روزے کاعقیدئہ ختم نبوت سے تعلق
روزے کے حکم سے ختمِ نبوت کا ارتباط ایک تو اس طرح ہے کہ روزہ اس ماہ کا فرض ہوا جس میں قرآن نازل ہوا اور قرآن کریم کی حفاظت ختمِ نبوت کی دلیل ہے اگر کسی اور نبی کو آنا ہوتا اور اس پر وحی بھی نازل ہوئی ہوتی تو روزے اس مہینے کے بھی دیئے جاتے نیز روزے کی فرضیت والی آیت میں فرمایا{ یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ } (البقرۃ آیت نمبر۱۸۳)’’ اے لوگو جو ایمان لائے لکھا گیا تم پر روزہ جیسا کہ لکھا گیا تم سے پہلوں پر‘‘ ایک تو اس میں ایمان والوں کو روزے کا حکم دیا گیا اور ایمان ویسا ہی قابل قبول ہے جیسے صحابہ کا تھا ارشاد فرمایا{ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا } (البقرۃآیت نمبر۱۳۷) ’’ اگر وہ ایمان لائیں جیسے تم ایمان لائے ہوتو وہ ہدایت پاگئے‘‘۔اور صحابہ کرام تو نبی ﷺ کو خاتم النبیین ہی مانتے تھے جیسا کہ عنقریب آرہا ہے معلوم ہوا کہ روزے کا حکم ختم نبوت کا عقیدہ رکھنے والوں کے لئے ہی ہے نیز اس آیت میں فرمایا گیا کہ روزے کا حکم ایسے جیسے پہلوں کو دیاگیا بعد والے کسی کو کوئی ذکر نہیں اگر بعد میںکسی نبی نے آنا ہوتاتو کہیں کسی انداز میں تو اس کا ذکر ہوتا ۔