مرزا قادیانی کا باپ بے نمازی تھا
بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک بغدادی مولوی آیا۔ دادا صاحب نے اس کی بڑی خاطر و مدارت کی۔ اس مولوی نے دادا صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب! آپ نماز نہیں پڑھتے؟ دادا صاحب نے اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں بے شک میں میری غلطی ہے۔ مولوی صاحب نے پھر بار بار اصرار کے ساتھ کہا اور ہر دفعہ دادا صاحب یہی کہتے گئے کہ میرا قصور ہے۔ آخر مولوی نے کہا آپ نماز نہیں پڑھتے، اللہ آپ کو دوزخ میں ڈالے گا۔ اس پر دادا صاحب کو جوش آ گیا اور کہا ” تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے کہاں ڈالے گا میں اللہ تعالی پر ایسا بدظن نہیں ہوں میری امید وسیع ہے خدا فرماتا ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رّحْمَۃِ اللّہ۔ تم مایوس ہو گے میں مایوس نہیں ہوں، اتنی بے اعتقادی میں تو نہیں کرتا“ پھر کہا ” اس وقت میری عمر 75 سال کی ہے۔ آج تک خدا نے میری پیٹھ نہیں لگنے دی تو کیا اب وہ مجھے دوزخ میں ڈال دیگا۔“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیٹھ لگنا پنجابی کا محاورہ ہے جس کے معنی دشمن کے مقابلے میں ذلیل و رسوا ہونا ہے۔ ورنہ ویسے مصائب تو دادا صاحب پر بہت آئے ہیں۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول، روایت نمبر 224 صفحہ نمبر 212)
اور ہڈی ٹوٹ گئی
بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسط مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ والد صاحب اپنے چوبارے کی کھڑکی سے گر گئے اور دائیں بازو پر چوٹ آئی چنانچہ آخری عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اپ کھڑکی سے اترنے لگے تھے سامنے سٹول رکھا تھا وہ الٹ گیا اور آپ گر گئے اور دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور یہ ہاتھ آخر عمر تک کمزور رہا۔ اس ہاتھ سے اپ لقمہ منہ تک لے جا سکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیں اٹھا سکتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے سہارے سے سنبھالنا پڑتا تھا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول رویت نمبر 187 صفحہ 198)
انگلی کاٹ ڈالی
خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزہ کے ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اور اس وقت گھر میں کوئی اور اس کام کو کرنے والا نا تھا اس لئے حضرت صاحب اس کو ہاتھ میں لے کر خود ذبح کرنے لگے مگر بجائے چوزہ کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی انگلی کاٹ ڈالی، جس سے بہت خون بہہ گیا اور آپ توبہ توبہ کرتے ہوئے چوزہ کو چھوڑ کر اٹھ گئے۔ پھر وہ چوزہ کسی اور نے ذبح کیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جب کوئی چوٹ وغیرہ اچانک لگتی تو جلدی جلدی توبہ توبہ کے الفاظ منہ سے فرمانے لگ جاتے تھے۔۔۔الخ(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم روایت نمبر 307 صفحہ 285)
ایک لطیفہ
بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کہ ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھر ا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ گھر میں میٹھی روٹیاں پکیں کیونکہ حضرت صاحب کو میٹھی روٹی پسند تھی جب حضرت صاحب کھانے لگے تو آپ نے اس کا ذائقہ بدلہ ہوا پایا۔ مگر آپ نے اس کا خیال نہ کیا کچھ اور کھانے پر حضرت صاحب نے کڑواہٹ محسوس کی اور والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ روٹی کڑوی معلوم ہوتی ہے؟ والدہ صاحبہ نے پکانے والی سے پوچھا تو اس نے کہا میں تو میٹھا ڈالا تھا والدہ صاحبہ نے پوچھا کہ کہاں سے لے کر ڈالا تھا؟ وہ برتن لاؤ۔ وہ عورت ایک ٹین کا ڈبہ اٹھا لائی۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ کونین کا ڈبہ تھا اور اس عورت نے جہالت سے بجائے میٹھے کے روٹیوں میں کونین ڈال دی تھی۔ اس دن گھر یہ بھی ایک لطیفہ ہو گیا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 225 روایت نمبر 244)
ماں کا نافرمان مرزا قادیانی
بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو۔ حضرت نے کہا نہیں۔ یہ میں لیتا انہوں نے کوئی اور چیز بتائی۔ حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا۔ وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں۔ سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھا لو۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہو گیا۔ یہ حضرت صاحب کے پچپن کا واقع ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے یہ واقع سنا کر کہا کہ جس وقت اس عورت نے مجھے یہ بات سنائی تھی اس وقت حضرت صاحب بھی پاس مگر آپ خاموش رہے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 225-226 روایت نمبر 245)
مٹی اور گڑ کے ڈھیلے
آپ کو شیرینی سے بہت پیار تھا اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگی ہوئی تھی۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے اور اسی جیب میں گڑ کے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے۔(مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ طبع چہارم صفحہ 67 مرتبہ معراج الدین عمر قادیانی)
سندھی، دسوندی، چڑا مار مسیح
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کے ساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایمہ گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تو سرکنڈے سے ذبح کر لیا کرتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا سندھی ہمارے گاؤں چڑیاں پکڑا کرتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نہ سمجھ سکی کہ سندھی سے کون مراد ہے۔ آخر معلوم ہوا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ دستور ہے کہ کسی منت ماننے کے نتیجے میں بعض لوگ خصوصاً عورتیں اپنے کسی بچے کا عرف سندھی رکھ دیتے ہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے آپ کی والدہ اور بعض عورتیں آپ کو بچپن میں کبھی اس لفظ سے پکار لیتی تھیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ سندھی غالباً دسوندی یا دسبندھی سے بگڑا ہوا ہے جو ایسے بچے کو کہتے ہیں جس پر کسی منت کے نتیجے میں دس دفعہ کوئی چیز باندھی جاوے اور بعض منت کوئی نہیں ہوتی بلکہ یونہی پیار سے عورتیں اپنے کسی بچے پر یہ رسم ادا کر کے اسے سندھی پکارنے لگ جاتی ہیں۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 41 روایت نمبر 51)
پینشن چور مسیح
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود(اس کی نظر میں مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) تمہارے دادا کی پینشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پینشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور اِدھر اُدھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت صاحب اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے ۔ اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ ہر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ ملازمت کی۔ پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے داد نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آ جاؤ جس پر حضرت صاحب فوراً روانہ ہو گئے۔۔۔۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین اِدھر اُدھر پھراتا رہا۔ آخر اس نے چائے کے ایک قافلہ پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا مگر مقدمہ میں رہا ہو گیا۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہماری(”خدمت خاص“ کی) وجہ سے ہی اسے قید سے بچا لیا ورنہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا، ہمارے مخالف یہی کہتے کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء تا 1868ء کا واقع ہے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 38-39 روایت نمبر 49)
مختاری کے امتحان میں فیل
چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس لیے واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔ اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 142 روایت نمبر 150)
غرارہ
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) اوائل میں غرارے استعمال فرمایا کرتے تھے۔ پھر میں نے کہہ کر وہ ترک کروا دیئے۔ اس کے بعد آپ معمولی پاجامے استعمال کرنے لگے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ غرارہ بہت کھلے پائنچے کے پاجامے کو کہتے ہیں۔(پہلے اسکا ہندوستان میں بہت رواج تھا اب بہت کم ہو گیا ہے)۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 59-60 رویت نمبر 82)
مرزا کا کلمہ
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول(حکیم نور الدین) فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے۔ مرزا کا کلمہ یہ ہے کہ ”میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔“(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 824 روایت نمبر 974)
قادیانی تیمم
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کو اگر تیمم کرنا ہوتا تو بسا اوقات تکیہ یا لحاف پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کرتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ تکیہ یا لحاف میں سے جو گرد نکلتی ہے، وہ تیمم کی غرض سے کافی ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی تکیہ لحاف بالکل نیا ہو اور اس میں کوئی گر نہ ہو تو پھر اس سے تیمم جائز نہ ہو گا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 774-775 رویت نمبر 878)
قادیانی مسیح کے اعلیٰ اخلاق کی ایک مثال
میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھے سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) عموماً گرم پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے اور ٹھنڈے پانی کو استعمال نہ کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے کسی خادمہ سے فرمایا کہ آپ کے لئے پاخانہ میں لوٹا رکھ دے۔ اس نے غلطی سے تیز گرم پانی کا لوٹا رکھ دیا۔ جب حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) فارغ ہو کر باہر تشریف لائے تو دریافت فرمایا کہ لوٹا کس نے رکھا تھا۔ جب بتایا گیا کہ فلاں خادمہ نے رکھا تھا تو آپ نے اُسے بلوایا اور اُسے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا۔ اور پھر اس کے ہاتھ پر آپ نے لوٹے کا بچا ہوا پانی بہا دیا تاکہ اسے احساس ہو کہ یہ پانی اتنا گرم ہے کہ طہارت میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کے سوا آپ نے اسے کچھ نہیں کہا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 758 روایت نمبر 847)
عورتوں کا امام
باہر مردوں میں نماز باجماعت ہونے کے علاوہ آخری سالوں میں حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) ایک بہت بڑے عرصہ تک اندر عورتوں میں پیش امام ہو کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک لمبے عرصہ تک جمع کراتے رہے۔(ذکر حبیب صفحہ 65 از مفتی محمد صادق قادیانی)
زنانہ نماز
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کو میں نے بار ہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت ام المومنین(لعنت اللہ علیھا) کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔ حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہیے۔ میں نے حضرت ام المومنین(لعنت اللہ علیھا) سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکر آ جایا کرتا ہے اس لیے تم میرے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیا کرو۔ (سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 636-637 روایت نمبر 696)
یعنی کہ؎
دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
نماز میں فارسی نظم
ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز پیر سراج الحق صاحب نے پڑھائی۔ حضور(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) بھی اس نماز میں شامل تھے۔ تیسری رکعت میں رکوع کے بعد انہوں نے بجائے مشہور دعاؤں کے حضور(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کی ایک فارسی نظم پڑھی جس کا یہ مصرعہ ہے
”اے خدا اے چارہ آزارما“
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فارسی نظم اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جو روحانیت سے پُر ہے۔۔۔الخ(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 644 روایت نمبر 707)
(زہن میں رہے مرزا قادیانی نے اس پر سکوت کیا یعنی اصلاح نہیں کی کہ نظم نہیں پڑھنی چاہیے تھی)
نماز میں پان
ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی، ایسی کہ دم نہ آتا تھا۔ البتہ پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی تاکہ آرام سے پڑھ سکیں۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 605-606 روایت نمبر 638)
بیٹے کی خاطر نماز جمعہ نہیں پڑھی
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرض الموت کے ایام میں ایک جمعہ کے دن حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) حسب معمول کپڑے بدل کر عصا ہاتھ میں لے کر جماعہ مسجد کو جانے کے واسطے تیار ہوئے۔ جب صاحبزادہ کی چار پائی کے پاس سے گذرتے ہوئے ذرا کھڑے ہو گئے تو صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کا دامن پکڑا لیا اور اپنی چارپائی پر بیٹھا دیا اور اٹھنے نہ دیا۔ صاحبزادہ صاحب کی خاطر حضور بیٹھے رہے اور جب دیکھا کہ بچہ اٹھنے نہیں دیتا اور جمعہ کے وقت میں دیر ہوتی ہے تو حضور نے کہلا بھیجا کہ جمعہ پڑھ لیں اور حضور کا انتظار نہ کریں۔ (ذکر حبیب صفحہ 172 از مفتی محمد صادق قادیانی)
روزہ توڑ دیا
ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دورہ ہوا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فوراً روزہ توڑ دیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 637 روایت نمبر 697)
روزے نہیں رکھے
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کو دورے پڑھنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا اس لئے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑھے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرہواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا کرتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداء دوروں کے زمانے میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 59 روایت نمبر 81)
دوسروں کے روزے بھی تڑوا دیئے
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لیے مسجد میں تشریف لائے۔ ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپ نے فرمایا سفر میں روزہ ٹھیک نہیں، اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان کو ناشتہ کروا کے ان کے روزے تڑوا دیئے۔ (سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد دوم صفحہ 344-345 روایت نمبر 381)
بے روز مسیح موعود کا احترام رمضان
اس موخر الذکر سفر میں حضور نے لدھیانہ میں ایک لیکچر دیا جس میں ہندو، عیسائی، مسلمان اور بڑے بڑے معزز لوگ موجود تھے۔ تین گھنٹے حضور اقدس نے تقریر فرمائی۔ حالانکہ بوجہ سفر دہلی کچھ طبیعت بھی درست نہ تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا اس لیے حضور اقدس نے بوجہ سفر روزہ نہ رکھا تھا۔ اب حضور اقدس نے تین گھنٹہ تقریر جو فرمائی تو طبیعت پر ضعف سا طاری ہوا۔ مولوی محمد احسن صاحب نے اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا جس پر نا واقف مسلمانوں نے اعتراضاً کہا کہ مرزا رمضان میں دودھ پیتا ہے اور شور کرنا چاہا۔ لیکن چونکہ پولیس کا انتظام اچھا تھا، فوراً یہ شور کرنے والے مسلمان وہاں سے نکال دیے گئے۔ (سیرت المہدی 1939 ایڈیشن جلد سوم صفحہ 272)
آپ لیکچر گاہ میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا۔ لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقع نہ ملا جس پر لوگوں کو بھڑکائیں۔ پندرہ منٹ آپ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپ کے حلق میں تکلیف تھی اور ایسے وقت میں اگر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن اس نے آپ کی تکلف کے خیال سے پیش کر ہی دی۔ اس پر آپ نے بھی اس میں سے ایک گھونٹ پی لیا۔ لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا۔ مولویوں نے شور مچا دیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا۔(سیرت مسیح موعود صفحہ 55-56 از مرزا بشیر الدین محمود)
حج، اعتکاف، ذکوۃ
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) نے حج نہیں کیا اور نہ اعتکاف کیا اور ذکوۃ نہیں دی ، تسبیح نہیں رکھی ، میرے سامنے ضب یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا ۔ صدقہ نہیں کھایا۔ ذکوۃ نہیں کھائی۔ صرف نذرانہ اور ہدیہ قبول فرماتے تھے۔ پِیروں کی طرح مصلی اور خرقہ نہیں رکھا۔ رائج الوقت درود و وظائف مثلاً پنچ سورہ۔ دعائے گنج العرش۔ درود تاج۔ حزب البحر۔ دعائے سریانی وغیرہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔اور ذکوۃ اس لیے نہیں دی کے آپ کبھی صاحبِ نصاب نہیں ہوئے۔ البتہ حضرت والدہ صاحبہ زیور پر ذکوۃ دیتی رہی ہیں اور تسبیح اور رسمی وظائف کے آپ قائل ہی نہیں تھے۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد سوم صفحہ 623-624 روایت نمبر 672)
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی لعنت اللہ علیہ) کا اعتکاف بیٹھے نہیں دیکھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا۔(سیرت المہدی تین جلدوں والا ایڈیشن۔ جلد اول صفحہ 62 روایت نمبر 86)