مرتضیٰ مہر
رکن ختم نبوت فورم
مرزائی حضرات حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مبہم قول پیش کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’قولو خاتم النبین ولا تقولو لانبی بعدہ‘‘ آپ ﷺ کو خاتم النبین کہو مگر یہ بات نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ اس فرمان عائشہ کا کیا مطلب ہے ؟حضرت عائشہؓ نے کس پیرایہ میں یہ بات کی ہے اس سے قطع نظر مرزائی اُمت نے دیانت کا خون کرتے ہوئے حقائق کو مسخ کر دیا بلکہ ان اصولوں کو بھی پامال کر دیا جن کی کسی مہذب انسان سے توقع کی جا سکتی ہے ۔ آئیے پہلے ہم حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب فرمان اقدس کو علم روایت و درایت کی کسوٹی پر پرکھیں پھر دیکھیں کہ مرزائی اپنے غلط مذہب کو بچانے کے لئے کیسے سہارے ڈھونڈتے ہیں ۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور تفسیر ابن کثیر میں حضرت عائشہؓ کا مندرجہ ذیل فرمان جس کو بنیاد بنا کر مرزائی حضرات اپنی آخرت برباد کر ہے ہیں اور دوسرے مضبوط دلائل سے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہیں ’’حدثنا حسین بن محمد قال حدثنا جریر بن حازم عن عائشہؓ:قالت قولو اخاتم النبین لا نبی بعدہ‘‘۔
(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :26072)
تفسیر درمنشور میں ابن شیبہ کے حوالے سے مذکور یہ فرمان عائشہؓ اُمت مرزایہ کے لئے ان کی خود ساختہ نبوت کی دلیل بن گیا اور مرزائی حضرات صحیح صریح واضح آیات بینات کتاب اللہ،سنت رسول اللہ وحی کے مقابلہ میں اس اثر صحابی کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور قرآن پاک کی اس آیت کا مصداق بنے بیٹھے ہیں ۔ ’’اتفو منون ببعض الکتاب ویکفرون ببعض‘‘کہ اپنے پسند کی بعض آیات پر تو ایمان لاتے ہیں اور جو آیات ان کی طبیعت کے خلاف ہو اس کی طرف توجہ بھی نہیں بن سکتی ۔
1۔ مندرجہ بالا حدیث عائشہؓ خبر واحد ہے اور اس خبر واحد کی بنیاد پر ایسے عقیدے کا خلاف جائز نہیں جو عقیدے کے باب میں درکار قطعی ادلہ یعنی ادلہ ثلاثہ قرآن اجماع اور تواتر سے ثابت ہو عقیدہ ختم نبوت قطعی ہے اور مندرجہ ذیل حدیث مفید ظن ہے اس سے قطعیت کا مقابلہ نہیں ہو سکتا ۔
2۔ درمنثور میں یہ حدیث بلا سند نقل کی گئی ہے اور مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں جو اس کی سند مذکور ہے وہ منقطع ے اس لئے کہ جریر بن حازم کا حضرت عائشہؓ سے سماع اور لقاء تو دور کی بات معاصرت بھی ثابت نہیں اسلئے کہ جریر بن حازم تو پیدا ہی حضرت عائشہؓ کی وفات کے بعد ہوئے ہیں ۔ جریر بن حازم بن زید بن عبد اللہ الازدی 90ہجری میں پیدا ہوئے اور 170ہجری میں فوت ہوئے ۔ ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ۔(تہذیب التہذیب ابن حجر ج 1ص544،تہذیب الکمال ج 4ص524،الکاشف ج 1ص181،الجرح و التعدیل ج 1ص136،تاریخ البخاری الکبیر ج 2ص213،خلاصہ تہذیب الکمال ج 1ص162)یعنی جریر بن حازم پیدا ہو رہا ہے 90ہجری کے قریب اور حضرت عائشہ فوت ہوئی 57ہجری میں ۔(تقریب التہذیب ص 769)
اب فیصلہ اصحاب دانش کر لیں کہ ایسا شخص جو حضرت عائشہؓ کی وفات کے کم و بیش 33سال بعد پیدا ہو وہ روایت کیسے کر سکتا ہے ؟لہٰذا یہ روایت اتصال سند کے نہ ہونے کی وجہ سے منقطع ٹھہری اور منقطع حدیث ضعیف کی قسم ہے جس کا حکم آ گے آ رہا ہے ۔
3۔ مصنف ابن ابی شیبہ کے قدیم نسخوں میں تو جریر بن حازم اور حضرت عائشہؓ کے درمیان کوئی راوی نہ تھا مگر اب سعودیہ سے شائع ہونے والی مصنف ابن ابی شیبہ میں جریر کے بعد محمد نامی راوی کو دریافت کیا گیا ہے جس سے محمد بن سیرین مراد ہیں جو کہ تیسرے طبقہ کے وسطیٰ تابعین میں سے ہیں ۔ اُنہوں نے حضرت عائشہؓ کا زمانہ پایا ہے ۔ جس سے بظاہر اتصال سند کا اشتباہ ہوتا ہے مگر ’’بسا آرزو کے خاک شد‘‘۔محمد بن سیرین بھی باوجود معاصرت کے حضرت عائشہؓ سے نہ تو سماع کا شرف حاصل کر سکے اور نہ ملاقات کا ۔ اس لئے یہ حدیث بھی اصول حدیث کی روشنی میں منقطع ٹھہری اس لئے اس مجروح روایت سے مرزا کی لولی لنگڑی نبوت کو بیساکھی فراہم کرنے کی کوشش بے سود ہے ۔
حدیث منقطع کا حکم
عبد الرحمان بن یحییٰ المعلمی اپنی کتاب ’’انوار الکاشفہ‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں :’’فالخبر المنقطع غیر صحیح‘‘(منقطع حدیث صحیح نہیں ہوتی۔)حکمہ انہ من اقسام الضعیف(التقریرات السنیہ شرح المنظومۃ البیقونیہ فی مصطلح الحدیث ج 1ص68)حکمہ انہ من اقسام الضعیف (الدرالنقیہ شرح منظولہ البیقونیہ ج 1ص9)والا صل فی المنقطع انہ حدیث ضعیف(شرح الموقظہ السلیمان بن ناصر العلوان ج 2ص73)اصل میں حدیث منقطع حدیث ضعیف ہی ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس حدیث میں بھی بوجہ انقطاع مرزائی کے لئے کوئی فائدہ نہ رہا ۔
محمد ابن سرین کے عدم سماع کا ثبوت
امام محمد عبدالرحمان بن ابی حاتم محمد بن ادریس الرازی فرماتے ہیں:’’ابن سرین لم یسمع من عائشۃ شئاء‘‘(المراسیل الابن ابی حاتم الرازی ج 1ص23)ابن سرین لم یسمع من عائشۃ شئاء‘‘(التہذیب التہذیب لابن حجر ج 8ص156)(ابن سرین نے حضرت عائشہؓ سے کچھ بھی نہیں سنا)
اب تو مسئلہ ہی صاف ہو گیا کہ جریر بن حازم کے بعد محمد بن سرین کی دریافت بھی چنداں مفید نہ ہوئی اور حدیث بدستور منقطع رہی اور منقطع کا ضعیف ہونا تو پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔ اور ضعیف حدیث سے تو احکام شرع ثابت نہیں ہوتے چہ جائیکہ ختم نبوت جیسا اہم اور منصوص عقیدہ کی تردید اس ضعیف حدیث سے کی جائے ۔
4۔ جب حدیث مرفوع اور حدیث موقوف میں تعارض واقع ہو جائے تو ترجیح حدیث مرفوع کو ہوتی ہے اسلئے کہ مرفوع کلام رسول کو کہتے ہیں اور موقوف کلام صحابی کو ۔ تو جس پیغمبر ﷺ کو اپنے صحابہ پر فضیلت اور ترجیح حاصل ہے ایسے ہی حدیث مرفوع کو حدیث موقوف پر فضیلت اور ترجیح ہے ۔ اور آپ ﷺ کے بے شمار صحیح صریح مرفوع احادیث لانبی بعدی کا ببانگ دہل اعلان کر رہی ہیں ۔ مثلاً صحیح بخاری میں آپ ﷺ کا فرمان ذیشان مذکور ہے ۔ ’’عن ابی ہریرۃ عنہ عن النبی ﷺ قال:کانب بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی‘‘(بخاری ج 1ص491)(حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ بنو اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا تو اس کا نائب دوسرا نبی آ جاتا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا)۔اس طرح اور بھی بے شمار احادیث ہیں جن کو علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے ’’التصریح بما تواتر فی نزول امسیح‘‘میں ذکر کیا ہے ۔ تفصیل کے لئے وہاں ملاحظہ فرما لی جائیں ۔ پس خلاصہ کلام یہ ہوا کہ مرفوع اور موقوف کے تعارض کی صورت میں ترجیح مرفوع کو ہوتی ہے اور بالخصوص اس وقت کہ جب وہ موقوف منقطع یعنی ضعیف بھی ہو تو قطعاً قابل استدلال نہیں رہتا ۔ حدیث صحیح صریح مرفوع کے مقابلہ میں حدیث موقوف منقطع غیر صریح کب مسموع ہو سکتی ہے ۔
5۔ جب حدیث ایک جگہ پر مبہم ہو اور دوسری جگہ پر مفسر ہو تو مبہم پر مفسر کو ترجیح ہو گی اور اس کے ابہام کو مفسر کی مدد سے دور کیا جائے گا ۔ زیر بحث حدیث عائشہؓ اس مطلب کے بیان کرنے میں مبہم ہے کہ اس سے مُراد حضرت عیسیٰ ؑ ہیں جنہوں نے قرب قیامت میں دوبارہ تشیر لانا ہے یا کسی نئے نبی کی آمد کی اطلاع ہے ۔ لہٰذا اس حدیث کو اصول محدثین کی روشنی میں پرکھ کر اس کا ابہام دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ محدثین کا اصول ہے:’’المفسر بقضی علی المبہم‘‘بخاری حدیث نمبر 1438،جامع الاصول فی احادیث الرسول للجزری ج 4ص587،نصب الرایہ لاحادیث الہدایہ للزبلعی ض2ص385،مسند الصحابہ ج 13ص273(مفسر کے ساتھ مبہم کا فیصلہ کیا جائے گا)۔
تفسیر درمنثور میں ابن ابی شیبہ کے حوالے سے موجود قول عائشہؓ اس طرح ہے :’’عن عائشہ قالت:قولواخاتم النبین ولا تقولو ا لانبی بعدی وفی روایۃ محمد عن عائشہؓ ہکذا۔۔۔۔‘‘(تفسیر درمنثور)اس حدیث میں محمد بن سرین حضرت عائشہؓ سے نقل کر رہے ہیں کہ خاتم النبین کہو یہ نہ کہو ’’ولا نبی بعدہ‘‘کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ا س حدیث مبارکہ میں ’’لا نبی بعدہ‘‘ کی تعین نہ ہونے کی وجہ سے یہ حدیث مبہم ہے اب اس کی تعیین دوسری جگہ پر حضرت عائشہؓ نے خود فرما دی ہے ۔ ’’عن عائشہ قالت لا تقولوا لانبی بعدہ وقولوا خاتم النبین ینزل عیسیٰ ابن مریم حکماً عدلاً واماما مقسطاً فیقتل الدجال ویکسر الصلیب ویقتل الخنزیر وتضع الجزیہ وتضع الحرب اوزارھا‘‘(تفسیر یحییٰ بن سلام رقم الحدیث 521،تفسیر روح البیان للحقی ج 8ص164)
(حضرت محمد بن سرین حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ مت کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں بلکہ یہ کہو آپ خاتم النبین ہیں اس لئے کہ عیسیٰ نازل ہوں گے ۔عادل،حاکم اور انصاف والے امام بن کر وہ دجال اور خنزیز کو قتل کریں گے اور صلیب توڑ دیں گے جزیہ ختم ہو جائے گا اور جنگیں دم توڑ دیں گی۔)اس حدیث مبارکہ نے صراحت کر دی کہ حضرت عائشہؓ قطعاً وہ مقصد نہیں ہے جو اُمت مرزائی کے شعبدہ باز زبردستی اس سے نکالنا چاہتے ہیں بلکہ اس حدیث میں تو حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کی خبر دی گئی ہے نہ کہ اجرائے نبوت کا قانون بیان کیا گیا ہے لہٰذا اصول محدثین کی روشنی میں مبہم کی تعیین مفسر سے ہو گئی اور عقیدہ ختم نبوت خوب نکھر کر سامنے آ گیا ۔
6۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا وہ اثر جو امام سیوطیؒ تفسیر در منثور میں قول عائشہؓ کے بعد لائے ہیں جس میں قول عائشہؓ کے اجمال کی تفصیل ہے مرزائی حضرات اسے بیان نہیں کرتے اس لئے کہ اس طرح تو ان کے تیار کردہ شاہی قلعے ہوائی قلعے ثابت ہوں گے ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ارشاد فرماتے ہیں :’’حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء ،فانا کنا نحدث ان عیسیٰ خارج فان ھو خرج کان قبلہ وبعدہ‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ باب من کرہ ان یقول لانبی بعد نبی حدیث نمبر 220،معجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث 994،معجم الزوائد رقم الحدیث 13791)حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے سامنے جب کسی آدمی نے کہا لانبی بعدہ تو اُنہوں نے فرمایا خاتم الانبیاء یعنی نبیوں میں سے آخری نبی کہنا ہی کافی ہے اسلئے کہ عیسیٰؑ کا ’’لا نبی بعدی‘‘سے استثناء ہے ۔ وہ پہلے بھی تھے اور بعد میں بھی آئیں گے (یعنی کسی نبوت جدیدہ کے ساتھ نہیں آئیں گے بلکہ سابقہ نبوت کے ساتھ ہی آئیں گے جو ختم نبوت کے منافی نہیں ہے)۔لہٰذا حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے بھی قول عائشہؓ کے ابہام کی تفسیر فرما دی ۔
7۔ مرزائی نبوت کفر کی سرزمین پر اُگنے والا دھوکے کا شجر خبیثہ ہے اس لئے ان سے کسی خیر کی توقع سورج کی پیشانی سے شبنم کشید کرنے کی سعی لا حاصل ہے اس لئے مرزائی دھوکہ دینے کے لئے کچھ عبارت بھی پیش کرتے ہیں جن میں قطع و برید کر کے اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں ۔ مرزائی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ ﷺ کی صریح حدیث موجود تھی ’’انا خاتم النبین لا نبی بعدی‘‘کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں تو حضرت عائشہؓ نے اس صحیح صریح حدیث کی مخالفت کیوں فرمائی؟ اس ممکنہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام قرطبیؒ اپنی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :’’ولیس بعد نبینا علیہ الصلوۃ والسلام نبی ای یدعی النبوۃ بعدہ ابتداء‘‘(تفسیر قطربی ج 11ص28)یعنی ہمارے نبی ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اس کا مطلب ہے ایسا نبی جو نیا نبوت کا دعویٰ کرے ایسا نبی نہیں ہے ۔ اور اس لئے علامہ حافظ احمد بن علی ابن حجر العسقلانی متوفی 852ھ ارشاد فرماتے ہیں:فوجب حمل النفی ای فی قولہ (ﷺلانبی بعدی):علی انشاء النبوۃ الاحد من الناس لا علی نفی وجودنبی کان قد نبی قبل ذالک(الاصابہ فی تمیز الصحابہ ج 2ص273)
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اپنے بعد نبوت کی نفی فرمانے کو انشاء نبوت پر محمول کیا جائے گا یعنی آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا مدعی نبوت نہیں آئے گا اور اس لا نبی سے ان انبیاء کی نفی مقصود نہیں ہے جو پہلے سے نبی ہیں اور یہی مراد حضرت عائشہؓ کی تھی کہ کہیں امت لا نبی بعدی کی وجہ سے نزول عیسیٰؑ کا انکاربھی نہ کر بیٹھے ۔ مرزائی امت کے نباش جب ہر طرف سے عاجز آ جاتے ہیں تو پھر اکابرین اُمت کی عبارات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن یہ بھی بارش سے بچنے کے لئے پرنالے کے نیچے کھڑے ہونے والی بات ہے ۔ آئیے ذرا !مرزائی فنکاروں کی پھرتیاں ملاحظہ کریں : فارمن المطر وقام تحت المیزاب!
دھوکہ نمبر 1:۔عالم بے بدل حضرت ابن قتیبہ ؒ فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہؓ کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان’’لانبی بعدی‘‘ کے مخالف نہیں کیونکہ حضور ﷺ کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو۔(تاویل مختلف الاحادیث ص 236)
جواب:۔یہاں بھی مرزائی حضرات نے اسے اپنی ادھوری نبوت کے ثبوت کے لئے ادھوری عبارت نقل کی ہے ۔ پہلے تاویل الاحادیث کی مکمل عبارت ملاحظہ ہو ۔’’واما قول عائشہؓ:قولواالرسول اللہ ﷺ خاتم النبین ولا تقولوا لا نبی بعدہ فانہا تذہب الی نزول عیسیٰ علیہ السلام ،ولیس ہذا من قولہا ناقضاً لقول النبی ﷺ لا نہ اراد لانبی بعدی ینسخ ماجنت بہ کما کانت الانبیاء علیہم السلام تبعث بالنسخ وارادت ھی لاتقولواان المسیح لاینزل بعدہ‘‘(تاویل مختلف الاحادیث لا بن قتیبہ ص 236)
(حضرت عائشہؓ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کو خاتم النبین کہو اور یوں نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں تو آپؓ کے اس فرمان کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے نزول سے ہے اور یہ قول آنحضرت ﷺ کی حدیث ’’لا نبی بعدی‘‘ کے خلاف نہیں ہے کیونکہ یہاں اس کا مطلب ہے کہ ایسا کوئی نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کر دے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام سابق شرع کو منسوخ کرنے کے لئے معبوث کئے جاتے تھے جب کہ اس کا مطلب یہ تھا تم یہ نہ کہو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام بھی بعد میں نہیں آئیں گے)۔اب مرزائی حضرات نے پوری عبارت کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کر لیا اور صرف اتنی بات نقل کی ’’اب کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کر دے‘‘لیکن مرزائی اُمت کو کیا معلوم تھا کہ اتنی سی عبارت بھی ہمارے گلے میں ہڈی بن کر پھنس جائے گی اس لئے کہ مرزا کا دعویٰ تو قرآن کریم جو حضرت محمد ﷺ پر اُترا اور آپ ﷺ کے فرمودات کے منسوخ اور ختم کرنے کا ہے اس لئے بے بدل کی بات نے مرزائی کی شکل بد کر رکھ دی ہے ۔ ملاحظہ کریں مرزا کس طرح ناسخ شریعت محمدیہ بن بیٹھا ہے ۔
حوالہ نمبر1:۔’’ہم کہتے ہیں قرآن کہاں موجودہے؟اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دنیا سے اُٹھ گیا ہے اس لئے تو ضرورت پیش آئی کہ محمد رسول اللہ ﷺ (مرزا غلام قادیانی) کو بروزی طور پر دوبارہ دنیا میں معبوث کر کے آپ پر قرآن شریف اُتارا جائے ۔‘‘
(کلمۃ الفضل ص 173از مرزا بشیر احمد کادیانی)
حوالہ نمبر2:۔’’جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اس طرح اس کلام کو بھی جو میرے اوپر نازل ہوتا ہے ۔ خدا کا کلام یقین کرتا ہوں ۔‘‘
حقیقتہ الوحی ص 220،خزائن ج 22ص220)
حوالہ نمبر 3:۔’’میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں قرآن اور وحی ہے جو میرے اوپر نازل ہوئی ۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف (جو میرے اوپر نازل ہوا)اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔‘‘
(ازالۃ الاوہام حاشیہ 1ص77،خزائن ج 3ص140)
حوالہ نمبر4:۔’’اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہو اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پا کر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پر کر رد کر دے ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص 01خزائن ج 17ص15)
اب بتائیے!یہ تو محمد عربیﷺ کی شریعت قرآن اور حدیث کو منسوخ کرنے کا مدعی ہے تو حضرت ابن قتیبہ کی عبارت تو الُٹا آپ کے لئے موت کا بلیک وارنٹ ثابت ہوئی کہ اس میں ایسے نبی کی آمد ممنوع بتائی تھی ہے جو پیغمبر ﷺ کی شریعت کو منسوخ کر دے لہٰذا اس عبارت سے آپ کی فرنگیانہ نبوت کے سینگ سمانے کی جگہ نہیں نکل سکتی ۔
بقول غالب:
بے کاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
بے کار نبی کی بے کار اُمت وہ تمام حوالے جو اس عنوان پر پیش کرتی ہے کہ اب ایسا نبی پیدا نہیں ہوگا ۔ جو صاحب شریعت جدیدہ ہوا اور میری شریعت کا ناسخ ہو اس کو مرزا غلام کادیانی پر منطبق کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب کوئی نئی شریعت نئی وحی یا نئی دین لے کر تو نہیں آئے ۔ تو مندرجہ بالا چار حوالے ان کے جھوٹ کا پول کھولنے کے لئے کافی ہیں اس لئے وہ تمام عبارات جن میں نبوت جدیدہ کی نفی ہے ان کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کرنا سراسر تلبیس و فریق ہے ۔ وہ عبارات جن سے مرزائی اُمت کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل ہیں :۔
1۔محدث امت امام محمد طاہر گجراتی فرماتے ہیں:حضرت عائشہؓ کا یہ قول لانبی بعدی کے منافی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی مُراد یہ ہے ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کر دے ۔ (تکملہ مجمع البحار ص 85)اس عبارت میں مرزائی نبوت کی کاریگری کارفرما ہے اصل عبارت یہ ہے ۔ ’’حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑ دیں گے اور حلال چیزوں میں زیادتی کریں گے ۔ یعنی نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی آسمان کی طرف چلے جانے سے پہلے اُنہوں نے شادی نہیں کی تھی ان کے آسمان سے اُترنے کے بعد حلال میں اضافہ ہوا ۔ اس زمانے میں ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا یقیناًیہ بشر ہیں اور صدیقہ عائشہؓ فرماتی ہیں حضور ﷺ کو خاتم النبین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور صدیقہؓ کا یہ فرمان اس بات کے پیش نظر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور یہ نزول عیسیٰ علیہ السلام حدیث شریف ’’لا نبی بعدی‘‘ کے مخالف نہیں ہے اسلئے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کے لئے ناسخ ہو-انتہی بکلامہ!
اب فیصلہ قارئین خود فرما لیں کہ مرزائی اُمت نے کس قدر دجل سے کام لیا ہے عبارت سے اپنے مطلب کا ایک جز نقل کیا اور بقیہ ساری عبارت سے آنکھیں بند کر لیں اس لئے کہ اس سے ان کا عقیدہ نیست و نابود ہو رہا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن و حدیث اجماع و تواتر نے تمہارے افکار و نظریات کو دھتکار دیا ہے اور نکار ختم نبوت سے تمہارے ایمان کا خرمن جل کر راکھ ہو چکا ہے تو اب اس خاکل سے اقوال اکابر ڈھونڈ کر کیا گل کھلانا چاہتے ہو ۔ بقول شاعر:
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟
مصنف ابن ابی شیبہ اور تفسیر ابن کثیر میں حضرت عائشہؓ کا مندرجہ ذیل فرمان جس کو بنیاد بنا کر مرزائی حضرات اپنی آخرت برباد کر ہے ہیں اور دوسرے مضبوط دلائل سے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہیں ’’حدثنا حسین بن محمد قال حدثنا جریر بن حازم عن عائشہؓ:قالت قولو اخاتم النبین لا نبی بعدہ‘‘۔
(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :26072)
تفسیر درمنشور میں ابن شیبہ کے حوالے سے مذکور یہ فرمان عائشہؓ اُمت مرزایہ کے لئے ان کی خود ساختہ نبوت کی دلیل بن گیا اور مرزائی حضرات صحیح صریح واضح آیات بینات کتاب اللہ،سنت رسول اللہ وحی کے مقابلہ میں اس اثر صحابی کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور قرآن پاک کی اس آیت کا مصداق بنے بیٹھے ہیں ۔ ’’اتفو منون ببعض الکتاب ویکفرون ببعض‘‘کہ اپنے پسند کی بعض آیات پر تو ایمان لاتے ہیں اور جو آیات ان کی طبیعت کے خلاف ہو اس کی طرف توجہ بھی نہیں بن سکتی ۔
1۔ مندرجہ بالا حدیث عائشہؓ خبر واحد ہے اور اس خبر واحد کی بنیاد پر ایسے عقیدے کا خلاف جائز نہیں جو عقیدے کے باب میں درکار قطعی ادلہ یعنی ادلہ ثلاثہ قرآن اجماع اور تواتر سے ثابت ہو عقیدہ ختم نبوت قطعی ہے اور مندرجہ ذیل حدیث مفید ظن ہے اس سے قطعیت کا مقابلہ نہیں ہو سکتا ۔
2۔ درمنثور میں یہ حدیث بلا سند نقل کی گئی ہے اور مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں جو اس کی سند مذکور ہے وہ منقطع ے اس لئے کہ جریر بن حازم کا حضرت عائشہؓ سے سماع اور لقاء تو دور کی بات معاصرت بھی ثابت نہیں اسلئے کہ جریر بن حازم تو پیدا ہی حضرت عائشہؓ کی وفات کے بعد ہوئے ہیں ۔ جریر بن حازم بن زید بن عبد اللہ الازدی 90ہجری میں پیدا ہوئے اور 170ہجری میں فوت ہوئے ۔ ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ۔(تہذیب التہذیب ابن حجر ج 1ص544،تہذیب الکمال ج 4ص524،الکاشف ج 1ص181،الجرح و التعدیل ج 1ص136،تاریخ البخاری الکبیر ج 2ص213،خلاصہ تہذیب الکمال ج 1ص162)یعنی جریر بن حازم پیدا ہو رہا ہے 90ہجری کے قریب اور حضرت عائشہ فوت ہوئی 57ہجری میں ۔(تقریب التہذیب ص 769)
اب فیصلہ اصحاب دانش کر لیں کہ ایسا شخص جو حضرت عائشہؓ کی وفات کے کم و بیش 33سال بعد پیدا ہو وہ روایت کیسے کر سکتا ہے ؟لہٰذا یہ روایت اتصال سند کے نہ ہونے کی وجہ سے منقطع ٹھہری اور منقطع حدیث ضعیف کی قسم ہے جس کا حکم آ گے آ رہا ہے ۔
3۔ مصنف ابن ابی شیبہ کے قدیم نسخوں میں تو جریر بن حازم اور حضرت عائشہؓ کے درمیان کوئی راوی نہ تھا مگر اب سعودیہ سے شائع ہونے والی مصنف ابن ابی شیبہ میں جریر کے بعد محمد نامی راوی کو دریافت کیا گیا ہے جس سے محمد بن سیرین مراد ہیں جو کہ تیسرے طبقہ کے وسطیٰ تابعین میں سے ہیں ۔ اُنہوں نے حضرت عائشہؓ کا زمانہ پایا ہے ۔ جس سے بظاہر اتصال سند کا اشتباہ ہوتا ہے مگر ’’بسا آرزو کے خاک شد‘‘۔محمد بن سیرین بھی باوجود معاصرت کے حضرت عائشہؓ سے نہ تو سماع کا شرف حاصل کر سکے اور نہ ملاقات کا ۔ اس لئے یہ حدیث بھی اصول حدیث کی روشنی میں منقطع ٹھہری اس لئے اس مجروح روایت سے مرزا کی لولی لنگڑی نبوت کو بیساکھی فراہم کرنے کی کوشش بے سود ہے ۔
حدیث منقطع کا حکم
عبد الرحمان بن یحییٰ المعلمی اپنی کتاب ’’انوار الکاشفہ‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں :’’فالخبر المنقطع غیر صحیح‘‘(منقطع حدیث صحیح نہیں ہوتی۔)حکمہ انہ من اقسام الضعیف(التقریرات السنیہ شرح المنظومۃ البیقونیہ فی مصطلح الحدیث ج 1ص68)حکمہ انہ من اقسام الضعیف (الدرالنقیہ شرح منظولہ البیقونیہ ج 1ص9)والا صل فی المنقطع انہ حدیث ضعیف(شرح الموقظہ السلیمان بن ناصر العلوان ج 2ص73)اصل میں حدیث منقطع حدیث ضعیف ہی ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس حدیث میں بھی بوجہ انقطاع مرزائی کے لئے کوئی فائدہ نہ رہا ۔
محمد ابن سرین کے عدم سماع کا ثبوت
امام محمد عبدالرحمان بن ابی حاتم محمد بن ادریس الرازی فرماتے ہیں:’’ابن سرین لم یسمع من عائشۃ شئاء‘‘(المراسیل الابن ابی حاتم الرازی ج 1ص23)ابن سرین لم یسمع من عائشۃ شئاء‘‘(التہذیب التہذیب لابن حجر ج 8ص156)(ابن سرین نے حضرت عائشہؓ سے کچھ بھی نہیں سنا)
اب تو مسئلہ ہی صاف ہو گیا کہ جریر بن حازم کے بعد محمد بن سرین کی دریافت بھی چنداں مفید نہ ہوئی اور حدیث بدستور منقطع رہی اور منقطع کا ضعیف ہونا تو پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔ اور ضعیف حدیث سے تو احکام شرع ثابت نہیں ہوتے چہ جائیکہ ختم نبوت جیسا اہم اور منصوص عقیدہ کی تردید اس ضعیف حدیث سے کی جائے ۔
4۔ جب حدیث مرفوع اور حدیث موقوف میں تعارض واقع ہو جائے تو ترجیح حدیث مرفوع کو ہوتی ہے اسلئے کہ مرفوع کلام رسول کو کہتے ہیں اور موقوف کلام صحابی کو ۔ تو جس پیغمبر ﷺ کو اپنے صحابہ پر فضیلت اور ترجیح حاصل ہے ایسے ہی حدیث مرفوع کو حدیث موقوف پر فضیلت اور ترجیح ہے ۔ اور آپ ﷺ کے بے شمار صحیح صریح مرفوع احادیث لانبی بعدی کا ببانگ دہل اعلان کر رہی ہیں ۔ مثلاً صحیح بخاری میں آپ ﷺ کا فرمان ذیشان مذکور ہے ۔ ’’عن ابی ہریرۃ عنہ عن النبی ﷺ قال:کانب بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی‘‘(بخاری ج 1ص491)(حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ بنو اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا تو اس کا نائب دوسرا نبی آ جاتا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا)۔اس طرح اور بھی بے شمار احادیث ہیں جن کو علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے ’’التصریح بما تواتر فی نزول امسیح‘‘میں ذکر کیا ہے ۔ تفصیل کے لئے وہاں ملاحظہ فرما لی جائیں ۔ پس خلاصہ کلام یہ ہوا کہ مرفوع اور موقوف کے تعارض کی صورت میں ترجیح مرفوع کو ہوتی ہے اور بالخصوص اس وقت کہ جب وہ موقوف منقطع یعنی ضعیف بھی ہو تو قطعاً قابل استدلال نہیں رہتا ۔ حدیث صحیح صریح مرفوع کے مقابلہ میں حدیث موقوف منقطع غیر صریح کب مسموع ہو سکتی ہے ۔
5۔ جب حدیث ایک جگہ پر مبہم ہو اور دوسری جگہ پر مفسر ہو تو مبہم پر مفسر کو ترجیح ہو گی اور اس کے ابہام کو مفسر کی مدد سے دور کیا جائے گا ۔ زیر بحث حدیث عائشہؓ اس مطلب کے بیان کرنے میں مبہم ہے کہ اس سے مُراد حضرت عیسیٰ ؑ ہیں جنہوں نے قرب قیامت میں دوبارہ تشیر لانا ہے یا کسی نئے نبی کی آمد کی اطلاع ہے ۔ لہٰذا اس حدیث کو اصول محدثین کی روشنی میں پرکھ کر اس کا ابہام دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ محدثین کا اصول ہے:’’المفسر بقضی علی المبہم‘‘بخاری حدیث نمبر 1438،جامع الاصول فی احادیث الرسول للجزری ج 4ص587،نصب الرایہ لاحادیث الہدایہ للزبلعی ض2ص385،مسند الصحابہ ج 13ص273(مفسر کے ساتھ مبہم کا فیصلہ کیا جائے گا)۔
تفسیر درمنثور میں ابن ابی شیبہ کے حوالے سے موجود قول عائشہؓ اس طرح ہے :’’عن عائشہ قالت:قولواخاتم النبین ولا تقولو ا لانبی بعدی وفی روایۃ محمد عن عائشہؓ ہکذا۔۔۔۔‘‘(تفسیر درمنثور)اس حدیث میں محمد بن سرین حضرت عائشہؓ سے نقل کر رہے ہیں کہ خاتم النبین کہو یہ نہ کہو ’’ولا نبی بعدہ‘‘کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ا س حدیث مبارکہ میں ’’لا نبی بعدہ‘‘ کی تعین نہ ہونے کی وجہ سے یہ حدیث مبہم ہے اب اس کی تعیین دوسری جگہ پر حضرت عائشہؓ نے خود فرما دی ہے ۔ ’’عن عائشہ قالت لا تقولوا لانبی بعدہ وقولوا خاتم النبین ینزل عیسیٰ ابن مریم حکماً عدلاً واماما مقسطاً فیقتل الدجال ویکسر الصلیب ویقتل الخنزیر وتضع الجزیہ وتضع الحرب اوزارھا‘‘(تفسیر یحییٰ بن سلام رقم الحدیث 521،تفسیر روح البیان للحقی ج 8ص164)
(حضرت محمد بن سرین حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ مت کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں بلکہ یہ کہو آپ خاتم النبین ہیں اس لئے کہ عیسیٰ نازل ہوں گے ۔عادل،حاکم اور انصاف والے امام بن کر وہ دجال اور خنزیز کو قتل کریں گے اور صلیب توڑ دیں گے جزیہ ختم ہو جائے گا اور جنگیں دم توڑ دیں گی۔)اس حدیث مبارکہ نے صراحت کر دی کہ حضرت عائشہؓ قطعاً وہ مقصد نہیں ہے جو اُمت مرزائی کے شعبدہ باز زبردستی اس سے نکالنا چاہتے ہیں بلکہ اس حدیث میں تو حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کی خبر دی گئی ہے نہ کہ اجرائے نبوت کا قانون بیان کیا گیا ہے لہٰذا اصول محدثین کی روشنی میں مبہم کی تعیین مفسر سے ہو گئی اور عقیدہ ختم نبوت خوب نکھر کر سامنے آ گیا ۔
6۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا وہ اثر جو امام سیوطیؒ تفسیر در منثور میں قول عائشہؓ کے بعد لائے ہیں جس میں قول عائشہؓ کے اجمال کی تفصیل ہے مرزائی حضرات اسے بیان نہیں کرتے اس لئے کہ اس طرح تو ان کے تیار کردہ شاہی قلعے ہوائی قلعے ثابت ہوں گے ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ارشاد فرماتے ہیں :’’حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء ،فانا کنا نحدث ان عیسیٰ خارج فان ھو خرج کان قبلہ وبعدہ‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ باب من کرہ ان یقول لانبی بعد نبی حدیث نمبر 220،معجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث 994،معجم الزوائد رقم الحدیث 13791)حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے سامنے جب کسی آدمی نے کہا لانبی بعدہ تو اُنہوں نے فرمایا خاتم الانبیاء یعنی نبیوں میں سے آخری نبی کہنا ہی کافی ہے اسلئے کہ عیسیٰؑ کا ’’لا نبی بعدی‘‘سے استثناء ہے ۔ وہ پہلے بھی تھے اور بعد میں بھی آئیں گے (یعنی کسی نبوت جدیدہ کے ساتھ نہیں آئیں گے بلکہ سابقہ نبوت کے ساتھ ہی آئیں گے جو ختم نبوت کے منافی نہیں ہے)۔لہٰذا حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے بھی قول عائشہؓ کے ابہام کی تفسیر فرما دی ۔
7۔ مرزائی نبوت کفر کی سرزمین پر اُگنے والا دھوکے کا شجر خبیثہ ہے اس لئے ان سے کسی خیر کی توقع سورج کی پیشانی سے شبنم کشید کرنے کی سعی لا حاصل ہے اس لئے مرزائی دھوکہ دینے کے لئے کچھ عبارت بھی پیش کرتے ہیں جن میں قطع و برید کر کے اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں ۔ مرزائی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب آپ ﷺ کی صریح حدیث موجود تھی ’’انا خاتم النبین لا نبی بعدی‘‘کہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں تو حضرت عائشہؓ نے اس صحیح صریح حدیث کی مخالفت کیوں فرمائی؟ اس ممکنہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام قرطبیؒ اپنی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :’’ولیس بعد نبینا علیہ الصلوۃ والسلام نبی ای یدعی النبوۃ بعدہ ابتداء‘‘(تفسیر قطربی ج 11ص28)یعنی ہمارے نبی ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اس کا مطلب ہے ایسا نبی جو نیا نبوت کا دعویٰ کرے ایسا نبی نہیں ہے ۔ اور اس لئے علامہ حافظ احمد بن علی ابن حجر العسقلانی متوفی 852ھ ارشاد فرماتے ہیں:فوجب حمل النفی ای فی قولہ (ﷺلانبی بعدی):علی انشاء النبوۃ الاحد من الناس لا علی نفی وجودنبی کان قد نبی قبل ذالک(الاصابہ فی تمیز الصحابہ ج 2ص273)
علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اپنے بعد نبوت کی نفی فرمانے کو انشاء نبوت پر محمول کیا جائے گا یعنی آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا مدعی نبوت نہیں آئے گا اور اس لا نبی سے ان انبیاء کی نفی مقصود نہیں ہے جو پہلے سے نبی ہیں اور یہی مراد حضرت عائشہؓ کی تھی کہ کہیں امت لا نبی بعدی کی وجہ سے نزول عیسیٰؑ کا انکاربھی نہ کر بیٹھے ۔ مرزائی امت کے نباش جب ہر طرف سے عاجز آ جاتے ہیں تو پھر اکابرین اُمت کی عبارات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن یہ بھی بارش سے بچنے کے لئے پرنالے کے نیچے کھڑے ہونے والی بات ہے ۔ آئیے ذرا !مرزائی فنکاروں کی پھرتیاں ملاحظہ کریں : فارمن المطر وقام تحت المیزاب!
دھوکہ نمبر 1:۔عالم بے بدل حضرت ابن قتیبہ ؒ فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہؓ کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان’’لانبی بعدی‘‘ کے مخالف نہیں کیونکہ حضور ﷺ کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو۔(تاویل مختلف الاحادیث ص 236)
جواب:۔یہاں بھی مرزائی حضرات نے اسے اپنی ادھوری نبوت کے ثبوت کے لئے ادھوری عبارت نقل کی ہے ۔ پہلے تاویل الاحادیث کی مکمل عبارت ملاحظہ ہو ۔’’واما قول عائشہؓ:قولواالرسول اللہ ﷺ خاتم النبین ولا تقولوا لا نبی بعدہ فانہا تذہب الی نزول عیسیٰ علیہ السلام ،ولیس ہذا من قولہا ناقضاً لقول النبی ﷺ لا نہ اراد لانبی بعدی ینسخ ماجنت بہ کما کانت الانبیاء علیہم السلام تبعث بالنسخ وارادت ھی لاتقولواان المسیح لاینزل بعدہ‘‘(تاویل مختلف الاحادیث لا بن قتیبہ ص 236)
(حضرت عائشہؓ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کو خاتم النبین کہو اور یوں نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں تو آپؓ کے اس فرمان کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے نزول سے ہے اور یہ قول آنحضرت ﷺ کی حدیث ’’لا نبی بعدی‘‘ کے خلاف نہیں ہے کیونکہ یہاں اس کا مطلب ہے کہ ایسا کوئی نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کر دے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام سابق شرع کو منسوخ کرنے کے لئے معبوث کئے جاتے تھے جب کہ اس کا مطلب یہ تھا تم یہ نہ کہو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام بھی بعد میں نہیں آئیں گے)۔اب مرزائی حضرات نے پوری عبارت کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کر لیا اور صرف اتنی بات نقل کی ’’اب کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کر دے‘‘لیکن مرزائی اُمت کو کیا معلوم تھا کہ اتنی سی عبارت بھی ہمارے گلے میں ہڈی بن کر پھنس جائے گی اس لئے کہ مرزا کا دعویٰ تو قرآن کریم جو حضرت محمد ﷺ پر اُترا اور آپ ﷺ کے فرمودات کے منسوخ اور ختم کرنے کا ہے اس لئے بے بدل کی بات نے مرزائی کی شکل بد کر رکھ دی ہے ۔ ملاحظہ کریں مرزا کس طرح ناسخ شریعت محمدیہ بن بیٹھا ہے ۔
حوالہ نمبر1:۔’’ہم کہتے ہیں قرآن کہاں موجودہے؟اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دنیا سے اُٹھ گیا ہے اس لئے تو ضرورت پیش آئی کہ محمد رسول اللہ ﷺ (مرزا غلام قادیانی) کو بروزی طور پر دوبارہ دنیا میں معبوث کر کے آپ پر قرآن شریف اُتارا جائے ۔‘‘
(کلمۃ الفضل ص 173از مرزا بشیر احمد کادیانی)
حوالہ نمبر2:۔’’جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اس طرح اس کلام کو بھی جو میرے اوپر نازل ہوتا ہے ۔ خدا کا کلام یقین کرتا ہوں ۔‘‘
حقیقتہ الوحی ص 220،خزائن ج 22ص220)
حوالہ نمبر 3:۔’’میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں قرآن اور وحی ہے جو میرے اوپر نازل ہوئی ۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف (جو میرے اوپر نازل ہوا)اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔‘‘
(ازالۃ الاوہام حاشیہ 1ص77،خزائن ج 3ص140)
حوالہ نمبر4:۔’’اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہو اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پا کر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پر کر رد کر دے ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص 01خزائن ج 17ص15)
اب بتائیے!یہ تو محمد عربیﷺ کی شریعت قرآن اور حدیث کو منسوخ کرنے کا مدعی ہے تو حضرت ابن قتیبہ کی عبارت تو الُٹا آپ کے لئے موت کا بلیک وارنٹ ثابت ہوئی کہ اس میں ایسے نبی کی آمد ممنوع بتائی تھی ہے جو پیغمبر ﷺ کی شریعت کو منسوخ کر دے لہٰذا اس عبارت سے آپ کی فرنگیانہ نبوت کے سینگ سمانے کی جگہ نہیں نکل سکتی ۔
بقول غالب:
بے کاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
بے کار نبی کی بے کار اُمت وہ تمام حوالے جو اس عنوان پر پیش کرتی ہے کہ اب ایسا نبی پیدا نہیں ہوگا ۔ جو صاحب شریعت جدیدہ ہوا اور میری شریعت کا ناسخ ہو اس کو مرزا غلام کادیانی پر منطبق کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب کوئی نئی شریعت نئی وحی یا نئی دین لے کر تو نہیں آئے ۔ تو مندرجہ بالا چار حوالے ان کے جھوٹ کا پول کھولنے کے لئے کافی ہیں اس لئے وہ تمام عبارات جن میں نبوت جدیدہ کی نفی ہے ان کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کرنا سراسر تلبیس و فریق ہے ۔ وہ عبارات جن سے مرزائی اُمت کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل ہیں :۔
1۔محدث امت امام محمد طاہر گجراتی فرماتے ہیں:حضرت عائشہؓ کا یہ قول لانبی بعدی کے منافی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی مُراد یہ ہے ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کر دے ۔ (تکملہ مجمع البحار ص 85)اس عبارت میں مرزائی نبوت کی کاریگری کارفرما ہے اصل عبارت یہ ہے ۔ ’’حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑ دیں گے اور حلال چیزوں میں زیادتی کریں گے ۔ یعنی نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی آسمان کی طرف چلے جانے سے پہلے اُنہوں نے شادی نہیں کی تھی ان کے آسمان سے اُترنے کے بعد حلال میں اضافہ ہوا ۔ اس زمانے میں ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا یقیناًیہ بشر ہیں اور صدیقہ عائشہؓ فرماتی ہیں حضور ﷺ کو خاتم النبین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور صدیقہؓ کا یہ فرمان اس بات کے پیش نظر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور یہ نزول عیسیٰ علیہ السلام حدیث شریف ’’لا نبی بعدی‘‘ کے مخالف نہیں ہے اسلئے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کے لئے ناسخ ہو-انتہی بکلامہ!
اب فیصلہ قارئین خود فرما لیں کہ مرزائی اُمت نے کس قدر دجل سے کام لیا ہے عبارت سے اپنے مطلب کا ایک جز نقل کیا اور بقیہ ساری عبارت سے آنکھیں بند کر لیں اس لئے کہ اس سے ان کا عقیدہ نیست و نابود ہو رہا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن و حدیث اجماع و تواتر نے تمہارے افکار و نظریات کو دھتکار دیا ہے اور نکار ختم نبوت سے تمہارے ایمان کا خرمن جل کر راکھ ہو چکا ہے تو اب اس خاکل سے اقوال اکابر ڈھونڈ کر کیا گل کھلانا چاہتے ہو ۔ بقول شاعر:
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟