• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سوال۷ …قادیانیوں کی جانب سے اجرائے نبوت پر پیش کردہ آیات کی حقیقت اور ان میں مرزائی تحریفات کا جائزہ

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اجرائے نبوت پر پیش کردہ آیات کی حقیقت اور مرزائی تحریفات
سوال۷ … مرزائی اجرائے نبوت پر جن آیات مبارکہ اور احادیث میں تحریف کرتے ہیں۔ ان میں سے تین کو ذکر کرکے ان کا شافی جواب لکھیں؟

جواب … مرزائیوں سے ختم نبوت و اجرائے نبوت پر بحث کرنااصولی طور پر غلط ہے۔ اس لئے کہ ہمارے اور قادیانیوں کے درمیان ختم نبوت و اجرائے نبوت کا مسئلہ مابہ النزاع ہی نہیں۔ مسلمان بھی نبوت کو ختم مانتے ہیں۔ قادیانی بھی۔ اہل اسلام کے نزدیک رحمت دوعالمﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں بن سکتا۔ مرزائیوں کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں۔
اب فرق واضح ہوگیا کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ پر نبوت کو بند مانتے ہیں۔ قادیانی، مرزا غلام احمد قادیانی پر۔ اس وضاحت کے بعد اب قادیانیوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ سارے قرآن و حدیث سے ایک آیت یا ایک حدیث پڑھیں۔ جس میں لکھا ہوا ہو کہ نبوت رحمت دوعالمﷺ پر ختم نہیں۔ بلکہ حضورﷺ کے بعد چودہ سو سال میں ایک مرزا قادیانی نبی بنے ہیں۔ اور مرزا قادیانی کے بعد قیامت تک اور کوئی نبی نہیں بنے گا۔ قیامت تک تمام زندہ مردہ قادیانی اکٹھے ہوکر ایک آیت اور ایک حدیث اس سلسلہ میں نہیں دکھا سکتے۔
مرزا کہتا ہے:
۱… ’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۳۹۱، خزائن ص ۴۰۶، ۴۰۷ ج ۲۲)
۲… ’’چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا۔ وہ میں ہوں۔ اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست وپا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے۔ ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا۔ سو وہ ظاہر ہوگیا۔ اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص ۱۱،خزائن ص ۲۱۵ ج۱۸)
۳… ’’اس لئے ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں۔ … پس ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس وقت تک اس امت میں کوئی اور شخص نبی نہیں گزرا۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص ۱۳۸ از مرزا محمود قادیانی)
۴… ’’ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں، اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں، بدقسمت ہے جو مجھے چھوڑتا ہے۔ کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘
(کشتی نوح ص ۵۶،خزائن ص ۶۱ ج ۱۹)
۵… ’’ فاراد اﷲ ان یتم النباء و یکمل البناء باللبنۃ الاخیرۃ فانا تلک اللبنۃ ‘‘
(خطبہ الہامیہ ص ۱۱۲، خزائن ص ۱۷۸ ج۱۶)
’’پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشینگوئی کو پورا اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچادے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔‘‘
۶… ’’امت محمدیہﷺ میں سے ایک سے زیادہ نبی کسی صورت میں بھی نہیں آسکتے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے اپنی امت سے صرف ایک نبی اﷲ کے آنے کی خبر دی ہے۔ جو مسیح موعود ہے اور اس کے سوا قطعاً کسی کا نام نبی اﷲ یا رسول اﷲ نہیں رکھا جائے گا اور نہ کسی اور نبی کے آنے کی خبر آپﷺ نے دی ہے۔ بلکہ لا نبی بعدی فرماکر اوروں کی نفی کردی اور کھول کر بیان فرمادیا کہ مسیح موعود کے سوا میرے بعد قطعاً کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔‘‘
(رسالہ تشحیذالاذہان قادیان ماہ مارچ۱۹۱۴ئ)
ان اقتباسات کا ماحصل یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے آپ کو آخری نبی قرار دیتا ہے۔ گویا مرزا قادیانی خاتم النبیین ہے۔ معاذاﷲ۔

قادیانی تحریفات

قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر۱… ’’ یٰبنی آدم امّا یأتینکم ‘‘

قادیانی کہتے ہیں کہ: ’’ یٰبنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقیٰ و اصلح فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون (اعراف :۳۵) ‘‘
یہ آیت آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی۔ لہٰذا اس میں حضورﷺ کے بعد آنے والے رسولوں کا ذکر ہے۔ آپﷺ کے بعد بنی آدم کو خطاب ہے۔ لہٰذا جب تک بنی آدم دنیا میں موجود ہیں۔ اس وقت تک نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔
جواب۱ … اس آیت کریمہ سے قبل اسی رکوع میں تین بار ’’ یا بنی آدم ‘‘ آیا ہے۔ اور اول ’’ یا بنی آدم ‘‘ کا تعلق ’’ اھبطوا بعضکم لبعض عدو ‘‘ سے ہے۔ ’’ اھبطو ا‘‘ کے مخاطب سیدنا آدم علیہ السلام و سیدہ حوا علیہا السلام ہیں۔ لہٰذا اس آیت میں بھی آدم علیہ السلام کے وقت کی اولاد آدم کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ پھر زیر بحث آیت نمبر ۳۵ ہے۔
آیت نمبر ۱۰ سے سیدنا آدم علیہ السلام کا ذکر شروع ہے۔ اس تسلسل کے تناظر میں دیکھا جائے تو حقیقت میں یہ خطاب اولین اولاد آدم علیہ السلام کو ہے۔ اس پر قرینہ اس کا سباق ہے۔ تسلسل اور سباق آیات کی صراحتاً دلالت موجود ہے کہ یہاں پر حکایت حال ماضیہ کے طور پر اس کو ذکر کیا گیا ہے۔

جواب۲… قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپﷺ کی امت اجابت کو ’’ یا ایھا الذین آمنوا ‘‘ سے مخاطب کیا جاتا ہے، اور آپﷺ کی امت دعوت کو ’’ یا ایھا الناس ‘‘ سے خطاب ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی آپﷺ کی امت کو ’’ یا بنی آدم ‘‘ سے خطاب نہیں کیا گیا۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے۔ حال ماضیہ کی۔

ضروری وضاحت

ہاں البتہ ’’ یا بنی آدم ‘‘ کی عمومیت کے حکم میں آپﷺ کی امت کے لئے وہی سابقہ احکام ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ منسوخ نہ ہوگئے ہوں۔ اگر وہ منسوخ ہوگئے یا کوئی ایسا حکم جو آپﷺ کی امت کو اس عمومیت میں شمول سے مانع ہو۔ تو پھر آپﷺ کی امت کا اس عموم سے سابقہ نہ ہوگا۔

جواب۳ … کبھی قادیانی کرم فرمائوں نے یہ بھی سوچا کہ بنی آدم میں تو ہندو، عیسائی، یہودی، سکھ سبھی شامل ہیں۔ کیا ان میں سے نبی پیدا ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان کو اس آیت کے عموم سے کیوں خارج کیا جاتا ہے۔ ثابت ہوا کہ خطاب عام ہونے کے باوجود حالات و واقعات وقرائن کے باعث اس عموم سے کئی چیزیں خارج ہیں۔ پھر بنی آدم میں تو عورتیں، ہیجڑے بھی شامل ہیں۔ تو کیا اس عموم سے ان کو خارج نہ کیا جائے گا؟ اگر یہ کہا جائے کہ عورتیں وغیرہ تو پہلے نبی نہ تھیں۔ اس لئے وہ اب نہیں بن سکتیں۔ تو پھر ہم عرض کریں گے کہ پہلے رسول مستقل آتے تھے۔ اب تم نے رسالت کو اطاعت سے وابستہ کردیا ہے تو اس میں ہیجڑے و عورتیں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا مرزائیوں کے نزدیک عورتیں و ہیجڑے بھی نبی ہونے چاہئیں۔ْ

جواب۴
اگر ’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل ‘‘ سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو ’’ اما یاتینکم منی ھدی ‘‘ میں وہی ’’ یاتینکم ‘‘ ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نئی شریعت بھی آسکتی ہے۔ تو مرزائیوں کے عقیدہ کے خلاف ہوا۔ کیونکہ ان کے نزدیک تو اب تشریعی نبی نہیں آسکتا۔
جواب۵
۱… ’’ اما ‘‘ حرف شرط ہے۔ جس کا تحقق ضروری نہیں۔’’ یا تینکم ‘‘ مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں۔ جیسا کہ فرمایا: ’’ فاما ترین من البشر احدا(مریم: ۲۶) ‘‘ کیا حضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟
مضارع اگرچہ بعض اوقات استمرار کے لئے آتا ہے۔ مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں۔ جو فعل دوچار دفعہ پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرار سے تعبیر کرنا جائز ہے۔ اس کی ایک مثال یہی آیت ’’ اما ترین من البشر ‘‘ ہے جو اوپر گزر چکی ۔
۲… ’’ انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نوریحکم بھا النبیون (مائدہ:۴۴) ‘‘ ظاہر ہے کہ تورات کے موافق حکم کرنے والے گزرچکے۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد کسی کو حتیٰ کہ صاحب تورات کو بھی حق حاصل نہیں اس کی تبلیغ کا۔
۳… ’’ واوحی الی ھذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (انعام:۱۹) ‘‘ چنانچہ حضورﷺ ایک زمانہ تک ڈراتے رہے۔ مگر اب بلاواسطہ آپﷺ کی انذاروتبشیر مسدود ہے۔
۴… ’’ و سخرنا مع داؤد الجبال یسبحن والطیر (الانبیا ئ:۷۹) ‘‘ تسبیح دائود کی زندگی تک ہی رہی پھر مسدود ہوگئی۔ مگر ہر جگہ صیغہ مضارع کا ہے۔
جواب۶

  • اما یاتینکم منی ھدی (بقرہ۳۸)
  • واما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعدالذکریٰ مع القوم الظالمین (انعام:۶۸)
  • فاما تثقفنھم فی الحرب فشرد بھم من خلفھم لعلھم یذکرون (انفال: ۵۷)
  • واما نرینک بعض الذی نعدھم اونتوفینک فالینا مرجعھم (یونس: ۴۶)
  • اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھر ھما (بنی اسرائیل:۲۳)
  • فاما ترین من البشر احدا فقولی انی نذرت للرحمن صوما (مریم:۲۶)
  • اما ترینی مایوعدون رب فلا تجعلنی فی القوم الظالمین (مومنون:۹۳)
  • و اما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذ باﷲ (اعراف:۲۰۰)
  • فاما نذھبن بک فانا منھم منتقمون (زخرف:۴۱)
ان تمام آیات میں نون ثقیلہ مضارع ہونے کے باوجود قادیانیوں کو بھی تسلیم ہے کہ ان آیات میں استمرار نہیں۔ بلکہ حکایت حال ماضی کا بیان ہے۔
جواب۷ … درمنثور ج ۳ ص ۸۲ میں زیر بحث آیت ہذا لکھا ہے:
’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم الآیۃ اخرج ابن جریر عن ابی یسار السلمی فقال ان اﷲ تبارک و تعالی جعل آدم و ذریتہ فی کفہ فقال یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی۰ ثم نظر الی الرسل فقال یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا ‘‘
’’ابی یسار سلمی سے روایت ہے کہ اﷲ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی جملہ اولاد کو (اپنی قدرت و رحمت کی) مٹھی میں لیا اور فرمایا: ’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم … الخ ‘‘ پھر نظر (رحمت) رسولوں پر ڈالی تو ان کو فرمایا کہ: ’’ یا ایھا الرسل … الخ ‘‘ غرض یہ کہ عالم ارواح کے واقعہ کی حکایت ہے۔‘‘
جواب۸… بالفرض والتقدیر اگر اس آیت کو اجرائے نبوت کا مستدل مان بھی لیا جائے۔ تب بھی مرزا غلام احمد قادیانی قیامت کی صبح تک نبی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ بقول خود آدم کی اولاد ہی نہیں، اور یہ آیت تو صرف بنی آدم سے متعلق ہے۔ مرزانے خود اپنا تعارف بایں الفاظ کرایا ہے ، ملاحظہ فرمایئے:

کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،خزائن ص ۱۲۷ ج۲۱)


قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر ۲…’’ من یطع اﷲ والرسول ‘‘

’’ ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن اولئک رفیقا (نساء :۶۹) ‘‘

قادیانی کہتے ہیں کہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں وہ نبی ہوں گے۔ صدیق ہوں گے۔ شہید ہوں گے۔ صالح ہوں گے۔ اس آیت میں چار درجات کے ملنے کا ذکر ہے۔ اگر انسان صدیق، شہید، صالح بن سکتا ہے تو نبی کیوں نہیں بن سکتا؟ تین درجوں کو جاری ماننا۔ ایک کو بند ماننا۔ تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر صرف معیت مراد ہو تو کیا حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت فاروق اعظمؒ صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ خود صدیق اور شہید نہ تھے؟
جواب۱… آیت مبارکہ میں درجات ملنے کا ذکر نہیں۔ بلکہ جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی اطاعت کرے۔ وہ آخرت میں انبیاء ، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ ’’ حسن اولئک رفیقا ‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔
جواب۲یہاں معیت ہے۔ عینیت نہیں ہے۔ معیت فی الدنیا ہر مومن کو حاصل نہیں۔ اس لئے اس سے مراد معیت فی ا لآخرۃ ہی ہے۔ چنانچہ مرزائیوں کے مسلمہ دسویں صدی کے مجدد امام جلال الدینؒ نے اپنی تفسیر جلالین شریف میں اس آیت کا شان نزول لکھا ہے:
’’قال بعض الصحابۃ للنبیﷺ کیف نرٰک فی الجنۃ وانت فی الدرجات العلیٰ۰ ونحن اسفل منک فنزل ومن یطع اﷲ والرسول … وحسن اؤلئک رفیقا۰ رفقاء فی الجنۃ بان یستمتع فیھا برؤیتھم وزیارتھم والحضور معھم وان کان مقرھم فی درجات عالیۃ بالنسبۃ الی غیرھم‘‘
(جلالین ص ۸۰)
’’بعض صحابہ کرامؓ نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ آپﷺ جنت کے بلند و بالا مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات پر ہوں گے۔ تو آپﷺ کی زیارت کیسے ہوگی؟۔
پس یہ آیت نازل ہوئی ’’ من یطع اﷲ والرسول … الخ ‘‘ (آگے فرماتے ہیں) یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ صحابہ کرامؓ انبیاء علیہم السلام کی زیارت و حاضری سے فیضیاب ہوں گے۔ اگرچہ ان (انبیائ) کا ٹھکانہ دوسروں کی نسبت بلند مقام پر ہوگا۔‘‘
اسی طرح تفسیر کبیر ص ۱۷۰ ج ۱۰ میں ہے:
’’ من یطع اﷲ والرسول ذکروا فی سبب النزول وجوھا۔ الا ول روی جمع من المفسرین ان ثوبان مولی رسول اﷲﷺ کان شدید الحب لرسول اﷲﷺ قلیل الصبرعنہ فاتاہ یوما وقد تغیر وجھہ ونحل جسمہ وعرف الحزن فی وجھہ فسالہ رسول اﷲﷺ عن حالہ فقال یارسول اﷲ مابی وجع غیرانی اذالم ارک اشتقت الیک واستو حشت وحشۃً شدیدۃ ً حتی القاک فذکرت الاخرۃ فخفت ان لااراک ھناک لانی ان ادخلت الجنۃ فانت تکون فی درجات النبیین وانا فی درجۃ العبید فلا اراک وان انالم ادخل الجنۃ فحینئذ لااراک ابدا فنزلت ھذہ الایۃ ‘‘
ترجمہ: ’’ من یطع اﷲ … الخ ‘ ‘(اس آیت) کے شان نزول کے کئی اسباب مفسرین نے ذکر کئے ہیں۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ حضرت ثوبانؓ جو آنحضرتﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ وہ آپﷺ کے بہت زیادہ شیدائی تھے (جدائی پر) صبر نہ کرسکتے تھے۔ ایک دن غمگین صورت بنائے آنحضرتﷺ کے پاس آئے۔ ان کے چہرہ پر حزن و ملال کے اثرات تھے۔ آپﷺ نے وجہ دریافت فرمائی۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں۔ بس اتنا ہے کہ آپﷺ کو نہ دیکھوں تو اشتیاق ملاقات میں بے قراری بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آپﷺ کی زیارت ہو تو مجھے آخرت کا خیال آکر یہ خوف لاحق ہے کہ وہاں میں آپﷺ کو نہ دیکھ سکوں گا۔ چونکہ مجھے جنت میں داخلہ ملا بھی تو آپﷺ تو انبیاء کے درجات میں بلند ترین مقام پر فائز ہوں گے، اور ہم آپﷺ کے غلاموں کے درجہ میں، اور اگر جنت میں سرے سے میرا داخلہ ہی نہ ہوا تو پھر ہمیشہ کے لئے ملاقات سے گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘
معلوم ہوا کہ اس معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ ابن کثیر، تنویر المقیاس، روح البیان میں بھی تقریباً یہی مضمون ہے:
حدیث: ’’ قال رسول اﷲﷺ التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہدائ ‘‘
(منتخب کنزالعمال ج۴ ص۷ حدیث ۹۲۱۷ ؍ابن کثیر ص ۵۲۳ ج ۱ طبع مصر)
ترجمہ: ’’آپﷺ نے فرمایا کہ سچا تاجر امانت دار (قیامت کے دن) نبیوں صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘
اگر معیت سے درجہ ملنا ثابت ہے تو مرزائی بتائیں کہ اس زمانہ میں کتنے امین و صادق تاجر نبی ہوئے ہیں؟۔
’’ عن عائشۃ قالت سمعت رسول اﷲﷺ یقول مامن نبی یمرض الا خیربین الدنیا والآخرۃ وکان فی شکواہ الذی قبض اخذتہ بحۃ شدیدۃٌ فسمعتہ یقول مع الذین انعمت علیھم من النبیین… فعلمت انہ خیر ‘‘
(مشکوٰۃ ص ۵۴۷ ج۲، ابن کثیر ص ۵۲۲ ج۱)
ترجمہ: ’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر نبی، مرض (وفات) میں اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔ جس مرض میں آپﷺ کی وفات ہوئی۔ آپﷺ کو شدید کھانسی ہوئی۔ آپﷺ اس مرض میں فرماتے تھے: ’’ مع الذین انعمت علیھم من النبیین ‘‘ا س سے میں سمجھ گئی کہ آپﷺ کو بھی دنیا و آخرت میں سے ایک کا اختیار دیا جارہا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ اس آیت میں نبی بننے کا ذکر نہیں۔ کیونکہ نبی تو پہلے بن چکے تھے۔ آپﷺ کی تمنا آخرت کی معیت کے متعلق تھی۔

درجات کے ملنے کا تذکرہ

قرآن کریم میں جہاں دنیا میں ایمان والوں کو درجات ملنے کا ذکر ہے۔ وہاں نبوت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگرچہ باقی تمام درجات کا ملنا مذکور ہے، مثلاً:
۱… ’’ والذین آمنوا باﷲ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھداء عندربھم (الحدید:۱۹) ‘‘
ترجمہ:’’اور جو لوگ یقین لائے اﷲ پر اور اس کے سب رسولوں پر۔ وہی ہیں سچے ایمان والے اور لوگوں کا احوال بتلانے والے اپنے رب کے پاس۔‘‘
۲… ’’ والذین آمنوا وعملوا الصالحات لندخلنھم فی الصالحین (عنکبوت: ۹) ‘‘
ترجمہ: ’’اور جو لوگ یقین لائے اور بھلے کام کئے۔ ہم ان کو داخل کریں گے نیک لوگوں میں۔‘‘
۳… سورۃ حجرات کے آخر میں :’’ مجاہدین فی سبیل اﷲ‘‘ کو فرمایا ’’اولئک ھم الصادقون ‘‘
ان آیات میں صدیق، صالح وغیرہ درجات ملنے کا ذکر ہے۔ مگر نبوت کا ذکر نہیں۔ غرض جہاں درجات حاصل کرنے کا ذکر ہے۔ وہاں نبوت کا ذکر نہیں۔ جہاں نبوت کا ذکر ہے۔ وہاں درجات ملنے کا ذکر نہیں۔ بلکہ صرف معیت مراد ہے۔
جواب۳… کیا تیرہ سو سال میں کسی نے حضورﷺ کی پیروی کی ہے یا نہ؟ اگر اطاعت اور پیروی کی ہے تو نبی کیوں نہ بنے؟ اور اگر کسی نے بھی اطاعت وپیروی نہیں کی تو آپﷺ کی امت خیرامت نہ ہوئی۔ بلکہ شرامت ہوگی۔( نعوذباﷲ) جس میں کسی نے بھی اپنے نبی کی کامل پیروی نہ کی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے سورئہ توبہ میں صحابہ کرامؓ کے متعلق خود شہادت دے دی ہے کہ :’’ یطیعون اﷲ و رسولہ(توبہ: ۷۱) ‘‘ یعنی رسول اﷲﷺ کے صحابہ کرامؓ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرتے ہیں۔ بتاؤ! وہ نبی کیوں نہ ہوئے؟ اس لئے کہ اگر اطاعت کاملہ کا نتیجہ نبوت ہے تو اکابر صحابہ کرامؓ کو یہ منصب ضرور حاصل ہوتا۔ جنہیں ’’ رضی اﷲ عنھم ورضوا عنہ ‘‘ کا خطاب ملا اور یہی رضائے الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ: ’’ رضوان من اﷲ اکبر(توبہ:۷۲) ‘‘
جواب۴اگر بفرض محال پانچ منٹ کے لئے تسلیم کرلیں کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں نبوت ملتی ہے۔ تو اس آیت میں تشریعی اور غیر تشریعی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ تم غیر تشریعی کی تخصیص کیوں کرتے ہو؟ اگر اس آیت میں نبوت ملنے کا ذکر ہے تو آیت میں النبیین ہے۔ المرسلین نہیں، اور نبی غیر تشریعی اور رسول تشریعی کو کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی و رسول کے فرق سے واضح ہے۔ تو اس لحاظ سے پھر تشریعی نبی آنے چاہئیں۔ یہ تو تمہارے عقیدہ کے بھی خلاف ہوا۔ مرزا کہتا ہے:
’’اب میں بموجب آیت کریمہ: ’’ و اما بنعمت ربک فحدث ‘‘ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس تیسرے درجہ میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں۔ بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۶۷، خزائن ص ۷۰ ج ۲۲)
اس حوالہ سے تو ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کو آنحضرتﷺ کی ابتاع سے نہیں۔ بلکہ وہبی طور پر نبوت ملی۔ تو پھر اس آیت سے مرزائیوں کا استدلال باطل ہوا۔

جواب۵… اگر اطاعت کرنے سے نبوت ملتی ہے تو نبوت کسبی چیز ہوئی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ ‘‘ نبوت وہبی چیز ہے ۔جو اسے کسبی مانے وہ کافر ہے۔

نبوت وہبی چیز ہے

۱… علامہ شعرانی ؒ الیواقیت والجواہر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ فان قلت فھل النبوۃ مکتسبۃ او موھوبۃ فالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا بالنسک و الریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء … و قد افتی المالکیۃ و غیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ ‘‘
(الیواقیت والجواہر ص ۱۶۴،۱۶۵ ج ۱)
ترجمہ: ’’کہ کیا نبوت کسبی ہے یا وہبی؟ تو اس کا جواب ہے کہ نبوت کسبی نہیں ہے کہ درویشی اختیار کرنے یا محنت و کاوش سے اس تک پہنچا جائے۔ جیسا کہ بعض احمقوں (مثلاً قادیانی فرقہ …از مترجم) کا خیال ہے۔ مالکیہ وغیرہ نے کسبی کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے۔‘‘
۲… قاضی عیاضؒ شفاء میں لکھتے ہیں:
’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبیناﷺ اوبعدہ … اومن ادعی النبوۃ لنفسہ او جوأز اکتسابھا۰ و البلوغ بصفاء القلب الی مرتبتھا الخ وکذالک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لم یدع النبوۃ… فھولاء کلھم کفار مکذبون للنبیﷺ لانہ اخبرﷺ انہ خاتم النبیین لانبی بعدہ ‘‘
(شفاء ص ۲۴۶‘ ۲۴۷ ج ۲)
ترجمہ: ’’ہمارے نبیﷺ کی موجودگی یا آپﷺ کے بعد جو کوئی کسبی نبوت کا قائل ہو۔ یا اس نے خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یا پھر دل کی صفائی کی بناء پر اپنے کسب کے ذریعہ نبوت کے حصول کے جواز کاقائل ہوا۔ یا پھر اپنے پر وحی کے اترنے کو کہا۔ اگرچہ نبوت کا دعویٰ نہ کیا۔ تو یہ سب قسم کے لوگ نبیﷺ کے دعویٰ… ’’ انا خاتم النبیین ‘‘… کی تکذیب کرنے والے ہوئے اور کافر ٹھہرے۔‘‘
ان دونوں روشن حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ نبوت کے کسبی ہونے کا عقیدئہ رکھنا اپنے اندر تکذیب خدا اور رسول کا عنصر رکھتا ہے، اور ایسے عقیدہ کا رکھنے والا مالکیہ و دیگر علماء کے نزدیک قابل گردن زدنی اور کافر ہے۔
جواب۶… اگر نبوت ملنے کے لئے اطاعت و تابعداری شرط ہے تو غلام احمد قادیانی پھر بھی نبی نہیں ہے، کیونکہ اس نے نبی کریمﷺ کی کامل تابعداری نہیں کی جیسے:
(۱) مرزا نے حج نہیں کیا۔
(۲) مرزا نے ہجرت نہیں کی۔
(۳)مرزا نے جہاد بالسیف نہیں کیا۔ بلکہ الٹا اس کو حرام کہا۔
(۴)مرزا نے کبھی پیٹ پر پتھر نہیں باندھے۔
(۵)ہندوستان کے قحبہ خانوں میں زنا ہوتا رہا۔ مگر مرزا غلام احمد نے کسی زانیہ یا زانی کو سنگسار نہیں کرایا۔
(۶) ہندوستان میں چوریاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر مرزا قادیانی نے کسی چور کے ہاتھ نہیں کٹوائے۔

جواب۷… نیز مع کا معنی ساتھ کے ہیں۔ جیسے: ’’ان اﷲ معنا۰ ان اﷲ مع المتقین۰ ان اﷲ مع الذین اتقوا۰ محمد رسول اﷲ والذین معہ۰ ان اﷲ مع الصابرین‘‘ نیز اگر نبی کی معیت سے نبی ہوسکتا ہے تو خدا کی معیت سے خدا بھی ہوسکتا ہے؟۔ العیاذباﷲ ۔

جواب۸… یہ دلیل قرآن کریم کی آیت سے ماخوذ ہے۔ اس لئے مرزائی اپنے استدلال کی تائید میں کسی مفسر یا مجدد کا قول پیش کریں۔ بغیر اس تائید کے ان کا استدلال مردود اور من گھڑت ہے۔ اس لئے کہ مرزا نے لکھا ہے:
’’جو شخص ان (مجددین) کا منکر ہے۔ وہ فاسقوں میں سے ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص ۴۸، خزائن ص ۳۴۴ ج۶)
جواب۹… اگر مرزائیوں کے بقول اطاعت سے نبوت وغیرہ درجات حاصل ہوتے ہیں۔ تو ہمارا یہ سوال ہوگا کہ یہ درجے حقیقی ہیں یا ظلی وبروزی؟ اگر نبوت کا ظلی بروزی درجہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرزائیوں کا عقیدہ ہے تو صدیق، شہید اور صالح بھی ظلی وبروزی ہونے چاہئیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں کوئی ظلی و بروزی ہونے کا قائل نہیں، اور اگر صدیق وغیرہ میں حقیقی درجہ ہے تو پھر نبوت بھی حقیقی ہی ماننا چاہئے۔ حالانکہ تشریعی اور مستقل نبوت کا ملنا خود مرزائیوں کو بھی تسلیم نہیں ہے۔ اس لئے یہ دلیل مرزائیوں کے دعویٰ کے مطابق نہ ہوگی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر۳…’’ وآخرین منھم لما یلحقوابھم ‘‘

طائفہ قادیانیہ چونکہ ختم نبوت کا منکر ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تحریف کرتے ہوئے آیت: ’’ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین واٰخرین منھم لما یلحقوابھم (جمعہ: ۲،۳) ‘‘ کو بھی ختم نبوت کی نفی کے لئے پیش کردیا کرتے ہیں۔ طریق استدلال یہ بیان کرتے ہیں کہ جیسے امیین میں ایک رسول عربیﷺ مبعوث ہوئے تھے اس طرح بعد کے لوگوں میں بھی ایک نبی قادیان میں پیدا ہوگا۔ معاذاﷲ۔
جواب۱بیضاوی شریف میں ہے:
’’ وآخرین منھم عطف علی الامیین اوالمنصوب فی یعلمہم وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الی یوم الدین فان دعوتہ وتعلیمہ یعم الجمیع ‘‘
’’ آخرین کا عطف امیین یا یعلمھم کی ضمیر پر ہے ، اور اس لفظ کے زیادہ کرنے سے آنحضرتﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپﷺ کی تعلیم و دعوت صحابہؓ اور ان کے بعد قیامت کی صبح تک کے لئے عام ہے۔‘‘
خود آنحضرتﷺ بھی فرماتے ہیں: ’’ انا نبی من ادرک حیا و من یولد بعدی ‘‘
صرف موجود ین کے لئے نہیں بلکہ ساری انسانیت اور ہمیشہ کے لئے ہادیﷺ برحق ہوں۔
جواب۲
القرآن یفسر بعضہ بعضاً کے تحت دیکھیں تو یہ آیت کریمہ دعائے خلیل کا جواب ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیت اﷲ کی تعمیر کی تکمیل پر دعا فرمائی تھی:
’’ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم آیتک ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویزکیھم (بقرہ:۱۲۹)

‘‘
زیر بحث آیت میں اس دعا کی اجابت کا ذکر ہے کہ دعائے خلیل کے نتیجہ میں وہ رسول معظم ان امیوں میں مبعوث ہوئے۔ لیکن صرف انہیں کے لئے نہیں بلکہ جمیع انسانیت کے لئے جو موجود ہیں ان کے لئے بھی جو ابھی موجود نہیں لیکن آئیں گے قیامت تک۔ سبھی کے لئے آپﷺ ہادی برحق ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ یا ایھاالناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (اعراف: ۱۵۸) ‘‘
یاآپﷺ کا فرمانا: ’’ ارسلت الی الخلق کافۃ ‘‘ لہٰذا مرزا قادیانی دجال قادیان اور اس کے چیلوں کا اس کو حضورﷺ کی دو بعثتیں قرار دینا یا نئے رسول کے مبعوث ہونے کی دلیل بنانا سراسر دجالیت ہے۔ پس آیت کریمہ کی رو سے مبعوث واحد ہے اور مبعوث ’’ الیھم ‘‘ موجود و غائب سب کے لئے بعثت عامہ ہے۔
جواب۳
رسولاً پر عطف کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو قید معطوف علیہ میں مقدم ہوتی ہے۔ اس کی رعایت معطوف میں بھی ضروری ہے۔ چونکہ رسولاً معطوف علیہ ہے۔ فی الامیین مقدم ہے۔ اس لئے فی الامیین کی رعایت وآخرین منھم میں بھی کرنی پڑے گی۔ پھر اس وقت یہ معنی ہوں گے کہ امیین میں اور رسول بھی آئیں گے۔ کیونکہ امیین سے مراد عرب ہیں۔ جیسا کہ صاحب بیضاوی نے لکھا ہے: ’’ فی الامیین ای فی العرب لان اکثرھم لایکتبون ولا یقرؤن ‘‘ اور لفظ منھم کا بھی یہی تقاضا ہے جب کہ مرزا عرب نہیں تو مرزائیوں کے لئے سوائے دجل و کذب میں اضافہ کے استدلال باطل سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
جواب۴… قرآن مجید کی اس آیت میں بعث کا لفظ ماضی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اگر رسولاً پر عطف کریں تو پھر بعث مضارع کے معنوں میں لینا پڑے گا۔ ایک ہی وقت میں ماضی اور مضارع دونوں کا ارادہ کرنا ممتنع ہے۔
جواب۵… اب آیئے دیکھئے کہ مفسرین حضرات جو (قادیانی دجال سے قبل کے زمانہ کے ہیں) اس آیت کی تفسیر میں کیا ارشاد فرماتے ہیں:
’’ قال المفسرون ھم الا عاجم یعنون بہم غیر العرب ای طائفہ کانت قالہ ابن عباس وجماعۃ وقال مقاتل یعنی التابعین من ھذہ الامۃ الذین لم یلحقوا باوائلھم وفی الجملہ معنی جمیع الا قوال فیہ کل من دخل فی الاسلام بعد النبیa الی یوم القیامۃ فالمراد بالامیین العرب وبالآخرین سواھم من الامم ‘‘
(تفسیر کبیر ص۴ جز۳۰ مطبع مصر)
’’(یعنی آپﷺ عرب و عجم کے لئے معلم و مربی ہیں) مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد عجمی ہیں۔ عرب کے ماسواء کوئی طبقہ ہو یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے اور مقاتل کہتے ہیں کہ تابعین مراد ہیں۔ سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں، اور آخرین سے سوائے عرب کے سب قومیں جو حضورﷺ کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے۔ وہ سب مراد ہیں۔‘‘
’’ وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الی یوم الدین ‘‘
(تفسیر ابوسعود ج۴ جز ۸ ص ۲۴۷)
’’آخرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحابہؓ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ (ان سب کے لئے حضورﷺ ہی نبی ہیں۔)‘‘
’’ ھم الذین یأتون من بعدھم الی یوم القیامۃ ‘‘
(کشاف ص ۵۳۰ ج۴)
جواب۶بخاری شریف ص ۷۲۷ ج۲ ،مسلم شریف ص ۳۱۲ ج۲، ترمذی شریف ص ۲۳۲ ج۲، مشکوٰۃ شریف ص ۵۷۶ پر ہے:
’’ عن ابی ہریرۃؓ قال کنا جلوسا عند النبیﷺ فانزلت سورۃ الجمعۃ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم قال قلت من ھم یا رسول اﷲ فلم یراجعہ حتی سال ثلثا وفینا سلمان الفارسی وضع رسول اﷲﷺ یدہ علی سلمان ثم قال لوکان الایمان عندالثریا لنالہ رجال او رجل من ھؤلائ ‘‘
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ہم نبیﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپﷺ پر سورئہ جمعہ نازل ہوئی۔ وآخرین منھم لما یلحقوابھم تو میں نے عرض کی یارسول اﷲ!وہ کون ہیں؟ آپﷺ نے خاموشی فرمائی۔ حتیٰ کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپﷺ نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسیؓ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیتے۔ رجال یا رجل کے لفظ میں راوی کو شک ہے۔ مگر اگلی روایت میں رجال کو متعین کردیا۔‘‘
یعنی عجم یا فارس کی ایک جماعت کثیرہ جو ایمان کو تقویت دے گی اور امور ایمانیہ میں اعلیٰ مرتبہ پر ہوگی۔ عجم و فارس میں بڑے بڑے محدثین، علمائ، مشائخ ،فقہا، مفسرین، مقتدائ، مجددین و صوفیا، اسلام کے لئے باعث تقویت بنے۔ آخرین منھم لما یلحقوابھم سے وہ مراد ہیں۔ ابوہریرہؓ سے لے کر ابو حنیفہؒ تک سبھی اسی رسول ہاشمیﷺ کے دراقدس کے دریوزہ گرہیں۔ حاضر و غائب۔ امیین و آخرین سب ہی کے لئے آپﷺ کا دراقدس وا ہے۔ آئے جس کا جی چاہے۔ اس حدیث نے متعین کردیا کہ آپﷺ کی نبوت عامہ و تامہ و کافہ ہے۔ موجود و غائب عرب و عجم سب ہی کے لئے آپﷺ معلم و مزکی ہیں۔ اب فرمایئے کہ آپﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر مبارک ہے یا کسی اور نئے نبی کے آنے کی بشارت؟ ایسا خیال کرنا باطل و بے دلیل دعویٰ ہے۔

قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر۴…’’ وبالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘

قادیانی اجرائے نبوت کی دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ:
’’ وبالآخرۃ ھم یوقنون (بقرہ:۴) ‘‘
(یعنی وہ پچھلی وحی پر ایمان لاتے ہیں)
جواب ۱… اس جگہ آخرت سے مراد قیامت ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ صراحتاً فرمایا گیا: ’’ وان الدار الآخرۃ لھیی الحیوان (عنکبوت:۶۴) ‘‘ آخری زندگی ہی اصل زندگی ہے: ’’ خسرالدنیا والآخرۃ(حج:۱۱) ‘‘ دنیا و آخرت میں خائب و خاسر: ’’ و لاجر الآخرۃ اکبر لو کانوا یعلمون (النحل:۴۱) ‘‘ا لحاصل قرآن مجید میں لفظ آخرت پچاس سے زائد مرتبہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ مراد جزا اور سزا کا دن ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے تفسیر ابن جریر ص ۱۰۶ جلد۱، درمنثور جلد اول ص ۲۷ پر ہے:
’’ عن ابن عباس (وبالآخرۃ )ای بالبعث والقیامۃ والجنۃ والنار والحساب والمیزان ‘‘
غرض جہاں کہیں قرآن مجید میں آخرت کا لفظ آیا ہے۔ اس سے قیامت کا دن مراد ہے۔ نہ کہ پچھلی وحی۔
جواب۲… مرزا قادیانی کہتا ہے:
’’طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخرالزماں پر جو کچھ اتارا گیا ہے ایمان لائے … ’’ و بالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘ اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی۔ یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا اور سزا مانتا ہو۔‘‘
(الحکم نمبر ۳۴،۳۵ ج۸، ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۴ء دیکھو خزینۃ العرفان ص ۷۸ ج۱ ،از مرزا قادیانی)
اسی طرح دیکھو الحکم نمبر۲ ج۱۰، ۱۷ جنوری ۱۹۰۶ء ص ۵ کالم نمبر۲،۳۔ اس میں مرزا قادیانی نے: ’’ و بالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘کا ترجمہ:
’’اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔کیا ہے۔ اور پھر لکھتا ہے: ’’قیامت پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘
تفسیر از حکیم نورالدین خلیفہ قادیان:’’اور آخرت کی گھڑی پر یقین کرتے ہیں۔ ‘‘
(ضمیمہ بدر ج۸ نمبر ۱۵ ‘ص۳‘ مورخہ ۴؍فروری ۱۹۰۹ئ)
لہٰذا مرزائیوں کا: ’’ وبالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘ کا معنی آخری وحی کرنا جہاں تحریف وزندقہ ہے۔ وہاں قادیانی اکابر کی تصریحات کے بھی خلاف ہے۔
جواب۳… قادیانی علم و معرفت سے معریٰ ہوتے ہیں۔ کیونکہ خود مرزا قادیانی بھی محض جاہل تھا۔ اسے بھی تذکیر و تانیث واحد و جمع کی کوئی تمیز نہ تھی۔ ایسے ہی یہاں بھی ہے کہ الآخرۃ تو مؤنث ہے۔ جبکہ لفظ وحی مذکر ہے۔ اس کی صفت مونث کیسے ہوگی؟ دیکھئے قرآن مجید میں ہے: ’’ ان الدارالآخرۃ لھی الحیوان ‘‘ دیکھئے دارالآخرۃ مونث واقع ہوا ہے۔ اس لئے ’’ لھیی ‘‘ کی مونث ضمیر آئی ہے اور لفظ وحی کے لئے مذکر کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے۔ تو پھر کوئی سرپھرا ہی الآخرۃ کو آخری وحی قرار دے سکتا ہے؟۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آیت نمبر۵…’’ وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ ‘‘
قادیانی کہتے ہیں کہ: ’’ وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتاب (عنکبوت :۲۷)‘‘
یعنی ہم نے اس ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک ابراہیم کی اولاد ہے۔ اس وقت تک نبوت جاری ہے۔
جواب۱… اگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے تو کتاب کا نزول بھی جاری معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات قادیانیوں کے نزدیک باطل ہے۔ جو دلیل کتاب کے جاری ہونے سے مانع ہے۔ وہی اجرائے نبوت سے مانع ہے۔
جواب۲… وجعلنا کا فاعل باری تعالیٰ ہیں۔ تو گویا نبوت وہبی ہوئی۔ حالانکہ قادیانی وہبی کی بجائے اب کسبی۔ یعنی اطاعت والی کو جاری مانتے ہیں۔ تو گویا کئی لحاظ سے یہ قادیانی اعتراض خود قادیانی عقائد و مستدلات کے خلاف ہے۔
 
Top