قولہ:۔صفحہ81۔ایضادیکھو صفحہ 34سطر7۔
اذاوحی اللہ عزوجل الیٰ عیسیٰ انی قداخرجت عباد الی لایدان لاحد بقتالھم،ایضا۔
دیکھو،صفحہ 38،سطر8
،ویبعث اللہ فی ایام یاجوج وماجوج فیھلکم اللہ تعالیٰ ببرکتہ دعائہ
۔اس سے ثابت ہوا کہ ہلاکت یاجوج ماجوج کی مسیح موعود کی برکات ادعیہ سے ہوگی نہ حرب وجہاد سے۔
اقول:۔یہ توباحادیث متواترہ ،جن میں علامات وخصوصیات مسیح موعود کےمذکور ہیں،ثابت ہوگیا کہ بغیر اس نبی مریم کے بیٹے کوئی اور شخص مسیح موعود نہیں تو یاجوج ماجوج کا بغیر مقاتلہ محض اس کی دعا سےہلاک ہونا ہم کو کیا ضرر اور آپ کو کیا فائدہ دیتا ہے ۔اور بالخصوص یاجوج ماجوج کا دعا سے ہلاک ہونا اس پر دلیل ہے کہ باقی مخالفین حرب وقتال سے ہلاک ہوں گے،ورنہ خصوصیت یاجوج ماجوج کی دعا کے ساتھ بے وجہ اورلغو ہوجاتی ہے۔اور نیز اجتماع دعا اور جنگ ظاہری کا ان کی ہلاکت کےلیے مستبعد نہیں،
قولہ:۔صفحہ 81۔ضمیرانہ کا مرجع جو اس قول ابن عباس میں نزول عیسیٰ قرار دیا گیا ہے وہ مبنی ہےصرف اس خیال غلط پر کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے بجسدہ العنصری نازل ہوں گے،
اقول:۔ ؎
ہموں نقش دروں بیروں برآمد
اس عبارت سے امروہی صاحب کااقرار پایا گیا کہ
1۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مذہب بھی نزول عیسیٰ بجسدہ العنصری ہے۔
2۔دوسرا یہ کہ ابن عباس کا یہ خیال غلط ہے۔
ناظرین کو پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ آنحضرتﷺ معہ صحابہ کرام وآئمہ عظام ومحدثین وفقہاء وکل امت مرحومہ اسی رفع اور نزول بجسدہ العنصری کے قائل ہیں یعنی اسی مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کے،نہ مثیل اس کے،اب امروہی صاحب کے نزدیک ان سب کا خیال غلط ہوا،یہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہےجس کو( قال ابن عباس متوفیک ممیتک )کے وقت افقہ الناس اور حبر ھذا الامۃ کا لقب دیا جاتا تھا، ایھاالناظرون یہ فرقہ منبروں پر کھڑے ہوکر آنسو ٹپکاتے ہوئے شعر ذیل بیت ؎
زعشاق قرآن وپیغمبریم
بدیں آمدیم وبدیں بگذریم
پڑھا کرتے تھے،تاڑنےوالے توتاڑ چکے تھےکہ مخالف حال کہہ رہے ہیں ،کیونکہ لسان حال کا وظیفہ تویہ تھا۔
بیت ؎
زنساخ قرآن وپیغمبریم
بدیں آمدیم وبدیں بگذریم
قولہ:۔صفحہ81۔ورنہ سابق میں کسی جگہ یہ مرجع نہ حکما مذکور ہےاور نہ حقیقۃ
اقول:۔سابق میں عیسیٰ مذکور ہے۔قال اللہ تعالیٰ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ ﴿٥٧﴾وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴿٥٨﴾إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿٥٩﴾وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنكُم مَّلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ ﴿٦٠﴾وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ۔زخرف) ام ھو۔ان ھو۔جعلنہ ۔یہ سب ضمائر عیسیٰ کی طرف راجع ہیں،"وانہ لعلم للساعۃ "میں مرجع عیسیٰ ہی ہے۔مگر من حیث النزول کما فی الجلالین وانہ ای عیسیٰ لعلم للساعۃ ای تعلم بنزولہ ،۔اور یہی مراد ہےابن عباس کی نزول عیسیٰ سے ای عیسیٰ من حیث النزول ۔
قولہ:۔صفحہ 81۔علاوہ یہ کہ نزول عیسیٰ سے قیامت کاعلم حاصل ہوجانا نصوص قطعیہ کےمخالف ہے۔کیونکہ قبل قیامت کے توعلم قیامت کا کسی کو دیا ہی نہیں گیا۔سوائے اللہ تعالیٰ کے، کما قال اللہ تعالیٰ الیہ یرد علم الساعۃ الیضا وعندہ علم الساعۃ،
اقول:۔یہ توباحادیث متواترہ ،جن میں علامات وخصوصیات مسیح موعود کےمذکور ہیں،ثابت ہوگیا کہ بغیر اس نبی مریم کے بیٹے کوئی اور شخص مسیح موعود نہیں تو یاجوج ماجوج کا بغیر مقاتلہ محض اس کی دعا سےہلاک ہونا ہم کو کیا ضرر اور آپ کو کیا فائدہ دیتا ہے ۔اور بالخصوص یاجوج ماجوج کا دعا سے ہلاک ہونا اس پر دلیل ہے کہ باقی مخالفین حرب وقتال سے ہلاک ہوں گے،ورنہ خصوصیت یاجوج ماجوج کی دعا کے ساتھ بے وجہ اورلغو ہوجاتی ہے۔اور نیز اجتماع دعا اور جنگ ظاہری کا ان کی ہلاکت کےلیے مستبعد نہیں،
قولہ:۔صفحہ 81۔ضمیرانہ کا مرجع جو اس قول ابن عباس میں نزول عیسیٰ قرار دیا گیا ہے وہ مبنی ہےصرف اس خیال غلط پر کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے بجسدہ العنصری نازل ہوں گے،
اقول:۔ ؎
ہموں نقش دروں بیروں برآمد
اس عبارت سے امروہی صاحب کااقرار پایا گیا کہ
1۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مذہب بھی نزول عیسیٰ بجسدہ العنصری ہے۔
2۔دوسرا یہ کہ ابن عباس کا یہ خیال غلط ہے۔
ناظرین کو پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ آنحضرتﷺ معہ صحابہ کرام وآئمہ عظام ومحدثین وفقہاء وکل امت مرحومہ اسی رفع اور نزول بجسدہ العنصری کے قائل ہیں یعنی اسی مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کے،نہ مثیل اس کے،اب امروہی صاحب کے نزدیک ان سب کا خیال غلط ہوا،یہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہےجس کو( قال ابن عباس متوفیک ممیتک )کے وقت افقہ الناس اور حبر ھذا الامۃ کا لقب دیا جاتا تھا، ایھاالناظرون یہ فرقہ منبروں پر کھڑے ہوکر آنسو ٹپکاتے ہوئے شعر ذیل بیت ؎
زعشاق قرآن وپیغمبریم
بدیں آمدیم وبدیں بگذریم
پڑھا کرتے تھے،تاڑنےوالے توتاڑ چکے تھےکہ مخالف حال کہہ رہے ہیں ،کیونکہ لسان حال کا وظیفہ تویہ تھا۔
بیت ؎
زنساخ قرآن وپیغمبریم
بدیں آمدیم وبدیں بگذریم
قولہ:۔صفحہ81۔ورنہ سابق میں کسی جگہ یہ مرجع نہ حکما مذکور ہےاور نہ حقیقۃ
اقول:۔سابق میں عیسیٰ مذکور ہے۔قال اللہ تعالیٰ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ ﴿٥٧﴾وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴿٥٨﴾إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿٥٩﴾وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنكُم مَّلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ ﴿٦٠﴾وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ۔زخرف) ام ھو۔ان ھو۔جعلنہ ۔یہ سب ضمائر عیسیٰ کی طرف راجع ہیں،"وانہ لعلم للساعۃ "میں مرجع عیسیٰ ہی ہے۔مگر من حیث النزول کما فی الجلالین وانہ ای عیسیٰ لعلم للساعۃ ای تعلم بنزولہ ،۔اور یہی مراد ہےابن عباس کی نزول عیسیٰ سے ای عیسیٰ من حیث النزول ۔
قولہ:۔صفحہ 81۔علاوہ یہ کہ نزول عیسیٰ سے قیامت کاعلم حاصل ہوجانا نصوص قطعیہ کےمخالف ہے۔کیونکہ قبل قیامت کے توعلم قیامت کا کسی کو دیا ہی نہیں گیا۔سوائے اللہ تعالیٰ کے، کما قال اللہ تعالیٰ الیہ یرد علم الساعۃ الیضا وعندہ علم الساعۃ،