4۔تمام محاورات سے مقولہ توفیٰ اللہ عیسیٰ کا بہ لحاظ دلیل خصوصی علیحدہ ہے ۔اگرنطائر رکھتا ہے توخصوصی کا کیا معنیٰ ہے ۔چنانچہ خلق اللہ آدم الگ ہے۔لکھوکھ ہامحاورات خلق اللہ زیداوعمراوبکراالی غیر النھایۃ سے بدلیل خصوص۔
5۔تمام کتب لغت میں توفی کے معنیٰ قبض وغیرہ بہت سے معانی لکھتے ہیں۔دیکھو لسان العرب وغیرہ ۔ہاں توفی اللہ زیدا کا معنی قبض اللہ روح زید کا معنیٰ مجازی لکھتے ہیں۔جیسا کہ پہلے گذرچکا ہے ۔نیز ارادہ معنیٰ موت کا ہم کو مضر نہیں ۔کیونکہ متوفیک میں وفات کا تحقق نہیں۔اور فلما توفیتنی کا تعلق وفات فیما بعدالنزول سے ہے۔
6۔ابن ماجہ کی حدیث کا ٹکڑا اس طرح ہے ۔ولامھدی الاعیسیٰ جس سے بلحاظ ماقبل وصفی مراد ہے ۔دیکھو ماقبل اس کا ولن تقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس ،اب سب احادیث مہدی فاطمی میں اور اسمیں تطبیق بھی آگئی۔
7۔ابن حزم اورامام مالک کا قول بموت عیسیٰ ان کو اجماعی عقیدہ سے خارج نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ اگرچہ نظر بظاہر آیات توفیی وفات مسیح کے قائل ہیں۔مگر بہ لحاظ بل رفعہ اللہ الیہ اور وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ اور احادیث نزول کی پھر عندالرفع حیات مسیح کے قائل ہیں۔کیونکہ درصورت تسلیم احادیث نزول بلا تاویل ،بغیر اس کے کہ مسیح کہ عندالرفع زندہ مانا جاوے کو ئی چارہ نہیں۔ہاں درصورت انکار احادیث نزول یا تحریف ان کے یا عدم فہم معنی آیت بل رفعہ اللہ الیہ وان من اھل الکتاب الخ بحسب محاورہ قرن اول کے لیے شک عقیدہ اجماعیہ کے برخلاف ہوسکتے ہیں۔لہذا جب تک مخالف ہما راان دونوں بزرگوں کی بہ نسبت احادیث نزول کا انکار اپنی طرح قول بالبروزیاتصریح برفع روحانی متعلق آیت بل رفعہ اللہ الیہ کے ثابت نہ کرے تب تک اقوال مذکورہ سے تمسک مفید نہیں ہوسکتا بلکہ ہمارے پاس دلائل موجود ہیں جو ان کو اہل اجماع سے خارج نہیں ہونے دیتے ۔دیکھو اسی کتاب کواول سے جس مقام پر اجماع کاثبوت دیاگیا ہے۔
8۔کوئی دلیل عقلی۔رفع جسمی علی السماء ونزول جسمی من السماء پر قائم نہیں ۔چنانچہ بحوالہ نووی شرح مسلم میں پہلے گذرچکا ہے کہ کوئی دلیل عقلی وشرعی نزول من السماء کے استحالہ پر نہیں ۔قادیانی مشن کی محض جہالت ہےکہ اس کو محالات عقلیہ سے خیال کرتے ہیں کما مر،اور آیت سبحان ربی ھل کنت الابشررسولا"کا عدم دلالت علی الامتناع کو امروہی صاحب نے بھی مجبور ہوکر اسی کتاب میں تسلیم کرلیا ہے ۔صرف مرزا جی اس جہالت میں اکیلے رہ گئے ہیں۔
9۔اناجیل وغیرہ میں سے بوجہ خود غرضی کے کچھ لیا اور کچھ چھوڑ دیا گیا ہے ۔بلکہ سب تمسکات میں آدھا تیترآدھی بٹیر والی بات ہے۔
10۔آنحضرتﷺ سب احادیث نزول میں اصیل مسیح کے نزول سے اعلام فرماتے رہے ہیں ۔کمامر مرۃ۔
ایھا الناظرون کل احادیث نزول اور حدیث اقول کما قال العبد الصالح اور اثر ابن عباس متوفیک بمعنی ممیتک اور آیت بل رفعہ اللہ الیہ اور مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ(مائدہ ۔75)یہ سب دلائل جن کی تعداد سوسے بھی زیادہ ہے اجماعی عقیدہ کی مثبت ہیں۔
قولہ:۔صفحہ 186سے صفحہ 189تک وہی مضامین ہیں جن کی تردید ہوچکی ہے ۔ہاں صفحہ 189 پر لکھتے ہین"اب فرمائیے کہ الرسل میں حضرت عیسیٰ داخل ہیں یا نہیں بشق ثابی کیا وجہ کہ صحابہ اہل لسان نے اس پر جرح نہیں کیا ۔اور بشق اول مدعا ہمارا ثابت ہے ۔"پھر اس بحث کے اخیر میں لکھا ہے (دیکھو ملل ونحل شہر ستانی کہ فرجع القولم الی قولہ۔
اقول:۔الرسل جو وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ﴿١٤٤﴾میں ہے ۔اس
5۔تمام کتب لغت میں توفی کے معنیٰ قبض وغیرہ بہت سے معانی لکھتے ہیں۔دیکھو لسان العرب وغیرہ ۔ہاں توفی اللہ زیدا کا معنی قبض اللہ روح زید کا معنیٰ مجازی لکھتے ہیں۔جیسا کہ پہلے گذرچکا ہے ۔نیز ارادہ معنیٰ موت کا ہم کو مضر نہیں ۔کیونکہ متوفیک میں وفات کا تحقق نہیں۔اور فلما توفیتنی کا تعلق وفات فیما بعدالنزول سے ہے۔
6۔ابن ماجہ کی حدیث کا ٹکڑا اس طرح ہے ۔ولامھدی الاعیسیٰ جس سے بلحاظ ماقبل وصفی مراد ہے ۔دیکھو ماقبل اس کا ولن تقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس ،اب سب احادیث مہدی فاطمی میں اور اسمیں تطبیق بھی آگئی۔
7۔ابن حزم اورامام مالک کا قول بموت عیسیٰ ان کو اجماعی عقیدہ سے خارج نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ اگرچہ نظر بظاہر آیات توفیی وفات مسیح کے قائل ہیں۔مگر بہ لحاظ بل رفعہ اللہ الیہ اور وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ اور احادیث نزول کی پھر عندالرفع حیات مسیح کے قائل ہیں۔کیونکہ درصورت تسلیم احادیث نزول بلا تاویل ،بغیر اس کے کہ مسیح کہ عندالرفع زندہ مانا جاوے کو ئی چارہ نہیں۔ہاں درصورت انکار احادیث نزول یا تحریف ان کے یا عدم فہم معنی آیت بل رفعہ اللہ الیہ وان من اھل الکتاب الخ بحسب محاورہ قرن اول کے لیے شک عقیدہ اجماعیہ کے برخلاف ہوسکتے ہیں۔لہذا جب تک مخالف ہما راان دونوں بزرگوں کی بہ نسبت احادیث نزول کا انکار اپنی طرح قول بالبروزیاتصریح برفع روحانی متعلق آیت بل رفعہ اللہ الیہ کے ثابت نہ کرے تب تک اقوال مذکورہ سے تمسک مفید نہیں ہوسکتا بلکہ ہمارے پاس دلائل موجود ہیں جو ان کو اہل اجماع سے خارج نہیں ہونے دیتے ۔دیکھو اسی کتاب کواول سے جس مقام پر اجماع کاثبوت دیاگیا ہے۔
8۔کوئی دلیل عقلی۔رفع جسمی علی السماء ونزول جسمی من السماء پر قائم نہیں ۔چنانچہ بحوالہ نووی شرح مسلم میں پہلے گذرچکا ہے کہ کوئی دلیل عقلی وشرعی نزول من السماء کے استحالہ پر نہیں ۔قادیانی مشن کی محض جہالت ہےکہ اس کو محالات عقلیہ سے خیال کرتے ہیں کما مر،اور آیت سبحان ربی ھل کنت الابشررسولا"کا عدم دلالت علی الامتناع کو امروہی صاحب نے بھی مجبور ہوکر اسی کتاب میں تسلیم کرلیا ہے ۔صرف مرزا جی اس جہالت میں اکیلے رہ گئے ہیں۔
9۔اناجیل وغیرہ میں سے بوجہ خود غرضی کے کچھ لیا اور کچھ چھوڑ دیا گیا ہے ۔بلکہ سب تمسکات میں آدھا تیترآدھی بٹیر والی بات ہے۔
10۔آنحضرتﷺ سب احادیث نزول میں اصیل مسیح کے نزول سے اعلام فرماتے رہے ہیں ۔کمامر مرۃ۔
ایھا الناظرون کل احادیث نزول اور حدیث اقول کما قال العبد الصالح اور اثر ابن عباس متوفیک بمعنی ممیتک اور آیت بل رفعہ اللہ الیہ اور مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ(مائدہ ۔75)یہ سب دلائل جن کی تعداد سوسے بھی زیادہ ہے اجماعی عقیدہ کی مثبت ہیں۔
قولہ:۔صفحہ 186سے صفحہ 189تک وہی مضامین ہیں جن کی تردید ہوچکی ہے ۔ہاں صفحہ 189 پر لکھتے ہین"اب فرمائیے کہ الرسل میں حضرت عیسیٰ داخل ہیں یا نہیں بشق ثابی کیا وجہ کہ صحابہ اہل لسان نے اس پر جرح نہیں کیا ۔اور بشق اول مدعا ہمارا ثابت ہے ۔"پھر اس بحث کے اخیر میں لکھا ہے (دیکھو ملل ونحل شہر ستانی کہ فرجع القولم الی قولہ۔
اقول:۔الرسل جو وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ﴿١٤٤﴾میں ہے ۔اس