اصحاب عیسیٰ الیاس الخ یعنی ہمارے زمانہ موجودہ میں ایک جماعت زندہ ہے عیسیٰ اور الیاس کے اصحاب میں سے۔اب امروہی صاحب سے دریافت فرماویں کہ حسب مندرج ازالہ کے محی الدین بن عربی صاحب کا قول کیوں نہیں مقبول ہوتا۔اورکسی شخص کا اہل زمان سابق سے عظیم الجثہ ہونا یا اصحاب کہف کی طرح خوراک عادی کے زندہ رہنا کیوں مستبعد خیال کیا جاتا ہے۔
قولہ:۔صفحہ 212۔اور213کامضمون مکرر ہے ۔صفحہ 214۔215۔216کاحاصل :۔چونکہ صیغہ مضارع بحسب تصریح سید سند استمرارکےلیے ہوتا ہے۔لہذالیؤمنن کا ترجمہ جو مرزاصاحب نے لکھا ہے یعنی ( ایمان رکھتا ہے ،)صحیح ہوا کیونکہ استمرار میں ازمنہ ثلثہ داخل ہیں مثلا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴿عنکبوت۔٦٩﴾اوركَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿مجادلہ۔٢١﴾اور مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿النحل۔٩٧﴾اور وَلَيَنصُرَنَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ(حج،40)اوروَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ ﴿عنکبوت۔٩﴾برتقدیر ارادہ محض استقبال کے ان آیات میں معنیٰ فاسد ہوجاتا ہے ۔کیونکہ ہدایت اور غلبہ اور احیاءاورجزااورنصرت اور ادخال دائمی ہیں۔مخصوص بزمانہ مستقبل نہیں۔افسوس کہ وہی پرانی باتیں مولوی محمد بشیر کے رسالہ کے لکھ دیں۔جن کا جواب ہم نے مفصل پہلے سے لکھ دیا ہے۔
اقول:۔سید سند کی تصریح کا یہ مطلب نہیں کہ ہرجگہ مضارع استمرار کےلیے ہوتا ہے اورنہ کسی علم معانی والے نے یہ لکھا ہے ۔یہ صرف آپ کی خوشی فہمی ہے ۔سید سند کی عبارت ذیل کو ملاحظہ کرو۔قدیقصد بالمضارع الاستمرار علی سبیل التجددوالتقضیٰ بحسب المقامات اسمیں (قدیقصد )اور (بحسب المقامات)کو غور فرمائیے ،مضارع پر قد افادہ تقلیل کےلیے ہوتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ مضارع سے بدلیل مقام استمرار مقصود ہوتا ہے ۔جیسا کہ آیات خمسہ مذکورہ میں ہے۔اورچونکہ مضارع مؤکدبالنون کاللاستقبال ہونا بھی بحسب قاعدہ مسلمہ مشہورہ کے ضروری ہے۔دیکھو متن متین وغیرہ تختص بمستقبل طلب اوخبر مصدر بتاکید باللام نحو لیضربن،چنانچہ آیت میں بھی لیومنن خبر مصدر بتاکید باللام ہے۔لہذا افعال خمسہ مذکورہ میں معنی استقلال کہا جاتاہے۔اور وہ اس کےلیے بمنزلہ جزاء کےہے بہ نسبت شرط کے یامعلوم کے نہ نسبت علم کے اور مستمر بھی ہےبباعث استمرار فعل مترتب علیہ بوجہ استمرار اس کے علم کے۔پہلی آیت میں لنھدینھم اور تیسری فلنجیینہ بمعہ معطوف کے اور چھٹی میں لندخلنھم بمنزلہ جزاء کے ہیں یہ نسبت جاھدوااور عمل اورآمنوا کے۔ابن حاجب کہتا ہے واذاتضمن المبتداء معنی الشرط فیصح دخول الفاء فی الخبر وذالک الاسم الموصول بفعل او ظرف اوالنکرۃ الموصوفۃ بھما۔اوردوسری آیت میں غلبہ بہ نسبت کتب یعنی قدر کے معلوم کے مرتبہ میں ہے۔اور تاخرو استقبال معلوم کا بہ نسبت علم اپنے کے،گوکہ بہ حسب الذات ہی ظاہر ہوتا ہے ۔اور چوتھی آیت میں لینصرن اللہ مترتب ہے ینصرہ پر۔اور آیت (لیؤمنن بہ ) میں یہود کا ایمان کسی فعل پر مرتب نہیں تاکہ اس کی نسبت سے مستقبل کہا جائے ،نیز بوجہ خارج ہونے ان اہل کتاب کےجو مسیح سے پہلے گزرے ہیں،پھر بھی استمرار لیؤمنن کا نہیں ہوسکتا۔الغرض لیؤمنن کو ازقبیل افعال مرتبہ علی فعل آخر سمجھنا اور آیات خمسہ مذکورہ پر قیاس کرنا یہ انہی نام کے نہ کام مولویوں کا کام ہے۔جنھوں نے علوم کوکسی استاد سے نہیں پڑھا،نعوذباللہ من اناس تشیخواقبل ان یشیخوا۔
ایہاالناظرون امروہی صاحب سے دریافت کریں کہ یہ وہی مولوی محمد بشیر کی پرانی باتیں ہیں یا مولوی محمد نذیر کے نئے افادات جیسا کہ لیومنن میں اسقتبال بالنسبتہ الی امر آخر نہیں لہذا استقبال اسکا بہ نسبت زمان نزول آیت کے ہوگا۔یعنی نزول کے وقت سے
قولہ:۔صفحہ 212۔اور213کامضمون مکرر ہے ۔صفحہ 214۔215۔216کاحاصل :۔چونکہ صیغہ مضارع بحسب تصریح سید سند استمرارکےلیے ہوتا ہے۔لہذالیؤمنن کا ترجمہ جو مرزاصاحب نے لکھا ہے یعنی ( ایمان رکھتا ہے ،)صحیح ہوا کیونکہ استمرار میں ازمنہ ثلثہ داخل ہیں مثلا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴿عنکبوت۔٦٩﴾اوركَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ۚ إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿مجادلہ۔٢١﴾اور مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿النحل۔٩٧﴾اور وَلَيَنصُرَنَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ(حج،40)اوروَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ ﴿عنکبوت۔٩﴾برتقدیر ارادہ محض استقبال کے ان آیات میں معنیٰ فاسد ہوجاتا ہے ۔کیونکہ ہدایت اور غلبہ اور احیاءاورجزااورنصرت اور ادخال دائمی ہیں۔مخصوص بزمانہ مستقبل نہیں۔افسوس کہ وہی پرانی باتیں مولوی محمد بشیر کے رسالہ کے لکھ دیں۔جن کا جواب ہم نے مفصل پہلے سے لکھ دیا ہے۔
اقول:۔سید سند کی تصریح کا یہ مطلب نہیں کہ ہرجگہ مضارع استمرار کےلیے ہوتا ہے اورنہ کسی علم معانی والے نے یہ لکھا ہے ۔یہ صرف آپ کی خوشی فہمی ہے ۔سید سند کی عبارت ذیل کو ملاحظہ کرو۔قدیقصد بالمضارع الاستمرار علی سبیل التجددوالتقضیٰ بحسب المقامات اسمیں (قدیقصد )اور (بحسب المقامات)کو غور فرمائیے ،مضارع پر قد افادہ تقلیل کےلیے ہوتا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ مضارع سے بدلیل مقام استمرار مقصود ہوتا ہے ۔جیسا کہ آیات خمسہ مذکورہ میں ہے۔اورچونکہ مضارع مؤکدبالنون کاللاستقبال ہونا بھی بحسب قاعدہ مسلمہ مشہورہ کے ضروری ہے۔دیکھو متن متین وغیرہ تختص بمستقبل طلب اوخبر مصدر بتاکید باللام نحو لیضربن،چنانچہ آیت میں بھی لیومنن خبر مصدر بتاکید باللام ہے۔لہذا افعال خمسہ مذکورہ میں معنی استقلال کہا جاتاہے۔اور وہ اس کےلیے بمنزلہ جزاء کےہے بہ نسبت شرط کے یامعلوم کے نہ نسبت علم کے اور مستمر بھی ہےبباعث استمرار فعل مترتب علیہ بوجہ استمرار اس کے علم کے۔پہلی آیت میں لنھدینھم اور تیسری فلنجیینہ بمعہ معطوف کے اور چھٹی میں لندخلنھم بمنزلہ جزاء کے ہیں یہ نسبت جاھدوااور عمل اورآمنوا کے۔ابن حاجب کہتا ہے واذاتضمن المبتداء معنی الشرط فیصح دخول الفاء فی الخبر وذالک الاسم الموصول بفعل او ظرف اوالنکرۃ الموصوفۃ بھما۔اوردوسری آیت میں غلبہ بہ نسبت کتب یعنی قدر کے معلوم کے مرتبہ میں ہے۔اور تاخرو استقبال معلوم کا بہ نسبت علم اپنے کے،گوکہ بہ حسب الذات ہی ظاہر ہوتا ہے ۔اور چوتھی آیت میں لینصرن اللہ مترتب ہے ینصرہ پر۔اور آیت (لیؤمنن بہ ) میں یہود کا ایمان کسی فعل پر مرتب نہیں تاکہ اس کی نسبت سے مستقبل کہا جائے ،نیز بوجہ خارج ہونے ان اہل کتاب کےجو مسیح سے پہلے گزرے ہیں،پھر بھی استمرار لیؤمنن کا نہیں ہوسکتا۔الغرض لیؤمنن کو ازقبیل افعال مرتبہ علی فعل آخر سمجھنا اور آیات خمسہ مذکورہ پر قیاس کرنا یہ انہی نام کے نہ کام مولویوں کا کام ہے۔جنھوں نے علوم کوکسی استاد سے نہیں پڑھا،نعوذباللہ من اناس تشیخواقبل ان یشیخوا۔
ایہاالناظرون امروہی صاحب سے دریافت کریں کہ یہ وہی مولوی محمد بشیر کی پرانی باتیں ہیں یا مولوی محمد نذیر کے نئے افادات جیسا کہ لیومنن میں اسقتبال بالنسبتہ الی امر آخر نہیں لہذا استقبال اسکا بہ نسبت زمان نزول آیت کے ہوگا۔یعنی نزول کے وقت سے