محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{ 91} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھہر کر پھر واپس دہلی گئی توان ایام میں حضرت مسیح موعود ؑ نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ مجھے دو یادتھے مگر حضرت صاحب فرماتے تھے کہ نہیں میں نے تین دیکھے تھے اور تین ہی لکھے تھے ۔
{ 92} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی کیسا اخفا ہوتا ہے ۔پسر موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا مگر ہمارے موجودہ سارے لڑکے ہی کسی نہ کسی طرح تین کو چار کرنے والے ہیں ۔چنانچہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ میاں (حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ) کو تو حضرت صاحب نے اس طرح تین کو چار کرنے والا قراد دیا کہ مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کو بھی شمار کر لیا ۔اور بشیر اوّل متوفّی کو بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں (یعنی خاکسار راقم الحروف کو ) اس طرح پر کہ صرف زندہ لڑکے شمار کر لئے اور بشیر اوّل متوفی کوچھوڑ دیا ۔شریف احمد کواس طرح پر قرار دیا کہ اپنی پہلی بیوی کے لڑکے مرزا سلطان احمداور فضل احمد چھوڑدیئے اور میرے سارے لڑکے زندہ متوفّی شمار کر لئے اور مبارک کوا س طرح پر کہ میرے صرف زندہ لڑکے شمار کرلئے اور بشیر اوّل متوفّی کو چھوڑ دیا ۔
{ 93} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے قریب بڑی کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات اور خوابیں شروع ہوگئی تھیں ۔جب آپ لاہور تشریف لے گئے تو وہاں زیادہ کثرت سے ایسے الہام ہونے شروع ہوئے ۔اس وجہ سے اور کچھ ویسے بھی ۔ میں نے گھبرا کر ایک دن حضرت صاحب سے کہا کہ چلو اب قادیان واپس چلیں ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو جب ہمیں خدا لے جائے گا تب ہی جائیں گے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی حضرت صاحب کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کو اس کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات ہو تے تھے اور وفات کے قریب تو کثرت کا یہ حال تھا کہ گویا موت بالکل سر پر کھڑی ہے آپ اپنے کام میں اسی تندہی سے لگے رہے بلکہ زیادہ ذوق شوق او ر محنت سے کا م شروع کر دیا ۔چنانچہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی ان دنوںمیں بھی آپ رسالہ پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے اور تقاریر کا سلسلہ بھی برابر جاری تھا کوئی اور ہوتا تو قرب موت کی خبر سے اس کے ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ جاتے اور کوئی مفتری ہوتا تو یہ وقت اس کے راز کے طشت ازبام ہونے کا وقت تھا ۔
{ 94} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کو عصر کی نماز کے بعد یعنی اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پیشتر حضور نے لاہور میں خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان پر جہاں نماز ہو ا کرتی تھی ایک بڑی پر جوش تقریر فرمائی جس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی کی طرف سے ایک شخص مباحثہ کا چیلنج لے کر آپ کے پاس آیا تھا۔آ پ نے مباحثہ کی شرائط کے لئے مولوی محمد احسن صاحب کو مقرر فرمایا اور پھراس شخص کی موجودگی میں ایک نہایت زبردست تقریر فرمائی اور جس طرح جوش کے وقت آپ کا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھا اسی طرح اس وقت بھی یہی حال تھا ۔اس تقریر کے بعض فقرے اب تک میرے کانوں میںگونجتے ہیں ۔ فرمایا تم عیسٰی کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے نیز فرمایا اب ہم تو اپنا کا م ختم کر چکے ہیں ۔
{ 95} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے حاجی عبدالمجید صاحب لدھیانوی نے کہ ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے ۔میرے مکان میں ایک نیم کا درخت تھا چونکہ برسات کا موسم تھا اسکے پتے بڑے خوشنما طور پر سبز تھے ۔ حضور نے مجھے فرمایا حاجی صاحب اس درخت کے پتوں کی طرف دیکھئے کیسے خوشنما ہیں۔حاجی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوئوںسے بھری ہوئی تھیں۔
{ 96} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا ہم سے حاجی عبدالمجید صاحب نے کہ ایک دفعہ جب ازالہ اوہام شائع ہوئی ہے حضرت صاحب لدھیانہ میں باہر چہل قدمی کے لئے تشریف لے گئے۔ میں اور حافظ حامدعلی ساتھ تھے ۔ راستہ میں حافظ حامد علی نے مجھ سے کہا کہ آج رات یا شاید کہا ان دنوں میں حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ ’’ سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعد ازاںایام ضعف و اختلال ‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مجلس میں جس میں حاجی عبدالمجید صاحب نے یہ روایت بیان کی میاںعبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ میرے خیال میں یہ الہام اس زمانہ سے بھی پرانا ہے ۔حضرت صاحب نے خود مجھے اور حافظ حامد علی کو یہ الہام سنایا تھا اور مجھے الہام اس طرح پر یاد ہے ۔’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال ۔ بعد ازاں باشد خلاف و اختلا ل ‘‘۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرا مصرع تو مجھے پتھر کی لکیر کی طرح یاد ہے کہ یہی تھا ۔ اور ہفت کا لفظ بھی یاد ہے ۔جب یہ الہام ہمیں حضرت صاحب نے سنایا تواس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی مخالف نہیںتھا ۔شیخ حامد علی نے اسے بھی جا سنایا ۔پھر جب وہ مخالف ہوا تو اس نے حضرت صاحب کے خلاف گورنمنٹ کو بدظن کر نے کے لئے اپنے رسالہ میں شائع کیا کہ مرزا صاحب نے یہ الہام شائع کیا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب اور حاجی عبدالمجید صاحب کی روایت میں جو اختلاف ہے وہ اگر کسی صاحب کے ضعفِ حافظہ پر مبنی نہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الہام حضور کو دو وقتوں میں دو مختلف قرا ء توں پر ہوا ہو ۔ واللہ اعلم ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام کے مختلف معنی کئے گئے ہیں ۔ بعضوں نے تاریخ الہام سے میعاد شمار کی ہے ۔بعضوں نے کہا ہے کہ ملکہ وکٹوریا کی وفات کے بعد سے اس کی میعاد شما ر ہوتی ہے ۔کیونکہ ملکہ کے لئے حضور نے بہت دعائیں کی تھیں ۔بعض اور معنے کرتے ہیں۔میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ میرے نزدیک آغاز صدی بیسویں سے اس کی میعاد شروع ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ کہتے تھے کہ واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں او ر واقعات کے ظہور کے بعد ہی میں نے اس کے یہ معنی سمجھے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے نزدیک یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حضرت صاحب کی وفات سے اس کی میعاد شمار کی جاوے کیونکہ حضرت صاحب نے اپنی ذات کو گورنمنٹ برطانیہ کے لئے بطور حرز کے بیان کیا ہے پس حرز کی موجودگی میں میعاد کا شمار کرنا میرے خیال میں درست نہیں ۔ اس طرح جنگ عظیم کی ابتدا اور ہفت یاہشت سالہ میعاد کا اختتام آپس میں مل جاتے ہیں ۔واللہ اعلم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہم لوگوں پر بڑے احسانات ہیں ہمیں دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ (نیز اس روایت کی مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم۔ روایت نمبر ۳۱۴)
{ 97} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت کا اعلان کیا تو بیعت لینے سے پہلے آپ شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کے بلانے پرا س کے لڑکے کی شادی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے ۔میں اورمیر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے۔راستہ میں یکہ پر حضور نے ہم کو اپنے اس چلّہ کا حال سنایا جس میں آپ نے برابر چھ ماہ تک روزے رکھے تھے ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ایک چھینکا رکھا ہوا تھا اسے میں اپنے چوبارے سے نیچے لٹکا دیتا تھا تو اس میں میری روٹی رکھدی جاتی تھی پھر اسے میں اوپر کھینچ لیتا تھا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ شیخ مہر علی نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤسا کے لئے الگ کمرہ تھا اور ان کے ساتھیوں اور خدام کے واسطے الگ تھا مگر حضرت صاحب کا یہ قاعدہ تھاکہ اپنے ساتھ والوںکو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھایا کرتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر بھی آپ ہم تینوں کو اپنے داخل ہونے سے پہلے کمرہ میں داخل کرتے تھے اور پھر خود داخل ہوتے تھے اور اپنے دائیںبائیں ہم کو بٹھاتے تھے۔انہی دنوںمیں ہوشیار پور میں مولوی محمود شاہ چھچھ ہزاروی کا وعظ تھا جو نہایت مشہور اور نامور اور مقبول واعظ تھا ۔ حضرت صاحب نے میرے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی مناسب موقع پر میرا یہ اشتہار بیعت پڑھ کر سنا دیں اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آئوں گا ۔اس نے وعدہ کر لیا ۔چنانچہ حضرت صاحب اس کے وعظ میں تشریف لے گئے لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اور حضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہو نے لگے اس وقت سنایا مگر اکثر لوگ منتشر ہوگئے تھے ۔حضرت صاحب کو اس پر بہت رنج ہوا فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہوگی ورنہ ہمیں کیاضرورت تھی ۔اس نے وعدہ خلافی کی ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ پھر تھوڑے عرصہ کے اندر ہی وہ مولوی چوری کے الزام کے نیچے آکر سخت ذلیل ہوا ۔
{ 98} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت صاحب نے پہلے دن لدھیانہ میں بیعت لی تو اس وقت آپ ایک کمرہ میں بیٹھ گئے تھے اور دروازہ پر شیخ حامدعلی کو مقرر کر دیا تھا ۔اور شیخ حامد علی کو کہہ دیا تھا کہ جسے میں کہتا جائوں اسے کمرہ کے اندر بلاتے جائو چنانچہ آپ نے پہلے حضرت خلیفہ اوّل کو بلوایا ان کے بعد میر عباس علی کو پھر میاں محمد حسین مراد آبادی خوش نویس ۱ ؎ کو اور چوتھے نمبر پر مجھ کو اور پھر ایک یادو اور لوگوں کو نام لے کر اند ربلایا پھر اس کے بعد شیخ حامد علی کو کہہ دیا کہ خود ایک ایک آدمی کو اند ر داخل کرتے جائو۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں حضور ایک ایک کی الگ الگ بیعت لیتے تھے لیکن پھربعد میں اکٹھی لینے لگ گئے ۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ پہلے دن جب آپ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰؍رجب۱۳۰۶ ء ھجری مطابق ۲۳مارچ ۱۸۸۹ء تھی ۲ ؎ اور اس وقت بیعت کے الفاظ یہ تھے ۔’’آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں مَیں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت او ر سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کی لذات پر مقدم رکھونگا اور ۱۲؍جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کا ر بند رہوں گا اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں ۔’’ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ ـ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ ـ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ ۔اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ ـ‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مصافحہ کے طریق پر بیعت کنندگان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلیتے تھے لیکن بعض لوگوں سے آپ نے پنجہ کے اوپر کلائی پر سے بھی ہاتھ پکڑ کر بیعت لی ہے ۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میری بیعت آپ نے اسی طرح لی تھی ۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ بیعت اولیٰ کے دن مولوی عبدالکریم صاحب بھی وہیں موجود تھے مگر انہوں نے بیعت نہیں کی ۔ (مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم۔ روایت نمبر ۳۰۹، ۳۱۵)
{99} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ لدھیانہ میں پہلی دفعہ بیعت لے کر یعنی ابتدائ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ میںاور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے ۔حضرت صاحب سیدتفضل حسین صاحب تحصیل دارکے مکان پر ٹھہرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپر نٹنڈنٹ تھے۔ وہاں ایک تحصیل دار نے جو سید صاحب کا واقف تھا حضرت صاحب کی دعوت کی اور شہر کے دوسرے معز زین کو بھی مدعو کیا ۔حضورتشریف لے گئے اور ہم تینوںکو حسب عادت اپنے دائیںبائیںبٹھایا۔ تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیا اور لوگ ان کے گرد بیٹھ گئے ۔چوکیوں پر کنچ کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے ۔جب کھانا شروع ہو ا تومیر عباس علی نے کھانا کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے۔حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا میر صاحب آپ کیوںنہیں کھاتے؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوںکے طریق کا کھانا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا نہیں اس میںکوئی حرج نہیں یہ خلاف شرع نہیںہے۔میر صاحب نے کہا میرا تو دل نہیں چاہتا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب !ہم جو کھاتے ہیں۔میر صاحب نے کہا حضرت آپ کھائیں میں تو نہیںکھاتا۔غرض میر عباس علی نے کھانا نہیں کھایا ۔ میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب عباس علی مرتد ہوا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ وہ تو دراصل اسی وقت سے کٹ چکا تھا ۔نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ علی گڑھ میں لوگوں نے حضرت صاحب سے عرض کر کے حضور کے ایک لیکچر کا انتظام کیا تھا اور حضور نے منظور کر لیا تھا۔جب اشتہار ہوگیا اور سب تیاری ہوگئی اور لیکچر کا وقت قریب آیاتو حضرت صاحب نے سّید تفضل حسین صاحب سے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو ا ہے کہ میں لیکچر نہ دوںاس لئے میں اب لیکچر نہیں دوں گا ۔ انہوں نے کہا حضور اب توسب کچھ ہوچکا ہے لوگوں میں بڑی ہتک ہوگی ۔حضرت صاحب نے فرمایا خواہ کچھ ہو ہم خدا کے حکم کے مطابق کریں گے ۔ پھر اور لوگوں نے بھی حضرت صاحب سے بڑے اصرار سے عرض کیا مگر حضرت صاحب نے نہ مانا اور فرمایا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں خدا کے حکم کو چھوڑ دوںاس کے حکم کے مقابل میں مَیں کسی ذلت کی پروا نہیں کرتا ۔غرض حضرت صاحب نے لیکچر نہیں دیا اور قریباً سات دن وہاں ٹھہر کر واپس لدھیانہ تشریف لے آئے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے جب پہلے پہل یہ روایت بیان کی تو یہ بیان کیا کہ یہ سفر حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں کیا تھا۔خاکسار نے والدہ صا حبہ سے عرض کیا تو انہوںنے اس کی تردیدکی اور کہا کہ یہ سفر میاں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ) کی پیدائش بلکہ ابتدائی بیعت کے بعد ہوا تھا ۔ جب میں نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت میاں عبداللہ صاحب کے پاس بیان کی توانہوں نے پہلے تو اپنے خیال کی صحت پر اصرارکیا لیکن آخر ان کو یاد آگیا کہ یہی درست ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ علی گڑھ کے سفر سے حضرت صاحب کا وہ ارادہ پورا ہوا جو حضور نے سفر ہندوستان کے متعلق کیا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی سفر میں مولوی محمد اسماعیل علی گڑھی نے حضور کی مخالفت کی اور آخر آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی مگر جلد ہی اس جہاں سے گذر گیا ۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف فتح اسلام کے حاشیہ میں اس سفر کا مکمل ذکر کیا ہے)
{ 100} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ غالباً یہ ۱۸۸۴ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ ماہ جیٹھ یعنی مئی جون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز فجر پڑ ھ کر اس کے ساتھ والے غسل خانہ میں جو تا زہ پلستر ہونے کی وجہ سے ٹھنڈاتھا ایک چارپائی پر جو وہاں بچھی رہتی تھی جالیٹے ۔چارپائی پر بستر اور تکیہ وغیرہ کو ئی نہ تھا ۔حضرت کا سر قبلہ کی طرف اور منہ شمال کی طرف تھا ۔ایک کہنی آپ نے سر کے نیچے بطور تکیہ کے رکھ لی اور دوسری اسی صورت میں سر کے اوپر ڈھانک لی ۔میں پائوں دبانے بیٹھ گیا ۔وہ رمضان کا مہینہ تھا اور ستائیس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا اس لئے میں دل میں بہت مسرور تھا کہ میرے لئے ایسے مبارک موقعے جمع ہیں ۔یعنی حضرت صاحب جیسے مبارک انسان کی خدمت کر رہاہوں وقت فجر کا ہے جو مبارک وقت ہے مہینہ رمضان کا ہے جو مبارک مہینہ ہے ۔تاریخ ستائیس اور جمعہ کا دن ہے اور گزشتہ شب شَب قدر تھی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ مل جاویں تو وہ رات یقینا شب قدر ہوتی ہے ۔میں انہی باتوں کا خیال کر کے دل میں مسرور ہو رہا تھا کہ حضرت صاحب کا بدن یکلخت کانپا اور اس کے بعد حضور نے آہستہ سے اپنے اوپر کی کہنی ذرا ہٹاکر میری طرف دیکھا اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میںآنسو بھرے ہوئے تھے ۱ ؎ اس کے بعد آپ نے پھر اسی طرح اپنی کہنی رکھ لی۔ میں دباتے دباتے حضرت صاحب کی پنڈلی پر آیا تو میں نے دیکھا کہ حضور کے پائوں پر ٹخنے کے نیچے ایک اٹن یعنی سخت سی جگہ تھی اس پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا تھا جو ابھی تازہ گرے ہونے کی وجہ سے بستہ تھا ۔میں نے اسے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی لگا کر دیکھا کہ کیا ہے ۔اس پر وہ قطرہ ٹخنے پر بھی پھیل گیا اور میری انگلی پر بھی لگ گیا ،پھر میں نے اسے سونگھا کہ شاید اس میں کچھ خوشبو ہو مگر خوشبو نہیں تھی ۔میں نے اسے اس لئے سونگھا تھا کہ اسی وقت میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ یہ کوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بات ہے اس لئے اس میں کوئی خوشبو ہوگی ۔پھر میں دباتا دباتا پسلیوں کے پاس پہنچا وہاں میںنے اسی سرخی کا ایک اور بڑا قطرہ کرتہ پر دیکھا ۔اس کو بھی میں نے ٹٹولا تو وہ بھی گیلا تھا ۔ ۲ ؎ اس وقت پھر مجھے حیرانی سی ہوئی کہ یہ سرخی کہاں سے آگئی ہے ۔پھر میں چارپائی سے آہستہ سے اُٹھا کہ حضرت صاحب جاگ نہ اُٹھیں اور پھر اس کا نشان تلاش کرنا چاہا کہ یہ سرخی کہاں سے گری ہے ۔ بہت چھوٹا سا حجرہ تھا ۔چھت میں اردگرد میں نے اس کی خوب تلاش کی مگر خارج میں مجھے اس کا کہیں پتہ نہیں چلاکہ کہاںسے گِری ہے ۔مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیںچھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹی ہو تو اس کا خون گرا ہواس لئے میں نے غور کے ساتھ چھت پر نظر ڈالی مگر اس کا کوئی نشان نہیں پایا ۔پھر آخرمیں تھک کر بیٹھ گیا اور بدستور دبانے لگ گیا ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر حجرہ میں سے نکل کر مسجد میںجاکر بیٹھ گئے ۔میں وہاں پیچھے بیٹھ کر آپ کے مونڈھے دبانے لگ گیا۔اس وقت میں نے عرض کیا کہ حضوریہ آپ پر سرخی کہاںسے گری ہے ۔حضور نے بہت بے توجہی سے فرمایا کہ آموںکا رس ہوگا اور مجھے ٹال دیا ۔ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور یہ آموںکا رس نہیں یہ تو سرخی ہے ۔اس پر آپ نے سر مبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمایا ’’ کتھّے ہے ‘‘؟ یعنی کہاں ہے ؟ میں نے کر تہ پر و ہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے اس پر حضور نے کُرتے کو سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنے سر کو ادھر پھیر کراس قطرہ کو دیکھا ۔پھر اس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا بلکہ رؤیت باری اور امور کشوف کے خارج میںوجود پانے کے متعلق پہلے بزرگوںکے دو ایک واقعات مجھے سنائے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے اس کو یہ آنکھیں دنیامیں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کی بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہو کر بزرگوںکو دکھائی دے جاتے ہیں ۔ شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیںکہ مجھے کئی دفعہ خدا تعالیٰ کی زیارت اپنے والد کی شکل میںہوئی ہے نیز شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے ایک ہلدی کی گٹھی دی کہ یہ میری معرفت ہے اسے سنبھال کر رکھنا جب وہ بیدار ہوئے تو ہلدی کی گٹھی ان کی مٹھی میںموجود تھی ۔ اور ایک بزرگ جن کا حضور نے نام نہیں بتایا تہجد کے وقت اپنے حجرہ کے اند ر بیٹھے مصلّٰی پرکچھ پڑ ھ رہے تھے کہ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی شخص باہر سے آیا ہے اور ان کے نیچے کا مصلّٰی نکال کر لے گیا ہے ۔ جب وہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ فی الواقع مصلّٰی ان کے نیچے نہیںتھا ۔ جب دن نکلنے پر حجرہ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مصلّٰی صحن میںپڑا ہے ۔یہ واقعات سنا کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ کشف کی باتیں تھیں مگر خداتعالیٰ نے ان بزرگوں کی کرامت ظاہر کر نے کیلئے خارج میںبھی ان کاوجود ظاہر کر دیا ۔اب ہمارا قصہ سنو ۔جس وقت تم حجرہ میں ہمارے پائوں دبا رہے تھے میں کیا دیکھتا ہوںکہ ایک نہایت وسیع اور مصفّٰی مکان ہے اس میں ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک شخص حاکم کی صورت میںبیٹھاہے ۔میرے دل میںڈالا گیاکہ یہ احکم الحاکمین یعنی رب العالمین ہیں اورمیں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے حاکم کا کوئی سر رشتہ دار ہوتا ہے۔میں نے کچھ احکام قضا و قدر کے متعلق لکھے ہیں اور ان پر دستخط کر انے کی غرض سے ان کے پاس لے چلا ہوں ۔جب میں پاس گیا تو انہوں نے مجھے نہایت شفقت سے اپنے پاس پلنگ پر بٹھا لیا۔اس وقت میری ایسی حالت ہوگئی کہ جیسے ایک بیٹا اپنے باپ سے بچھڑا ہو ا سالہاسال کے بعد ملتا ہے اور قدرتًا اس کا دل بھر آتا ہے یا شاید فرمایا اس کو رقت آجاتی ہے اور میرے دل میں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ احکم الحاکمین یا فرمایا رب العالمین ہیں اور کس محبت اور شفقت سے انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا ہے ۔ اس کے بعد میں نے وہ احکام جو لکھے تھے دستخط کرانے کی غرض سے پیش کئے ۔ انہوں نے قلم سرخی کی دوات میں جو پاس پڑی تھی ڈبویا اور میری طرف جھاڑ کردستخط کر دیئے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے قلم کے جھاڑ نے اور دستخط کرنے کی حرکتوں کو خود اپنے ہاتھ کی حرکت سے بتایا تھاکہ یوں کیا تھا ۔ پھر حضرت صاحب نے فرمایایہ وہ سرخی ہے جو اس قلم سے نکلی ہے ۔پھر فرما یا دیکھو کو ئی قطرہ تمہارے اوپربھی گرا۔میں نے اپنے کُرتے کو ادھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے پر تو کوئی نہیں گرا۔فرمایا کہ تم اپنی ٹوپی پر دیکھو ۔ان دنوں میں ململ کی سفید ٹوپی میرے سر پر ہوتی تھی میں نے وہ ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا ۔مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے عرض کیا حضور میری ٹوپی پر بھی ایک قطرہ ہے ۔پھر میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ یہ کُرتہ بڑا مبارک ہے اس کو تبرکاً لے لینا چاہئیے ۔ پہلے میں نے اس خیال سے کہ کہیں حضور جلدی انکار نہ کر دیں حضور سے مسئلہ پوچھا کہ حضور کسی بزرگ کا کوئی تبرک کپڑے وغیرہ کالے کر رکھنا جائز ہے ؟ فرمایا ہاں جائز ہے ۔رسول اللہ ﷺ کے تبرکا ت صحابہ نے رکھے تھے ۔پھر میں نے عرض کیا کہ حضور خدا کے واسطے میرا ا یک سوال ہے ۔فرمایا کہو کیا ہے ؟ عرض کیا کہ حضور یہ کُرتہ تبرکاً مجھے دے دیں ۔فرمایا نہیں یہ تو ہم نہیں دیتے ۔میں نے عرض کیا حضور نے ابھی تو فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات صحابہ نے رکھے ۔اس پر فرمایا کہ یہ کُرتہ میں اس واسطے نہیں دیتا کہ میرے اور تیرے مرنے کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اس کی لوگ پوجا کر یں گے۔اس کو لوگ زیارت بنالیں گے ۔میں نے عرض کیا کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے تبرکات سے شرک نہ پھیلا ۔فرمایا میاں عبداللہ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ جو تبرک جن صحابہ کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔میں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کر جائو ں گا کہ یہ کُرتہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جاوے۔فرمایا ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو ۔چونکہ وہ جمعہ کا دن تھا تھوڑی دیر کے بعد حضورنے غسل کر کے کپڑے بدلے اور میں نے یہ کُرتہ سنبھال لیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابھی آپ نے یہ کُرتہ پہنا ہی ہوا تھا کہ دو تین مہمان جو اردگرد سے آئے ہوئے تھے ان سے میں نے اس نشان کا ذکر کیا۔وہ پھر حضرت صاحب کے پاس آئے او ر عرض کیا کہ میاں عبداللہ نے ہم سے ایسا بیان کیا ہے حضور نے فرمایا ۔ہاں ٹھیک ہے ۔پھر انہوںنے کہا کہ حضوریہ کُرتہ ہم کو دیدیں ہم سب تقسیم کر لیں گے کیونکہ ہم سب کا اس میں حق ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا ہاں لے لینا اور ان سے کوئی شرط اور عہد وغیرہ نہیں لیا ۔مجھے اس وقت بہت فکر ہوا کہ یہ نشان میرے ہاتھ سے گیا ۔اور میرے دل میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی اس لئے میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضوراس کُرتہ پر آپ کا کوئی اختیار نہیں کیونکہ یہ میری مِلک ہوچکا ہے ۔میرا اختیار ہے میں ان کو دو ں یا نہ دوں کیونکہ میں حضور سے اس کو لے چکا ہوں ۔اس وقت حضورنے مسکراکر فرمایا کہ ہاں یہ تو میاں عبداللہ ہم سے لے چکے ہیںاب ان کا اختیار ہے یہ تمہیں دیں یا نہ دیں ۔پھر انہوں نے مجھ سے بڑے اصرار سے مانگا مگر میں نے انکار کر دیا ۔میاں عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ آج تک اس کُرتہ پر سرخی کے ویسے ہی داغ موجود ہیں کوئی تغیر نہیں ہوا۔اور اس کُرتہ کے کپڑے کو پنجابی میں نینو کہتے ہیں ۔یہ کُرتہ حضو ر نے سات دن سے پہنا ہوا تھا ۔میں یہ کُرتہ پہلے لوگوں کو نہیںدکھایا کر تا تھا کیونکہ حضور کے یہ الفاظ کہ یہ کُرتہ زیارت نہ بنا لیا جاوے مجھے یاد رہتے تھے ۔ لیکن لوگ بہت خواہش کیا کرتے تھے او ر لوگ اس کے دیکھنے کے لئے مجھے بہت تنگ کر نے لگے ۔میں نے حضر ت خلیفہ ثانی سے اس کا ذکر کیاکہ مجھے حضرت صاحب کے الفاظ کی وجہ سے اس کُرتہ کے دکھانے سے کراہت آتی ہے مگر لوگ تنگ کرتے ہیں کیا کیا جاوے؟ حضرت میاں صاحب نے فرمایا اسے بہت دکھایا کرو اورکثرت کے ساتھ دکھائو تاکہ اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہو جاویں اور ہر شخص ہماری جماعت میں سے یہ کہے کہ میں نے بھی دیکھا ہے ۔ میں نے بھی دیکھا ہے ،میںنے بھی دیکھا ہے یا شاید میں نے کی جگہ ہم نے کے الفاظ کہے ۔اس کے بعد میںدکھانے لگ گیا ۔مگر اب بھی صرف اس کو دکھاتا ہوںجو خواہش کرتا ہے ۔اور ازخوددکھانے سے مجھے کراہت ہے کیونکہ حضرت صاحب کے الفاظ میرے دل پر نقش ہیں اور ہر سفر میں مَیں اسے پاس رکھتا ہوںاس خیال سے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کہاں جان نکل جاوے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ کُرتہ دیکھا ہے سرخی کا رنگ ہلکا ہے یعنی گلابی سا ہے اور مجھے میاں عبداللہ صاحب سے معلوم ہو اہے کہ رنگ ابتدا سے ہی ایسا چلا آیا ہے ۔ (نیز دیکھو روایت نمبر ۴۳۶)
{ 92} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی کیسا اخفا ہوتا ہے ۔پسر موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا مگر ہمارے موجودہ سارے لڑکے ہی کسی نہ کسی طرح تین کو چار کرنے والے ہیں ۔چنانچہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ میاں (حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ) کو تو حضرت صاحب نے اس طرح تین کو چار کرنے والا قراد دیا کہ مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کو بھی شمار کر لیا ۔اور بشیر اوّل متوفّی کو بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں (یعنی خاکسار راقم الحروف کو ) اس طرح پر کہ صرف زندہ لڑکے شمار کر لئے اور بشیر اوّل متوفی کوچھوڑ دیا ۔شریف احمد کواس طرح پر قرار دیا کہ اپنی پہلی بیوی کے لڑکے مرزا سلطان احمداور فضل احمد چھوڑدیئے اور میرے سارے لڑکے زندہ متوفّی شمار کر لئے اور مبارک کوا س طرح پر کہ میرے صرف زندہ لڑکے شمار کرلئے اور بشیر اوّل متوفّی کو چھوڑ دیا ۔
{ 93} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے قریب بڑی کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات اور خوابیں شروع ہوگئی تھیں ۔جب آپ لاہور تشریف لے گئے تو وہاں زیادہ کثرت سے ایسے الہام ہونے شروع ہوئے ۔اس وجہ سے اور کچھ ویسے بھی ۔ میں نے گھبرا کر ایک دن حضرت صاحب سے کہا کہ چلو اب قادیان واپس چلیں ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو جب ہمیں خدا لے جائے گا تب ہی جائیں گے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی حضرت صاحب کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کو اس کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات ہو تے تھے اور وفات کے قریب تو کثرت کا یہ حال تھا کہ گویا موت بالکل سر پر کھڑی ہے آپ اپنے کام میں اسی تندہی سے لگے رہے بلکہ زیادہ ذوق شوق او ر محنت سے کا م شروع کر دیا ۔چنانچہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی ان دنوںمیں بھی آپ رسالہ پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے اور تقاریر کا سلسلہ بھی برابر جاری تھا کوئی اور ہوتا تو قرب موت کی خبر سے اس کے ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ جاتے اور کوئی مفتری ہوتا تو یہ وقت اس کے راز کے طشت ازبام ہونے کا وقت تھا ۔
{ 94} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کو عصر کی نماز کے بعد یعنی اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پیشتر حضور نے لاہور میں خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان پر جہاں نماز ہو ا کرتی تھی ایک بڑی پر جوش تقریر فرمائی جس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی کی طرف سے ایک شخص مباحثہ کا چیلنج لے کر آپ کے پاس آیا تھا۔آ پ نے مباحثہ کی شرائط کے لئے مولوی محمد احسن صاحب کو مقرر فرمایا اور پھراس شخص کی موجودگی میں ایک نہایت زبردست تقریر فرمائی اور جس طرح جوش کے وقت آپ کا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھا اسی طرح اس وقت بھی یہی حال تھا ۔اس تقریر کے بعض فقرے اب تک میرے کانوں میںگونجتے ہیں ۔ فرمایا تم عیسٰی کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے نیز فرمایا اب ہم تو اپنا کا م ختم کر چکے ہیں ۔
{ 95} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے حاجی عبدالمجید صاحب لدھیانوی نے کہ ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے ۔میرے مکان میں ایک نیم کا درخت تھا چونکہ برسات کا موسم تھا اسکے پتے بڑے خوشنما طور پر سبز تھے ۔ حضور نے مجھے فرمایا حاجی صاحب اس درخت کے پتوں کی طرف دیکھئے کیسے خوشنما ہیں۔حاجی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوئوںسے بھری ہوئی تھیں۔
{ 96} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا ہم سے حاجی عبدالمجید صاحب نے کہ ایک دفعہ جب ازالہ اوہام شائع ہوئی ہے حضرت صاحب لدھیانہ میں باہر چہل قدمی کے لئے تشریف لے گئے۔ میں اور حافظ حامدعلی ساتھ تھے ۔ راستہ میں حافظ حامد علی نے مجھ سے کہا کہ آج رات یا شاید کہا ان دنوں میں حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ ’’ سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعد ازاںایام ضعف و اختلال ‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مجلس میں جس میں حاجی عبدالمجید صاحب نے یہ روایت بیان کی میاںعبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ میرے خیال میں یہ الہام اس زمانہ سے بھی پرانا ہے ۔حضرت صاحب نے خود مجھے اور حافظ حامد علی کو یہ الہام سنایا تھا اور مجھے الہام اس طرح پر یاد ہے ۔’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال ۔ بعد ازاں باشد خلاف و اختلا ل ‘‘۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرا مصرع تو مجھے پتھر کی لکیر کی طرح یاد ہے کہ یہی تھا ۔ اور ہفت کا لفظ بھی یاد ہے ۔جب یہ الہام ہمیں حضرت صاحب نے سنایا تواس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی مخالف نہیںتھا ۔شیخ حامد علی نے اسے بھی جا سنایا ۔پھر جب وہ مخالف ہوا تو اس نے حضرت صاحب کے خلاف گورنمنٹ کو بدظن کر نے کے لئے اپنے رسالہ میں شائع کیا کہ مرزا صاحب نے یہ الہام شائع کیا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب اور حاجی عبدالمجید صاحب کی روایت میں جو اختلاف ہے وہ اگر کسی صاحب کے ضعفِ حافظہ پر مبنی نہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الہام حضور کو دو وقتوں میں دو مختلف قرا ء توں پر ہوا ہو ۔ واللہ اعلم ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام کے مختلف معنی کئے گئے ہیں ۔ بعضوں نے تاریخ الہام سے میعاد شمار کی ہے ۔بعضوں نے کہا ہے کہ ملکہ وکٹوریا کی وفات کے بعد سے اس کی میعاد شما ر ہوتی ہے ۔کیونکہ ملکہ کے لئے حضور نے بہت دعائیں کی تھیں ۔بعض اور معنے کرتے ہیں۔میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ میرے نزدیک آغاز صدی بیسویں سے اس کی میعاد شروع ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ کہتے تھے کہ واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں او ر واقعات کے ظہور کے بعد ہی میں نے اس کے یہ معنی سمجھے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے نزدیک یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حضرت صاحب کی وفات سے اس کی میعاد شمار کی جاوے کیونکہ حضرت صاحب نے اپنی ذات کو گورنمنٹ برطانیہ کے لئے بطور حرز کے بیان کیا ہے پس حرز کی موجودگی میں میعاد کا شمار کرنا میرے خیال میں درست نہیں ۔ اس طرح جنگ عظیم کی ابتدا اور ہفت یاہشت سالہ میعاد کا اختتام آپس میں مل جاتے ہیں ۔واللہ اعلم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہم لوگوں پر بڑے احسانات ہیں ہمیں دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ (نیز اس روایت کی مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم۔ روایت نمبر ۳۱۴)
{ 97} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت کا اعلان کیا تو بیعت لینے سے پہلے آپ شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کے بلانے پرا س کے لڑکے کی شادی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے ۔میں اورمیر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے۔راستہ میں یکہ پر حضور نے ہم کو اپنے اس چلّہ کا حال سنایا جس میں آپ نے برابر چھ ماہ تک روزے رکھے تھے ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ایک چھینکا رکھا ہوا تھا اسے میں اپنے چوبارے سے نیچے لٹکا دیتا تھا تو اس میں میری روٹی رکھدی جاتی تھی پھر اسے میں اوپر کھینچ لیتا تھا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ شیخ مہر علی نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤسا کے لئے الگ کمرہ تھا اور ان کے ساتھیوں اور خدام کے واسطے الگ تھا مگر حضرت صاحب کا یہ قاعدہ تھاکہ اپنے ساتھ والوںکو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھایا کرتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر بھی آپ ہم تینوں کو اپنے داخل ہونے سے پہلے کمرہ میں داخل کرتے تھے اور پھر خود داخل ہوتے تھے اور اپنے دائیںبائیں ہم کو بٹھاتے تھے۔انہی دنوںمیں ہوشیار پور میں مولوی محمود شاہ چھچھ ہزاروی کا وعظ تھا جو نہایت مشہور اور نامور اور مقبول واعظ تھا ۔ حضرت صاحب نے میرے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی مناسب موقع پر میرا یہ اشتہار بیعت پڑھ کر سنا دیں اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آئوں گا ۔اس نے وعدہ کر لیا ۔چنانچہ حضرت صاحب اس کے وعظ میں تشریف لے گئے لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اور حضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہو نے لگے اس وقت سنایا مگر اکثر لوگ منتشر ہوگئے تھے ۔حضرت صاحب کو اس پر بہت رنج ہوا فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہوگی ورنہ ہمیں کیاضرورت تھی ۔اس نے وعدہ خلافی کی ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ پھر تھوڑے عرصہ کے اندر ہی وہ مولوی چوری کے الزام کے نیچے آکر سخت ذلیل ہوا ۔
{ 98} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت صاحب نے پہلے دن لدھیانہ میں بیعت لی تو اس وقت آپ ایک کمرہ میں بیٹھ گئے تھے اور دروازہ پر شیخ حامدعلی کو مقرر کر دیا تھا ۔اور شیخ حامد علی کو کہہ دیا تھا کہ جسے میں کہتا جائوں اسے کمرہ کے اندر بلاتے جائو چنانچہ آپ نے پہلے حضرت خلیفہ اوّل کو بلوایا ان کے بعد میر عباس علی کو پھر میاں محمد حسین مراد آبادی خوش نویس ۱ ؎ کو اور چوتھے نمبر پر مجھ کو اور پھر ایک یادو اور لوگوں کو نام لے کر اند ربلایا پھر اس کے بعد شیخ حامد علی کو کہہ دیا کہ خود ایک ایک آدمی کو اند ر داخل کرتے جائو۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں حضور ایک ایک کی الگ الگ بیعت لیتے تھے لیکن پھربعد میں اکٹھی لینے لگ گئے ۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ پہلے دن جب آپ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰؍رجب۱۳۰۶ ء ھجری مطابق ۲۳مارچ ۱۸۸۹ء تھی ۲ ؎ اور اس وقت بیعت کے الفاظ یہ تھے ۔’’آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں مَیں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت او ر سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کی لذات پر مقدم رکھونگا اور ۱۲؍جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کا ر بند رہوں گا اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں ۔’’ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ ـ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ ـ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ ۔اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ ـ‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مصافحہ کے طریق پر بیعت کنندگان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلیتے تھے لیکن بعض لوگوں سے آپ نے پنجہ کے اوپر کلائی پر سے بھی ہاتھ پکڑ کر بیعت لی ہے ۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میری بیعت آپ نے اسی طرح لی تھی ۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ بیعت اولیٰ کے دن مولوی عبدالکریم صاحب بھی وہیں موجود تھے مگر انہوں نے بیعت نہیں کی ۔ (مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم۔ روایت نمبر ۳۰۹، ۳۱۵)
{99} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ لدھیانہ میں پہلی دفعہ بیعت لے کر یعنی ابتدائ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ میںاور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے ۔حضرت صاحب سیدتفضل حسین صاحب تحصیل دارکے مکان پر ٹھہرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپر نٹنڈنٹ تھے۔ وہاں ایک تحصیل دار نے جو سید صاحب کا واقف تھا حضرت صاحب کی دعوت کی اور شہر کے دوسرے معز زین کو بھی مدعو کیا ۔حضورتشریف لے گئے اور ہم تینوںکو حسب عادت اپنے دائیںبائیںبٹھایا۔ تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیا اور لوگ ان کے گرد بیٹھ گئے ۔چوکیوں پر کنچ کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے ۔جب کھانا شروع ہو ا تومیر عباس علی نے کھانا کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے۔حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا میر صاحب آپ کیوںنہیں کھاتے؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوںکے طریق کا کھانا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا نہیں اس میںکوئی حرج نہیں یہ خلاف شرع نہیںہے۔میر صاحب نے کہا میرا تو دل نہیں چاہتا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب !ہم جو کھاتے ہیں۔میر صاحب نے کہا حضرت آپ کھائیں میں تو نہیںکھاتا۔غرض میر عباس علی نے کھانا نہیں کھایا ۔ میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب عباس علی مرتد ہوا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ وہ تو دراصل اسی وقت سے کٹ چکا تھا ۔نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ علی گڑھ میں لوگوں نے حضرت صاحب سے عرض کر کے حضور کے ایک لیکچر کا انتظام کیا تھا اور حضور نے منظور کر لیا تھا۔جب اشتہار ہوگیا اور سب تیاری ہوگئی اور لیکچر کا وقت قریب آیاتو حضرت صاحب نے سّید تفضل حسین صاحب سے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو ا ہے کہ میں لیکچر نہ دوںاس لئے میں اب لیکچر نہیں دوں گا ۔ انہوں نے کہا حضور اب توسب کچھ ہوچکا ہے لوگوں میں بڑی ہتک ہوگی ۔حضرت صاحب نے فرمایا خواہ کچھ ہو ہم خدا کے حکم کے مطابق کریں گے ۔ پھر اور لوگوں نے بھی حضرت صاحب سے بڑے اصرار سے عرض کیا مگر حضرت صاحب نے نہ مانا اور فرمایا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں خدا کے حکم کو چھوڑ دوںاس کے حکم کے مقابل میں مَیں کسی ذلت کی پروا نہیں کرتا ۔غرض حضرت صاحب نے لیکچر نہیں دیا اور قریباً سات دن وہاں ٹھہر کر واپس لدھیانہ تشریف لے آئے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے جب پہلے پہل یہ روایت بیان کی تو یہ بیان کیا کہ یہ سفر حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں کیا تھا۔خاکسار نے والدہ صا حبہ سے عرض کیا تو انہوںنے اس کی تردیدکی اور کہا کہ یہ سفر میاں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ) کی پیدائش بلکہ ابتدائی بیعت کے بعد ہوا تھا ۔ جب میں نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت میاں عبداللہ صاحب کے پاس بیان کی توانہوں نے پہلے تو اپنے خیال کی صحت پر اصرارکیا لیکن آخر ان کو یاد آگیا کہ یہی درست ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ علی گڑھ کے سفر سے حضرت صاحب کا وہ ارادہ پورا ہوا جو حضور نے سفر ہندوستان کے متعلق کیا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی سفر میں مولوی محمد اسماعیل علی گڑھی نے حضور کی مخالفت کی اور آخر آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی مگر جلد ہی اس جہاں سے گذر گیا ۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف فتح اسلام کے حاشیہ میں اس سفر کا مکمل ذکر کیا ہے)
{ 100} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ غالباً یہ ۱۸۸۴ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ ماہ جیٹھ یعنی مئی جون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز فجر پڑ ھ کر اس کے ساتھ والے غسل خانہ میں جو تا زہ پلستر ہونے کی وجہ سے ٹھنڈاتھا ایک چارپائی پر جو وہاں بچھی رہتی تھی جالیٹے ۔چارپائی پر بستر اور تکیہ وغیرہ کو ئی نہ تھا ۔حضرت کا سر قبلہ کی طرف اور منہ شمال کی طرف تھا ۔ایک کہنی آپ نے سر کے نیچے بطور تکیہ کے رکھ لی اور دوسری اسی صورت میں سر کے اوپر ڈھانک لی ۔میں پائوں دبانے بیٹھ گیا ۔وہ رمضان کا مہینہ تھا اور ستائیس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا اس لئے میں دل میں بہت مسرور تھا کہ میرے لئے ایسے مبارک موقعے جمع ہیں ۔یعنی حضرت صاحب جیسے مبارک انسان کی خدمت کر رہاہوں وقت فجر کا ہے جو مبارک وقت ہے مہینہ رمضان کا ہے جو مبارک مہینہ ہے ۔تاریخ ستائیس اور جمعہ کا دن ہے اور گزشتہ شب شَب قدر تھی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ مل جاویں تو وہ رات یقینا شب قدر ہوتی ہے ۔میں انہی باتوں کا خیال کر کے دل میں مسرور ہو رہا تھا کہ حضرت صاحب کا بدن یکلخت کانپا اور اس کے بعد حضور نے آہستہ سے اپنے اوپر کی کہنی ذرا ہٹاکر میری طرف دیکھا اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میںآنسو بھرے ہوئے تھے ۱ ؎ اس کے بعد آپ نے پھر اسی طرح اپنی کہنی رکھ لی۔ میں دباتے دباتے حضرت صاحب کی پنڈلی پر آیا تو میں نے دیکھا کہ حضور کے پائوں پر ٹخنے کے نیچے ایک اٹن یعنی سخت سی جگہ تھی اس پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا تھا جو ابھی تازہ گرے ہونے کی وجہ سے بستہ تھا ۔میں نے اسے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی لگا کر دیکھا کہ کیا ہے ۔اس پر وہ قطرہ ٹخنے پر بھی پھیل گیا اور میری انگلی پر بھی لگ گیا ،پھر میں نے اسے سونگھا کہ شاید اس میں کچھ خوشبو ہو مگر خوشبو نہیں تھی ۔میں نے اسے اس لئے سونگھا تھا کہ اسی وقت میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ یہ کوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بات ہے اس لئے اس میں کوئی خوشبو ہوگی ۔پھر میں دباتا دباتا پسلیوں کے پاس پہنچا وہاں میںنے اسی سرخی کا ایک اور بڑا قطرہ کرتہ پر دیکھا ۔اس کو بھی میں نے ٹٹولا تو وہ بھی گیلا تھا ۔ ۲ ؎ اس وقت پھر مجھے حیرانی سی ہوئی کہ یہ سرخی کہاں سے آگئی ہے ۔پھر میں چارپائی سے آہستہ سے اُٹھا کہ حضرت صاحب جاگ نہ اُٹھیں اور پھر اس کا نشان تلاش کرنا چاہا کہ یہ سرخی کہاں سے گری ہے ۔ بہت چھوٹا سا حجرہ تھا ۔چھت میں اردگرد میں نے اس کی خوب تلاش کی مگر خارج میں مجھے اس کا کہیں پتہ نہیں چلاکہ کہاںسے گِری ہے ۔مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیںچھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹی ہو تو اس کا خون گرا ہواس لئے میں نے غور کے ساتھ چھت پر نظر ڈالی مگر اس کا کوئی نشان نہیں پایا ۔پھر آخرمیں تھک کر بیٹھ گیا اور بدستور دبانے لگ گیا ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر حجرہ میں سے نکل کر مسجد میںجاکر بیٹھ گئے ۔میں وہاں پیچھے بیٹھ کر آپ کے مونڈھے دبانے لگ گیا۔اس وقت میں نے عرض کیا کہ حضوریہ آپ پر سرخی کہاںسے گری ہے ۔حضور نے بہت بے توجہی سے فرمایا کہ آموںکا رس ہوگا اور مجھے ٹال دیا ۔ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور یہ آموںکا رس نہیں یہ تو سرخی ہے ۔اس پر آپ نے سر مبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمایا ’’ کتھّے ہے ‘‘؟ یعنی کہاں ہے ؟ میں نے کر تہ پر و ہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے اس پر حضور نے کُرتے کو سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنے سر کو ادھر پھیر کراس قطرہ کو دیکھا ۔پھر اس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا بلکہ رؤیت باری اور امور کشوف کے خارج میںوجود پانے کے متعلق پہلے بزرگوںکے دو ایک واقعات مجھے سنائے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے اس کو یہ آنکھیں دنیامیں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کی بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہو کر بزرگوںکو دکھائی دے جاتے ہیں ۔ شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیںکہ مجھے کئی دفعہ خدا تعالیٰ کی زیارت اپنے والد کی شکل میںہوئی ہے نیز شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے ایک ہلدی کی گٹھی دی کہ یہ میری معرفت ہے اسے سنبھال کر رکھنا جب وہ بیدار ہوئے تو ہلدی کی گٹھی ان کی مٹھی میںموجود تھی ۔ اور ایک بزرگ جن کا حضور نے نام نہیں بتایا تہجد کے وقت اپنے حجرہ کے اند ر بیٹھے مصلّٰی پرکچھ پڑ ھ رہے تھے کہ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی شخص باہر سے آیا ہے اور ان کے نیچے کا مصلّٰی نکال کر لے گیا ہے ۔ جب وہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ فی الواقع مصلّٰی ان کے نیچے نہیںتھا ۔ جب دن نکلنے پر حجرہ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مصلّٰی صحن میںپڑا ہے ۔یہ واقعات سنا کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ کشف کی باتیں تھیں مگر خداتعالیٰ نے ان بزرگوں کی کرامت ظاہر کر نے کیلئے خارج میںبھی ان کاوجود ظاہر کر دیا ۔اب ہمارا قصہ سنو ۔جس وقت تم حجرہ میں ہمارے پائوں دبا رہے تھے میں کیا دیکھتا ہوںکہ ایک نہایت وسیع اور مصفّٰی مکان ہے اس میں ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک شخص حاکم کی صورت میںبیٹھاہے ۔میرے دل میںڈالا گیاکہ یہ احکم الحاکمین یعنی رب العالمین ہیں اورمیں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے حاکم کا کوئی سر رشتہ دار ہوتا ہے۔میں نے کچھ احکام قضا و قدر کے متعلق لکھے ہیں اور ان پر دستخط کر انے کی غرض سے ان کے پاس لے چلا ہوں ۔جب میں پاس گیا تو انہوں نے مجھے نہایت شفقت سے اپنے پاس پلنگ پر بٹھا لیا۔اس وقت میری ایسی حالت ہوگئی کہ جیسے ایک بیٹا اپنے باپ سے بچھڑا ہو ا سالہاسال کے بعد ملتا ہے اور قدرتًا اس کا دل بھر آتا ہے یا شاید فرمایا اس کو رقت آجاتی ہے اور میرے دل میں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ احکم الحاکمین یا فرمایا رب العالمین ہیں اور کس محبت اور شفقت سے انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا ہے ۔ اس کے بعد میں نے وہ احکام جو لکھے تھے دستخط کرانے کی غرض سے پیش کئے ۔ انہوں نے قلم سرخی کی دوات میں جو پاس پڑی تھی ڈبویا اور میری طرف جھاڑ کردستخط کر دیئے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے قلم کے جھاڑ نے اور دستخط کرنے کی حرکتوں کو خود اپنے ہاتھ کی حرکت سے بتایا تھاکہ یوں کیا تھا ۔ پھر حضرت صاحب نے فرمایایہ وہ سرخی ہے جو اس قلم سے نکلی ہے ۔پھر فرما یا دیکھو کو ئی قطرہ تمہارے اوپربھی گرا۔میں نے اپنے کُرتے کو ادھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے پر تو کوئی نہیں گرا۔فرمایا کہ تم اپنی ٹوپی پر دیکھو ۔ان دنوں میں ململ کی سفید ٹوپی میرے سر پر ہوتی تھی میں نے وہ ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا ۔مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے عرض کیا حضور میری ٹوپی پر بھی ایک قطرہ ہے ۔پھر میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ یہ کُرتہ بڑا مبارک ہے اس کو تبرکاً لے لینا چاہئیے ۔ پہلے میں نے اس خیال سے کہ کہیں حضور جلدی انکار نہ کر دیں حضور سے مسئلہ پوچھا کہ حضور کسی بزرگ کا کوئی تبرک کپڑے وغیرہ کالے کر رکھنا جائز ہے ؟ فرمایا ہاں جائز ہے ۔رسول اللہ ﷺ کے تبرکا ت صحابہ نے رکھے تھے ۔پھر میں نے عرض کیا کہ حضور خدا کے واسطے میرا ا یک سوال ہے ۔فرمایا کہو کیا ہے ؟ عرض کیا کہ حضور یہ کُرتہ تبرکاً مجھے دے دیں ۔فرمایا نہیں یہ تو ہم نہیں دیتے ۔میں نے عرض کیا حضور نے ابھی تو فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات صحابہ نے رکھے ۔اس پر فرمایا کہ یہ کُرتہ میں اس واسطے نہیں دیتا کہ میرے اور تیرے مرنے کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اس کی لوگ پوجا کر یں گے۔اس کو لوگ زیارت بنالیں گے ۔میں نے عرض کیا کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے تبرکات سے شرک نہ پھیلا ۔فرمایا میاں عبداللہ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ جو تبرک جن صحابہ کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔میں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کر جائو ں گا کہ یہ کُرتہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جاوے۔فرمایا ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو ۔چونکہ وہ جمعہ کا دن تھا تھوڑی دیر کے بعد حضورنے غسل کر کے کپڑے بدلے اور میں نے یہ کُرتہ سنبھال لیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابھی آپ نے یہ کُرتہ پہنا ہی ہوا تھا کہ دو تین مہمان جو اردگرد سے آئے ہوئے تھے ان سے میں نے اس نشان کا ذکر کیا۔وہ پھر حضرت صاحب کے پاس آئے او ر عرض کیا کہ میاں عبداللہ نے ہم سے ایسا بیان کیا ہے حضور نے فرمایا ۔ہاں ٹھیک ہے ۔پھر انہوںنے کہا کہ حضوریہ کُرتہ ہم کو دیدیں ہم سب تقسیم کر لیں گے کیونکہ ہم سب کا اس میں حق ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا ہاں لے لینا اور ان سے کوئی شرط اور عہد وغیرہ نہیں لیا ۔مجھے اس وقت بہت فکر ہوا کہ یہ نشان میرے ہاتھ سے گیا ۔اور میرے دل میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی اس لئے میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضوراس کُرتہ پر آپ کا کوئی اختیار نہیں کیونکہ یہ میری مِلک ہوچکا ہے ۔میرا اختیار ہے میں ان کو دو ں یا نہ دوں کیونکہ میں حضور سے اس کو لے چکا ہوں ۔اس وقت حضورنے مسکراکر فرمایا کہ ہاں یہ تو میاں عبداللہ ہم سے لے چکے ہیںاب ان کا اختیار ہے یہ تمہیں دیں یا نہ دیں ۔پھر انہوں نے مجھ سے بڑے اصرار سے مانگا مگر میں نے انکار کر دیا ۔میاں عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ آج تک اس کُرتہ پر سرخی کے ویسے ہی داغ موجود ہیں کوئی تغیر نہیں ہوا۔اور اس کُرتہ کے کپڑے کو پنجابی میں نینو کہتے ہیں ۔یہ کُرتہ حضو ر نے سات دن سے پہنا ہوا تھا ۔میں یہ کُرتہ پہلے لوگوں کو نہیںدکھایا کر تا تھا کیونکہ حضور کے یہ الفاظ کہ یہ کُرتہ زیارت نہ بنا لیا جاوے مجھے یاد رہتے تھے ۔ لیکن لوگ بہت خواہش کیا کرتے تھے او ر لوگ اس کے دیکھنے کے لئے مجھے بہت تنگ کر نے لگے ۔میں نے حضر ت خلیفہ ثانی سے اس کا ذکر کیاکہ مجھے حضرت صاحب کے الفاظ کی وجہ سے اس کُرتہ کے دکھانے سے کراہت آتی ہے مگر لوگ تنگ کرتے ہیں کیا کیا جاوے؟ حضرت میاں صاحب نے فرمایا اسے بہت دکھایا کرو اورکثرت کے ساتھ دکھائو تاکہ اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہو جاویں اور ہر شخص ہماری جماعت میں سے یہ کہے کہ میں نے بھی دیکھا ہے ۔ میں نے بھی دیکھا ہے ،میںنے بھی دیکھا ہے یا شاید میں نے کی جگہ ہم نے کے الفاظ کہے ۔اس کے بعد میںدکھانے لگ گیا ۔مگر اب بھی صرف اس کو دکھاتا ہوںجو خواہش کرتا ہے ۔اور ازخوددکھانے سے مجھے کراہت ہے کیونکہ حضرت صاحب کے الفاظ میرے دل پر نقش ہیں اور ہر سفر میں مَیں اسے پاس رکھتا ہوںاس خیال سے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کہاں جان نکل جاوے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ کُرتہ دیکھا ہے سرخی کا رنگ ہلکا ہے یعنی گلابی سا ہے اور مجھے میاں عبداللہ صاحب سے معلوم ہو اہے کہ رنگ ابتدا سے ہی ایسا چلا آیا ہے ۔ (نیز دیکھو روایت نمبر ۴۳۶)