وحی الہام اور کشف کا شرعی معنی اور ان میں قادیانی تحریفات
سوال۶… وحی الہام اور کشف کا شرعی معنی اور حیثیت واضح کرتے ہوئے بتائیں کہ قادیانی ان اصطلاحات میں کیا تحریفات کرتے ہیں اور اس کا کیا جواب ہے؟
جواب …
وحی
اصطلاح شریعت میں وحی اس کلامِ الٰہی کو کہتے ہیں کہ جو اﷲ کی طرف سے بذریعہ فرشتہ نبی کو بھیجا ہو۔ اس کو وحی نبوت بھی کہتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اوراگر بذریعہ القاء فی القلب ہو تو اس کو وحی الہام کہتے ہیں (فرشتہ کا واسطہ ہونا ضروری نہیں ہے) جو اولیاء پر ہوتی ہے اور اگر بذریعہ خواب ہو تو اصطلاح شریعت میں اس کو رویائے صالحہ کہتے ہیں۔ جو عام مؤمنین اور صالحین کو ہوتا ہے۔ کشف اور الہام اور رویائے صالحہ پر لغتاً وحی کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے: ’’ و اوحینا الٰی ام موسیٰ ‘‘مگر عرف شرع میں جب لفظ وحی کا بولا جاتا ہے تو اس سے وحی نبوت ہی مراد ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے قرآن کریم میں باعتبار لغت کے شیطانی وسوسوں پر بھی وحی کا اطلاق آیا ہے:
’’ کما قال تعالیٰ وان الشیٰطین لیوحون الی اولیائھم (انعام: ۱۲۱) ‘‘
’’ وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیٰطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا (انعام: ۱۱۲) ‘‘
لیکن عرف میں شیطانی وسوسوں پر وحی کا اطلاق نہیں ہوتا۔
الہام
کسی خیر اور اچھی بات کا بلانظر و فکر اور بلاکسی سبب ظاہری کے من جانب اﷲ قلب میں القاء ہونے کا نام الہام ہے۔ جو علم بطریق حواس حاصل ہو وہ ادر اک حسی ہے اور جو علم بغیر حس اور عقل۔ من جانب اﷲ بلاکسی سبب کے دل میں ڈالا جائے وہ الہام ہے۔ الہام محض موہبت ربانی ہے اور فراست ایمانی۔ جس کا حدیث میں ذکر آیا ہے۔ وہ من وجہ کسب ہے اور من وجہ وہب ہے۔ کشف اگرچہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے الہام سے عام۔ لیکن کشف کا زیادہ تعلق امور حسیہ سے ہے اور الہام کا تعلق امور قلبیہ سے ہے۔
کشف
عالم غیب کی کسی چیز سے پردہ اٹھاکر دکھلادینے کا نام کشف ہے۔ کشف سے پہلے جو چیز مستور تھی۔ اب وہ مکشوف یعنی ظاہر اور آشکارا ہوگئی۔ قاضی محمد اعلیٰ تھانویؒ کشاف اصطلاحات الفنون ص ۱۲۵۴ پر لکھتے ہیں:
’’ الکشف عنداہل السلوک ہوا المکاشفہ ومکاشفہ رفع حجاب راگویند کہ میاں روحانی جسمانی است کہ ادراک آن بحواس ظاہری نتواں کرد الخ ‘‘
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ: ’’ حجابات کا مرتفع ہونا قلب کی صفائی اور نورانیت پر موقوف ہے۔ جس قدر قلب صاف اور منور ہوگا۔ اسی قدر حجابات مرتفع ہوں گے۔ جاننا چاہئے کہ حجابات کا مرتفع ہونا قلب کی نورانیت پر موقوف تو ہے۔ مگر لازم نہیں۔‘‘
وحی اور الہام میں فرق
وحی نبوت قطعی ہوتی ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتی ہے اور نبی پر اس کی تبلیغ فرض ہوتی ہے اور امت پر اس کا اتباع لازم ہوتا ہے اور الہام ظنی ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء نہیں ہوتا۔ اولیاء معصوم نہیں۔ اسی وجہ سے اولیاء کا الہام دوسروں پر حجت نہیں اور نہ الہام سے کوئی حکم شرعی ثابت ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ استحباب بھی الہام سے ثابت نہیں ہوسکتا۔ نیز علم احکام شرعیہ بذریعہ وحی انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور غیر انبیاء پر جو الہام ہوتا ہے۔ سو وہ از قسم بشارت یا از قسم تفہیم ہوتا ہے۔ احکام پر مشتمل نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت مریم علیہا السلام کو جو وحی الہام ہوئی وہ از قسم بشارت تھی نہ کہ ازقسم احکام اور بعض مرتبہ وحی الہام کسی حکم شرعی کی تفہیم اور افہام کے لئے ہوتی ہے۔ جو نسبت رویائے صالحہ کو الہام سے ہے۔ وہی نسبت الہام کو وحی نبوت سے ہے۔ یعنی جس طرح رویائے صالحہ الہام سے درجہ میں کمتر ہے۔ اسی طرح الہام درجہ میں وحی نبوت سے فروتر ہے اور جس طرح رویائے صالحہ میں ایک درجہ کا ابہام اور اخفاء ہوتا ہے اور الہام اس سے زیادہ واضح ہوتا ہے۔ اسی طرح الہام بھی باعتبار وحی کے خفی اور مبہم ہوتا ہے اور وحی صاف اور واضح ہوتی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ’’الاعلام بمعنی الکشف والوحی والالہام‘‘ مندرجہ احتساب قادیانیت جلد دوم از حضرت کاندہلویؒ۔
انقطاعِ وحی نبوت
حضور سرور کائناتﷺ کے بعد وحی نبوت کا دروازہ بندہوگیا۔ اس سلسلے میں اکابرین امت کی تصریحات ملاحظہ ہوں:
۱… حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت فرمایا:
’’ الیوم فقدنا الوحی و من عنداﷲ عز و جل الکلام، رواہ ابواسمٰعیل الھروی فی دلائل التوحید ‘‘
ترجمہ: ’’آج ہمارے پاس وحی نہیں ہے اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فرمان ہے۔‘‘
(کنز العمال ص ۲۳۵ ج ۷ حدیث نمبر ۱۸۷۶۰)
۲… نیز حضرت صدیق اکبرؓنے ایک طویل کلام کے ذیل میں فرمایا:
’’قد انقطع الوحی وتم الدین او ینقص وانا حی۰ رواہ النسائی بھذا اللفظ معناہ فی الصحیحین‘‘
(الریاض النضرۃ ص ۹۸ ج ۱ وتاریخ الخلفاء للسیوطی ص ۹۴)
ترجمہ: ’’اب وحی منقطع ہوچکی اور دین الٰہی تمام ہوچکا۔ کیا میری زندگی ہی میں اس کا نقصان شروع ہوجائے گا؟۔‘‘
۳… صحیح بخاری ص ۳۶۰ ج ۱ میں اسی مضمون کا کلام حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ دونوں حضرات سے منقول ہے۔
۴… حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی تو ایک روز حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ چلو حضرت ام ایمنؓ کی زیارت کر آئیں۔ کیونکہ آنحضرتﷺ بھی ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ہم تینوں وہاں گئے۔ حضرت ام ایمنؓ ہمیں دیکھ کر رونے لگیں۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ دیکھو ام ایمن! رسول اﷲﷺ کے لئے وہی بہتر ہے جو اﷲ کے نزدیک آپﷺ کے واسطے مقدر ہے۔ انہوں نے کہا:
’’قد علمت ما عند اﷲ خیرلرسول اﷲﷺ و لکن ابکی علی خبر السماء انقطع عنا‘‘
(ابو عوانہ و کنزالعمال ص ۲۲۵ ج ۷ حدیث نمبر ۱۸۷۳۴ و مسلم ج ۲ ص ۲۹۱)
ترجمہ: ’’یہ تومیں بھی جانتی ہوں کہ آپﷺ کے لئے وہی بہتر ہے جو اﷲ کے نزدیک ہے۔ لیکن میں اس پر روتی ہوں کہ آسمانی خبریں ہم سے منقطع ہوگئیں۔‘‘
اسی طرح مسلم شریف میں ہے:’’ ولکن ابکی ان الوحی قد انقطع من السمائ ‘‘
۵… علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:’’لان بموت النبیﷺ انقطع الوحی ‘‘
(مواہب لدینہ ص ۲۵۹)
ترجمہ: ’’اس لئے کہ نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوچکی ہے۔‘‘
۶… ایسے مدعی کے بارے میں علامہ ابن حجر مکیؒ نے اپنے فتاویٰ میں تحریر فرمایا ہے:
’’و من اعتقد وحیا بعد محمدﷺ کفر باجماع المسلمین‘‘
ترجمہ: ’’اور جو شخص آنحضرتﷺ کے بعد کسی وحی کا معتقد ہو۔ وہ باجماع مسلمین کافر ہے۔‘‘
(بحوالہ ختم نبوت ص ۳۲۲ از حضرت مفتی محمد شفیعؒ)
قادیانی گروہ کشف و الہام اور وحی میں تحریف نہیں کرتے۔ بلکہ تلبیس کرتے ہیں کہ نہ صرف کشف و الہام۔ بلکہ وحی نبوت کو مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے جاری مانتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی نام نہاد وحی کو ایک مستقل کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے اور اس کا نام انہوں نے ’’تذکرہ‘‘ رکھا ہے۔ حالانکہ تذکرہ قرآن مجید کا نام ہے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ ہے:
’’ کلا انھا تذکرۃ فمن شاء ذکرہ فی صحف مکرمۃ مرفوعۃ مطھرۃ (عبس ۱۱،۱۴) ‘‘
ان آیات میں ’’تذکرہ‘‘ قرآن مجید کو قرار دیا گیا ہے۔ قادیانی اگر مرزا غلام احمد قادیانی کی وحی کے مجموعہ کا نام قرآن رکھتے تو مسلمانوں میں اشتعال پھیلتا۔ انہوں نے قرآن مجید کا غیر عرفی نام چرا کر مرزا کی وحی پر چسپاں کردیا اور اسی تذکرہ کے پہلے صفحہ پر عنوان قائم کیا: ’’تذکرہ یعنی وحی مقدس و رویاء و کشوف حضرت مسیح موعود‘‘
قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے وحی نبوت کو جاری مانتے ہیں۔ اس تذکرہ کا حجم ۸۱۸ صفحات ہے۔ اس میں مرزا قادیانی کی نام نہاد وحی (خرافات) کو جمع کیا گیا ہے۔ غرض قادیانی جماعت مرزا قادیانی کے لئے وحی نبوت کو جاری مانتی ہے۔ حالانکہ اوپر گزرچکا کہ آنحضرتﷺ کے بعد وحی کا مدعی۔ مدعی نبوت ہے۔ اور یہ بجائے خود مستقل کفرہے۔ اب مرزا قادیانی کی ہزارہا عبارتوں میں سے چند عبارتیں ملاحظہ ہوں۔ جس میں مرزا قادیانی نے اپنے لئے وحی کا دعویٰ کیا ہے:
۱… ’’پس جیسا کہ میں نے باربار بیان کردیا ہے کہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں۔ یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے۔ جیسا کہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں۔ اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے۔ اور مسیح موعود ماننا واجب ہے۔‘‘
(تحفۃ الندوہ ص۷،خزائن ج ۱۹ ص ۹۵)
۲… ’’خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جومیرے پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں۔ نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ بلکہ اس وقت تو پہلے زمانے کی نسبت بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے۔ یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ وحی اﷲ ہے: ’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ‘‘دیکھو براہین احمدیہ۔ اس میں صاف طور پر اس عاجز (مرزا) کو رسول کرکے پکارا گیا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ص ۴۳۱ ج ۳، ایک غلطی کا ازالہ ص۲،خزائن ص ۲۰۶ ج۱۸، النبوۃ فی الاسلام ص ۳۰۷، حقیقت النبوۃ ص ۲۶۱)
۳… ’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزرچکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۳۹۱،خزائن ص ۴۰۶ ج۲۲)
۴… ’’اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں۔ ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی۔ جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور بیت اﷲ میں کھڑے ہوکر یہ قسم کھاسکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے۔ وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیﷺ پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۸،خزائن ج۱۸ ص ۲۱۰، ضمیمہ النبوۃ فی الاسلام ص ۳۱۰‘ حقیقت النبوۃ ص ۲۶۴‘ مجموعہ اشتہارات ص ۴۳۵ ج۳)
۵… ’’میں خدا تعالیٰ کی تئیس برس کی متواتر وحی کو کیونکر رد کرسکتا ہوں۔ میں اس کی اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں۔ جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۱۵۰،خزائن ج ۲۲ ص ۱۵۴)
اب ملاحظہ فرمایئے کہ مرزا قادیانی اپنے اوپر جبریل علیہ السلام کے نزول کے بھی مدعی ہیں:
۶… ’’جاء نی ائل واختار وادار اصبعہ واشارہ ان وعد اﷲ اتیٰ۰ فطوبیٰ لمن وجدو رائ‘‘ یعنی میرے پاس آئل آیا اور اس نے مجھے چن لیا۔ اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا۔ پس مبارک جو اس کو پاوے اور دیکھے۔ (اس جگہ آئل خدا تعالیٰ نے جبرائیل کا نام رکھا ہے۔ اس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے۔ حاشیہ منہ)
(حقیقت الوحی ص ۱۰۳،خزائن ص ۱۰۶ ج ۲۲)
۷… ’’اور خدا تعالیٰ میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھلارہا ہے کہ اگر نوح کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۱۳۷،خزائن ج ۲۲ ص ۵۷۵)
اسلامی عقیدہ کے مطابق حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا ایک خاص امتیاز یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی سے معصوم ہوتے ہیں۔ ٹھیک انہی کے طرز پر مرزا قادیانی کو بھی معصوم ہونے کا دعویٰ ہے:
۸… ’’ ما انا الا کالقرآن وسیظھر علی یدی ماظھر من الفرقان ‘‘
(تذکرہ ص ۶۷۴)
’’اور میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا۔‘‘
قرآن کریم مسلمانوں کی نہایت مقدس مذہبی کتاب ہے۔ جسے خود مرزا قادیانی کے پیرو بھی محفوظ عن الخطا سمجھتے ہیں اور مرزا قادیانی اپنے تقدس کو قرآن کے مثل ثابت کرتے ہیں۔
۹:… ’’ نحن نزلناہ و انا لہ لحافظون ‘‘
(تذکرہ ص ۱۰۷ طبع ۴ ربوہ)
’’ہم نے اس کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ جسے مرزا قادیانی نے معمولی تصرف کے ساتھ اپنی ذات پر چسپاں کیا ہے۔ گویا جس طرح قرآن منزل من اﷲ ہے اور اﷲ تعالیٰ نے ہر خطا و خلل سے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ٹھیک وہی تقدس مرزا قادیانی کو بھی حاصل ہے:
۱۰… ’’ و ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحی ‘‘
(تذکرہ ص ۳۷۸، ۳۹۴)
’’اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو وحی ہے جو اس (مرزا) پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
علماء شریعت کی طرح تمام صوفیاء بھی اس پر متفق ہیں کہ نبوت و رسالت خاتم النبیینﷺ پر ختم ہوگئی اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور حضور پرنورﷺ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے۔ وہ مرتد اور دائرئہ اسلام سے قطعاً خارج ہے۔ البتہ نبوت و رسالت کے کچھ کمالات اور اجزاء باقی ہیں کہ جو اولیاء امت کو عطا کئے جاتے ہیں۔ مثلاً کشف اور الہام اور رویائے صادقہ (سچا خواب) اور کرامتیں۔ اس قسم کے کمالات نبوت کے اجزاء ہیں۔ وہ ہنوز باقی ہیں۔ لیکن ان کمالات کی وجہ سے کسی شخص پر نبی کا اطلاق کسی طرح جائز نہیں۔ اور نہ ان کے کشف اور الہام پر ایمان لانا واجب ہے۔ ایمان فقط کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ پر ہے۔ نبی کا تو خواب بھی وحی ہے: ’’رویأ الانبیاء وحی‘‘ (بخاری) مگر ولی کا خواب اور الہام شرعاً حجت نہیں۔ نبی کے خواب سے ایک معصوم کا ذبح کرنا اور قتل کرنا بھی جائز ہے۔ مگر ولی کے الہام سے قتل کا جواز تو درکنار اس سے استحباب کا درجہ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ غرض کسی بھی بڑے سے بڑے بزرگ کا کشف و الہام شرعی مسئلہ کے اثبات کے لئے کوئی مستقل دلیل نہیں ہے۔ اس کو اس طرح سمجھو کہ اگر کسی شخص میں کچھ کمالات اور خصلتیں بادشاہ اور وزیر کی سی پائی جائیں تو اس بناء پر وہ شخص بادشاہ اور وزیر نہیں بن سکتا۔ اور اگر کوئی اس بنا پر بادشاہت اور وزارت کا دعویٰ کرے اور اپنے کو وزیر اور بادشاہ کہنے لگے تو فوراً گرفتاری کے احکام جاری ہوجائیں گے۔ اس طرح اگر کسی شخص میں نبوت کے برائے نام کچھ کمالات پائے جائیں تو اس سے اس شخص کا منصب نبوت پر فائز ہونا لازم نہیں آتا۔ بلکہ اگر کوئی شخص اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ مرتد اور اسلام کا باغی سمجھا جائے گا۔
’’عن ابی ھریرۃ قال سمعت رسول اﷲﷺ یقول لم یبق من النبوۃ الا المبشرات‘‘
(رواہ البخاری فی کتاب التعبیر ص ۱۰۳۵ ج۲)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو! نبوت کا کوئی جزو سوائے اچھے خوابوں کے باقی نہیں۔ (اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے)۔‘‘
اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نبوت بالکلیہ ختم ہوچکی اور سلسلہ وحی منقطع ہوگیا۔ البتہ اجزائے نبوت میں سے ایک جزو مبشرات باقی ہے۔ یعنی جوسچے خواب مسلمان دیکھتے ہیں۔ یہ بھی نبوت کے اجزا میں سے ایک جزو ہے۔ جس کی تشریح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ: ’’سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں جزو ہے۔‘‘
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
عبرت کی جگہ ہے کہ ارشادات نبویہa کے ان بینات کے بعد بھی بجائے اس کے کہ مرزائی قلوب میں زلزلہ پڑجاتا۔ اور وہ ایک متنبّی کاذب کو چھوڑ کر سیدالانبیائﷺ کی نبوت کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتے۔ ان کی جسارت اور تحریف میں دلیری اور بڑھتی جاتی ہے۔ وکذلک یطبع اﷲ علی قلب کل متکبر جبار!
ادھر حدیث میں سلسلہ نبوت کے انقطاع پر یہ صاف ارشاد ہوتا ہے اور ادھر قادیانی دنیا میں خوشیاں منائی جاتی ہیں کہ اس سے بقاء نبوت ثابت ہوگیا۔ ان ھذا لشئ عجاب۔ کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ نبوت کا ایک جزو باقی ہے۔ جس سے نفس نبوت کا بقاء ثابت ہوتا ہے۔ جیسے پانی کا ایک قطرہ بھی باقی ہو تو اس کو پانی کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح نبوت کے ایک جزو کا باقی ہونا خود نبوت کا باقی ہونا ہے۔ اہل دانش فیصلہ کریں کہ اس فلسفہ اور سائنس کے دور میں ایک مدعی نبوت کی طرف سے کہا جارہا ہے جس کو جزو اور کل کا بدیہی امتیاز معلوم نہیں۔ وہ کسی شے کے ایک جزو موجود ہونے کو کل کا موجود ہونا سمجھتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نماز کے ایک جزو مثلاً اﷲ اکبر کو پوری نماز اور وضو کے ایک جزو مثلاً ہاتھ دھونے کو پورا وضو کہا جائے۔ اسی طرح ایک لفظ اﷲ کو پوری اذان اور ایک منٹ کے روزہ کو ادائے روزہ کہا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر قادیانی نبوت کی یہی برکات ہیں کہ کسی شے کے ایک جزو کے وجود کو کل کا وجود قرار دیا جائے اور جزو پر کل کا اطلاق درست ہوجائے تو پھر ایک اینٹ کو پورامکان کہنا بھی درست ہوگا۔ اور کھانے کے بیس اجزاء میں سے ایک جزو نمک ہے۔ تو نمک کو کھانا کہنا بھی روا ہوگا۔ نمک کو پلائو اور پلائو کو نمک کہا جائے تو کوئی غلطی نہ ہوگی۔ اور پھر تو شاید ایک دھاگہ کو کپڑا کہنا بھی جائز ہوگا اور ایک انگلی کے ناخن کو انسان اور ایک رسی کو چارپائی بھی کہا جائے اور ایک میخ کو کواڑ بھی۔ کیا خوب!
نبوت ہو تو ایسی ہو کہ تمام بدیہات ہی کو بدل ڈالے۔ پس اگر ایک اینٹ کو مکان اور نمک کو پلائو اور ایک دھاگہ کو کپڑا اور ایک رسی کو چارپائی اور ایک میخ کو کواڑ نہیں کہہ سکتے تو نبوت کے چھیالیسویں جزو کو بھی نبوت نہیں کہہ سکتے۔ رہی پانی کی مثال کہ اس کا ایک قطرہ بھی پانی ہی کہلاتا ہے اور پورا سمندر بھی پانی کہلاتا ہے۔ سو یہ ایک جدید مرزائی فلسفہ ہے کہ عقلمندوں نے پانی کے ایک قطرہ کو پانی کا ایک جزو سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ پانی کا ایک قطرہ بھی ایسا ہی مکمل پانی ہے۔ جیسے ایک دریا۔ جو شخص علم کی ابجد سے بھی واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پانی کے ہر قطرہ میں اجزائے مائیہ پورے پورے موجود ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ سمندر میں پانی کے اجزاء زیادہ ہیں اور قطرہ میں کم مقدار میں موجود ہیں۔ مگر اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک قطرہ میں پانی کے دونوں اجزاء جن کا جدید فلسفہ ہائیڈروجن اور آکسیجن نام رکھتا ہے۔ موجود ہیں۔ اس لئے پانی کے قطرات کو پانی کے اجزاء نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ پانی کے اجزاء وہی ہائیڈروجن اور آکسیجن ہیں۔ تو جس طرح تنہا ہائیڈروجن کو بھی پانی کہنا غلط ہے اور تنہا آکسیجن کو بھی پانی کہنا غلط ہے۔ اسی طرح نبوت کے کسی جزو کو نبوت کہنا بھی غلطی ہے۔ یہ محض لچر اور ناقابل ذکر بات ہے کہ نبوت کا ایک جزو باقی ہونے سے نبوت کا بقا ثابت کرڈالا۔(تلخیص از ختم نبوت کامل)