آؤ لوگو سنو کہانی۔ ایک تھا مرزا قادیانی
نام تو مردوں والا تھا حقیقت میں تھا زنانی
ہفتے بعد نہاتا تھی باپ سے جوتے کھاتا تھی
حالت مردمی کالعدم اور بیوی سے گھبراتا تھی
انسان بھی الٹے سیدھے تھے نام بھی الٹے سیدھے تھے
لُچھو پھجّاں اور گھسیٹی ایک تھا اسکا ٹیچی ٹیچی
کام بھی الٹے سیدھے تھے الہام بھی الٹے سیدھے تھے
کنجروں سے پیسے لیتا تھی سینمے میں بھی جاتا تھی
حرکتوں سے جب باز نہ آتی شیطان کے ہتھے چڑھتا تھی
پھر رجولیت کروا کے اس کے بچے پیدا کرتا تھی
سنو بات اس کمینے کی حاملہ دس مہینے کی
کوئی مجھ کو دس دو لوگو بندہ تھی یا کھوتا تھی
کنجروں پھر سے یاریاں تھیں اور 7200 بیماریاں تھی
اور دن میں سو سو بار یہ موتر پیدا کرتا تھی
بچپن کے زمانے میں یہ چڑیاں پکڑا کرتا تھی
بارش کے گندے پانی میں غوطے شوطے کھاتا تھی
چابیاں اپنے گھر یہ ناڑے سے باندھا کرتا تھی
جب گھر کو واپس آتا تھی تو چھن چھن چھن چھن کرتا تھی
گھر کے پیسے چوری کرکے منشی گیری کرتا تھی
کبھی کبھی یہ من چلی ٹانک وائن بھی پیتا تھی
پٹھانوں سے گھبراتا تھی اور جوتے الٹے پاتا تھی
یہ بیگم اپنی سر عام لوگوں کو دکھلاتا تھی
بٹن الٹے لگاتا تھی غرارے شوق سے پاتا تھی
میک اپ شیک اپ کرکے یہ یلاش کے آگے جاتا تھی
ایک ممدی بیگم تھی دل جاں سے اس پہ مرتا تھی
ہائے اس سے شادی ہوجائے دن رات دعائیں کرتا تھی
جب آگے سے چھتر پڑتے تو پیشن گوئیاں کرتا تھی
2 تین سال میں مرنے والا تیس، تیس نا مرتا تھی
سود کے پیسے کھاتا تھی روزے بھی تڑواتا تھی
بیمار ہوکے اپنے اوپر گندا کیچڑ پاتا تھی
ایک آنکھ سے اندھا تھی اور دوجی آنکھ سے کانا تھی
دو دو جرابیں پاتا تھی اور چوزوں سے گھبراتا تھی
بیگم کو کنجر کہتا تھی امت کو بندر کہتا تھی
کہنے کو یہ مرزا تھی پر پورا ٹٹی خانہ تھی
نام تو مردوں والا تھا حقیقت میں تھا زنانی
ہفتے بعد نہاتا تھی باپ سے جوتے کھاتا تھی
حالت مردمی کالعدم اور بیوی سے گھبراتا تھی
انسان بھی الٹے سیدھے تھے نام بھی الٹے سیدھے تھے
لُچھو پھجّاں اور گھسیٹی ایک تھا اسکا ٹیچی ٹیچی
کام بھی الٹے سیدھے تھے الہام بھی الٹے سیدھے تھے
کنجروں سے پیسے لیتا تھی سینمے میں بھی جاتا تھی
حرکتوں سے جب باز نہ آتی شیطان کے ہتھے چڑھتا تھی
پھر رجولیت کروا کے اس کے بچے پیدا کرتا تھی
سنو بات اس کمینے کی حاملہ دس مہینے کی
کوئی مجھ کو دس دو لوگو بندہ تھی یا کھوتا تھی
کنجروں پھر سے یاریاں تھیں اور 7200 بیماریاں تھی
اور دن میں سو سو بار یہ موتر پیدا کرتا تھی
بچپن کے زمانے میں یہ چڑیاں پکڑا کرتا تھی
بارش کے گندے پانی میں غوطے شوطے کھاتا تھی
چابیاں اپنے گھر یہ ناڑے سے باندھا کرتا تھی
جب گھر کو واپس آتا تھی تو چھن چھن چھن چھن کرتا تھی
گھر کے پیسے چوری کرکے منشی گیری کرتا تھی
کبھی کبھی یہ من چلی ٹانک وائن بھی پیتا تھی
پٹھانوں سے گھبراتا تھی اور جوتے الٹے پاتا تھی
یہ بیگم اپنی سر عام لوگوں کو دکھلاتا تھی
بٹن الٹے لگاتا تھی غرارے شوق سے پاتا تھی
میک اپ شیک اپ کرکے یہ یلاش کے آگے جاتا تھی
ایک ممدی بیگم تھی دل جاں سے اس پہ مرتا تھی
ہائے اس سے شادی ہوجائے دن رات دعائیں کرتا تھی
جب آگے سے چھتر پڑتے تو پیشن گوئیاں کرتا تھی
2 تین سال میں مرنے والا تیس، تیس نا مرتا تھی
سود کے پیسے کھاتا تھی روزے بھی تڑواتا تھی
بیمار ہوکے اپنے اوپر گندا کیچڑ پاتا تھی
ایک آنکھ سے اندھا تھی اور دوجی آنکھ سے کانا تھی
دو دو جرابیں پاتا تھی اور چوزوں سے گھبراتا تھی
بیگم کو کنجر کہتا تھی امت کو بندر کہتا تھی
کہنے کو یہ مرزا تھی پر پورا ٹٹی خانہ تھی