• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

سوال ۲: "ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین" کی توضیح و تشریح کریں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سوال ۲: ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین
سوال ۲… قال اﷲ تعالی: ’’ ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ‘‘
اس آیت کی توضیح و تشریح ایسے طور سے کریں کہ مسئلہ ختم نبوت نکھرکر سامنے آجائے اور اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے پانچ کتابوں کے نام تحریر کریں؟۔

جواب…
آیت خاتم النبیین کی تفسیر
’’ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیما (احزاب:۴۰) ‘‘
ترجمہ: ’’محمدؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے۔ لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اﷲ سب چیزوں کو جاننے والا۔‘‘
شان نزول
اس آیت شریفہ کا شان نزول یہ ہے کہ آفتاب نبوتﷺ کے طلوع ہونے سے پہلے تمام عرب جن رسومات میں مبتلا تھے۔ ان میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ متبنیٰ یعنی لے پالک بیٹے کو تمام احکام واحوال میں حقیقی اور نسبی بیٹا سمجھتے تھے۔ اس کو بیٹا کہہ کر پکارتے تھے اور مرنے کے بعد شریک وراثت ہونے میں اور رشتے ناتے اور حلت و حرمت کے تمام احکام میں حقیقی بیٹا قرار دیتے تھے۔ جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔ اسی طرح وہ لے پالک کی بیوی سے بھی اس کے مرنے اور طلاق دینے کے بعد نکاح کو حرام سمجھتے تھے۔
یہ رسم بہت سے مفاسد پر مشتمل تھی۔ اختلاط نسب، غیر وارث شرعی کو اپنی طرف سے وارث بنانا۔ ایک شرعی حلال کو اپنی طرف سے حرام قرار دینا وغیرہ وغیرہ۔
اسلام جو کہ دنیا میں اسی لئے آیا ہے کہ کفر و ضلالت کی بے ہودہ رسوم سے عالم کو پاک کردے۔ اس کا فرض تھا کہ وہ اس رسم کے استیصال (جڑ سے اکھاڑنے) کی فکر کرتا۔ چنانچہ اس نے اس کے لئے دو طریق اختیار کئے۔ ایک قولی اور دوسرا عملی۔ ایک طرف تو یہ اعلان فرمادیا:
’’ و ما جعل ادعیاء کم ابناء کم ذلکم قولکم بافواھکم و اﷲ یقول الحق و ھو یھدی السبیل ادعوھم لاباء ھم ھو اقسط عند اﷲ(احزاب:۴،۵) ‘‘
ترجمہ: ’’اور نہیں کیا تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے۔ یہ تمہاری بات ہے اپنے منہ کی اور اﷲ کہتا ہے ٹھیک بات اور وہی سمجھاتا ہے راہ۔ پکارولے پالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کرکے۔ یہی پورا انصاف ہے اﷲ کے یہاں۔‘‘
اصل مدعا تو یہ تھا کہ شرکت نسب اور شرکت وراثت اور احکام حلت و حرمت وغیرہ میں اس کو بیٹا نہ سمجھا جائے۔ لیکن اس خیال کو بالکل باطل کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ متبنیٰ یعنی لے پالک بنانے کی رسم ہی توڑ دی جائے۔ چنانچہ اس آیت میں ارشاد ہوگیا کہ لے پالک کو اس کے باپ کے نام سے پکارو۔ نزول وحی سے پہلے آنحضرتﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو (جو کہ آپﷺ کے غلام تھے) آزاد فرماکر متبنیٰ (لے پالک بیٹا) بنالیا تھا اور تمام لوگ یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ بھی عرب کی قدیم رسم کے مطابق ان کو ’’زید بن محمدؐ ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اس وقت سے ہم نے اس طریق کو چھوڑ کر ان کو ’’زید بن حارثہ ؓ‘‘ کہنا شروع کیا۔ صحابہ کرامؓ اس آیت کے نازل ہوتے ہی اس رسم قدیم کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ لیکن چونکہ کسی رائج شدہ رسم کے خلاف کرنے میں اعزہ و اقارب اور اپنی قوم و قبیلہ کے ہزاروں طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ جس کا تحمل ہر شخص کو دشوار ہے۔ اس لئے خداوند عالم نے چاہا کہ اس عقیدہ کو اپنے رسول ہی کے ہاتھوں عملاً توڑا جائے۔ چنانچہ جب حضرت زیدؓ نے اپنی بی بی زینبؓ کو باہمی ناچاقی کی وجہ سے طلاق دے دی تو خداوند عالم نے اپنے رسولﷺ کا نکاح ان سے کردیا۔ زوجنکھا۔تاکہ اس رسم و عقیدہ کا کلیتاً استیصال ہوجائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
’’ فلما قضیٰ زید منھا وطراً زوجنکھا لکی لا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاء ھم … (احزاب :۳۷) ‘‘
ترجمہ: ’’پس جبکہ زیدؓ زینبؓ سے طلاق دے کر فارغ ہوگئے تو ہم نے ان کا نکاح آپﷺ سے کردیا۔ تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک کی بیبیوں کے بارے میں کوئی تنگی واقع نہ ہو۔‘‘
ادھر آپﷺ کا نکاح حضرت زینبؓ سے ہوا۔ ادھر جیسا کہ پہلے ہی خیال تھا۔ تمام کفار عرب میں شور مچاکہ لو۔ اس نبی کو دیکھو کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کربیٹھے۔ ان لوگوں کے طعنوں اور اعتراضات کے جواب میں آسمان سے یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی:
’’ ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب: ۴۰) ‘‘
ترجمہ: ’’محمد ؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر۔‘‘
اس آیت میں یہ بتلادیا گیا کہ آنحضرتﷺ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں تو حضرت زیدؓ کے نسبی باپ بھی نہ ہوئے۔ لہٰذا آپﷺ کا ان کی سابقہ بی بی سے نکاح کرلینا بلاشبہ جائز اور مستحسن ہے، اور اس بارے میں آپﷺ کو مطعون کرنا سراسر نادانی اور حماقت ہے۔ ان کے دعوے کے رد کے لئے اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ آپﷺ حضرت زیدؓ کے باپ نہیں۔ لیکن خداوند عالم نے ان کے مطاعن کو مبالغہ کے ساتھ رد کرنے اور بے اصل ثابت کرنے کے لئے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا۔ یہی نہیں کہ آپﷺ زیدؓ کے باپ نہیں بلکہ آپﷺ تو کسی مرد کے بھی باپ نہیں۔ پس ایک ایسی ذات پر جس کا کوئی بیٹا ہی موجود نہیں۔ یہ الزام لگانا کہ اس نے اپنے بیٹے کی بی بی سے نکاح کرلیا کس قدر ظلم اور کجروی ہے۔ آپﷺ کے تمام فرزند بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کو مرد کہے جانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ آیت میں ’’ رجالکم ‘‘ کی قید اسی لئے بڑھائی گئی ہے۔ بالجملہ اس آیت کے نزول کی غرض آنحضرتﷺ سے کفار و منافقین کے اعتراضات کا جواب دینا اور آپﷺ کی برأت اور عظمت شان بیان فرمانا ہے اور یہی آیت کا شان نزول ہے۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ (لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر)
خاتم النبیین کی قرآنی تفسیر
اب سب سے پہلے قرآن مجید کی رو سے اس کا ترجمہ و تفسیر کیا جانا چاہئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ ’’ختم‘‘ کے مادہ کا قرآن مجید میں سات مقامات پر استعمال ہوا ہے:

  • ’’ ختم اﷲ علی قلوبھم ‘‘(بقرہ:۷) (مہر کردی اﷲ نے ان کے دلوں پر)
  • ’’ ختم علی قلوبکم ‘‘ (انعام:۴۶) (مہر کردی تمہارے دلوں پر)
  • ’’ ختم علی سمعہ وقلبہ ‘‘ (جاثیہ:۲۳) (مہر کردی ان کے کان پر اور دل پر)
  • ’’ الیوم نختم علی افواہہم ‘‘ (یٰسین:۶۵) (آج ہم مہر لگادیں گے ان کے منہ پر)
  • ’’ فان یشاء اﷲ یختم علی قلبک ‘‘ (شوریٰ:۲۴) (سو اگر اﷲ چاہے مہر کردے تیرے دل پر)
  • ’’ رحیق مختوم ‘‘ ( مطففین:۲۵) (مہر لگی ہوئی خالص شراب)
  • ’’ ختامہ مسک ‘‘ ( مطففین:۲۶) (جس کی مہر جمتی ہے مشک پر)
ان ساتوں مقامات کے اول و آخر، سیاق و سباق کو دیکھ لیں ’’ختم‘‘ کے مادہ کا لفظ جہاں کہیں استعمال ہوا ہے۔ ان تمام مقامات پر قدر مشترک یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسے طور پر بند کرنا۔ اس کی ایسی بندش کرنا کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہوسکے، اور اندر سے کوئی چیز اس سے باہر نہ نکالی جاسکے۔ وہاں پر ’’ختم‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً پہلی آیت کو دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کافروں کے دلوں پر مہر کردی۔ کیا معنی؟ کہ کفر ان کے دلوں سے باہر نہیں نکل سکتا اور باہر سے ایمان ان کے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ فرمایا: ’’ختم اﷲ علی قلوبھم‘‘ اب زیر بحث آیت خاتم النبیین کا اس قرآنی تفسیر کے اعتبار سے ترجمہ کریں۔ تو اس کا معنی ہوگا کہ رحمت دوعالمa کی آمد پر حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ پر ایسے طور پر بندش کردی۔ بند کردیا۔ مہر لگادی۔ اب کسی نبی کو نہ اس سلسلہ سے نکالا جاسکتا ہے اور نہ کسی نئے شخص کو سلسلہ نبوت میں داخل کیا جاسکتا ہے۔ فھو المقصود۔ لیکن قادیانی اس ترجمہ کو نہیں مانتے۔
خاتم النبیین کی نبوی تفسیر
’’ عن ثوبانؓ قال : قال رسول اﷲﷺ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ‘‘
(ابو دائود ص ۱۲۷ ج ۲ کتاب الفتن واللفظ لہ، ترمذی ص ۴۵ ج ۲)
ترجمہ: ’’حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔‘‘
اس حدیث شریف میں آنحضرتﷺ نے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی تفسیر ’’لانبی بعدی‘‘ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔
اسی لئے حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے:
’’ و قد اخبر اﷲ تبارک و تعالیٰ فی کتابہ و رسولہﷺ فی السنۃ المتواترۃ عنہ انہ لا نبی بعدہ‘ لیعلموا ان کل من ادعیٰ ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک دجال ضال مضل‘ و لو تخرق و شعبذ واتٰی بانواع السحر و الطلا سم ‘‘
(تفسیر ابن کثیرؒ ج ۳ ص ۴۹۴)
ترجمہ: ’’ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرمﷺ نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپﷺ کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا۔ وہ بہت جھوٹا۔ بہت بڑا افترا پرداز۔ بڑا ہی مکار اور فریبی۔ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا۔ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔‘‘

خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرامؓ سے

حضرات صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق کیا مؤقف تھا۔ خاتم النبیین کا ان کے نزدیک کیا ترجمہ تھا؟۔ اس کے لئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی کتاب ’’ختم نبوت کامل ‘‘کے تیسرے حصہ کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں پر صرف دو تابعین کرامؒ کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ امام ابو جعفر ابن جریر طبریؒ اپنی عظیم الشان تفسیر میں حضرت قتادہؒ سے خاتم النبیین کی تفسیر میں روایت فرماتے ہیں:
’’ عن قتادۃ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرھم ‘‘
(ابن جریر ص ۱۶ ج ۲۲)
ترجمہ: ’’حضرت قتادہؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا۔ اور لیکن آپﷺ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔‘‘
حضرت قتادہؒ کا یہ قول شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے تفسیر درمنثور میں عبدالرزاق اور عبدبن حمید اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے بھی نقل کیا ہے۔
(در منثور ص ۲۰۴ ج ۵)
اس قول نے بھی صاف وہی بتلادیا جو ہم اوپر قرآن عزیز اور احادیث سے نقل کرچکے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین ہیں۔ کیا اس میں کہیں تشریعی غیر تشریعی اور بروزی و ظلی وغیرہ کی کوئی تفصیل ہے؟ نیز حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی قرأت ہی آیت مذکور میں : ’’ ولکن نبینا خاتم النبیین ‘‘ ہے۔ جو خود اسی معنی کی طرف ہدایت کرتی ہے جو بیان کئے گئے، اور سیوطیؒ نے درمنثور میں بحوالہ عبدبن حمید حضرت حسنؒ سے نقل کیا ہے:
’’ عن الحسن فی قولہ و خاتم النبیین قال ختم اﷲ النبیین بمحمدﷺ و کان آخر من بعث ‘‘
(درمنثور ص ۲۰۴ ج ۵)
ترجمہ: ’’حضرت حسنؒ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو محمدﷺ پر ختم کردیا اور آپﷺ ان رسولوں میں سے جو اﷲ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔‘‘
کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟۔

خاتم النبیین اور اصحاب لغت

خاتم النبیین ’’ت‘‘ کی زبریازیر سے ہو۔ قرآن و حدیث کی تصریحات اور صحابہؓ وتابعینؒ کی تفاسیر اور ائمہ سلفؒ کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے۔ تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرأت پر دو معنی ہوسکتے ہیں۔ آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے۔ اور دوسری قرأت پر ایک معنی ہوسکتے ہیں۔ یعنی آخر النبیین۔ لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قرأتوں پر آیت کے معنی لغتاً یہی ہیں کہ آپﷺ سب انبیاء علیہم السلام کے آخر ہیں۔ آپﷺ کے بعدکوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں تبصریح موجود ہے:
’’ و الخاتم اسم آلۃ لما یختم بہ کالطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبیین الذی ختم النبیّون بہ و مآ لہ آخرالنبیین ‘‘
(روح المعانی ص ۳۲ ج ۲۲)
ترجمہ: ’’اور خاتم بالفتح اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جائے۔ پس خاتم النبیین کے معنی یہ ہوں گے: ’’وہ شخص جس پر انبیاء ختم کئے گئے‘‘ اور اس معنی کا نتیجہ بھی یہی آخرالنبیین ہے۔‘‘
اور علامہ احمد معروف بہ ملاجیون صاحبؒ نے اپنی تفسیر احمدی میں اسی لفظ کے معنی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ و المآل علیٰ کل توجیہ ھو المعنی الآخر و لذلک فسر صاحب المدارک قرأۃ عاصم بالآخر و صاحب البیضاوی کل القرأتین بالآخر ‘‘
ترجمہ: ’’اور نتیجہ دونوں صورتوں (بالفتح وبالکسر) میں وہ صرف معنی آخر ہی ہیں اور اسی لئے صاحب تفسیر مدارک نے قرأت عاصم یعنی بالفتح کی تفسیر آخر کے ساتھ کی ہے اور بیضاویؒ نے دونوں قرأتوں کی یہی تفسیر کی ہے۔‘‘
روح المعانی اور تفسیر احمدی کی ان عبارتوں سے یہ بات بالکل روشن ہوگئی کہ لفظ خاتم کے دو معنی آیت میں بن سکتے ہیں۔ اور ان دونوں کا خلاصہ اور نتیجہ صرف ایک ہی ہے۔ یعنی آخرالنبیین اور اسی بناء پر بیضاویؒ نے دونوں قرأتوں کے ترجمہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ دونوں صورتوں میں آخرالنبیین تفسیر کی ہے۔ خداوند عالم ائمہ لغت کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے صرف اسی پر بس نہیں کی کہ لفظ خاتم کے معنی کو جمع کردیا۔ بلکہ تصریحاً اس آیت شریفہ کے متعلق جس سے اس وقت ہماری بحث ہے۔ صاف طور پر بتلادیا کہ تمام معانی میں سے جو لفظ خاتم میں لغتاً محتمل ہیں۔ اس آیت میں صرف یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ آپﷺ سب انبیاء کے ختم کرنے والے اور آخری نبی ہیں۔
خدائے علیم و خبیر ہی کو معلوم ہے کہ لغت عرب پر آج تک کتنی کتابیں چھوٹی بڑی اور معتبر وغیر معتبر لکھی گئیں۔ اور کہاں کہاں اور کس کس صورت میں موجود ہیں۔ ہمیں نہ ان سب کے جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ کسی بشر کی طاقت ہے۔ بلکہ صرف ان چند کتابوں سے جو عرب وعجم میں مسلم الثبوت اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہدیہ ناظرین کرکے یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر کے معنی ائمہ لغت نے آیت مذکورہ میں کون سے معنی تحریر کئے ہیں۔
۱…مفردات القرآن
یہ کتاب امام راغب اصفہانیؒ کی وہ عجیب تصنیف ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ خاص قرآن کے لغات کو نہایت عجیب انداز سے بیان فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے اتقان میں فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوئی۔ آیت مذکورہ کے متعلق اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’ وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئہ ‘‘
(مفردات راغب ص ۱۴۲)
ترجمہ: ’’آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپﷺ نے نبوت کو ختم کردیا۔ یعنی آپﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا۔‘‘
۲… المحکم لابن السیدہ
لغت عرب کی وہ معتمد علیہ کتاب ہے۔ جس کو علامہ سیوطیؒ نے ان معتبرات میں سے شمار کیا ہے کہ جن پر قرآن کے بارے میں اعتماد کیا جاسکے۔ اس میں لکھا ہے:
’’ وخاتم کل شئی وخاتمتہ عاقبتہ وآخرہ از لسان العرب ‘‘
ترجمہ: ’’اور خاتم اور خاتمہ ہر شے کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔‘‘
۳… لسان العرب
لغت کی مقبول کتاب ہے۔ عرب و عجم میں مستند مانی جاتی ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے:
’’ خاتمھم و خاتمھم : آخرھم عن اللحیانی و محمدﷺ خاتم الانبیاء علیہ و علیھم الصلوٰۃ و السلام ‘‘
(لسان العرب ص ۲۵ ج ۴ طبع بیروت)
ترجمہ: ’’خاتم القوم بالکسر اور خاتم القوم بالفتح کے معنی آخرالقوم ہیں اورانہی معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم الانبیاء (یعنی آخر الانبیائ)ہیں۔‘‘
اس میں بھی بوضاحت بتلایا گیا کہ بالکسر کی قرأت پڑھی جائے یا بالفتح کی صورت میں خاتم النبیین اور خاتم الانبیاء کے معنی آخر النبیین اور آخر الانبیاء ہوں گے۔ لسان العرب کی اس عبارت سے ایک قاعدہ بھی مستفاد (دال) ہوتا ہے کہ اگرچہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر دونوں کے بحیثیت نفس لغت بہت سے معانی ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب قوم یا جماعت کی طرف سے اس کی اضافت کی جاتی ہے تو اس کے معنی صرف آخر اور ختم کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ غالباً اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ خاتم تنہا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ قوم اور جماعت کی ضمیر کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
لغت عرب کے تتبع (تلاش کرنے) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتم بالکسر یا بالفتح جب کسی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہوتا ہے تو اس کے معنی آخر ہی کے ہوتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں بھی خاتم کی اضافت جماعت ’’نبیین‘‘کی طرف ہے۔ اس لئے اس کے معنی آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اس قاعدہ کی تائید تاج العروس شرح قاموس سے بھی ہوتی ہے۔ وہوہذا:
۴…تاج العروس
شرح قاموس للعلامۃ الزبیدی میں لحیانی سے نقل کیا ہے:
’’ ومن اسمائہ علیہ السلام الخاتم والخاتم وھوالذی ختم النبوۃ بمجیئہ ‘‘
ترجمہ: ’’اور آنحضرتﷺ کے اسماء مبارکہ میں سے خاتم بالکسراور خاتم بالفتح بھی ہے اور خاتم وہ شخص ہے جس نے اپنے تشریف لانے سے نبوت کو ختم کردیا۔ ‘‘
۵…قاموس
’’ والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ وخاتم النبیین ای آخرھم ‘‘
ترجمہ: ’’اور خاتم بالکسر اور بالفتح، قوم میں سب سے آخر کو کہا جاتا ہے اور اسی معنی میں ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد خاتم النبیین۔ یعنی آخر النبیین۔‘‘
اس میں بھی لفظ ’’قوم‘‘ بڑھا کر قاعدہ مذکورہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نیز مسئلہ زیر بحث کا بھی نہایت وضاحت کے ساتھ فیصلہ کردیا ہے۔
لغت عرب کے غیر محدود دفتر میں سے یہ چند اقوال ائمہ لغت بطور ’’مشتے نمونہ از خروارے ‘‘پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے انشاء اﷲ تعالیٰ ناظرین کو یقین ہوگیا ہوگا کہ ازروئے لغت عرب۔ آیت مذکورہ میں خاتم النبیین کے معنی آخرالنبیین کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اور لفظ خاتم کے معنی آیت میں آخر اور ختم کرنے والے کے علاوہ ہرگز مراد نہیں بن سکتے۔
خلاصہ
اس آیت مبارکہ میں آپﷺ کے لئے خاتم النبیین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ قرآن وسنت، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ کی تفسیرات کی رو سے اس کا معنی آخری نبی کا ہے۔ اور اصحاب لغت کی تصنیفات نے ثابت کردیا ہے کہ خاتم کا لفظ جب جمع کی طرف مضاف ہے تو اس کا معنی سوائے آخری کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ مرزا قادیانی نے بھی خاتم کو جمع کی طرف مضاف کیا ہے۔ وہاں بھی اس کے معنی آخری کے ہی ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
’’میرے بعد میرے والدین کے گھرمیں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا، اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔ ‘‘
(تریاق القلوب ص ۱۵۷ خزائن ص ۴۷۹ ج۱۵)
ختم نبوت کے موضوع پر کتابوں کے نام
اس مقدس موضوع پر اکابرین امت نے بیسیوں کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے دس کتابوں کے نام یہ ہیں:

  • ’’ختم نبوت کامل‘‘ …(مؤلفہ :مفتی محمد شفیع صاحبؒ)
  • ’’مسک الختام فی ختم نبوت سید الانامﷺ مشمولہ احتساب قادیانیت جلد دوم…(مؤلفہ: مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ)
  • ’’عقیدۃ الامۃ فی معنی ختم نبوۃ‘‘ …(مؤلفہ: علامہ خالد محمود)
  • ’’ختم نبوت قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘ …(مؤلفہ: مولانا سرفراز خان صفدر)
  • ’’فلسفہ ختم نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ)
  • ’’مسئلہ ختم نبوت علم و عقل کی روشنی میں‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد اسحق سندیلوی)
  • ’’ختم نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: پروفیسر یوسف سلیم چشتیؒ)
  • ’’خاتم النبیین‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ ترجمہ: مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
  • ’’عالمگیر نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: مولانا شمس الحق افغانی ؒ)
  • ’’عقیدئہ ختم نبوت‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ ، مندرجہ تحفہ قادیانیت جلد اول)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آیت:
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیما (احزاب:۴۰)
کی تشریح کرنے والی چند احادیث و مجددین امت کے اقوال کو پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آیت ماکان محمد ابااحد ۔۔۔۔ (احزاب:40)
مرزا غلام احمد قادیانی دعوی نبوت سے پہلے خزائن ج 3 ص 431 پر لکھتے ہیں کہ:
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۔
یعنی محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہےمگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔ یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی ﷺ کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔
لیکن بعد میں مرزا قادیانی نے خود بھی رسول ہونے کا دعوی کر دیا ۔ اب کوئی قادیانی ہے جو اس آیت کے ترجمعے کو غلط ثابت کر کے مرزا قادیانی کو کذاب ثابت کر دے؟؟
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین.JPG
 
Top