محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{ 221} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ مرزا امام الدین صاحب نے داداصاحب کے قتل کی سازش کی اور بھینی کے ایک سکھ سوچیت سنگھ کوا س کام کیلئے مقررکیا ۔مگر سوچیت سنگھ کا بیان ہے کہ میں کئی دفعہ دیوان خانہ کی دیوار پر اس نیت سے چڑھا مگر ہر دفعہ مجھے مرزا صاحب یعنی داد اصاحب کے ساتھ دو آدمی محافظ نظر آئے اس لئے میں جرأت نہ کر سکا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی تصرف الہٰی ہو گا ۔
{ 222} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ داد اصاحب حقہ بہت پیتے تھے مگرا ُس میں بھی اپنی شان دکھاتے تھے یعنی جو لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوں ان کو اپنا حقہ نہیں دیتے تھے لیکن غریبوں اور چھوٹے آدمیوں سے کو ئی روک نہ تھی ۔
{ 223} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ داد اصاحب کا تکیہ کلام ’’ ہے بات کہ نہیں ‘‘ تھا جو جلدی میں ’’ ہے باکہ نہیں ‘‘ سمجھا جاتا تھا ،خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے متعلق اور بھی کئی لوگوں سے سناگیا ہے ۔
{ 224} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک بغدادی مولوی آیا ۔دادا صاحب نے اُس کی بڑی خاطر ومدارات کی۔اس مولوی نے داد اصاحب سے کہا کہ مرزا صاحب ! آپ نماز نہیں پڑھتے ؟ داد اصاحب نے اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں بے شک میری غلطی ہے۔مولوی صا حب نے پھر بار بار اصرار کے ساتھ کہا اور ہر دفعہ دادا صاحب یہی کہتے گئے کہ میرا قصور ہے ۔آخر مولوی نے کہا آپ نماز نہیں پڑھتے۔ اللہ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا ۔اس پر داد اصاحب کو جوش آگیا اور کہا’’ تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے کہاں ڈالے گا؟ ۔میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بد ظن نہیں ہوں میری امید وسیع ہے ۔خدا فرماتا ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ (الزّمر:۵۴) تم مایوس ہو گے۔ میں مایوس نہیں ہوں ۔ اتنی بے اعتقادی میں تو نہیں کرتا ۔‘‘ پھر کہا ’’ا سوقت میری عمر ۷۵سال کی ہے ۔آج تک خدا نے میری پیٹھ نہیں لگنے دی تو کیا اب وہ مجھے دوزخ میں ڈال دیگا ۔‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیٹھ لگنا پنجابی کا محاورہ ہے جس کے معنی دشمن کے مقابلہ میں ذلیل و رُسوا ہو نے کے ہیں۔ ورنہ ویسے مصائب تو دادا صاحب پر بہت آئے ہیں ۔
{ 225} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ جب سے تمہاری دادی فوت ہوئیں تمہارے دادا نے اندر زنانہ میں آنا چھوڑ دیا تھا ۔ دن میں صرف ایک دفعہ تمہاری پھوپھی کو ملنے آتے تھے اور پھوپھی کے فوت ہو نے کے بعد تو بالکل نہیں آتے تھے ۔باہر مردا نے میں رہتے تھے ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت حضرت والدہ صا حبہ نے کسی اور سے سنی ہو گی کیونکہ یہ واقعہ حضرت اماں جان کے قادیان تشریف لانے سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔)
{ 226} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ داد اصاحب نے طب کا علم حافظ روح اللہ صاحب باغبانپورہ لاہور سے سیکھا تھا ۔اسکے بعد دہلی جاکر تکمیل کی تھی ۔
{ 227} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروںمیں رہتی تھی ۔ اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں ۔میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب کی کتابیں وغیرہ چوری نکال کر لے جایا کرتا تھا ۔چنانچہ والدصاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے۔
{228 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہو تی ہے ۔غالباً نوجوانی کا کلام ہے ۔حضرت صاحب کے اپنے خط میں ہے جسے میں پہچانتا ہوں۔ بعض بعض شعر بطور نمونہ درج ذیل ہیں ۔ ؎
عشق کا روگ ہے کیاپوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا مرے دل ! ابھی کچھ پائو گے
تم بھی کہتے تھے کہ اُلفت میں مزا ہوتا ہے
ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے
مفت بیٹھے بٹھا ئے غم میں پڑے
اسکے جانے سے صبر دل سے گیا
ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے
سبب کوئی خداوندا بنا دے
کسی صور ت سے وہ صورت دکھا دے
کرم فرما کے آ او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہوکر
دلا اک بار شوروغل مچادے
نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پا کی
سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی
مرے بت! اب سے پردہ میں رہوتم
کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی
نہیں منظور تھی گر تم کو اُلفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
مری دلسوزیوں سے بے خبر ہو
مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اسکو دوں یا ہوش یا جاں
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
کوئی راضی ہو یا ناراض ہو وے
رضامندی خداکی مدعا کر
اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے مگر پہلا ندارد۔بعض اشعار نظر ثانی کیلئے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا ہے ۔
{ 229} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ تایا صاحب کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی اور کئی دن تک جشن رہا تھا اور ۲۲طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے مگر والد صاحب کی شادی نہایت سادہ ہو ئی تھی ۔اور کسی قسم کی خلاف شریعت رسوم نہیں ہوئیں ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ یہ بھی تصرف الہٰی تھا ورنہ دادا صاحب کو دونوں بیٹے ایک سے تھے ۔(نیز یہ طائفے ان لوگوں کی وجہ سے آئے ہوں گے جو ایسے تماشوں میں دلچسپی رکھتے ہیں ورنہ خود دادا صاحب کو ایسی باتوں میں شغف نہیں تھا۔)
{ 230} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ہماری دادی صاحبہ بڑی مہمان نواز ۔سخی اور غریب پرور تھیں ۔
{ 231} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ والد صاحب سیشن عدالت میں اسیسر مقرر ہوئے تھے مگر آپ نے انکار کردیا۔ (اس جگہ دیکھو روایت نمبر ۳۱۳)
{ 232} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ آخری عمر میں دادا صاحب نے ایک مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کیا اورا سکے لئے موجودہ بڑی مسجد (یعنی مسجد اقصیٰ) کی جگہ کو پسند کیا اس جگہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی ۔جب یہ جگہ نیلام ہو نے لگی تو داد اصاحب نے اس کی بولی دی مگر دوسری طرف دوسرے باشندگان قصبہ نے بھی بولی دینی شروع کی اور اس طرح قیمت بہت چڑھ گئی ۔مگر دادا صاحب نے بھی پختہ قصد کر لیا تھا کہ میں اس جگہ میں ضرور مسجد بنائوں گا ۔ خواہ مجھے اپنی کچھ جائداد فروخت کر نی پڑے ۔چنانچہ سات سو روپیہ میں یہ جگہ خریدی اور اس پر مسجد بنوائی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت کے لحاظ سے اس جگہ کی قیمت چند گنتی کے روپے سے زیادہ نہ تھی مگر مقابلہ سے بڑھ گئی ۔
{ 233} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری تائی کے سارے گھر میں صرف مرزا علی شیر کی ماں یعنی مرزا سلطان احمد کی نانی جو حضر ت صاحب کی ممانی تھی حضرت صاحب سے محبت رکھتی تھی اور ان کی وجہ سے مجھے بھی اچھا سمجھتی تھی باقی سب مخالف ہوگئے تھے ۔میں جب اُس طرف جاتی تھی تو وہ مجھے بڑی محبت سے ملتی تھی اور کہا کر تی تھی ۔ہائے افسوس !یہ لوگ اسے ( یعنی حضرت صاحب کو ) کیوں بد دعائیں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں ۔اسے میری چراغ بی بی نے کتنی منتوں سے تر س ترس کر پالا تھا اور کتنی محبت اور محنت سے پرورش کی تھی ۔والد ہ صاحبہ کہتی ہیں کہ وہ بہت بوڑھی ہو گئی تھی اور وقت گزارنے کے لئے چرخہ کا تتی رہتی تھی ۔حضرت صاحب کو بھی اس سے محبت تھی اور والد ہ صاحبہ نے بیان کیا کہ تمہاری تائی کہتی ہیں کہ حضرت صاحب کی ممانی کا نام بھی تمہاری دادی کی طرح چراغ بی بی تھا ۔
{ 234} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب نے کہ اُن سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ جو عورت والد صاحب کو کھانا دینے جاتی تھی وہ بعض اوقات واپس آکر کہتی تھی ’’میاں اُن کو ( یعنی حضرت صاحب کو ) کیا ہوش ہے ۔یا کتابیں ہیں اور یا وہ ہیں ‘‘۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے تمہید میں یہ لکھا تھا کہ میں بغرض سہولت تمام روایات صرف اردو زبان میں بیان کرو ں گا ۔خواہ وہ کسی زبان میں کہی گئی ہوں ۔سو جاننا چاہیے کہ فقرہ مندرجہ بالا بھی دراصل پنجابی میں کہا گیا تھا ۔ یہ صرف بطور مثال کے عرض کیا گیا ہے نیز ایک اور عرض بھی ضروری ہے کہ جہاں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ ’’ بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے ‘‘ اس سے مطلب یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو میں نے کو ئی معیّن سوال دے کر مرزا صاحب موصوف کے پاس بھیجا اور اس کا جو جواب مرزاصاحب کی طرف سے دیا گیا وہ نقل کیا گیا اور جہاں مولوی صاحب کی طرف روایت کو منسوب کیا ہے وہاں میرے کسی معیّن سوال کا جواب نہیں بلکہ جو مرزا صاحب نے دوران گفتگو میں مولوی صاحب کو کوئی بات بتائی وہ نقل کی گئی ہے ۔
{ 235} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ہیضہ پھوٹا اور چوہڑوں کے محلہ میں کیس ہونے شروع ہوئے ۔ داد اصاحب اُس وقت بٹالہ میں تھے یہ خبر سن کر قادیان آگئے اور چوہڑوں کے محلہ کے پاس آکر ٹھہر گئے اور چوہڑوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ۔اور ان کو تسلی دی اور پھر حکم دیا کہ قادیان کے عطار آملہ ۔کشٹے ۔گُڑ (یعنی قند سیاہ ) لیتے آویں اور پھر اُن کو مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں ڈلوا دیا اور کہا کہ جو چاہے گڑوالا پیئے اور جو چاہے نمک والا پیئے ۔کہتے ہیں کہ دوسرے دن مرض کا نشان مٹ گیا ۔
{ 236} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا ۔ ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی ۔ سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہوگیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا ۔ اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوئوں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ اردگرد د یوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا ۔بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا ۔دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اسکو جلاد یا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی ۔
ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات مَیں ایک مکان کی دوسری منزل پر سو یا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے ۔رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی ۔میں نے آدمیوں کو جگا یا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ کوئی چوہاہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے۔تھوڑی دیرکے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی ۔پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہا ں سے نکلا۔ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اوروہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور سب بچ گئے ۔
ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مرا ہواپایا گیا اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا ۔مگر ہر دو بار خدا نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا ۔ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی مجھے خبر بھی نہ ہوئی ۔ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلایا اور آگ کو بجھا دیا ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ یہ باتیں حضرت صاحب کی ڈائری سے لی گئی ہیں اور بچھو اور آگ لگنے کا واقعہ ضروری نہیں کہ سیالکوٹ سے متعلق ہو ۔
{ 237} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۴۸پر حضر ت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں ’’ اس احقر نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء میں اسی زمانہ کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا ۔جناب خاتم الانبیاء ﷺ کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خودا س عاجز کی تصنیف معلو م ہوتی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے ،جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہو نے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کمال استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے ۔غرض آنحضرت ﷺ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی ۔اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا ۔مگر بقدر تربوز تھا ۔آنحضرت ؐ نے جب اس میوہ کو تقسیم کر نے کیلئے قاش قاش کر نا چاہا توا س قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے بھر گیا ۔تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضر ت ؐ کے معجزے سے زند ہ ہو کراس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت ؐ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت ؐ بڑے جاہ و جلال اور بڑے حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوہ فرما رہے تھے۔پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺنے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تامیں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہو ا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیںاور و ہ ایک قاش میںنے اس نئے زندہ کو دے دی۔اوراس نے وہیں کھا لی پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت ؐ کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اور اسلام کی تازگی اور ترقی کی اشارت تھی تب اسی نو رکا مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی ۔‘‘
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس رؤیا میں یہ اشارہ تھا کہ آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدمتِ دین کا کوئی ایسا عظیم الشان کام لیا جائے گا کہ جس سے اسلام میں جو مردہ کی طرح ہو رہا ہے پھر زندگی کی روح عود کر آئے گی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ رؤیا غالباً ۱۸۶۴ء سے بھی پہلے کاہو گا۔ کیونکہ ۱۸۶۴ء میں تو آپ سیالکوٹ میں ملازم ہو چکے تھے۔)
{ 238} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۲۰پر لکھتے ہیں کہ ’’ اس برکت کے بارے میں ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میںہوا تھا جس کو اس جگہ لکھنا مناسب ہے اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعیدمحمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے ۔جب نئے نئے مولوی ہو کر بٹالہ میں آئے اور بٹالیو ں کو ان کے خیالات گراں گذرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس نا چیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اس کے کہنے کہانے پر یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو مع ان کے والدصاحب کے مسجد میں پایا ۔پھر خلاصہ یہ کہ اس ا حقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سُن کر معلوم کر لیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا ۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترکِ بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے پھر بعد اس کے کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے ۔جو گھوڑوں پر سوار تھے ۔‘‘
{ 239} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میری نانی اماں صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب تمہارے نانا کی بدلی کا ہنووان میں ہوئی تھی ۔میں بیمار ہو گئی تو تمہارے نانا مجھے ڈولی میں بٹھلا کر قادیان تمہارے دادا کے پاس علاج کے لئے لائے تھے۔اور اسی دن میں واپس چلی گئی تھی ۔تمہارے دادا نے میری نبض دیکھ کر نسخہ لکھ دیا تھا ۔اور تمہارے نانا کو یہاں اور ٹھہرنے کے لئے کہا تھا ۔مگر ہم نہیں ٹھہر سکے ۔کیونکہ پیچھے تمہاری اماں کو اکیلا چھوڑ آئے تھے۔نیز نانی امّاں نے بیان کیا کہ جس وقت میں گھر میں آئی تھی میں نے حضرت صاحب کو پیٹھ کی طرف سے دیکھا تھا کہ ایک کمرے میں الگ بیٹھے ہوئے رِحل پر قرآن شریف رکھ کر پڑھ رہے تھے ۔میں نے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے ۔قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے ۔ نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ مجھے اپنی امّاں اور ابّا کا مجھے اکیلا چھوڑ کر قادیان آنے کے متعلق صرف اتنا یاد ہے کہ میں شا م کے قریب بہت روئی چلائی تھی کہ اتنے میں ابّا گھوڑا بھگاتے ہوئے گھر میں پہنچ گئے اورمجھے کہا کہ ہم آگئے ہیں۔
{ 240} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو حضرت صاحب کی ساری عمر جہاد کی صف اوّل میں ہی گذری ہے ۔لیکن با قاعدہ مناظرے آپ نے صرف پانچ کئے ہیں ۔
اوّل۔ ماسٹر مرلی دھرآریہ کے ساتھ بمقام ہو شیار پو ر مارچ ۱۸۸۶ء میں۔اس کا ذکر آپ نے سر مۂ چشم آریہ میں کیا ہے ۔
دوسرے ۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ بمقام لدھیانہ ،جولائی ۱۸۹۱ء میں۔ اس کی کیفیت رسالہ الحق لدھیانہ میں چھپ چکی ہے ۔
تیسرے ۔مولوی محمد بشیر بھوپالوی کے ساتھ بمقام دہلی اکتوبر ۱۸۹۱ء میں ۔اس کی کیفیت رسالہ الحق دہلی میں چھپ چکی ہے ۔
چوتھے ۔ مولوی عبد الحکیم کلا نوری کے ساتھ بمقام لاہور جنوری و فروری۱۸۹۲ء میں۔ اس کی روئداد شائع نہیں ہوئی صرف حضرت صاحب کے اشتہار مورخہ ۳؍فروری ۱۸۹۲ء میں اس کا مختصر ذکر پایا جاتا ہے ۔
پانچویں ۔ڈپٹی عبد اللہ آتھم مسیحی کے ساتھ بمقام امرتسر مئی و جون ۱۸۹۳ء میں۔ اس کی کیفیت جنگ مقدس میں شائع ہو چکی ہے ۔
ان کے علاوہ دو اور جگہ مباحثہ کی صورت پیدا ہو کر رہ گئی ۔اوّل مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ بمقام بٹالہ ۶۹یا۱۸۶۸ء میں ۔ اس کا ذکر حضرت صاحب نے براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۲۰پر کیا ہے ۔دوسرے۔مولوی سید نذیر حسین صاحب شیخ الکل دہلوی کے ساتھ بمقام جامع مسجد دہلی بتاریخ ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء ۔اس کا ذکر حضرت کے اشتہارات میں ہے ۔
{ 222} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ داد اصاحب حقہ بہت پیتے تھے مگرا ُس میں بھی اپنی شان دکھاتے تھے یعنی جو لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوں ان کو اپنا حقہ نہیں دیتے تھے لیکن غریبوں اور چھوٹے آدمیوں سے کو ئی روک نہ تھی ۔
{ 223} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ داد اصاحب کا تکیہ کلام ’’ ہے بات کہ نہیں ‘‘ تھا جو جلدی میں ’’ ہے باکہ نہیں ‘‘ سمجھا جاتا تھا ،خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے متعلق اور بھی کئی لوگوں سے سناگیا ہے ۔
{ 224} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک بغدادی مولوی آیا ۔دادا صاحب نے اُس کی بڑی خاطر ومدارات کی۔اس مولوی نے داد اصاحب سے کہا کہ مرزا صاحب ! آپ نماز نہیں پڑھتے ؟ داد اصاحب نے اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں بے شک میری غلطی ہے۔مولوی صا حب نے پھر بار بار اصرار کے ساتھ کہا اور ہر دفعہ دادا صاحب یہی کہتے گئے کہ میرا قصور ہے ۔آخر مولوی نے کہا آپ نماز نہیں پڑھتے۔ اللہ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا ۔اس پر داد اصاحب کو جوش آگیا اور کہا’’ تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے کہاں ڈالے گا؟ ۔میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بد ظن نہیں ہوں میری امید وسیع ہے ۔خدا فرماتا ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ (الزّمر:۵۴) تم مایوس ہو گے۔ میں مایوس نہیں ہوں ۔ اتنی بے اعتقادی میں تو نہیں کرتا ۔‘‘ پھر کہا ’’ا سوقت میری عمر ۷۵سال کی ہے ۔آج تک خدا نے میری پیٹھ نہیں لگنے دی تو کیا اب وہ مجھے دوزخ میں ڈال دیگا ۔‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیٹھ لگنا پنجابی کا محاورہ ہے جس کے معنی دشمن کے مقابلہ میں ذلیل و رُسوا ہو نے کے ہیں۔ ورنہ ویسے مصائب تو دادا صاحب پر بہت آئے ہیں ۔
{ 225} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ جب سے تمہاری دادی فوت ہوئیں تمہارے دادا نے اندر زنانہ میں آنا چھوڑ دیا تھا ۔ دن میں صرف ایک دفعہ تمہاری پھوپھی کو ملنے آتے تھے اور پھوپھی کے فوت ہو نے کے بعد تو بالکل نہیں آتے تھے ۔باہر مردا نے میں رہتے تھے ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت حضرت والدہ صا حبہ نے کسی اور سے سنی ہو گی کیونکہ یہ واقعہ حضرت اماں جان کے قادیان تشریف لانے سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔)
{ 226} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ داد اصاحب نے طب کا علم حافظ روح اللہ صاحب باغبانپورہ لاہور سے سیکھا تھا ۔اسکے بعد دہلی جاکر تکمیل کی تھی ۔
{ 227} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروںمیں رہتی تھی ۔ اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں ۔میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب کی کتابیں وغیرہ چوری نکال کر لے جایا کرتا تھا ۔چنانچہ والدصاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے۔
{228 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہو تی ہے ۔غالباً نوجوانی کا کلام ہے ۔حضرت صاحب کے اپنے خط میں ہے جسے میں پہچانتا ہوں۔ بعض بعض شعر بطور نمونہ درج ذیل ہیں ۔ ؎
عشق کا روگ ہے کیاپوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا مرے دل ! ابھی کچھ پائو گے
تم بھی کہتے تھے کہ اُلفت میں مزا ہوتا ہے
ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے
مفت بیٹھے بٹھا ئے غم میں پڑے
اسکے جانے سے صبر دل سے گیا
ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے
سبب کوئی خداوندا بنا دے
کسی صور ت سے وہ صورت دکھا دے
کرم فرما کے آ او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہوکر
دلا اک بار شوروغل مچادے
نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پا کی
سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی
مرے بت! اب سے پردہ میں رہوتم
کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی
نہیں منظور تھی گر تم کو اُلفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
مری دلسوزیوں سے بے خبر ہو
مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اسکو دوں یا ہوش یا جاں
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
کوئی راضی ہو یا ناراض ہو وے
رضامندی خداکی مدعا کر
اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے مگر پہلا ندارد۔بعض اشعار نظر ثانی کیلئے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا ہے ۔
{ 229} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ تایا صاحب کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی اور کئی دن تک جشن رہا تھا اور ۲۲طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے مگر والد صاحب کی شادی نہایت سادہ ہو ئی تھی ۔اور کسی قسم کی خلاف شریعت رسوم نہیں ہوئیں ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ یہ بھی تصرف الہٰی تھا ورنہ دادا صاحب کو دونوں بیٹے ایک سے تھے ۔(نیز یہ طائفے ان لوگوں کی وجہ سے آئے ہوں گے جو ایسے تماشوں میں دلچسپی رکھتے ہیں ورنہ خود دادا صاحب کو ایسی باتوں میں شغف نہیں تھا۔)
{ 230} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ہماری دادی صاحبہ بڑی مہمان نواز ۔سخی اور غریب پرور تھیں ۔
{ 231} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ والد صاحب سیشن عدالت میں اسیسر مقرر ہوئے تھے مگر آپ نے انکار کردیا۔ (اس جگہ دیکھو روایت نمبر ۳۱۳)
{ 232} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ آخری عمر میں دادا صاحب نے ایک مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کیا اورا سکے لئے موجودہ بڑی مسجد (یعنی مسجد اقصیٰ) کی جگہ کو پسند کیا اس جگہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی ۔جب یہ جگہ نیلام ہو نے لگی تو داد اصاحب نے اس کی بولی دی مگر دوسری طرف دوسرے باشندگان قصبہ نے بھی بولی دینی شروع کی اور اس طرح قیمت بہت چڑھ گئی ۔مگر دادا صاحب نے بھی پختہ قصد کر لیا تھا کہ میں اس جگہ میں ضرور مسجد بنائوں گا ۔ خواہ مجھے اپنی کچھ جائداد فروخت کر نی پڑے ۔چنانچہ سات سو روپیہ میں یہ جگہ خریدی اور اس پر مسجد بنوائی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت کے لحاظ سے اس جگہ کی قیمت چند گنتی کے روپے سے زیادہ نہ تھی مگر مقابلہ سے بڑھ گئی ۔
{ 233} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری تائی کے سارے گھر میں صرف مرزا علی شیر کی ماں یعنی مرزا سلطان احمد کی نانی جو حضر ت صاحب کی ممانی تھی حضرت صاحب سے محبت رکھتی تھی اور ان کی وجہ سے مجھے بھی اچھا سمجھتی تھی باقی سب مخالف ہوگئے تھے ۔میں جب اُس طرف جاتی تھی تو وہ مجھے بڑی محبت سے ملتی تھی اور کہا کر تی تھی ۔ہائے افسوس !یہ لوگ اسے ( یعنی حضرت صاحب کو ) کیوں بد دعائیں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں ۔اسے میری چراغ بی بی نے کتنی منتوں سے تر س ترس کر پالا تھا اور کتنی محبت اور محنت سے پرورش کی تھی ۔والد ہ صاحبہ کہتی ہیں کہ وہ بہت بوڑھی ہو گئی تھی اور وقت گزارنے کے لئے چرخہ کا تتی رہتی تھی ۔حضرت صاحب کو بھی اس سے محبت تھی اور والد ہ صاحبہ نے بیان کیا کہ تمہاری تائی کہتی ہیں کہ حضرت صاحب کی ممانی کا نام بھی تمہاری دادی کی طرح چراغ بی بی تھا ۔
{ 234} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب نے کہ اُن سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ جو عورت والد صاحب کو کھانا دینے جاتی تھی وہ بعض اوقات واپس آکر کہتی تھی ’’میاں اُن کو ( یعنی حضرت صاحب کو ) کیا ہوش ہے ۔یا کتابیں ہیں اور یا وہ ہیں ‘‘۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے تمہید میں یہ لکھا تھا کہ میں بغرض سہولت تمام روایات صرف اردو زبان میں بیان کرو ں گا ۔خواہ وہ کسی زبان میں کہی گئی ہوں ۔سو جاننا چاہیے کہ فقرہ مندرجہ بالا بھی دراصل پنجابی میں کہا گیا تھا ۔ یہ صرف بطور مثال کے عرض کیا گیا ہے نیز ایک اور عرض بھی ضروری ہے کہ جہاں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ ’’ بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے ‘‘ اس سے مطلب یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو میں نے کو ئی معیّن سوال دے کر مرزا صاحب موصوف کے پاس بھیجا اور اس کا جو جواب مرزاصاحب کی طرف سے دیا گیا وہ نقل کیا گیا اور جہاں مولوی صاحب کی طرف روایت کو منسوب کیا ہے وہاں میرے کسی معیّن سوال کا جواب نہیں بلکہ جو مرزا صاحب نے دوران گفتگو میں مولوی صاحب کو کوئی بات بتائی وہ نقل کی گئی ہے ۔
{ 235} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ہیضہ پھوٹا اور چوہڑوں کے محلہ میں کیس ہونے شروع ہوئے ۔ داد اصاحب اُس وقت بٹالہ میں تھے یہ خبر سن کر قادیان آگئے اور چوہڑوں کے محلہ کے پاس آکر ٹھہر گئے اور چوہڑوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ۔اور ان کو تسلی دی اور پھر حکم دیا کہ قادیان کے عطار آملہ ۔کشٹے ۔گُڑ (یعنی قند سیاہ ) لیتے آویں اور پھر اُن کو مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں ڈلوا دیا اور کہا کہ جو چاہے گڑوالا پیئے اور جو چاہے نمک والا پیئے ۔کہتے ہیں کہ دوسرے دن مرض کا نشان مٹ گیا ۔
{ 236} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا ۔ ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی ۔ سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہوگیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا ۔ اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوئوں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ اردگرد د یوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا ۔بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا ۔دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اسکو جلاد یا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی ۔
ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات مَیں ایک مکان کی دوسری منزل پر سو یا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے ۔رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی ۔میں نے آدمیوں کو جگا یا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ کوئی چوہاہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے۔تھوڑی دیرکے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی ۔پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہا ں سے نکلا۔ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اوروہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور سب بچ گئے ۔
ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مرا ہواپایا گیا اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا ۔مگر ہر دو بار خدا نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا ۔ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی مجھے خبر بھی نہ ہوئی ۔ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلایا اور آگ کو بجھا دیا ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ یہ باتیں حضرت صاحب کی ڈائری سے لی گئی ہیں اور بچھو اور آگ لگنے کا واقعہ ضروری نہیں کہ سیالکوٹ سے متعلق ہو ۔
{ 237} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۴۸پر حضر ت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں ’’ اس احقر نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء میں اسی زمانہ کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا ۔جناب خاتم الانبیاء ﷺ کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خودا س عاجز کی تصنیف معلو م ہوتی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے ،جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہو نے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کمال استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے ۔غرض آنحضرت ﷺ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی ۔اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا ۔مگر بقدر تربوز تھا ۔آنحضرت ؐ نے جب اس میوہ کو تقسیم کر نے کیلئے قاش قاش کر نا چاہا توا س قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے بھر گیا ۔تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضر ت ؐ کے معجزے سے زند ہ ہو کراس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت ؐ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت ؐ بڑے جاہ و جلال اور بڑے حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوہ فرما رہے تھے۔پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺنے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تامیں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہو ا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیںاور و ہ ایک قاش میںنے اس نئے زندہ کو دے دی۔اوراس نے وہیں کھا لی پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت ؐ کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اور اسلام کی تازگی اور ترقی کی اشارت تھی تب اسی نو رکا مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی ۔‘‘
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس رؤیا میں یہ اشارہ تھا کہ آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدمتِ دین کا کوئی ایسا عظیم الشان کام لیا جائے گا کہ جس سے اسلام میں جو مردہ کی طرح ہو رہا ہے پھر زندگی کی روح عود کر آئے گی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ رؤیا غالباً ۱۸۶۴ء سے بھی پہلے کاہو گا۔ کیونکہ ۱۸۶۴ء میں تو آپ سیالکوٹ میں ملازم ہو چکے تھے۔)
{ 238} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۲۰پر لکھتے ہیں کہ ’’ اس برکت کے بارے میں ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میںہوا تھا جس کو اس جگہ لکھنا مناسب ہے اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعیدمحمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے ۔جب نئے نئے مولوی ہو کر بٹالہ میں آئے اور بٹالیو ں کو ان کے خیالات گراں گذرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس نا چیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اس کے کہنے کہانے پر یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو مع ان کے والدصاحب کے مسجد میں پایا ۔پھر خلاصہ یہ کہ اس ا حقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سُن کر معلوم کر لیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا ۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترکِ بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے پھر بعد اس کے کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے ۔جو گھوڑوں پر سوار تھے ۔‘‘
{ 239} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میری نانی اماں صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب تمہارے نانا کی بدلی کا ہنووان میں ہوئی تھی ۔میں بیمار ہو گئی تو تمہارے نانا مجھے ڈولی میں بٹھلا کر قادیان تمہارے دادا کے پاس علاج کے لئے لائے تھے۔اور اسی دن میں واپس چلی گئی تھی ۔تمہارے دادا نے میری نبض دیکھ کر نسخہ لکھ دیا تھا ۔اور تمہارے نانا کو یہاں اور ٹھہرنے کے لئے کہا تھا ۔مگر ہم نہیں ٹھہر سکے ۔کیونکہ پیچھے تمہاری اماں کو اکیلا چھوڑ آئے تھے۔نیز نانی امّاں نے بیان کیا کہ جس وقت میں گھر میں آئی تھی میں نے حضرت صاحب کو پیٹھ کی طرف سے دیکھا تھا کہ ایک کمرے میں الگ بیٹھے ہوئے رِحل پر قرآن شریف رکھ کر پڑھ رہے تھے ۔میں نے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے ۔قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے ۔ نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ مجھے اپنی امّاں اور ابّا کا مجھے اکیلا چھوڑ کر قادیان آنے کے متعلق صرف اتنا یاد ہے کہ میں شا م کے قریب بہت روئی چلائی تھی کہ اتنے میں ابّا گھوڑا بھگاتے ہوئے گھر میں پہنچ گئے اورمجھے کہا کہ ہم آگئے ہیں۔
{ 240} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو حضرت صاحب کی ساری عمر جہاد کی صف اوّل میں ہی گذری ہے ۔لیکن با قاعدہ مناظرے آپ نے صرف پانچ کئے ہیں ۔
اوّل۔ ماسٹر مرلی دھرآریہ کے ساتھ بمقام ہو شیار پو ر مارچ ۱۸۸۶ء میں۔اس کا ذکر آپ نے سر مۂ چشم آریہ میں کیا ہے ۔
دوسرے ۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ بمقام لدھیانہ ،جولائی ۱۸۹۱ء میں۔ اس کی کیفیت رسالہ الحق لدھیانہ میں چھپ چکی ہے ۔
تیسرے ۔مولوی محمد بشیر بھوپالوی کے ساتھ بمقام دہلی اکتوبر ۱۸۹۱ء میں ۔اس کی کیفیت رسالہ الحق دہلی میں چھپ چکی ہے ۔
چوتھے ۔ مولوی عبد الحکیم کلا نوری کے ساتھ بمقام لاہور جنوری و فروری۱۸۹۲ء میں۔ اس کی روئداد شائع نہیں ہوئی صرف حضرت صاحب کے اشتہار مورخہ ۳؍فروری ۱۸۹۲ء میں اس کا مختصر ذکر پایا جاتا ہے ۔
پانچویں ۔ڈپٹی عبد اللہ آتھم مسیحی کے ساتھ بمقام امرتسر مئی و جون ۱۸۹۳ء میں۔ اس کی کیفیت جنگ مقدس میں شائع ہو چکی ہے ۔
ان کے علاوہ دو اور جگہ مباحثہ کی صورت پیدا ہو کر رہ گئی ۔اوّل مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ بمقام بٹالہ ۶۹یا۱۸۶۸ء میں ۔ اس کا ذکر حضرت صاحب نے براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۲۰پر کیا ہے ۔دوسرے۔مولوی سید نذیر حسین صاحب شیخ الکل دہلوی کے ساتھ بمقام جامع مسجد دہلی بتاریخ ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء ۔اس کا ذکر حضرت کے اشتہارات میں ہے ۔