سولہویں دلیل:حج سے ختم نبوت کا مسئلہ سمجھ آتا ہے،حج میں خاتم النبیین کے پسندیدہ قبلہ کا قصدکیاجاتاہے
اللہ تعالیٰ نے استطاعت رکھنے والے مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض کیا ہے ارشاد باری ہے{ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا } (سورہ آل عمران۹۷)’’اور اللہ کیلئے لوگوں کے اوپر حج کرنا ہے اس گھر کا جو قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی‘‘۔
حج کی نسبت بیت اللہ کی طرف ہے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ بیت اللہ حضرت خاتم النیین ﷺکا پسندیدہ قبلہ ہے نیز حج کے لئے احرام بھی ضروری ہے اور طواف بھی اور دونوں کے ساتھ دو دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور تشہدمیں یوں کہا جاتاہے{ أَشْھَد ُاَنْ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدََا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ }اور درود شریف پڑھا جاتاہے ۔اگر کسی اور نبی کو آنا ہوتا تو اللہ تعالیٰ حج کا مرکز اس قبلہ کو نہ بناتاجو حضرت محمدﷺکا پسندیدہ ہے ۔ اور حج میں ایسے اعمال کا حکم نہ دیتا جن میں حضرت محمد ﷺ کی نبوت کا اعلان ہے بعد والے کسی نبی کا کوئی ذکر نہیں۔
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أَبَدًا
عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ
عَلیٰ حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّھِمٖ