• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(سید عباس حسین گردیزی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سید عباس حسین گردیزی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)

2763سید عباس حسین گردیزی:

’’ الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علے خاتم الانبیاء والمرسلین سیدنا و نبینا ورسولنا المطلق وھادینا الی طریق الحق وشفیعنا یوم القیامۃ ابی القاسم محمدن المصطفیٰ و الہ الطیبین الطاہرین واصحابہ الاخیار المکرمین۔ اما بعد۔ فقد قال اﷲ تبارک وتعالیٰ وقولہ الحق۔یاایھاالذین امنو اتقواﷲ حق تقتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون (آل عمران:۱۰۲)‘‘
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمام اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ ایمان لانے کے بعد پوری طرح تقویٰ اختیار کرو اور مرنے سے پہلے یقین کر لو کہ تم مسلمان ہو؟ حکم باری کا لفظی ترجمہ یہ ہے ’’اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو اﷲ سے تقویٰ اختیار کرو جو حق ہے تقویٰ الٰہی کا اور ہرگز نہ مرنا تم مگر مسلمان۔‘‘ …یہ پیغام ہم سب کے لئے ہے۔ جو قرآن مجید کو آخری آسمانی کتاب مانتے ہیں۔ اس پیغام کا لانے والا وہ صادق و امین رسول(ﷺ) جس کا نام نامی خدا تعالیٰ نے یوں لیا۔ ’’ وما محمد الا رسول ‘‘اور محمدﷺ نہیں ہیں مگر رسولﷺ، اوردوسری جگہ ارشاد ہوا:
2764’’ ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین و کان اﷲ بکل شی ء علیما (الاحزاب:۴۰)‘‘
{اور نہیں تھے محمدﷺ باپ تمہارے مردوںمیں سے کسی کے لیکن وہ تو اﷲ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں اور اﷲ ہر چیز کا پہلے ہی سے اچھی طرح علم رکھنے والاہے۔}
پہلی آیت میں آنحضرتﷺ کی حیثیت متعین کی گئی ہے اور معجز نما طریقے سے کہا گیا ہے کہ ’’محمد مصطفیﷺ تو صرف رسول ہیں۔‘‘ اور دوسری آیت میں اس بات کو پھر دھرایا اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپﷺ کے بعد نبوت ختم ہے۔ آپ رسول اﷲ اور خاتم النّبیین ہیں… اسی کے ساتھ ارشاد ہوا اور اﷲ ہمیشہ سے ہر نکتے ہر بات ،ہرمسئلے کا علیم ہے…
اسے انسان کے ماضی اورحال اور مستقبل کے تمام معاملات و مسائل کا علم تھا اور اب بھی ہے۔ اس نے یہ فیصلہ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے کیا۔ اس نے اپنے رسول کو وحی کے ذریعے ’’قرآن مجید‘‘ عطاء کر کے آخری کتاب نازل کی۔ جس میں ہر خشک و تر کا علم ہے اور ہم سے کہاکہ میرا نبی اپنے ارادہ و خواہش سے کچھ نہیں بولتا۔ جب وہ بولتا ہے تو میری وحی اور میرے اشارے سے بولتا ہے۔ ’’ والنجم اذاھوی ماضل صاحبکم وماغویٰ ‘‘{قسم ہے ستارے کی، جب وہ جھکا تمہارا آقا، تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا نہ بہکا۔}
’’ما ینطق عن الھویٰ‘‘{اور وہ اپنی خواہش نفسانی سے کچھ بولتا ہی نہیں۔} ’’ ان ھو الا وحی یوحی ‘‘{وہ تو صر ف وحی ہوتی ہے جو انہیں کی گئی ہے۔}اس معصوم اور بلند مرتبہ رسول پاک ﷺ نے اﷲ کے تمام احکام بلاکم و کاست انسانوں تک پہنچائے اورتمام اوامر پر کامل و مکمل عمل کیا۔ ایسا عمل جس کی سند میں قرآن مجید نے فرمایا:’’ ولکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ ‘‘{رسول اﷲ کی سیرت اسوۃ حسنہ ہے} اور آنحضرت کامل و مکمل نظام زندگی لا چکے اور 2765انسان کے فلاح و بہبود کا قانون پہنچا چکے تو آیت اتری:
’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ‘‘{میں نے آج تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کر لیا۔}
قرآن مجید کی ان آیات سے ثابت ہوا۔
۱… دین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں کامل و مکمل ہوگیا۔ اﷲ کی نعمتیں تمام ہو گئیں اور اسلام بحیثیت دین کے اﷲ کا پسندیدہ دین ہے۔
۲… ہمیں حکم ہے کہ ہم دین اسلام پر ہی زندہ رہیں اور اسی دین پر دنیا سے اٹھیں۔
۳… اﷲ کا آخری رسول اور نبیوں میں آخری نبی ایک ہی ہے جس کا نام اور اسم گرامی محمد مصطفی ﷺ ہے۔
۴… آنحضرت ﷺ کا اسوئہ حسنہ ہی قابل اتباع ہے اور اس کی پیروی کی جا سکتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کے سوا کسی غیر کو مقتدأ مانتا ہے اور اس کے طریقہ کو اسوئہ حسنہ پیغمبر سے بہتر جانتا ہے تو وہ مذکورہ بالا حقائق کا منکر ہے۔ اس کے نزدیک نہ محمدمصطفی ﷺ آخری رسول ہیں، نہ قرآن مجید آخری کتاب۔ نہ محمدمصطفی ﷺ کا دین اسلام کامل و مکمل دین ہے، نہ وہ اس دین پر مرنا چاہتا ہے۔ اس شخص کو مسلمان کہنا اسلام کی توہین، قرآن مجید کی توہین اور رسول پاک ﷺ ،خاتم النّبیین، خاتم المرسلین کی توہین ہے۔ اس بناء پر علماء اسلام نے ایسے شخص کو کافر کہا ہے اور ہمارے نزدیک جو بھی آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کونبی مانے اور کسی کتاب کو کتاب وحی خدا جانے۔ وہ اس طرح کافر و نجس ہے۔ جس طرح دوسرے مشرک اور کافر نجس ہیں۔ نہ اس کے ہاتھ پاک، نہ ان سے رشتہ جائز، نہ ان سے معاشرت درست ہے۔ ہمارے مجتہدین کا اس پر اتفاق ہے۔ حضرت شہید ثالث قاضی نور اﷲ شوستری نے ’’احقاق الحق‘‘ عقیدئہ نبوت کا آغاز ہی ان لفظوں میں کیا ہے: 2766’’ الاول فی نبوۃ محمد ﷺ اعلم ان ہذا اصل عظیم فی الدین وبہ یقع الفرق بین المسلم والکا فر‘‘ (احقاق الحق جلد دوم ص۱۹۰ طبع ۱۳۸۸ھ)
مسئلہ نبوت کے مباحث میں پہلی بحث نبوت حضرت محمد ﷺ پر گفتگو ہے۔ یاد رہے کہ دین کی یہ اصل عظیم ہے۔ اسی بنیاد پر مسلم اور کافر میں فرق قائم ہوتاہے۔
محمدمصطفی ﷺ کو نبی و رسول ماننے کا مطلب یہ ہے کہ بالفاظ قرآن کریم :’’ ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا ‘‘{جو تمہیں رسول حکم دیں اسے قبول کرو اور جس سے رسول روک دیں اس سے باز آ جاؤ۔}
اسی بناء پر مسلمان کا اعلان اور اس کا پہلا کلمہ ہے:’’ لاالہ الا اﷲ محمدرسول اﷲ ‘‘ ہم اس میں مزید کسی دعوے دار نبی ورسول کے لئے راستہ بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ علی ولی اﷲ ووصی رسول اﷲ ‘‘
جناب چیئرمین: میں عرض کرتاہوں کہ باقی سائیکلو سٹائل کرا کے ہم تقسیم کرا دیں گے۔
سید عباس حسین گردیزی: میرے خیال میں جناب!مجھے پڑھنے دیں۔
جناب چیئرمین: ابھی ایک صفحہ پڑھا گیا ہے۔
سید عباس حسین گردیزی: تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ میں کتنا جلدی پڑھ رہا ہوں۔
جناب چیئرمین: ہمارا ایمان بہت مضبوط ہے۔ یہ کمزور ایمان والوں کے لئے ہے۔
سید عباس حسین گردیزی: آگے بڑی اہم چیزیں ہیں۔ مجھے پڑھنے دیں۔ میں نے بڑی محنت کی ہے اور دیکھئے اس نے ہمارے فرقے پر جتنے attack (حملے) کئے ہیں۔ ان کاجواب لازمی ہے۔
2767ہم رسول اورنبی کو معصوم مانتے اور عصمت کو شرط نبوت مانتے ہیں۔ ہمارے علماء نے بالتفصیل لکھا ہے کہ نبی ہو یا رسول وہ آغاز عمر سے آخر زندگانی تک کوئی گناہ صغیرہ یا کبیرہ نہیں کرتا۔ سہو و نسیان،بھول چوک، غفلت اور جھوٹ، بلکہ کوئی اخلاقی یا کردار کی گراوٹ بھی اس کی ذات اس کے عمل اس کی ضمیر اس کی نیت اور ارادے سے دور رہتی ہے۔(دیکھئے سید مرتضیٰ علم الھدیٰ کی کتاب تنزیہہ الانبیاء کا مقدمہ ص۱) وہ ہر اعتبار سے سچا وہ ہر پہلو سے صادق ہوتا ہے اور ہر قسم کے جھوٹے سے مباہلہ کے لئے یہ کہہ سکتا ہے کہ:’’فنجعل لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ یعنی دعوت و دین، عقیدہ و عمل جو بھی جھوٹا ہو اس پر ہم اﷲ کی لعنت سے دعا کریں۔
واقعہ مباہلہ سے ثابت ہے کہ رسول مقبول ﷺ ہر لحاظ سے طیب و طاہر،پاک و پاکیزہ اور معصوم تھے۔ اگر نبی معصوم نہ ہو، اگر وہ کفار کا حلیف ہو، اگر وہ دشمنان دین کا معاون ہو۔ اگر نبی و رسول اسلام کے مخالفوں سے مفاہمت کر لے، اگر اس کا کردار داغی ہو تو اس کی وحی پر بھروسہ اور اس کے قول پر اعتماد نہ رہے گا اور اس کا پیغام غلط و مشتبہ ہو جائے گا۔ تاریخی شواہد اور دوست دشمن اور معاصر گواہوں نے بلکہ مکے کے پورے معاشرے نے گواہی دی کہ محمد مصطفی ﷺ صادق و امین تھے۔ میں ان گواہیوں میں سے سب سے پہلے حضرت ابو طالب کا نام لیتا ہوں کہ وہ خاتم المرسلین ﷺ کے پہلے محافظ اور آنحضرت ﷺ کے مربی تھے۔ حضرت ابوطالب کا شعر ہے:
لقد علموا ان ابننا لا مکذب
لدیھم، ولا یعنی بقول الا باطل
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Dr.Mrs.Ashraf Khatoon Abassi.]
(اس مرحلہ پر جناب چیئرمین کی جگہ ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے اجلاس کی صدارت سنبھال لی)
2768سید عباس حسین گردیزی: ان سب لوگوں کو معلوم ہے کہ ہمارا فرزند (محمد ﷺ ) جھوٹا نہیں ہے، نہ غلط باتوں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ (دیوان شیخ الابطح ص۱۱)
او ر حضرت علیؓ نے فرمایا ہے: ’’اﷲ نے پیغمبروں کو بہترین سونپے جانے کی بہترین جگہوں میں رکھا او ر بہترین ٹھکانوں میں ٹھہرایا۔ وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے۔ جب ان میں سے کوئی گزرنے والا چلا گیا تو دین خدا کو دوسرا لے کر کھڑا ہو گیا۔ یہاں تک کہ یہ اﷲ کا اعزاز محمد ﷺ تک پہنچا جنہیں پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہترین معدن اور نشوونما کے لحاظ سے بہت باوقار اصولوں سے پیدا کیا ۔ اسی شجرہ سے جس سے سب نبی پیدا کئے اور انہی میں سے اپنے امین منتخب فرمائے۔ آپ ﷺ کی عترت سب سے بہتر عترت اور قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ، جو سرزمین حرم میں ابھرا۔ بزرگی کے سایے میں بڑھا، جس کی شاخیں لمبی اور پھل لوگوں کی دسترس سے باہر۔ آپ ﷺ متقی لوگوں کے امام اور ہدایت حاصل کرنے والے کے لئے بصیرت۔ وہ چراغ جس کی لوضوفشاں اور ایسا ستارہ جس کی روشنی چھائی ہوئی ہے۔ ایسی چقماق جس کا شعلہ لپکتا ہوا۔ آپ کا کردار معتدل، آپ کا راستہ ہدایت۔‘‘
(نہج البلاغہ خطبہ ۹۳ حاشیہ محمد عبدہ طبع مصر ص۲۰۱)
حضرت علی علیہ السلام نے رسول اﷲ ﷺ کی سیرت کے لئے اصل لفظیں یہ فرمائی تھیں’’سیرتہ القصد‘‘قصد کے معنی ہیں افراط تفریط سے بچا ہوا راستہ۔ اس سے مراد ’’عصمت‘‘ ہے کہ اس میں نہ گناہ اور نہ لغزش کی افراط ہے، نہ بے عملی او ر کاہلی کی تفریط۔ اسی اخلاق معتدل اور عصمت حقیقی کو قرآن مجید نے ’’خلق عظیم‘‘ سے یاد کیا ہے۔ ’’وانک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ اوربیشک آپ عظیم اخلاقی قدروں کے 2769مالک ہیں۔ آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے اسی عظمت کردار کو ’’عصمت‘‘ سے یاد کیا ہے اور علماء حدیث و عقائد نے نبی کے لئے عصمت کو شرط مانا ہے۔ مولانا دلدار علی لکھنوی کی ’’عماد الاسلام‘‘ جلد سوم میں اس مسئلے پر سب سے زیادہ تفصیل سے بحث ہے اور سید مرتضیٰ علم الہدیٰ نے ’’تنزیھہ الانبیائ‘‘ اسی مسئلہ پر لکھی ہے۔ علم کلام کی سینکڑوں کتابوں میں ہمارے علماء نے اس پربحث کی ہے اور انبیاء کی عصمت ثابت کر کے مضبوط عقیدے کی بنیاد استوار کی ہے۔ اس لئے ایک شخص کو نبی ماننا جو غلطی در غلطی کرتا ہو۔ اصول اسلام سے انحراف اور سنت اﷲ کی تردید ہے۔
ہمارے نبی کریم ﷺ پر نبوت و رسالت اس لئے ختم ہے کہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی کتاب ’’قرآن مجید‘‘ کی تعلیم میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہوسکا۔ آپ ﷺ کی شریعت سے زیادہ جامع شریعت پیش نہ ہو سکی۔ آپ کی تعلیم میں کسی بات کو دلیل سے باطل نہ کیاجاسکا۔ بلادلیل معقول اور نافہمی سے کسی بات کا انکار در اصل ضد اور ’’ما اتاکم الرسول فخذوہ‘‘کی مخالفت ہے اور اسی غلط مخالفت کا نام کفر ہے۔ مثلاً کوئی نماز کی فرضیت کا انکار کر دے ، کفر ہے۔ کوئی روزے کے وجود کو نہ مانے کفر ہے اور کوئی جہاد کو فرض و واجب ماننے سے سرتابی کرے ، کفر کا مرتکب ہوگا۔
قرآن مجید، رسول اﷲ ﷺ کا زندہ معجزہ اور آپ ﷺ کے خاتم النّبیین ﷺ ہونے کی دلیل محکم ہے۔ یہ مقدس کتاب وحی کا معیار معیّن کرتی ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت اس کا علمی مرتبہ، اس کی دعوت کا اسلوب لاجواب ہے اور اس کی وحی کے بعد وحی کا دعویٰ، قرآن مجید کا تمسخر ہے۔ لطف یہ ہے کہ قرآن مجید نے انبیاء کے لئے ایک اصول بتایا ہے۔ ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘ اور ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔
سورہ ابراہیم کی اس آیت میں ’’بلسان قومہ‘‘ کہہ کر ہمیں ایک ضابطہ دے دیا گیا ہے۔ اگر 2770اب سے تقریباً سو برس پہلے پنجاب میں مرزا غلام احمد نے جو وحی کا دعویٰ کیا اور بقول اس کے یکے بعد دیگرے کتابیں آئیں تو انہیں پنجابی میں آنا چاہئے تھا۔ یہ بات کیا ہے کہ وہ کتابیں اردو میں آتی ہیں۔ عربی و فارسی میں آتی ہیں اور کبھی انگریزی میں اﷲ سے ہمکلام ہوتا ہے اور ایک ہندو لڑکے سے سمجھنے کے لئے مدد لیتا ہے اور اگر اس کی قومی زبان اس وقت بھی اردو تھی تو پھر وحی کا معیار کم از کم میرا من کی ’’باغ و بہار‘‘ یا رجب علی بیگ کے ’’فسانہ عجائب‘‘ اور مرزا غالب کے خطوط کی زبان سے تو کمتر نہ ہوتا…
کتنی عجیب بات ہے کہ قوم کی زبان نبی کی زبان سے بہتر ہے اور نبی صاحب کی زبان کا کوئی معیار ہی نہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ اس مدعی نے اردو میں اپنے خیالات لکھ کر خود اپنے دعوے کا بھرم کھو دیا اور عقل مندوں کے لئے خدا کی حجت تمام ہو گئی کہ جو شخص بات کا سلیقہ اور ادب کا رشتہ نہ رکھتا ہو اس کی بات کا اعتبار کیا اور جس کی بات بے وقار ہو اس کا دعویٰ جھوٹ کے سوا کیا ہوگا اور جو اتنا بڑاجھوٹ بولے، جو اﷲ اور رسول ﷺ پر زندگی بھر افتراء کرتا رہے۔ جو اپنی گڑھنت کو خدا کی طرف منسوب کرے۔ اس کی سزا کم از کم یہ ہے کہ اﷲ کے ماننے والوں کے زمرے میں اس کا شمار جرم قرار دیا جائے۔
میں یہ عرض کررہا ہوں کہ نبوت ایک الٰہی منصب ہے۔ جسے خدا ہر ایک کے حوالے نہیں کرتا۔ قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے اور قیامت تک کے لئے اعلان فرما دیا ہے کہ:’’ لا ینال عھدی الظالمین ‘‘ میرا عہد ظالموں کے ہاتھ نہیں آسکتا اور ظالم کون ہے، قرآن مجید نے فرمایا ہے: ’’ ومن اظلم ممن افتریٰ علی اﷲ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شی ومن قال سانزل مثل ما انزل اﷲ، ولو تری اذاالظالمون فی غمرات الموت والملائکۃ باسطوا ایدیہم اخرجو انفسکم الیوم تجزون عذاب الھون بما کنتم تقولون علی اﷲ غیر الحق وکنتم عن ایاتہ تستکبرون (الانعام:۹۳)‘‘
2771’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا، جو خدا پر جھوٹ موٹ افتراء کرے یا کہے مجھ پر وحی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس پر وحی ذرا سی بھی نہ آئی ہو اور وہ جو کہے تجھ پر ویسی ہی کتاب نازل کئے دیتے ہوں جیسے اﷲ نازل کر چکا ہے۔ کاش تم دیکھتے یہ ظالم موت کی سختیوں میں پڑے ہیں اور فرشتے ان کی طرف جان نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور نکالو، اپنی جانیں، آج تم کوذلیل کن عذاب کا بدلہ دیا جائے گا جو کچھ تم کہتے تھے اﷲ پر خلاف حق اور تم اس کی آیتوں سے اکڑا کرتے تھے۔‘‘
غور کیجئے مرزا جی اپنے آپ کو کبھی مریم کہتا ہے۔ پھر وہی اپنے آپ کو ابن مریم کہتا ہے اور وہی’’ اسے شراب خور بتاتا ہے۔‘‘(کشتی نوح ص۶۶،خزائن ج۱۹ص۷۱حاشیہ) انصاف کیجئے کہ ایسے افتراء پرداز اور اﷲ جیسی عظیم و اکبر ذات پر اس قدر بہتان باندھنے والے کی سزا کتنی سخت ہونا چاہئے۔ شریعت کی اصطلاح میں اسی کو ارتداد کہتے ہیں اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے۔
جناب عالی! اسی ماہ شعبان یعنی اگست ۱۹۷۴ء کے ’’کویتی ماہ نامہ الداعی الاسلامی‘‘ میں ص۱۰۶ پر،وزارت اوقاف و شؤن اسلامیہ کویت کے ترجمان نے مرزا غلام احمد کے دعویٰ ’’مسیح منتظر‘‘…روح مسیح اس میں اتر آئی ہے۔‘‘…’’اس پر وحی ہوتی ہے۔‘‘ان جیسے چند نکتوں کو پیش نظر رکھ کر ’’نفی جہاد‘‘ اور ’’انگریزوں کی غیر مشروط حمایت‘‘ کے پس منظر میں اس شخص اور اس کی جماعت کو اسلام کے خلاف منظم سازش اور اسلام کی جگہ ایک دین جدید بتایا گیا ہے اور یقینا ہر صاحب عقل و ہوش اس سازش کا قلع قمع کرنا چاہتا ہے اور میں سمجھتاہوں کہ یہ ایوان، علماء اسلام کے اس متفق علیہ فیصلے کونافذ العمل قرار دے گا کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کے دونوں گروہ جو مرزا غلام احمد کو صاحب وحی مانتے ہیں، اپنے اس عقیدے میں باطل پر ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے اس عقیدے کو صحیح مانتے ہیں۔ تو بقول علماء یہ سب کافر ہیں اور ایک ایسے دین کے پرستار ہیں جن کا اسلام سے کوئی رشتہ نہیں… یہ ایک اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے اور اقلیتیں ہمارے ملک میں رہتی ہیں یہ بھی ایک اقلیت ہے اور ملک میں رہتی ہے۔
نبی اور رسول ہونے کا یہ دعویٰ دار اور اس کی جماعت واضح طور پر اپنے ملفوظات، اپنے عقائد، اپنے اعمال، اپنے خود ساختہ نظام میں خود ہی ہم سے الگ ہے اور ہمیں کافر سمجھتی ہے اور حقیقی مسلمان نہیں جانتی۔ یہ لوگ کبھی رسولوں کی توہین کرتے ہیں۔ کبھی بزرگان دین کو سبک کرتے ہیں۔ ان کی مسلسل یہی کوشش ہے کہ کسی طرح مسلمان ذلیل ہو جائیں۔ مسلمان مشتعل ہو کر یا ان سے دست و گریبان ہوں یا آپس میں کٹ مریں۔ شیعہ سنی اختلاف ہو، شیعہ ہوں یا دیوبندی اور بریلوی، اہل حدیث ہوں یا حنفی۔ ایک گھر کے افراد، ایک سماج کے رکن، ایک دین کے پرستار ہیں۔ یہ فرزندان اسلام ناموس توحید و رسالت پرجان نثار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ سب توحید و رسالت و قرآن پر یکساں عقیدہ رکھتے ہیں۔ انہو ں نے قرآن کے مقابلے میں کبھی کسی کتاب کو رکھنے کی جسارت نہیں کی۔ انہوں نے نبی کے برابر کسی کونہیں مانا۔ ان کا ملجا ؤ ماویٰ ایک، ان کا مرنا جینا ایک، ان کا دستور ایک، یہ دونوں اسلام کی قدیم ترین تشریحیں ہیں۔ یہ دونوں دین اسلام کے دفتر کے دو صفحے ہیں۔ ان دونوں نے ہمیشہ دین پر جان قربان کی ہے۔ یہ دونوں ایک ساتھ مرے ہیں۔ انہوں نے اپنی موت گوارہ کی ہے۔ مگر ایک دوسرے کو موت سے بچایا ہے۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام، رسول پاک ﷺ کے بھائی ہیں اور پروردئہ آغوش بھی، داماد بھی ہیں اورجاں نثار بھی۔ ان کے والد بزرگوار نے سب سے پہلے اﷲ کے آخری رسول ﷺ اور ان کے منصب کی حفاظت میں غیر معمولی جان فروشی اور بے مثال قربانی دے کر مسلمانوں کو سبق دیا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کی جان اور آبرو، پیغام اور حقانیت پر آنچ نہ آنے دینا۔ مکے میں 2773جب تک ابوطالب زندہ رہے، آنحضرت ﷺ پر آنچ نہ آنے پائی۔ جب دیکھا کہ قریش نہیں مانتے تو اﷲ کے آخری نبی ﷺ کواپنے قلعے میں لے کر چلے گئے اور ’’شعب‘‘ میں اتنی سختیاں اٹھائیں کہ جب محاصرہ ختم ہوا اور اس کے دروازے کھلے تو ابوطالب فاقوں کی زیادتی اور غموں کی فراوانی سے اتنے کمزور و ناتواں، ضعیف و نیم جاں ہو چکے تھے کہ زیادہ دن دنیا میں نہ رہ سکے اور چند دنوں میں سفر آخرت فرما گئے۔
علیؓ اس عظیم باپ کے فرزند تھے۔ آپ نے شب ہجرت سے لے کر احد و بدر وحنین، خیبر و خندق بلکہ مباہلے تک ہر معرکے میں حق خدمت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اسی بناء پر رسول اﷲ ﷺ نے دعوت ذوالعشیرہ سے حجتہ الوداع تک ہر موقع پراپنا بھائی اور امت کا مولا کہا۔ حد یہ ہے کہ خود سرور عالم خاتم النّبیین ﷺ نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی تشبیہہ حضرت ہارون نبی سے یوں دی ’’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘‘{تم مجھ سے وہی نسبت رشتہ اور وہی درجہ رکھتے ہو، تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون تھے۔} میں قربان ہوں حکمت و نگاہ نبوت پر۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جملہ اس پر تمام نہیں کیا بلکہ فرمایا:’’ الّا انہ لا نبی بعدی ‘‘{مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}اس لئے کہ کوئی علیؓ کو نبی نہ مان لے۔
رسول اﷲ ﷺ کے فرمان کے مطابق ہم مسلمان کسی ایسے شخص کو مسلمان نہیں مانتے جو علیؓ کو نعوذ باﷲ من ذالک، اﷲ یا اﷲ کے برابر مانتا ہو۔ یا جو شخص بھی حضرت علی علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کا حریف یا ہم منصب و ہم رتبہ سمجھتا ہو۔ وہ لوگ مشرک و کافر ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ سے مقابلہ، معاذ اﷲ!ہم تواتنا جانتے ہیں کہ اب تک نہج البلاغہ یعنی حضرت کے خطبوں کا مجموعہ بڑے بڑے عربوں کو حیران کئے ہوئے ہے اور صدیاں گزر گئی ہیں۔ مگر وہ خطبے ادب و فکر و فلسفہ اسلام میں اپنا جواب دیکھنے سے محروم ہیں۔ صدیوں سے پڑھنے والے پڑھتے اور شرحیں لکھتے چلے آئے ہیں۔ 2774مگر کسی نے کہیں نہ سنا نہ پڑھا کہ امیر المومنین یا ان کے ماننے والے اثنا عشری آپ کوصاحب وحی مانتے ہوں۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: گردیزی صاحب کتنے Pages (صفحات) اور ہیں؟
سید عباس حسن گردیزی: بس جناب تین Pages (صفحات) اور ہیں۔
محترمہ قائم مقام چیئرمین: تو پھر آپ نماز کے بعد پڑھنا۔ نماز کا ٹائم ہو رہا ہے۔
We break for Maghrib Prayers and then we will meet at 7:20 p.m. again.
(ہم نماز مغرب کے لئے وقفہ کرتے ہیں۔ سات بج کر بیس منٹ پر دوبارہ ملیں گے)
[The Special Committee adjourned for Maghrib prayers to meet at 7:20 p.m.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس نماز مغرب کے لئے سات بج کر بیس منٹ تک کے لئے ملتوی کر دیاگیا)
[The Special Committee re-assembled after Maghrib Prayers, Mr.Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس نماز مغرب کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ مسٹرچیئرمین صاحبزادہ فاروق علی صدارت کررہے ہیں)
جناب چیئرمین: کتنے صفحے باقی رہ گئے ہیں؟
سید عباس حسین گردیزی: جناب کوئی چارصفحے باقی ہیں۔
جناب چیئرمین: چار صفحے باقی ہیں، یعنی آدھا گھنٹہ لگے گا۔
Sayed Abbas Hussain Gardezi: It is a matter of little more than ten minutes.
(سید عباس حسین گردیزی: یہ دس منٹ سے کم کا مواد ہے)
Dr. Muhammad Shafi: We all agree that he should be given time.
(ڈاکٹر محمد شفیع: ہم سب متفق ہیں کہ انہیں وقت ملنا چاہئے)
Mr. Chairman: I will agree to what you agree.
(جناب چیئرمین: جس پر آ پ متفق ہیں۔ میں بھی اس سے اتفاق کروں گا) میں نے یہ پوچھا ہے کہ کتنے صفحے باقی رہ گئے ہیں۔
Dr. Muhammad Shafi: Thank you very much.
(ڈاکٹر محمد شفیع: بہت بہت شکریہ!)
2775مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: جناب والا! ہم سب لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ یہ باقاعدہ پورا پڑھیں۔
جناب چیئرمین: اچھا، آپ کو ایک موقع اور ملے گا۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: ضرور دیں۔
جناب چیئرمین: لازماً۔ آپ تو موجود نہیں تھے جب میری اور ان کی…
مولانا شاہ احمد نورانی: جناب والا! دیکھئے، بات یہ ہے کہ آپ ہمارے حقوق کے کسٹوڈین ہیں۔ ہمارے ساتھ اس ملک میں بڑی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ بخدا میں نماز پڑھ کر آ رہا ہوں اور صحیح عرض کرتا ہوں کہ ہم نے رات دو گھنٹے تک پی آئی اے آفس میں مسلسل کوشش کی کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے والی فلائٹ پر ہمیں سیٹ مل جائے۔
جناب چیئرمین: آپ نے مجھ سے کیوں نہیں بات کی۔ آپ ٹیلی فون کرتے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ ایسا ہوتا۔
مولانا شاہ احمد نورانی: مولانا ظفر احمد انصاری کو اور مجھ کو دونوں کو انہوں نے آج صبح کی سیٹ نہیں دی اور ہم نے کہا کہ صاحب ہمیں ایم این اے کے کوٹہ میں سے سیٹ دے دیں تو انہوںنے کوٹہ سے سیٹ نہ دی۔ بارہ بجے کی فلائٹ پر انہوں نے سیٹ دی۔ اگر سیشن جاری ہو تو تمام سیٹیں کینسل کر کے ایم این اے کو پہلے سیٹ دینی چاہئے۔ مولانا انصاری صاحب کو بھی سیٹ نہیں دی آٹھ بج کر بیس منٹ کے plane (جہاز) پر اور مجھ کو بھی نہیں دی اور سوا بارہ بجے سیٹ دی۔
جناب چیئرمین: میری بات سنیں کہ کوٹے کے علاوہ M.N.A.'s should be given preference.(ممبران قومی اسمبلی کو ترجیح دینی چاہئے)
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: صبح کی 8:20 کے Plane (طیارہ) کی سیٹیں خالی تھیں۔ لیکن ہمیں سیٹ نہیں دی گئی۔
2776جنا ب چیئرمین: آپ مجھے لکھ کر دیں۔ میں باقاعدہ شکایت کرتا ہوں۔ You should have contacted me.
دوسری بات یہ ہے کہ رول یہ ہے کہ M.N.A's should be given preference while going to attend the session. (دوران اجلاس ممبران قومی اسمبلی کو ترجیح دینی چاہئے)
Maulana Shah Ahmad Noorani Sdiddiqi: Yes, during the session.
(مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: ہاں، دوران اجلاس)
Mr. Chairman: That I will do.
(جناب چیئرمین: یہ میں کرو ں گا)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سید عباس حسین گردیزی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب) بقیہ
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: جناب والا!میں ابھی لکھ کر دیتاہوں۔ اس لئے تاخیر ہو گئی کہ…
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں۔ I am sorry (میں معذرت خواہ ہوں) مولانا سے میں نے یہی عرض کیا تھا۔ یہ تقریر کر رہے تھے تو میں نے کہا کہ آپ نے یہ سب کچھ لکھ کر دیا ہوا ہے۔ ۳۷کہیں اورجنہوں نے لکھ کر نہیں دیا ان کو زیادہ موقع ملنا چاہئے۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: دو چار باتیں جو اس نے بعد میں اٹھائیں… یہ ذرا پہلے تیار ہو گیا تھا…اس کی وضاحت علامہ صاحب فرمانا چاہتے تھے۔ ویسے یہ بیان متفقہ ہے۔
جناب چیئرمین: باقی میں نے کہا کہ کچھ فرمادیں۔
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی: دو تین وضاحتیں رہ گئی تھیں، جو مرزا ناصر احمد نے جرح میں کیں۔ وہ باتیں اس میں آ نہ سکیں۔ کیونکہ یہ ذرا پہلے تیار ہو گیاتھا۔
جناب چیئرمین: میں نے عرض کیاتھا کہ کچھ یہ بیان فرما دیں۔ باقی لال مسجد میں ہم سن لیں گے۔ یہی بات میں نے کی تھی۔ سید عباس حسین گردیزی!
سید عباس حسین گردیزی: جناب والا!مجھے ہدایت ہوئی ہے ممبر صاحبان کی طرف سے کہ میں ذرا آہستہ آہستہ پڑھوں۔
2777جناب چیئرمین: نہیں، نہیں۔ یہ ہدایت بالکل غلط ہے۔ آپ تیزی سے پڑھیں۔
سید عباس حسین گردیزی: اصول دین و عقائد امامیہ کا طویل و ضخیم دفتر اس عقیدے سے خالی اور تمام شیعہ اس عقیدے سے بری ہیں۔ دراصل یہ الزامی جواب اور ڈوبتے میں تنکے کا سہارا ان لوگوں کی طرف سے ہے۔ جن کے دینی رہنماء نے اپنی تالیف (آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴، خزائن ج۵ص۵۶۴) پرلکھا ہے: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں، میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۵۴، خزائن ج۲۲ص۱۵۸)پرلکھا ہے:’’ھل ینظرون الّا ان یایتھم اﷲ فی ظلل من الغمام‘‘ یعنی ’’اس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا۔‘‘ یعنی انسانی مظہر(مرزا) کے ذریعے اپنا جلال ظاہر کرے گا۔ اور (حقیقت الوحی ص۱۰۵،خزائن ج۲۲ص۱۰۸)کی یہ بات :’’انما امرک اذ اردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون‘‘یعنی’’ اے مرزا، تیری یہ شان ہے کہ تو جس چیز کو ’’کن‘‘ کہہ دے وہ فوراً ہو جاتی ہے۔‘‘
حضرت علی علیہ السلام کے خطبات کا مجموعہ ’’نہج البلاغۃ‘‘ امام زین العابدین کی دعاؤں کا مجموعہ’’ صحیفہ کاملہ‘‘ امام علی رضا علیہ السلام کی ’’فقہ الرضا‘‘ اور بعض آئمہ کی طرف سے منسوب کتابیں موجود ہیں۔ ان کے مطالعے سے اسلامی عقائد اور مسلمہ مسائل دین کے علاوہ، اﷲ کی عظمت، توحید کی جلالت اور حقیقت عبدیت و کمال بندگی کے سوا کوئی بات ثابت نہیں کی جا سکتی۔ یہ کتابیں تعلیمات رسول ﷺ کی ترجمان اور آنحضرت ﷺ کے دین حق کا اثبات ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت یہ ہے کہ خود رسول اﷲ ﷺ کی احادیث اور آپ کی ان قربانیوں پر قائم ہے جس پر طنز کرنے والا اسلام کا مذاق اڑاتا ہے۔
(ملفوظات احمدیہ ج۲ص۱۴۲ طبع ربوہ ۱۹۶۰ئ) کایہ جملہ کس قدر 2778مجرمانہ ہے:’’اب نئی خلافت لو، ایک زندہ علیؓ (مرزا) تم میں موجود ہے، اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی کی تلاش کرتے ہو۔‘‘ یہ دریدہ دہنی اس علی علیہ السلام کے بارے میں ہے جس کے لئے رسول ﷺ نے فرمایا’’من کنت مولاہ، فہذا علی مولاہ‘‘ جس کا مولا میں ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں۔
مرزاناصراحمد نے اپنے محضر نامے میں جن غیر مستند اور بعض غیر شیعہ اثناء عشریٰ کتابوں کے حوالے دے کر شیعہ سنی اختلاف کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ وہ دراصل اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے۔ ان کے حوالے ناقص و غلط ہیں۔ ’’تذکرۃ الائمہ‘‘ نامی بے شمار کتابیں ہیں۔ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے محضر نامے کے صفحہ ۱۸۳ پر حوالہ در حوالہ جن کتابوں کو استعمال کیا ہے۔ نہ ان کے مؤلف کا نام ہے۔ نہ کتابوں کے صحیح نام۔ نیز ان میں سے کوئی کتاب نہ وحی ہے، نہ الہام، نہ شیعوں پر ان کتابوں پر ایمان لانا واجب ہے، نہ ان کی مندرجات کو صحاح کا درجہ اور نعوذ باﷲ قرآن مجید کا مقابل تصور کیاگیا ہے۔ امام کی ذات و صفات کی شرطیں سخت اور بالکل واضح ہیں۔
علم و عصمت کی شرط پر نبوت کے دعوے یا اس کی مماثلت کا شبہ کرنا ہی بے معنی ہے۔ حسن مجتبیٰ جنہوں نے حکومت پر اس لئے ٹھوکر ماری کہ نانا کا دین ان کی جنگ و جہاد سے کمزور نہ ہو جائے۔ جن کا فیصلہ تھا کہ میں رہوں یا نہ رہوں، رسول ﷺ اﷲ کا نام تو رہ جائے۔ جانشینی رسول ﷺ کا تقاضا ہی یہ تھا کہ حضرت امام حسنؓ ذاتی مسئلہ کو نظر انداز کرکے اسلام اور رسول اسلام کے مفادات کو وسیع تر معیار سے دیکھتے۔ امام حسن علیہ السلام کے بعد امام حسین علیہ السلام امام ہوئے اور رسول اﷲ ﷺ کے جانشینی کا تاج امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک پر ضؤفگن ہوا۔

2779آں امام عاشقاں پور بتول سرد آزادے زبستان رسول
اﷲ اﷲ بائے بسم اﷲ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری ست
بہر حق در خاک و خون غلطیدہ ست پس بنائے لا الہ گردیدہ است
خون او تفسیر ایں اسرار کرد ملت خوابیدہ را بیدار کرد
تیغ لاچوں از میاں بیرون کشید از رگ ارباب باطل خوں چکید
نقش الا اﷲ برصحرا نوشت سطر عنوان نجات ما نوشت
رمز قرآن از حسین آموختیم زاتش او شعلہ ھا اندوختیم
تارما زخمہ از اش لرزاں ھنوز تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز

سید سرداران جنت، سید الشہداء علیہ السلام جن کے احسان سے مسلمانوں کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ کہہ رہے ہیں:

شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین

اس عظیم امام کے لئے یہ مصرع کس قدر توہین خیز ہے کہ:

کربلا ئیست سیرہر آنم
صد حسین است در گریبانم

(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ص۴۷۷)
رسول آخر الزمان ﷺ تو فرمائیں ’’حسین منی وانا من الحسین‘‘{حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔}
’’احب اﷲ من احب حسینا وابغض اﷲ من ابغض حسینا‘‘{اﷲ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے جو حسین سے بغض رکھے۔}
اس کے بعدمرزا غلام احمد کی جسارت دیکھئے۔ دراصل ان کو اپنا منہ دیکھنے کے لئے گریبان کا رخ کرنا چاہئے۔
2780بات پنجتن تک آ پہنچی ہے تومرزا غلام احمد نے گل سرسبد، چمن رسالت، نور چشم ختمی مرتبت حضرت سیدہ کبریٰ فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا کے بارے میں جو ہرزہ سرائی کی ہے۔ وہ ہر مسلمان کے لئے دل آزار ہے اور اسی گستاخی کی وجہ سے خدا نے مرزا جی کو بدترین موت دی۔ محترم حضرات! قادیانی اور لاہوری حضرات نے اپنے بیانات میں اقرار کیا ہے۔ دونوں کا اظہار ہے کہ غلام احمد پر وحی ہوتی تھی۔ ان کی بہت سی کتابیں آسمانی مانی جاتی ہیں۔ اس سے صاف صاف عیاں ہے کہ قادیانی اور لاہوری صاحبان براہ راست ایک ایسے شخص کی امت میں ہیں جو صاحب وحی ہے اور صاحب رسالت کبریٰ۔ حضرت محمدمصطفی ﷺ کو مجبوری کے طور پر یا ضمنی حیثیت سے جو بھی مانتے ہیں، وہ مانتے ہیں۔ ورنہ مرزا صاحب تو بقول خود نعوذ باﷲ مسیح زماں، کلیم خدا اور نقل کفر کفر نباشد۔ محمد و احمد تک بن بیٹھے ہیں۔ شاید موصوف کو ہندوؤں کا فلسفہ تناسخ یا آواگون کا یقین ہو گیا تھا۔ جبھی تو کہا ہے:

منم مسیح زمان ومنم کلیم خدا
منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد

(تریاق القلوب ص۳، خزائن ج۱۵ص۱۳۴)
اور تو اور مرزا غلام احمد تو اپنے جھوٹ پر یہاں تک دلیری کر چکا ہے کہ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ص۲۳۱) میں کہہ دیا ہے: ’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
شاید ایسے ہی موقع کے لئے یہ محاورہ ہے’’ایاز قدر خود بشناس‘‘ میں اب زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا۔ صرف دو باتوں کی طرف ایوان کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
۱… 2781قرآن مجید کا حکم ہے :’’ واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘{اﷲ کی رسی سے وابستہ ہو جائیے اور انتشار سے بچئے}دشمنان اسلام مسلمانوں کو خانہ جنگی، اندرونی اختلاف اور فکری پریشانیوں میں الجھا کر ہم سے ایمان کی دولت چھیننا چاہتے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ سے ہمارا رشتہ توڑنے کی فکرمیں ہیں۔ ہماری قوت کا سرچشمہ توحید و نبوت ہے۔ ہمار امرکز اتحاد قرآن ہے۔ ہمارا معاشرہ اسلام پرمبنی ہے۔ ہم نے ان مرزائیوں کی ریشہ دوانیاں بچشم خود دیکھ لی ہیں۔ جو قادیان سے کشمیر اور انڈونیشیا سے افریقہ تک اپنا نظام فکر و عمل پھیلا چکے ہیں۔ جو ہندوستان اور فلسطین میں منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ ہم ان سے محتاط رہیں اوراسلام کے قلعے میں کوئی رخنہ واقع نہ ہونے دیں۔ کافر کو کافر کہتے نہ ڈریں اور برطانوی استعمار کے سیاسی ہتھکنڈوں سے اپنا پیچھا چھڑائیں۔ آپس کی لڑائیوں کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ ’’دشمن رانتواں حقیر و بے چار شمرد۔‘‘
شیعہ سنی اپنے گھر میں لڑے، باہر والوں نے دونوں کی باتوں کو ریکارڈ کر کے ہماری تاریخ، ہمارے روابط، ہمارے معاملات سمجھے بغیر ہم دونوں کو غیر مسلم کہہ کر اسلام کے نام پر دعویٰ کر دیا۔ اگر اس دعوے کے فیصلے میں ذرا بھی غلطی ہوئی۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش سے کام نہ لیا۔ اگر خدانخواستہ پیر لڑکھڑاگئے تو کل تاریخ کہے گی:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
آپ کے لئے مسئلہ صاف ہے۔ آپ نے دودھ میں پانی کی آمیزش دیکھ لی۔ آپ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ’’برعکس نہنند نام زنگی کافور۔‘‘
آپ نے تمام دنیا کے بڑے بڑے علماء کے فتوے پڑھ لئے۔ تمام مسلمانوں کے عقائد سمجھ لئے۔ آپ نے مرزا غلام احمد اور اب مرزا ناصر احمد اور ان کے ساتھیوں کے دعوے اور دلیل کا وزن پرکھ لیا۔ آپ نے ملک کے عوام کا مطالبہ سن لیا۔ اب دیر نہ کیجئے۔ مسلمانوں کو ان کے عقیدے اور ان کے دین سے محروم کرنے یا اس میں دخل دینے کے 2782بجائے، قادیانی یا بقول غلام احمد’احمدی‘‘ جماعت یا جماعتوں کو خارج از اسلام ماننے کا اعلان کر دیں۔
۲… عالم اسلام اور مسلمان مملکتوں سے اتحاد، مسلمان عوام سے برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا ہماری خارجہ سیاست کی اساس ہے۔ ہماری حکومت کسی پاکستانی شہری کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کرتی۔ نہ ہمارے عوام کسی پاکستانی شہری کو دکھ پہنچانے یا پریشان کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان حالات میں اگر قادیانی جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے تو آئین پاکستان اور نظریہ پاکستان کے عین مطابق ہو گا اور ہمارا ایوان اپنے ایک فرض کو پورا کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔ اس سلسلے میں شیعہ علماء وفقہاء کے فتوے حاضر ہیں:
 
Top