• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(رواداری یا بے حمیتی)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(رواداری یا بے حمیتی)
اب یہ اشتعال انگیزی اور ایذا رسانی کی انتہاء ہوگئی۔ لیکن اتنا زمانہ مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا۔ یہ غلط تصور رواداری کا تھا، اور رواداری تو اسے نہیں کہہ سکتے۔ بے حمیتی کہہ سکتے ہیں یا جہالت کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال ہم سب اس میں گرفتار رہے۔ اﷲتعالیٰ ہمیں اس سے نجات دے۔
اب اس کے لئے ہم جو حل پیش کرنا چاہتے ہیں جو پورے ایوان کا میلان معلوم ہوتا ہے، وہ حل کیا ہے؟ ہم اس مسئلہ کا وہ حل نہیں پیش کرنا چاہتے جو مذہبی اختلاف کی بناء پر جس طرح عیسائیوں نے یہودیوں کے مسئلے کو حل کیا۔ جس طرح فرانس میں، انگلستان میں، پرتگال میں،اسپین میں، اٹلی میں، جرمنی میں اور روس میں اس مذہبی اختلاف کی بناء پر جو کچھ کیاگیا ہم وہ حل نہیں پیش کرتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انکے سامنے یہ دو چیزیں ہیں، یا تو اپنے مذہب سے تائب ہو یا تم جلاوطن کئے جاؤ گے یا قتل کئے جاؤ گے۔ ہم یہ نہیں کہتے۔ حالانکہ ہماری دل آزاری انہوں نے اس سے زیادہ کی ہے۔ ہم وہ اس وقت نہیں کہتے۔ ہم اس قسم کا بھی کوئی حل پیش نہیں کرنا چاہتے جو دوسری نظریاتی مملکتیں کرتی ہیں۔ عذاب دینا، ایذا دینا، اس سے بھی نیچے اتر کر نسلی بنیادوں پر جہاں امتیازات ہیں، وہاں کے دستور میں جو چیزیں ہیں ہم وہ بھی نہیں کہتے۔ آسٹریلیا کے دستور میں مثلاً یہ چیز ہے کہ انتخابات کے موقع پر:
"Aborginial natives shall not be counted. No- election law shall disqualify any person other than a native."
3057یا جنوبی افریقہ کی حکومت تھی اور جناب! امریکہ کے دستور میں ہے کہ:
"Excluding Indians, not taxed."
یعنی سب کو حق ہے، ان کو حق نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس طرح کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہم جو حل پیش کرنا چاہتے ہیں اس کی حیثیت یہ ہے کہ ہم ان کی اس درخواست کو جو انہوں نے ۲۸سال پہلے انگریزوں کے سامنے پیش کی تھی، جو ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ء کو شائع ہوئی ہے، ہم ان کی اس درخواست کو منظور کرتے ہیں۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں بھی عیسائیوں اور پارسیوں کی طرح حقوق دئیے جائیں۔ ہم ان کے لئے وہی کرنا چاہتے ہیں، عین ان کی منشاء کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے دل میں فساد نہیں ہے تو انہیں خوش ہونا چاہئے کہ ان کی درخواست ۲۸سال پہلے ان کے آقا منظور نہیں کر سکے تھے۔ آج ہم اس درخواست کو منظور کرتے ہیں تو اگر فساد کی نیت نہ ہو تو انہیں یہ سمجھنا چاہئے اور ہمارے اور ان کے درمیان صورت اب یہ ہوگئی ہے کہ:
ہم بھی خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نبھا نہ کی
ایک زمانہ گزرا ہر طرح کی چیزوں کو ہم برداشت کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے اپنی پالیسی کے مطابق ربوہ میں جو واقعہ کیا اس کے بعد ظاہر ہے کہ پوری قوم مشتعل ہوئی۔ انہوں نے یہ سمجھ کر نہیں کیا، اتنے نادان نہیں ہیں کہ وہ سمجھتے ہوں کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد قوم سوتی رہے گی۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ اس طاقت کا مظاہرہ کر کے دیکھیں کہ کتنا ہمارا رعب پڑتا ہے۔ یہ ان کی تحریروں میں موجود ہے کہ فلاں وقت تک تم اتنی طاقت فراہم کر لو کہ دشمن تمہارے رعب سے مرعوب ہو جائے۔ بہرحال یہ اس انگریز نے بھی منظور نہیں کیا تھا جس کے یہ خود کاشتہ پودے تھے اور جس کے متعلق ایک جملہ ان کا سناتا ہوں، اس وقت نہیں آیا تھا کہ ’’غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کر دہ ہے۔‘‘ تو انہوں نے بھی اس درخواست کو نہیں مانا تھا۔ ہم 3058ازراہ فیاضی اور ازراہ فراخ دلی اس درخواست کو مانتے ہیں، اور ان کی جان ومال کی حفاظت کا وعدہ کرتے ہیں، اس شرط کے ساتھ کہ اگر پاکستان کے ساتھ غداری اور اس کے ساتھ بے وفائی کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ ہے اور اس سارے اعلان کے بعد بہرحال ان کی نگرانی کرنی پڑے گی، دیکھنا پڑے گا کہ ان کی نقل وحرکت کیا ہے، ان کے جو عزائم ہیں اس کے متعلق یہ کیاکرتے ہیں۔
عالم اسلام کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے دوسری جگہوں پر کہ جہاں انہوں نے مراکز قائم کئے ہیں، بہت سے لوگوں کو مسلمان بنایا ہے، تو وہاں اس کے برے اثرات ہوں گے۔ ایک جگہ کا میں صرف آپ سے مثال کے طور پر ذکر کرتا ہوں کہ نائیجیریا میں ابھی وسط اپریل میں ایک کانفرنس ہوئی اور اس میں تمام مسلم مکاتب فکر اور مسلم تنظیموں کے لوگ بلائے گئے۔ ان کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ اسی بناء پر نہیں دی گئی تھی کہ یہ مسلمان نہیں سمجھے جاتے۔ بہرحال جو لوگ ان کے دام فریب میں آچکے تھے جب ان کو یہ پتہ چلا انہوں نے کہا کہ ہمیں کیوں نہیں بلاتے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ کیونکہ آپ ایک دوسرے نبی کی امت ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہم کو غلط فہمی رہی۔ بہت بڑی تعداد وہاںسے تائب ہوگئی اور تائب ہونے کے بعد اس قدر بے زاری لوگوں میں پیدا ہوئی کہ انہوں نے اپنا مشن بند کیا۔ لیکن اب ایک دوسرے نام سے ’’تحریک انوار اسلام‘‘ سے وہاں کام کر رہے ہیں۔
شام میں ۱۹۵۷ء میں وہاں کے مفتی اور ایک بہت عظیم شخصیت کے خاندان سے ابوالدین عابدین کے فتویٰ پر ۱۹۵۷ء میں وہاں کی انٹیریر گورنمنٹ نے ان کے خلاف تحقیقات کیں اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ جاسوسی کرتے ہیں،ا سلام کی بیخ کنی کرتے ہیں۔ چنانچہ وہاں ان کو بین (Ban) کیا گیا ۔ ان کے آفس اور پراپرٹی کو سیل کیا گیا۔ اسی طرح مصر میں جب معلوم ہوا کہ یہ اسرائیل کے لئے جاسوسی کرتے ہیں، ان کا داخلہ ممنوع ہوا۔ سعودی عرب کا آپ لوگ جانتے ہیں۔
 
Top