول مسیح علیہ السلام کا زکر ہے ناقابل اعتبار ہیں،
لیکن ان سب سے عجب تر منطق وہ ہے جو مرزا قادیانی نے پیش کی اس نے ایک طرف تو یہ کہا کہ قرآں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں (پہلے خود قرآن سے اُن کا آنا ثابت کرتا رہا پھر کہا کہ قرآن کی تین آیات سے وفات مسیح ثابت ہے پھر تین سے چھلانگ لگا کر تیس پر آ گیا) اور دوسری طرف ان احادیث کو بھی تسلیم کرتا ہے جن کے اندر نزول عیسی بن مریم کا زکر ہے، اور نہایت ڈھٹائی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ کہنے لگا کہ اُن احادیث میں جن عیسی ابن مریم کا زکر ہے وہ میں ہوں ۔
اور چونکہ قرآن و حدیث سے اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اس لیے یہ دلیل بنائی کہ میرے خدا نے مجھے الہام کرکے بتایا ہے کہ جس مسیح نے آنا تھا وہ تُو ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ سے لیکر چودھویں صدی ہجری تک ملت اسلامیہ میں سوائے چند متعزلہ اور فلاسفہ کے کسی نے حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جسم سمیت اٹھائے جانے اور قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہونے کا انکار نہیں کیا، امت کا رفع ونزول مسیح علیہ السلام پر اجماع چلا آرہا ہے،
تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی میں کچھ ملحدانہ زہن رکھنے والوں کی اکا دکا آوازیں سننے کو ملیں جنہوں نے یہ کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ نہیں ہیں، اور انہوں نے تمام احادیث کو ناقابل اعتبار اور اسرائیلی روایات کہہ کر رد کر دیا
جن کے اندر نزول مسیح علیہ السلام کا زکر ہے اور موقف اختیار کیا کہ کسی مسیح نے نہیں آنا ، ان میں مصر کے شیخ محمد عبدہ اور ان کے چند تلامذہ کا مکتب فکل جس میں علامہ رشید رضا (جن کی سن وفات 1935ء) اور شیخ محمود شتوت (جن کی وفات سنہ 1963 میں ہوئی) قابل زکر ہیں ، خاص طور پر نظر آتا ہے، مصری علماء کا یہ مکتب فکر عقلیت کا دلدادہ اور معجزات و خوارق کا منکر تصور کیا جاتا ہے ، خود مصر کے علماء نے ان کے امت اسلامیہ سے ہٹ کر تفردات کا بڑی شد و مد کے ساتھ رد کیا ہے، لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ ان حضرات کا موقعف یہ تھا کہ
کسی مسیح نے نہیں آنا ، نہ اصلی نے نہ کسی اور نے نہ کسی مثیل نے، علامہ رشید رضا نے تو اپنی تفسیر المنار میں کئی جگہ مرزا قادیانی کا نام لیکر اُس کے دعویٰ مسیحیت کی خوب خبر لی ہے، نیز ان سب کا یہ بھی ماننا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں کہ یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام کو پکڑ کر صلیب پر ڈالا بلکہ یہود حضرت عیسی علیہ السلام تک پہنچ ہی نہ سکے تھے،۔
ہندوستان میں سرسید احمد خان نے بھی مرزا قادیانی سے پہلے وفات مسیح کا شوشہ چھوڑا تھا جس سے مرزا قادیانی کا یہ دعویٰ بھی جھوٹ ثابت ہوجاتا ہے کہ خدا نے صرف مجھ پر ظاہر کیا اور مجھ سے پہلے یہ کسی پر ظاہر نہ کیاگیا،
آج کے دور میں قریب قریب اسی فکر کا پرچار کرنے والوں میں مخٌتلف ٹی وی چینلوں پر بطور دانشور نظر آنے والے جاوید احمد غامدی بھی ہیں ، لیکن غامدی عقیدہ میں ایک نئی چیز کا اضافہ بھی ہے ، اُن کا کہنا ہے کہ یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو اللہ نے انہیں وفات دے دی اور اُ س کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کا جسم مبارک آسمان پر اٹھا لیا،
کہ کہیں یہود آپ کے جسم کی بے حرمتی نہ کریں ۔، یعنی غامدی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع زندہ جسم کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ روح نکالنے کے بعد مردہ جسم آسمان پر اٹھایا گیا، یہ بہت ہی عجیب و غریب موقعف ہے ،
جس کا مضحکہ خیز ہونا ظاہر ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا، تاہم غامدی مکتب فر بھی یہ کہتا ہے کہ اب کسی مسیح نے نہیں آنا اور وہ تمام احادیث جن کے اندر نزول مسیح علیہ السلام کا زکر ہے ناقابل اعتبار ہیں،
لیکن ان سب سے عجب تر منطق وہ ہے جو مرزا قادیانی نے پیش کی اس نے ایک طرف تو یہ کہا کہ قرآں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں (پہلے خود قرآن سے اُن کا آنا ثابت کرتا رہا پھر کہا کہ قرآن کی تین آیات سے وفات مسیح ثابت ہے پھر تین سے چھلانگ لگا کر تیس پر آ گیا) اور دوسری طرف ان احادیث کو بھی تسلیم کرتا ہے جن کے اندر نزول عیسی بن مریم کا زکر ہے، اور نہایت ڈھٹائی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ کہنے لگا کہ اُن احادیث میں جن عیسی ابن مریم کا زکر ہے وہ میں ہوں ۔
اور چونکہ قرآن و حدیث سے اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اس لیے یہ دلیل بنائی کہ میرے خدا نے مجھے الہام کرکے بتایا ہے کہ جس مسیح نے آنا تھا وہ تُو ہے۔