• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سوال۳: مسئلہ ختم نبوت پر دس دس آیات، احادیث

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سوال۳: مسئلہ ختم نبوت پر دس دس آیات، احادیث

سوال۳… مسئلہ ختم نبوت جن آیات مبارکہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے۔ ان میں سے دس دس آیات مبارکہ اور احادیث نقل کرکے ان کی تشریح قلم بند کریں؟
جواب …

ختم نبوت سے متعلق آیات
سورئہ احزاب کی آیت ۴۰ آیت خاتم النبیین کی تشریح و توضیح پہلے گزر چکی ہے اسکو آپ یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔ اب دوسری آیات ملاحظہ ہوں:
۱ … ’’ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ (توبہ: ۳۳، صف :۹) ‘‘
ترجمہ: ’ ’اور وہ ذات وہ ہے کہ جس نے اپنے رسول (محمدﷺ) کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔ تاکہ تمام ادیان پر بلند اور غالب کرے۔‘
نوٹ: غلبہ اور بلند کرنے کی یہ صورت ہے کہ حضور ہی کی نبوت اور وحی پر مستقل طور پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے کو فرض کیا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوتوں اور وحیوں پر ایمان لانے کو اس کے تابع کردیا ہے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ آپﷺ کی بعثت سب انبیاء کرام علیہم السلام سے آخر ہو اور آپﷺ کی نبوت پر ایمان لانا سب نبیوں پر ایمان لانے کو مشتمل ہو۔ بالفرض اگر آپﷺ کے بعد کوئی نبی باعتبار نبوت مبعوث ہو تو اس کی نبوت پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا فرض ہوگا جو دین کا اعلیٰ رکن ہوگا۔ تو اس صورت میں تمام ادیان پر غلبہ مقصود نہیں ہوسکتا۔ بلکہ حضور علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانا اور آپﷺ کی وحی پر ایمان لانا مغلوب ہوگا۔ کیونکہ آنحضرتﷺ پر اور آپ کی وحی پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اگر اس نبی اور اس کی وحی پر ایمان نہ لایا تو نجات نہ ہوگی۔ کافروں میں شمار ہوگا۔ کیونکہ صاحب الزمان رسول یہی ہوگا۔ حضور علیہ السلام صاحب الزماں رسول نہ رہیں گے۔(معاذاﷲ)
۲… ’’ و اذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ و لتنصرنہ (آل عمران: ۸۱) ‘‘
ترجمہ: ’’جب اﷲ تعالیٰ نے سب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تم کو کتاب اور نبوت دوں۔ پھر تمہارے پاس ایک ’’وہ رسول‘‘ آجائے جو تمہاری کتابوں اوروحیوں کی تصدیق کرنے والا ہوگا (یعنی اگر تم اس کا زمانہ پائو) تو تم سب ضرور ضرور اس رسولﷺ پر ایمان لانا اور ان کی مدد فرض سمجھنا۔‘‘
اس سے بکمال وضاحت ظاہر ہے کہ اس رسولﷺ مصدق کی بعثت سب نبیوں کے آخر میں ہوگی۔ وہ آنحضرتﷺ ہیں۔اس آیت کریمہ میں دو لفظ غور طلب ہیں۔ ایک تو ’’میثاق النبیین‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺکے بارے میں یہ عہد تمام دیگر انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا تھا۔ دوسرا ’’ثم جاء کم‘‘۔ لفظ ’’ثم‘‘ تراخی کے لئے آتا ہے۔ یعنی اس کے بعد جو بات مذکور ہے۔ وہ بعد میں ہوگی اور درمیان میں زمانی فاصلہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضرتﷺ کی بعثت سب سے آخر میں اور کچھ عرصہ کے وقفہ سے ہوگی۔ اس لئے آپﷺ کی آمد سے پہلے کا زمانہ۔ زمانۂ فترت کہلاتا ہے:’’ قد جاء کم رسولنا یبین لکم علی فترۃ من الرسل (مائدہ: ۱۹) ‘‘
۳… ’’ و ما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ًو نذیراً (سبا: ۲۸) ‘‘
ترجمہ: ’’ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔‘‘
۴… ’’ قل یٰایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا ( اعراف: ۱۵۸) ‘‘
ترجمہ: ’’فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوں۔‘‘
نوٹ: یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام بغیر استثناء تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپﷺ نے فرمایا ہے:
’’ انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی ‘‘
ترجمہ: ’’میں اس کے لئے بھی اﷲ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔‘‘
(کنز العمال ج ۱۱ ص ۴۰۴ حدیث ۳۱۸۸۵، خصائص کبریٰ ص ۸۸ ج۲)
پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ قیامت تک آپﷺ ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام کا فۃ الناس کی طرف اﷲ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہوسکتے۔ بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اﷲ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا۔ ورنہ نجات ممکن نہیں اور حضور علیہ السلام کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں داخل ہوگا۔ (معاذ اﷲ)
۵… ’’ و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین(انبیائ: ۱۰۷) ‘‘
ترجمہ: ’’میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘
نوٹ: یعنی حضور علیہ السلام پر ایمان لانا تمام جہان والوں کو نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر بالفرض آپa کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو آپﷺ کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا فرض ہوگا۔ اور اگر آنحضرتﷺ پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لاوے تو نجات نہ ہوگی۔ یہ رحمۃ للعالمینی کے منافی ہے کہ اب آپﷺ پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں۔ آپﷺ صاحب الزمان رسول نہیں رہے؟ (معاذ اﷲ)
۶… ’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ( مائدہ: ۳) ‘‘
ترجمہ: ’’آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا۔ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا۔ اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔‘‘
نوٹ: یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام لاتے رہے۔ مگر آنحضرتﷺ کی تشریف آوری سے قبل زمانہ کے حالات اور تقاضے تغیرپذیر تھے۔ اس لئے تمام نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے۔ یہاں تک کہ آپﷺ مبعوث ہوئے۔ آپﷺ پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپﷺ کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے۔ اسی لئے اس کے بعد ’’ واتممت علیکم نعمتی ‘‘ فرمایا۔ علیکم ۔یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا۔ لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلۂ وحی جاری رہ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمرؓسے کہا تھا کہ اے امیر المومنین : ’’قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید مناتے۔‘‘ (رواہ البخاری) اور حضور علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اکیاسی دن زندہ رہے۔ (معارف القرآن ص ۴۱ ج ۳) اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال و حرام نازل نہیں ہوا۔ آپﷺ آخری نبی اور آپﷺ پر نازل شدہ کتاب کامل و مکمل۔آخری کتاب ہے۔
۷… ’’ یٰایھا الذین آمنوا اٰمنوا باﷲ و رسولہ و الکتاب الذی نزل علی رسولہ و الکتاب الذی انزل من قبل(النسائ: ۱۳۶) ‘‘
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! ایمان لائو اﷲ پر اور اس کے رسول محمدﷺ پر اور اس کتاب پر جس کو اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئیں۔‘‘

نوٹ: یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپﷺ کی وحی اور آپﷺ سے پہلے انبیاء اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدئہ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا۔ معلوم ہوا کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔
۸… ’’ و الذین یؤمنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون (بقرہ: ۴،۵) ‘‘
ترجمہ: ’’جو ایمان لاتے ہیں۔ اس وحی پر جو آپﷺ پر نازل کی گئی اور اس وحی پر جو آپﷺ سے پہلے نازل کی گئی اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ خدا کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
۹… ’’ لٰکن الراسخون فی العلم منھم والمؤمنون یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک( نسائ: ۱۶۲) ‘‘
ترجمہ: ’’لیکن ان میں سے راسخ فی العلم اور ایمان لانے والے لوگ ایمان لاتے ہیں اس وحی پر جو آپﷺ پر نازل ہوئی اور جو آپﷺ سے پہلے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئی۔‘‘

نوٹ: یہ دونوں آیتیں ختم نبوت پر صاف طور سے اعلان کررہی ہیں۔ بلکہ قرآن شریف میں سینکڑوں جگہ اس قسم کی آیتیں ہیں۔ جن میں آنحضرتﷺ کی نبوت اور آپﷺ پر نازل شدہ وحی کے ساتھ آپﷺ سے پہلے کے نبیوں کی نبوت اور ان کی وحی پر ایمان رکھنے کے لئے حکم فرمایا گیا۔ لیکن بعد کے نبیوں کا ذکر کہیں نہیں آتا۔ ان دو آیتوں میں صرف حضور علیہ السلام کی وحی اور حضور علیہ السلام سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی وحی پر ایمان لانے کو کافی اور مدار نجات فرمایا گیا ہے۔
۱۰… ’’ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون ( حجر: ۹) ‘‘
ترجمہ: ’’تحقیق ہم نے قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘

نوٹ: خداوندعالم نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ ہم خود قرآن کریم کی حفاظت فرمائیں گے۔ یعنی محرفین کی تحریف سے اس کو بچائے رکھیں گے۔ قیامت تک کوئی شخص اس میں ایک حرف اور ایک نقطہ کی بھی کمی زیادتی نہیں کرسکتا۔ اور نیز اس کے احکام کو بھی قائم اور برقرار رکھیں گے۔ اس کے بعد کوئی شریعت نہیں جو اس کو منسوخ کردے۔ غرض قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں ہوسکتا۔
تنبیہ: یہ آیتیں بطور اختصار کے ختم نبوت کے ثبوت اور تائید میں پیش کردی گئیں۔ ورنہ قرآن کریم میں سو آیتیں ختم نبوت پر واضح طور پر دلالت کرنے والی موجود ہیں۔
(مزید تفصیل کیلئے دیکھئے ’’ختم نبوت کامل‘‘ از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ)

ختم نبوت سے متعلق احادیث مبارکہ
نوٹ: یہاں پر ہم اتنا عرض کردیں کہ آئندہ پوسٹس میں ہم زیادہ تر احادیث کے الفاظ نقل کرنے پر اکتفا کریں گے۔ شارحین حدیث کے تشریحی اقوال نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ تاکہ پوسٹ کا حجم زیادہ نہ ہوجائے۔
حدیث ۱…
’’عن ابی ہریرۃ ؓ أن رسول اﷲﷺ قال مثلی و مثل الأنبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بنیانا فأحسنہ و أجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ من زوایاہ فجعل الناس یطوفون بہ و یعجبون لہ و یقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ قال فأنا اللبنۃ و أنا خاتم النبیین‘‘

(صحیح بخاری کتاب المناقب ص ۵۰۱ ج ۱، صحیح مسلم ص ۲۴۸ ج ۲ واللفظ لہ)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا۔ مگر اس کے کسی کونے میں ا یک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟۔ آپﷺ نے فرمایا میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔‘‘
حدیث۲…
’’ عن أبی ھریرۃؓ ان رسول اﷲﷺ قال فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامع الکلم و نصرت بالرعب و أحلت لیٰ الغنائم و جعلت لی الارض طھورا و مسجداً و أرسلت الی الخلق کافۃ و ختم بی النبیون ‘‘

(صحیح مسلم ص ۱۹۹ ج ۱، مشکوٰۃ ص ۵۱۲)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے۔(۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ (۳)مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے۔ (۴)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے۔ (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ (۶) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔‘‘
اس مضمون کی ایک حدیث صحیحین میں حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ اس کے آخر میں ہے:
’’ وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ‘‘

(مشکوٰۃ ص ۵۱۲)
ترجمہ: ’’پہلے انبیاء کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔‘‘
حدیث۳…
’’ عن سعد بن ابی وقاصؓ قال قال رسول اﷲﷺ لعلیؓ انت منی بمنزلۃ ھرون من موسی الا انہ لا نبی بعدی ‘‘

(بخاری ص ۶۳۳ ج ۲)
’’ و فی روایۃ المسلم أنہ لا نبوۃ بعدی ‘‘
(صحیح مسلم ص ۲۷۸ ج ۲)
ترجمہ: ’’سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ‘‘ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: ’’میرے بعد نبوت نہیں۔‘‘
حضرت شا ہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ اپنی تصنیف ’’ازا لۃ الخفاء میں ’’ مآثر علیؓ ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’ فمن المتواتر: أنت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ ‘‘

(ازالۃ الخفاء مترجم ص ۴۴۴ ج ۴)
ترجمہ: ’’متواتر احادیث میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایاکہ تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی۔‘‘
حدیث۴…
’’ عن ابی ھریرۃؓ یحدث عن النبیﷺ قال کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون ‘‘

(صحیح بخاری ص ۴۹۱ ج ۱، واللفظ لہ، صحیح مسلم ص ۱۲۶ ج۲، مسند احمد ص ۲۹۷ ج ۲)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ رسول اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ ‘‘
نوٹ: بنی اسرائیل میں غیر تشریعی انبیاء آتے تھے۔ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی تجدید کرتے تھے۔ مگر آنحضرتﷺ کے بعد ایسے انبیاء کی آمد بھی بند ہے۔
حدیث۵…
’’ عن ثوبانؓ قال قال رسول اﷲﷺ انہ سیکون فی أمتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی وأ نا خاتم النبیین لا نبی بعدی ‘‘

(ابودائود ص ۱۲۷ ج ۲ کتاب الفتن واللفظ لہ، ترمذی ص ۴۵ ج ۲)
ترجمہ: ’’حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔‘‘
حدیث۶…
’’ عن أنس بن مالکؓ قال قال رسول اﷲﷺ ان الرسالۃ و النبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی و لا نبی ‘‘

(ترمذی ص ۵۱ ج ۲ ابواب الرؤیا، مسند احمد ص ۲۶۷ ج۳)
ترجمہ: ’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا کہ رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے۔ پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔‘‘
حدیث۷…
’’ عن ابی ھریرۃؓ أنہ سمع رسول اﷲﷺ یقول نحن الآخرون السابقون یوم القیامۃ بید أنھم أوتوا الکتاب من قبلنا ‘‘

(صحیح بخاری ص ۱۲۰ ج ۱ واللفظ لہ، صحیح مسلم ص ۲۸۲ ج ۱)
ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ کو رسول اﷲﷺ نے فرمایاکہ ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔‘‘
حدیث۸…
’’ عن عقبۃ بن عامرؓ قال قال رسول اﷲﷺ لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطابؓ ‘‘

(ترمذی ص ۲۰۹ ج ۲ ابواب المناقب)
ترجمہ: ’’حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطابؓ ہوتے۔‘‘
حدیث ۹…
’’ عن جبیر بن مطعمؓ قال سمعت النبیﷺ یقول أن لی أسمائ۰أنا محمد۰ و أنا أحمد۰ و أنا الماحی الذی یمحواﷲ بی الکفر۰ و أنا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی۰ و أنا العاقب۰ و العاقب الذی لیس بعدہ نبی ‘‘

(متفق علیہ، مشکوۃص ۵۱۵)
ترجمہ: ’’حضرت جبیربن مطعمؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میرے چند نام ہیں۔ میں محمد ہوں۔ میں احمد ہوں۔ میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے اﷲ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
اس حدیث میں آنحضرتﷺ کے دو اسمائے گرامی آپﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
اوّل ’’الحاشر‘‘ حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اشارۃ الی انہ لیس بعدہ نبی ولا شریعۃ … فلما کان لا أمۃ بعد امتہ لأنہ لا نبی بعدہ، نسب الحشر الیہ، لأنہ یقع عقبہ ‘‘

(فتح الباری ص ۴۰۶ ج ۶)
ترجمہ: ’’یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی اور کوئی شریعت نہیں۔ سو چونکہ آپﷺ کی امت کے بعد کوئی امت نہیں اور چونکہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس لئے حشر کو آپﷺ کی طرف منسوب کردیا گیا۔ کیونکہ آپﷺ کی تشریف آوری کے بعد حشر ہوگا۔‘‘
دوسرا اسم گرامی: ’’ العاقب ‘‘ جس کی تفسیر خود حدیث میں موجود ہے۔ یعنی کہ: ’’ الذی لیس بعدہ نبی ‘‘ (آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں)
حدیث۱۰…
متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
’’ بعثت أنا والساعۃ کھاتین ‘‘

(مسلم ص ۴۰۶ ج ۲)
(مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے)
ان احادیث میں آنحضرتﷺ کی بعثت کے درمیان اتصال کا ذکر کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرتﷺ کی تشریف آوری قرب قیامت کی علامت ہے اور اب قیامت تک آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ چنانچہ امام قرطبی ’’ تذکرہ ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ وأما قولہ بعثت أنا والساعۃ کھاتین فمعناہ أنا النبی الاخیر فلا یلینی نبی آخر، وانما تلینی القیامۃ کما تلی السبابۃ الوسطی ولیس بینھما اصبع أخری … ولیس بینی وبین القیامۃ نبی ‘‘

(التذکرۃ فی أحوال الموتی وأمور الآخرۃ ص ۷۱۱)
ترجمہ: ’’اور آنحضرتﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد اور کوئی نبی نہیں۔ میرے بعد بس قیامت ہے۔ جیسا کہ انگشت شہادت درمیانی انگلی کے متصل واقع ہے۔ دونوں کے درمیان اور کوئی انگلی نہیں۔ اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں۔‘‘
علامہ سندھیؒ حاشیہ نسائی میں لکھتے ہیں:
’’ التشبیہ فی المقارنۃ بینھما۰ أی لیس بینھما اصبع اخری کما أنہ لا نبی بینہﷺ وبین الساعۃ ‘‘

(حاشیہ علامہ سندھیؒ برنسائی ص ۲۳۴ ج۱)
ترجمہ: ’’تشبیہ دونوں کے درمیان اتصال میں ہے (یعنی دونوں کے باہم ملے ہوئے ہونے میں ہے) یعنی جس طرح ان دونوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کے درمیان اور قیامت کے درمیان اور کوئی نبی نہیں۔‘‘
 

ام ضیغم شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
ناظم
مہمان
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ماننے والوں کو ایک دلیل کافی ہے اور جو نہ مانے وہ پکا مہربندی کا سزاوار ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت پر اجماع امت اور ختم نبوت پر تواتر

ختم نبوت پر اجماع امت

حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ ’’الاقتصاد‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ ان الأمۃ فھمت بالاجماع من ھذا اللفظ و من قرائن أحوالہ أنہ أفھم عدم نبی بعدہ أبدا … و أنہ لیس فیہ تأویل و لا تخصیص فمنکر ھذا لا یکون الا منکر الاجماع ‘‘
(الاقتصاد فی الاعتقاد ص ۱۲۳)
ترجمہ: ’’بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپa کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول۔ اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر اجماع کا منکر ہوگا۔‘‘
حضرت ملا علی قاریؒ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
’’ و دعوی النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر بالاجماع ‘‘
(شرح فقہ اکبر ص ۲۰۲)
علامہ ابن نجیم مصریؒ جن کو ابو حنیفہ ثانی کہا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ اذا لم یعرف ان محمداًﷺ اخر الانبیأ فلیس بمسلم لانہ من الضروریات ‘‘
(الاشباہ والنظائر مطبوعہ کراچی ج ۲ ص ۹۱)

ختم نبوت پر تواتر
حافظ ابن کثیرؒ آیت خاتم النبیین کے تحت لکھتے ہیں:
’’ وبذلک وردت الأحادیث المتواترۃ عن رسول اﷲﷺ من حدیث جماعۃ من الصحابۃ رضی اﷲ عنہم ‘‘
(تفسیر ابن کثیر ص ۴۹۳ ج۳)
ترجمہ: ’’اور ختم نبوت پر آنحضرتﷺ سے احادیث متواترہ وارد ہوئی ہیں۔ جن کو صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت نے بیان فرمایا۔‘‘
اور علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:
’’ و کونہﷺ خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب و صدعت بہ السنۃ و أجمعت علیہ الأمۃ فیکفر مدعی خلافہ و یقتل ان اصر‘
(روح المعانی ص ۳۹ ج۲۲)
ترجمہ: ’’اور آنحضرتﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے۔ احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے۔ پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘

پس عقیدئہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع واتفاق چلا آیا ہے۔
 
Top