• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

روایت " لا المھدی الا عیسیٰ " اور مرزا قادیانی

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
غلام مصطفیٰ صاحب نے حضرت ابوھریرہؓ سے اماما مھدیا والی جو روایت پیش کی ہے اس میں اماما مھدیا بطور صفت آیا ہے نہ کہ بطور لقب ۔
لیجئے حضرت ابوھریرہؓ سے ہی روایت پیش خدمت ہے جس میں مھدیا کی جگہ مقسطا کا لفظ ہے ۔

سند أبي يعلى (11/462) : 6584 – حدثنا أحمد بن عيسى حدثنا ابن وهب عن أبي صخر أن سعيدا المقبري أخبره أنه سمع أبا ه ريرة يقول : سمعت رسول الله ـ صلى الله عليه و سلم ـ يقول : والذي نفس أبي القاسم بيده لينزلن عيسى بن مريم إماما مقسطا وحكما عدلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين وليذهبن الشحناء وليعرضن عليه المال فلا يقبله ثم لئن قام على قبري فقال : يا محمد لأجيبنه
قال حسين سليم أسد : إسناده صحيح
مجمع الزوائد للهيثمي (8/387) : 13813 – وعن أبي هريرة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : والذي نفس أبي القاسم بيده لينزلن عيسى بن مريم إماما مقسطا وحكما عدلا فليكسرن الصليب ويقتلن الخنزير وليصلحن ذات البين وليذهبن الشحناء وليعرضن المال فلا يقبله أحد ثم لئن قام على قبري فقال : يا محمد لأجبته
قلت : هو في الصحيح باختصار
رواه أبو يعلى ورجاله رجال الصحيح
 

محمدعمرفاروق بٹ

رکن ختم نبوت فورم
روایت " لا المھدی الا عیسیٰ " اور مرزا قادیانی


مرزا قادیانی کی تحریرات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ ان روایت سے جان چھڑانے کے لئے کوشاں رہتا تھا جن کے اندر ایک خاص شخصیت " مہدی " کے ظاہر ہونے کا بیان ہے ، اور اس نے بار بار لکھا کہ ان روایات میں سے جن کے اندر مہدی کا زکر ہے ایک بھی صحیح نہیں اور اسی وجہ سے امام بخاری و مسلم رحمتہ اللہ علیھم نے ایسی کوئی روایت اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کی ، لیکن دوسری طرف مرزا قادیانی کی یہ بھی ضد ہے کہ اسے " مہدی معہود " تسلیم کیا جائے ۔ آج بھی جماعت مرزائیہ مرزا قادیانی کو " مسیح موعود و مہدی معہود " کے الفاظ کے ساتھ یاد کرتی ہے ، ایک عام آدمی کے زہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر مرزا نے یہ " مہدی " کا تصور کہاں سے لیا ؟ اسے کیسے علم ہوا کہ کسی " مہدی نے آنا ہے ؟ کیا مرزا نے یہ بات ضعیفاور مجروح روایات سے لی ؟ اس سوال کا جواب تو مرزا کا کوئی پیروکار ہی دے سکتا ہے ۔

لیکن ہم مرزا قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب مرزا کے دل میں " مسیح " کے ساتھ " مہدی " بننے کا خیال بھی آیا تو اس نے ان تمام روایات میں سے جنہیں وہ " مجروح و مخدوش اور ضعیف " لکھ چکا تھا ایک روایت ایسی تلاش کی جو اس کے مطابق " بہت صحیح " تھی ، لیکن نہ مرزا قادیانی نے اور نہ ہی اس کی جماعت مرزائیہ نے کبھی یہ سوچا کہ بالفرض اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اس روایت میں بھی حضرت مریم علیھما السلام کے بیٹے عیسیٰ علیہ اسلام کا ذکر ہے ، اس روایت میں صراحتاََ تو کیا اشارتاََ بھی کوئی ذکر نہیں کہ " غلام احمد بن حکیم غلام مرتضیٰ و مسماۃ چراغ بی بی " مہدی ہے ، آئیے ہم مختصر طور پر اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں کیونکہ مرزا قادیانی کو " امام مہدی " ثابت کرنے کے لئے یہ روایت بڑے زرو شور کے ساتھ پیش کی جاتی ہے ۔

سنن ابن ماجہ میں ایک روایت مذکور ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :۔

" حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا يَزْدَادُ الْأَمْرُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا، وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُحًّا، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ، وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ "
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : معاملہ میں شدت بڑھتی جائے گی اور دنیا میں اوبار( افلاس اور اخلاق رذیلہ) بڑھتا ہی جائے گا ، لوگ بخیل سے بخیل تر ہوئے جائیں گے اور قیامت انسانیت کے بدترین افراد پر قائم ہوگی ، مہدی نہیں ہونگے مگر مریم کے بیٹے عیسیٰ ( علیہ اسلام )۔
( سنن ابن ماجہ ، حدیث : 4039 )

یہ روایت سنن ابن ماجہ کے علاوہ دوسری کتابوں میں بھی ملتی ہے لیکن چونکہ تمام کتابوں میں اس کی سند " محمد بن ادریس الشافعی " سے آگے ایک ہی ہے اس لئے ہم صرف سنن ابن ماجہ کی روایت پر ہی بات کریں گے ۔

مرزا قادیانی کا اقرار کے اس روایت کو محدثین نے ضعیف کہا ہے ۔


اس سے پہلے کہ ہم اس روایت اور اس کی سند پر محدثین اور ایمہ کی جرح و تعدیل کے اقوال پیش کریں ، یہ بتانا ضروری ہے کہ فریق مخالف یعنی مرزا قادیانی کو بھی یہ تسلیم ہے کہ اس روایت کی صحت کے بارے میں محدثین نے کلام کیا ہے ، صرف دو حوالے ملاخط فرمائیں ۔

مرزا قادیانی کے ایک مرید " محمد منظور الہی " نے مرزا قادیانی کی باتوں کو ( جسے ملفوظات کا نام دیا جاتا ہے ) " المہدی " کے نام سے سلسلہ شائع کرنا شروع کیا تھا ، اس سلسلے کے پہلے شمارے میں مرزا کی یہ بات نقل کرتا ہے کہ :۔

جیسے مثلاََ لا مھدی الا عیسیٰ والی حدیث ۔ گو محدثین اس پر کلام کرتے ہیں ۔ لیکن مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے " ( المہدی ، صفحہ 36 مرتبہ محمد منظور الہی ، شائع کردہ انجمن اشاعت اسلام لاہور )

یعنی مرزا قادیانی خود اعتراف کرتا ہے کہ اس روایت کی صحت پر محدثین نے کلام کیا ہے اور چونکہ مرزا کے پاس ان محدثین کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا اس لئے اس نے وہی پرانا ہتھیار کیا کہ مجھے میرے خدا نے بتایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔

( جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے )

اسی طرح ایک جگہ مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں نواب صدیق حسن خان رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب " حجج الکرامۃ فی آثار القیامۃ " کے حوالے لکھا ہے کہ :۔

" پھر صفحہ 385 میں لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ نے انس سے یہ حدیث لکھی ہے جس کو حاکم نے بھی مستدرک میں بیان کیا ہے کہ " لا مھدی الا عیسیٰ بن مریم " یعنی عیسیٰ بن مریم کے سوال اور کوئی مہدی موعود نہیں پھر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ضیعف ہے کیونکہ مہدی کا آنا بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے ۔ میں ( یعنی مرزا قادیانی : ناقل ) کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خای نہیں ہیں اسی وجہ سے امامین حدیث ( یعنی بخاری و مسلم رحمتہ اللہ علیہ : ناقل ) نے ان کو نہیں لیا ۔ اور ابن ماجہ اور مستدرک کی حدیث ابھی معلوم ہوچکی ہے کہ عیسیٰ ہی مہدی ہے ۔ لیکن ممکین نہیں کہ ہم اس طرح پر تطبیق کردیں کہ جو شخص عیسیٰ کے نام سے آنے والا احادیث میں لکھا گیا ہے اپنے وقت کا وہی مہدی اور وہ وہی امام ہے اور ممکن ہے کہ اس کے بعد کوئی اور مہدی بھی آوے اور یہی مذھب حضرت اسمٰعیل بخاری کا بھی ہے ( یعنی امام بخاری ، مرزا کو یہ بھی معلوم نہیں کہ امام بخاری کا نام اسمٰعیل نہیں بلکہ محمد بن اسمٰعیل بخاری ہے ۔ ناقل ) کیونکہ ان کا اگر بجز اس کے کوئی اور اعتقاد ہوتا تو ضرور وہ اپنی حدیث میں ظاہر فرماتے ۔۔۔ " ( خزائن جلد 3 صفحہ 406 )

ہمارا مقصد یہ حوالہ پیش کرنے کا صرف اتنا تھا کہ مرزا قادیانی نے نواب صدیق حسن خان رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حدیث " لامھدی الا عیسیٰ " ضعیف ہے ، اور اس پر مرزا نے نواب صاحب سے اختلاف نہیں کیا بلکہ خود یہ لکھ کر کہ " مہدی کی خبرین ضعف سے خالی نہیں " اس حدیث کو ضعیف تسلیم کیا ہے ۔ لیکن چونکہ یہاں بھی مرزا نے فریب دینے کی کوشش کی ہے اس لئے ہم مختصر تبصرہ کرکے آگے چلیں گے ۔
پہلی بات یہ کہ نواب صدیق حسن خان رحمتہ اللہ علیہ نے " حجج الکرامۃ فی آثار القیامۃ " کے صفحہ 385 پر اس روایت کے ضعیف ہونے کی وجہ بھی لکھی ہے جو مرزا نے ذکر نہیں کی ، پھر مرزا نے " لامھدی الا عیسیٰ " کے اردو ترجمہ میں اپنی طرف سے لکھا " یعنی عیسیٰ ابن مریم کے سوا اور کوئی مہدی موعود نہیں " جبکہ روایت کے الفاظ میں " موعود " کا لفظ کہیں نہیں بلکہ " حضرت مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام " کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد مرزا نے نواب صدیق حسن خان کی طرف سے اس روایت کی دوسری روایات کے ساتھ دی گئی تطبیق تو ذکر نہین کی ( نواب صاحب نے اسی صفحہ پر لکھا کہ " اس کی توایل یہ ہوسکتی ہے کہ مہدی کامل حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام چونکہ نبی بھی ہیں اس لیے وہ حضرت مہدی علیہ الرضوان سے بلاشنہ زیاہ کامل مہدی ہیں "۔ پھر نواب صداحب لکھتے ہیں کہ" بفرض صحت اس حدیث میں تاویل کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ ظاہری طور پر احادیث متواترہ کے مخالف نظر آتی ہے" ، پھر آگے اسی صفحہ پر اسی روایت کو ضعیف بھی ثابت کیا ) لیکن مرزا قادیانی نے اپنی تطبیق پیش کرتے ہوئے لکھا کہ" جو شخص عیسیٰ کے نام سے آنے والا احادیث میں لکھا گیا ہے ، اپنے وقت کا وہی امام ہے " ان الفاظ کے ساتھ مرزا نے اپنا مشہور ذمانہ دھوکہ دیا ہے ، کیونکہ کسی حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں کہ کوئی دوسرا شخص عیسیٰ کے نام سے آںے والا ہے ، اور پھر مرزا نے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا نام " حضرت اسماعیل بخاری " لکھا جبکہ امام صاحب کا نام " محمد " ہے اور " اسماعیل " آپ کے والد گرامی کا نام ہے اور یہیں مرزا نے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ پر ایک جھوٹ بھی بولا کہ ان کا بھی یہی مذھب ہے کہ عیسیٰ بن مریم ہی مہدی ہیں ، جبکہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ہرگز ایسی کوئی بات کہیں نہیں فرمائی اور نہ ہی " لامھدی الا عیسیٰ " والی روایت انہوں نے اپنی صحیح میں کہیں ذکر کی ، مرزا لکھتا ہے کہ " اگر امام بخاری کا اس کے علاوہ کوئی اور اعتقاد ہوتا تو وہ ضرور اپنی حدیث میں ظاہر فرماتے " میں مرزا سے کہتا ہوں کہ اگر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا یہ اعتقاد ہوتا تو وہ " لامھدی الا عیسیٰ " والی روایت ضرور اپنی کتاب میں ذکر فرماتے ۔ تو یہ تھے مرزا قادیانی کے چند حوالے ۔ اب ہم واپس آتے ہیں اور اس روایت پر اصول حدیث کی رو سے بات کرتے ہیں ۔

روایت " لامھدی الا عیسیٰ " کے بارے میں ائمہ حدیث کی آراء


سب سے پہلے ہم اس روایت کے بارے میں چند آئمہ حدیث کی آراء پیش کرتے ہیں اس کے بعد اس کی سند پر ہم بات کریں گے ۔

شارح مشکوۃ ملا علی القاری رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔

" ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ حَدِيثَ: لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِينَ "
جان لو کہ " لا مھدی الا عیسیٰ " والی حدیث کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ ( مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، جلد 10 صفحہ 101 )

علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔

" لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ : قال الصغانی موضوع " اس حدیث کے بارے میں امام صغانی رحمتہ اللہ علیہ ( حسن بن محمد الصغانی ، وفات 650ھ )نے کہا ہے یہ موضوع ( من گھڑت ) حدیث ہے ۔ ( الفوائد المجموعة في الأخبار الموضوعة ، صفحہ 439 ، المکتب الاسلامی )

نوٹ : امام صغانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی یہ بات اپنی کتاب " الدر الملتقط في تبيين الغلط " میں ذکر کی ہے ۔ ( الدر الملتقط صفحہ 34 روایت نمبر 44 )

امام شمش الدین ذھبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔

" لا مهدي إلا عيسى ابن مريم، وهو خبر منكر أخرجه ابن ماجة " یہ روایت منکر ہے جسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ ( ميزان الاعتدال جلد 3 صفحہ 535 )

شیخ الاسلام ابن تيمية رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔


" وَالْحَدِيثُ الَّذِي فِيهِ: " «لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ» " رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَهُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ " وہ حدیث جس میں ہے کہ نہیں مہدی مگر عیسیٰ بن مریم اور جو ابن ماجہ نے روایت کی ہے ضعیف ہے ۔ ( منهاج السنة النبوية جلد 4 صفحہ 101 تا 102 )

علامہ محمد عبدالعزیز فرھاری رحمتہ اللہ علیہ


یہ بیان کرتے ہوئے کہ احادیث متواترہ میں یہ بات آئی ہے کہ مہدی اہل بیت میں سے ہوں گے اور وہ زمین میں حکمرانی بھی کریں گے اور ان کی ملاقات عیسیٰ علیہ اسلام سے ہوگی ۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ ان متواترہ روایات کے خلاف اگر کوئی روایت ہے تو وہ صحیح نہیں ، اور انہی روایات میں سے " لا مھدی الا عیسیٰ " والی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔

" و کذا ما قِیل آنہ عیسیٰ علیہ اسلام بن مریم مستدلاََ بحدیث لا مھدی الا عیسیٰ بن مریم لان الحدیث لایصح " اسی طرح جو یہ کہا جاتا ہے کہ مہدی تو حضرت عیسیٰ بن مریم ہی ہیں اور دلیل میں یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نہیں مہدی مگر عیسیٰ بن مریم ( تو یہ استدلال صحیح نہیں ) کیونکہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔ (النبراس شرح شرح العقائد ، صفحہ 667 ) ۔

اس روایت کی سند کا مفصل جائزہ


اب آئیے اس روایت کی سند پر بات کرتے ہیں ، اس روایت میں ایک راوی ہے " مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ الصنعانی " اس کے بارے میں امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب " تاریخ الاسلام " میں لکھتے ہیں ۔

"
قال أبو الفتح الأزدي: منكر الحديث. وقال الحاكم: مجهول. قلت: هو صاحب ذاك الحديث المنكر: "لا مهديّ إلا عيسى ابن مريم ".
ابو الفتح ازدی کہتے ہیں: یہ منکر الحدیث ہے ( یعنی منکر حدیثیں روایت کیا کرتا تھا ) امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں : یہ مجہول ہے ، میں کہتا ہوں ( یعنی امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ) کہ اسی راوی نے یہ منکر حدیث روایت کی ہے لا مہدی الا عیسیٰ ۔ (
تاريخ الإسلام للذھبی ، جلد 4 صفحہ 1193 )

امام جرح و تعدیل حافظ جمال الدین مزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔
" وَقَال الحافظ أبو بكر البيهقي: هذا حديث تفرد به محمد ابن خالد الجندي، قال أبو عبد الله الحافظ : ومُحَمَّد بن خالد رجل مجهول، واختلفوا عليه في إسناده"
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث ( یعنی لامہدی الا عیسیٰ ) صرف محمد بن خالد جندی نے روایت کی ہے ، ابو عبداللہ الحافظ ( یعنی امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ ) نے فرمایا کہ : محمد بن خالد ایک مجہول شخص ہے ، نیز اس روایت کی سند میں اختلاف بھی ہے ( جس راوی سے محمد بن خالد نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اسکا نام ابان بن صالح ہے اور کہیں ابان بن ابی عیاش ہے ۔ناقل ) ۔ ( تہذیب الکمال ، جلد 25 صفحہ 149 )
پھر آگے لکھتے ہیں
" قال البيهقي: فرجع الحديث إلى رواية مُحَمَّد بن خالد الجندي، وهو مجهول، عن أبان بن أَبي عياش وهو متروك۔۔۔۔۔والأحاديث في التنصيص على خروج المهدي أصح إسنادا. وفيها بيان كونه من عترة النبي صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم."
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ حدیث محمد بن خالد جندی کی طرف لوٹتی ہے اور وہ مجہول راوی ہے اور ( ایک روایت میں ۔ ناقل ) وہ ابان بن ابی عیاش سے روایت کرتا ہے جو کہ متروک راوی ہے ۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں ۔۔۔۔ وہ احادیث جن کے اندر خروج مہدی کا ذکر ہے ان کی سندیں زیادہ صحیح ہیں اور ان ( صحیح روایت ۔ناقل ) میں یہ بیان ہوا ہے کہ مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عترت سے ہوں گے ۔ ( تہذیب الکمال ، جلد 25 صفحہ 150 )

حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں

" قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الآبِرِيُّ فِي كِتَابِ (مَنَاقِبِ الشَّافِعِيِّ) : "مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ هَذَا غَيْرُ مَعْرُوفٍ عِنْدَ أَهْلِ الصِّنَاعَةِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ وَقَدْ تَوَاتَرَتِ الأَخْبَارُ وَاسْتَفَاضَتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِكْرِ الْمَهْدِيِّ وَأَنَّهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَأَنَّهُ يَمْلُكُ سَبْعَ سِنِينَ وأنه يؤم الأَرْضَ عَدْلا وَأَنَّ عِيسَى يَخْرُجُ فَيُسَاعِدُهُ عَلَى قَتْلِ الدَّجَّالِ وَأَنَّهُ يَؤُمُّ هَذِهِ الأُمَّةَ وَيُصَلِّي عِيسَى خَلْفَهُ".
وَقَالَ الْبَيْهَقِيُّ: "تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ هَذَا" وَقَدْ قَالَ الْحَاكِمُ: "أَبُو عَبْدِ اللَّهِ هو مجهول "

محمد بن حسین آبری رحمتہ اللہ علیہ نے مناقب الشافعیہ میں فرمایا ہے کہ یہ محمد بن خالد جندی اہل علم اور اہل نقل کے نزدیک غیر معروف ہے ( یعنی مجہول ہے ۔ ناقل )، جبکہ مہدی کا ذکر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث میں وارد ہوا ہے ، جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ مہدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہوں گے ، وہ سات سال حکومت بھی کریں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے ، اور یہ بھی بیان ہے کہ عیسیٰ علیہ اسلام کے خروج کے بعد دجال کے قتل کرنے میں ان کی مدد بھی کریں گے ، اور وہ ( امام مہدی علیہ الرضوان ) اس امت کی امامت بھی فرمائیں گے اور عیسیٰ علیہ اسلام بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ روایت صرف محمد بن خالد جندی نے روایت کی ہے اور امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ وہ مجہول ہے ۔ ( المنار المنیف ، صفحہ 142 )
اس کے بعد حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے وہ احادیث ذکر فرمائی ہیں جن کے اندر " حضرت مہدی علیہ الرضوان " کا ذکر ہے اور پھر ان لوگوں کا رد کرتے ہوئے جو " لا مھدی الا عیسیٰ " والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ہی مہدی ہیں لکھتے ہیں ۔
" وَاحْتَجَّ أَصْحَابُ هَذَا بِحَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُنْدِيِّ الْمُتَقَدَّمُ وَقَدْ بَيَّنَّا حَالَهُ وَأَنَّهُ لا يَصِحُّ وَلَوْ صح لم يكن فيه حُجَّةً لأَنَّ عِيسَى أَعْظَمُ مَهْدِيٍّ بَيْنَ يَدِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ السَّاعَةِ.
وَقَدْ دَلَّتِ السُّنَّةُ الصَّحِيحَةُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نُزُولِهِ عَلَى الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيِّ دِمَشْقَ وَحُكْمِهِ بِكِتَابِ اللَّهِ وقتله اليهود والنصارى وَوَضْعِهِ الْجِزْيَةِ وَإِهْلاكِ أَهْلِ الْمِلَلِ فِي زَمَانِهِ.۔۔۔ الخ "

یہ نکتہ نظر رکھنے والے خالد بن محمد الجندی کی اس حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں جو پہلے گذری ہے ( یعنی لا مھدی الا عیسیٰ ۔ ناقل ) اور ( خالد بن محمد الجندی ) کا حال ہم پہلے بیان کر چکے اور یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے اور اگر ( بلفرض ) صحیح بھی ہو تو اس میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ( کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ہی مہدی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قیامت کے درمیان سب سے بڑے مہدی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ہی تشریف لائیں گے ( یہ توجیہ اس لئے ضروری ہے کہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ ( حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ) دمشق کے مشرقی حصہ میں سفید منارہ پر نازل ہوں گے اور آپ نازل ہو کر اللہ کی کتاب ( قرآن ) کے مطابق فیصلے کریں گے اور یہود و انصاریٰ کو قتل کریں گے ( اگر وہ ایمان نہ لائیں گے ۔ ناقل ) اور جزیہ قبول نہیں کریں گے اور ان کے زمانے میں تمام ( باطل ) ملتوں والے ہلاک کر دیئے جائیں گے ۔ ( المنار المنیف ، صفحہ 148 )

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں

" محمد ابن خالد الجندي بفتح الجيم والنون المؤذن مجهول " محمد بن خالد جندی جیم اور نون پر زبر کے ساتھ ، جنہیں مؤذن کہا جاتا ہے ، یہ مجہول ہے ۔ ( تقريب التهذيب ، صفحہ 476)

امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں

" قال أَبُو عَبْد الرَّحْمَن أَحْمَد بْن شعيب النسائي هَذَا حديث منكر وقال البيهقي تفرد بهذا الحديث مُحَمَّد بْن خَالِد الجندي قال: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَاكِمُ مُحَمَّد بْن خَالِد رَجُل مجهول "
امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے ، امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : یہ حدیث صرف محمد بن خالد جندی نے بیان کی ہے ، اور امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ " محمد بن خالد ایک مجہول شخص ہے ۔ ( العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ، جلد 2 صفحہ 380 )

کیا امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے خالد جَنَدی کو ثقہ کہا ہے ؟

اس کی سند " خالد جندی " نام کا راوی جو کہ مجہول الحال ہے تو اس کو ثقہ ثابت کرنے کے لئے کچھ لوگ اس راوی " خالد جندی " کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ مجہول نہیں ہے کہتے ہیں کہ امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے بلکہ امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو ثقہ بتایا ہے اور حوالے کے طور پر حافظ ابن کثیر کو پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے لکھا ہے کہ
" وَلَيْسَ هُوَ بِمَجْهُولٍ كَمَا زَعَمَهُ الْحَاكِمُ، بَلْ قَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ أَنَّهُ وَثَّقَهُ " ( محمد بن خالد جندی ) مجہول نہیں ہے جیسا کہ امام حاکم نے گمان کیا ہے بلکہ امام ( یحییٰ ) بن معین سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے ثقہ کہا ہے ۔ ( البداية والنهاية جلد 19 صفحہ 66 )
اسی طرح امام زھبی رحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ
" ذكره ابن الصلاح في أماليه، ثم قال: محمد بن خالد شيخ مجهول. قلت: قد وثقه يحيى بن معين. والله أعلم " ابن اصلاح رحمتہ اللہ علیہ نے امالی میں کہا ہے کہ محمد بن خالد مجہول ہے ، میں ( یعنی امام ذھبی رحمتہ اللہ علیہ ) کہتا ہوں کہ یحییٰ بن معین نے اس کی توثیق کی ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ( ميزان الاعتدال ، جلد 3 صفحہ 535 )
تو حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ابن معین رحمتہ اللہ علیہ سے یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے محمد بن خالد جندی کی توثیق کی ہے اور امام زھبی رحمتہ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی توثیق کی ہے ، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے یہ توثیق کہاں بیان ہوئی ہے ؟
اصل میں حافظ جمال الدین المزی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " تہذیب الکمال " میں امام آبری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب " مناقب شافعی " کے حوالے سے ایک روایت زکر کی ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ نے محمد بن خالد جندی کو ثقہ کہا ہے ، آئیں پہلے وہ روایت پوری پڑھتے ہیں اور پھر اس کے بعد دیکھیں گے کہ اس روایت کے بل بوتے پر کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام یحییٰ بن معین نے محمد بن خالد جندی کو ثقہ کہا ہے ؟
" قال أبو الْحَسَن مُحَمَّد بن الحسين الآبري الحافظ في "مناقب الشافعي ": أخبرني مُحَمَّد بن عبد الرحمن الهمذاني ببغداد، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن مخلد وهو العطار، قال: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن مُحَمَّد بن المؤمل العدوي، قال: قال لي يونس بْن عبد الاعلى: جاءني رجل قد وخطه الشيب سنة ثلاث عشرة يعني ومئتين عليه مبطنة وأزير يسالني عن هذا الحديث، فقال لي: من مُحَمَّد بن خالد الجندي؟ فقلت: لا أدري. فقال لي: هذا مؤذن الجند وهو ثقة. فقلت له: أنت يحيى بن مَعِين؟ فقال: نعم.۔۔۔ الخ " یونس بن عبدالاعلی کا بیان ہے کہ میرے پاس ایک آدمی آیا جس پر بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوچکے تھے اور اُس نے کمبل اوڑھا ہوا تھا یہ سنہ 213 ہجری کی بات ہے ، اُس آدمی نے مجھ سے اس حدیث ( یعنی لا مہدی الا عیسیٰ ) کے بارے میں پوچھا اور کہا یہ محمد بن خالد جندی کون ہے ؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا ، تو اُس آنے والے نے کہا یہ جَنَد کا موذن ہے اور ثقہ ہے ، میں نے پوچھا کیا آپ یحییٰ بن معین ہیں ؟ تو اُس نے جواب دیا ہاں ۔ ( تهذيب الكمال في أسماء الرجال جلد 25 صفحہ 148،149 )
تو قارئین ! یہ ہے وہ حکایت جس کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ امام یحییٰ بن معین نے خالد بن جندی کو ثقہ کہا ہے ، لیکن یہ استدلال دو وجہ سے غلط ہے ۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ اس حکایت میں ایک صاحب ہیں " أَحْمَد بن مُحَمَّد بن المؤمل العدوي " یہ مجہول الحال ہیں اور ہمیں اسماءالرجال کی کسی کتاب میں ان کے بارے میں نہیں ملا کہ یہ ثقہ ہیں یا نہیں ، خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے بارے میں نہ تعدیل ذکر کی اور نہ ہی جرح ( تاریخ بغداد جلد 6 صفحہ 284 ) ، حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ان کا ذکر کیا ہے انہوں نے بھی نہیں بیان کیا کہ یہ ثقہ ہیں یا نہیں ( تاریخ ابن عساکر جلد 5 صفحہ 457،458 ) لہذا یہ حکایت قابل اعتماد نہیں ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اِس حکایت کے اندر " یونس بن عبدالاعلی " کا بیان ہے کہ جو اجنبی میرے پاس آئے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ " کیا تم محمد بن خالد الجندی کو جانتے ہو ؟ تو میں نے کہا نہیں میں نہیں جانتا ، یہاں یہ یاد رہے کہ یہ روایت " لا مہدی الا عیسیٰ والی روایت کے ایک راوی یہ خود یونس بن عبدالاعلی بھی ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میں محمد بن خالد الجندی کو نہیں جانتا ، پھر اُس اجنبی نے کہا کہ وہ جَِنَد کے موذن اور ثقہ ہیں تو اس نے اجنبی سے پوچھا کہ کیا آپ یحییٰ بن معین ہیں ؟ تو اس اجنبی نے بتایا جواب دیا کہ ہاں ، یعنی اس حکایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یونس بن عبدالاعلی پہلے امام یحییٰ بن معین کو نہیں جانتے تھے اور نہ انہیں کبھی دیکھا تھا بلکہ اس آنے والے اجنبی نے بتایا کہ میں یحییٰ بن معین ہوں ، لہذا اس حکایت کی بنا پر ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص واقعی امام یحییٰ بن معین تھے یا کوئی اور شاید یہی وجہ ہے کہ آمام آبری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا کہ
" ومُحَمَّد بن خالد الجندي وإن كان يذكر عن يحيى بن مَعِين ما ذكرته فإنه غير معروف عند أهل الصناعة من أهل العلم والنقل." اگرچہ محمد بن خالد الجندی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین کی یہ بات ذکر کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ یہ راوی علم و نقل والے فن ( اسماء الرجال و علماء حدیث ) کے ہاں غیر معروف ہے ۔ ( تهذيب الكمال في أسماء الرجال جلد 25 صفحہ 149 )
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو باجماع محدثین ضعیف قرار دیا ہے۔IMG_20181020_222738_546.jpg
 
Top