مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح نے تو صرف مہد میں ہی باتیں کیں مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں۔ اور پھر بعد اس کے ۱۴؍جون ۱۸۹۹ ء کو وہ پیدا ہوا۔ اور جیسا کہ وہ چوتھا لڑکا تھا اُسی مناسبت کے لحاظ سے اُس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا مہینہ لیا یعنی ماہ صفر۔ اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا یعنی چارشنبہ۔ اور دن کے گھنٹوں میں سے دوپہر کے بعد چوتھا گھنٹہ لیا۔'' (روحانی خزائن ۔ جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 217- 218)
اس اقتباس میں مرزا صاحب اپنی سلطانی کی کئی مثالیں چھوڑ گئے۔
1) اس نے ماں کے پیٹ میں دو مرتبہ باتیں کیں یہ بھی جھوٹ ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو مرزا صاحب کو کیسے پتہ چلا کہ اس نے ماں کے پیٹ میں دو مرتبہ باتیں کیں؟ اگر مرزا صاحب نے اس کی آواز اس کی ماں کی زبانی تو ممکن ہے کہ اس کی ماں آواز ہی ہو جسے وہ بچہ کی آواز سمجھ بیٹھی، نہ کے بچے کی آواز ہو۔اس آواز کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ ہو سکتا ہے کہ ماں نے بچے کی آواز نکال کر مرزا صاحب سے مزاق کیا ہو؟ اور اگر اپنی اہلیہ کے پیٹ کے ساتھ لگا کر اسکی آواز سنی ہو تو ممکن ہے کہ آپ کی اہلیہ نصرت جہاں نے انڈونیشیاء کے زہرہ فونا کی طرح آپ سے فراڈ کیا ہو؟ اور قاعدہ یہ ہے کہ ازا جاء الالحتمال بطل الاستدلال۔ جب کسی شی کا احتمال پیدا ہو جائے تو اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے پیٹ میں بچہ تین پردوں کے اندر ہوتا ہے۔ اور پیٹ کے راستے آواز تو باہر آ نہیں سکتی۔ اب تیسرا راستہ ہی آواز کے سنائی دینے کا رہ جاتا ہے جس کو قادیانی سمجھ سکتے ہیں، مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے اس راستے سے بھی بچے کی آواز آنا ممکن نہیں۔ لہٰذا نتیجہ واضح ہے کہ مرزا صاحب نے قادیانیوں کی مت مارنے اور اپنی اور اپنے بچے کی شان جتانے کے لیے یہ جھوٹ بولا۔
2)دوسرا جھوٹ یہ بولا کہ چونکہ وہ میرا چوتھا بیٹا ہے اس لیے وہ اسلامی مہینوں میں سے چوتھے مہینے میں پیدا ہوا یعنی ماہ صفر میں۔ یہ مرزا صاحب کا سفید جھوٹ ہے۔ بلکہ ان کی جہالت کی غمازی کرتا ہے۔ کیونکہ صفر اسلامی مہینوں میں چوتھا مہینہ نہیں بلکہ دوسرا مہینہ ہے۔
3) یہ بھی مرزا صاحب کی جھالت ہے اور جھوٹ ہے کہ وہ ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھے دن یعنی چہار شنبہ کو پیدا ہوا۔ چہار شنبہ ہفتے کا پانچواں دن بدھ ہوتا ہے، چوتھا دن نہیں۔ مرزا صاحب نے اس کو لفظ چہار سے چوتھا سمجھ لیا۔ یاد رکھیں کے نبی نہ ہی اتنا جاہل ہوتا ہے اور نہ ہی اتنا غافل اور احمق ہوتا ہے کہ صفر کو چوتھا مہینہ اور چہار شنبہ کو چوتھا دن سمجھ لے۔
4) چوتھی بات بھی انہوں نے غلط کہی ہے۔ اسلامی سال رات سے شروع ہوتا ہے اور سن عیسوی رات بارہ بجے سے شروع ہوتا ہے۔دوپہر کے بعد کا چوتھا گھنٹہ نہیں ہوتا بلکہ یہ سن عیسوی کے لحاظ سے سولہواں گھنٹہ ہوتا ہے اور اسلامی سن کے لحاظ سے تقریباً بیسواں۔
اس کے باوجود مرزا صاحب کے دعوے سنیں۔
” و إنّ اللہ لا یترکنی علی خطأ طرفۃ عین “ (روحانی خزائن جلد ۸- نور الحق: صفحہ 272)
ترجمہ: وہ خدا مجھے ایک لمحے کیلئے بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا۔
اعلمو ان فضل اللہ معی و ان روح اللہ ینطق فی نفسی(روحانی خزائن جلد ۱۱،صفحہ ۱۴۳،انجام آتھم صفحہ ۱۷۶)
”یعنی جان لو کہ اللہ کا فضل میرے ساتھ ہے اور اللہ کی روح میرے ساتھ بول رہی ہے۔“
ما ینطق عن الھوی (تذکرہ صفحہ ۳۷۸،۳۹۴)
”یعنی مرزا صاحب اپنی مرضی سے، خواہش سے کچھ نہیں کہتا۔“
'' اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح نے تو صرف مہد میں ہی باتیں کیں مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں۔ اور پھر بعد اس کے ۱۴؍جون ۱۸۹۹ ء کو وہ پیدا ہوا۔ اور جیسا کہ وہ چوتھا لڑکا تھا اُسی مناسبت کے لحاظ سے اُس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا مہینہ لیا یعنی ماہ صفر۔ اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا یعنی چارشنبہ۔ اور دن کے گھنٹوں میں سے دوپہر کے بعد چوتھا گھنٹہ لیا۔'' (روحانی خزائن ۔ جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 217- 218)
اس اقتباس میں مرزا صاحب اپنی سلطانی کی کئی مثالیں چھوڑ گئے۔
1) اس نے ماں کے پیٹ میں دو مرتبہ باتیں کیں یہ بھی جھوٹ ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو مرزا صاحب کو کیسے پتہ چلا کہ اس نے ماں کے پیٹ میں دو مرتبہ باتیں کیں؟ اگر مرزا صاحب نے اس کی آواز اس کی ماں کی زبانی تو ممکن ہے کہ اس کی ماں آواز ہی ہو جسے وہ بچہ کی آواز سمجھ بیٹھی، نہ کے بچے کی آواز ہو۔اس آواز کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ ہو سکتا ہے کہ ماں نے بچے کی آواز نکال کر مرزا صاحب سے مزاق کیا ہو؟ اور اگر اپنی اہلیہ کے پیٹ کے ساتھ لگا کر اسکی آواز سنی ہو تو ممکن ہے کہ آپ کی اہلیہ نصرت جہاں نے انڈونیشیاء کے زہرہ فونا کی طرح آپ سے فراڈ کیا ہو؟ اور قاعدہ یہ ہے کہ ازا جاء الالحتمال بطل الاستدلال۔ جب کسی شی کا احتمال پیدا ہو جائے تو اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے پیٹ میں بچہ تین پردوں کے اندر ہوتا ہے۔ اور پیٹ کے راستے آواز تو باہر آ نہیں سکتی۔ اب تیسرا راستہ ہی آواز کے سنائی دینے کا رہ جاتا ہے جس کو قادیانی سمجھ سکتے ہیں، مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے اس راستے سے بھی بچے کی آواز آنا ممکن نہیں۔ لہٰذا نتیجہ واضح ہے کہ مرزا صاحب نے قادیانیوں کی مت مارنے اور اپنی اور اپنے بچے کی شان جتانے کے لیے یہ جھوٹ بولا۔
2)دوسرا جھوٹ یہ بولا کہ چونکہ وہ میرا چوتھا بیٹا ہے اس لیے وہ اسلامی مہینوں میں سے چوتھے مہینے میں پیدا ہوا یعنی ماہ صفر میں۔ یہ مرزا صاحب کا سفید جھوٹ ہے۔ بلکہ ان کی جہالت کی غمازی کرتا ہے۔ کیونکہ صفر اسلامی مہینوں میں چوتھا مہینہ نہیں بلکہ دوسرا مہینہ ہے۔
3) یہ بھی مرزا صاحب کی جھالت ہے اور جھوٹ ہے کہ وہ ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھے دن یعنی چہار شنبہ کو پیدا ہوا۔ چہار شنبہ ہفتے کا پانچواں دن بدھ ہوتا ہے، چوتھا دن نہیں۔ مرزا صاحب نے اس کو لفظ چہار سے چوتھا سمجھ لیا۔ یاد رکھیں کے نبی نہ ہی اتنا جاہل ہوتا ہے اور نہ ہی اتنا غافل اور احمق ہوتا ہے کہ صفر کو چوتھا مہینہ اور چہار شنبہ کو چوتھا دن سمجھ لے۔
4) چوتھی بات بھی انہوں نے غلط کہی ہے۔ اسلامی سال رات سے شروع ہوتا ہے اور سن عیسوی رات بارہ بجے سے شروع ہوتا ہے۔دوپہر کے بعد کا چوتھا گھنٹہ نہیں ہوتا بلکہ یہ سن عیسوی کے لحاظ سے سولہواں گھنٹہ ہوتا ہے اور اسلامی سن کے لحاظ سے تقریباً بیسواں۔
اس کے باوجود مرزا صاحب کے دعوے سنیں۔
” و إنّ اللہ لا یترکنی علی خطأ طرفۃ عین “ (روحانی خزائن جلد ۸- نور الحق: صفحہ 272)
ترجمہ: وہ خدا مجھے ایک لمحے کیلئے بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا۔
اعلمو ان فضل اللہ معی و ان روح اللہ ینطق فی نفسی(روحانی خزائن جلد ۱۱،صفحہ ۱۴۳،انجام آتھم صفحہ ۱۷۶)
”یعنی جان لو کہ اللہ کا فضل میرے ساتھ ہے اور اللہ کی روح میرے ساتھ بول رہی ہے۔“
ما ینطق عن الھوی (تذکرہ صفحہ ۳۷۸،۳۹۴)
”یعنی مرزا صاحب اپنی مرضی سے، خواہش سے کچھ نہیں کہتا۔“