وفی الخبران لہ قوائم ۔ہاں کواکب کا متحرک ہونا قرآن کریم سے پایا جاتا ہے۔قال اللہ تعالیٰ لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ﴿یٰسین٤٠﴾فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ ﴿١٥﴾الْجَوَارِ الْكُنَّسِ ﴿التکویر۔١٦﴾وقال کل یجری الی اجل مسمی )لہذا اہل اسلام کے نزدیک قابل اعتبار نہیں ۔الغرض معراج جسمی اور رفع جسمی ایک اجماعی عقیدہ ہے جس کےخلاف نہ عقل اور نہ نقل شہادت دیتے ہیں۔اے مؤلف تم کو ہمارے حبیب پاک ﷺ رسول رب العالمین افضل الاولین والاخرین سے کیا عداوت اور دشمنی ہے جو آپ ﷺ کےمعجزات او راحادیث وفضیلت کلیہ کا انکا ر کرے ہو۔بلکہ قادیانی کو آنحضرتﷺ سے افضل مانتے ہو۔قادیانی اگرکہے کہ یہ پیشین گوئی ہرگز نہ ٹلے گی ۔توایمان لے آتے ہو۔اور آنحضرتﷺکی پیشین گوئیوں میں اس خیبر یہود ی کی طرح کیا رنگ دکھاتے ہو۔تلک اذا قسمۃ ضیزی(نجم 22)اور بجائے اس نبی کے جو بباعث کمالات اپنے کے شرح محمدی علی صاحبہ الصلوٰۃ ولسلام کی خدمت بجالانے کا استحقاق رکھتا ہے۔اور اس منصب خادمیت کو اپنےلیے سعادت سمجھتا ہے ،ایک ایسا نامعقول کھڑا کرتے ہو۔جو تمھاری طرح علوم تقلیہ وعقلیہ سے بے بہرہ ہے۔
قولہ:۔صفحہ 239اور 240کاحاصل:۔
1۔ہم کب کہتے ہیں کہ زمین پرکوئی فرشتہ متمثل بہ صورت بشری نہیں ہوا۔
2۔حدیث دمشقی کو جس میں نزول مسیح ملائکہ کے کندھوں پر ہتھیلی رکھے ہوئے مذکور ہے۔اس کی تکذیب آیات ذیل کررہی ہیں ۔ ویوم تشقق السمآء بالغمام ونزل المئلکۃ تنزیلا (فرقان 25)ایضا هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّـهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ(بقرہ۔210) ایضاھل ینظرون الا ان یاتیھم الملائلکۃ اویاتی ربک ایضا وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ ﴿ا نعام۔٨﴾
اقول:۔1۔دیکھو ایام الصلح صفحہ 116سطر17۔"ایں آیۃ کریمہ جہرا گوید نزول دمشقی ملائکہ برہئیت رجال بنی آدم از عادت الہیہ نیست ،انتہی ۔مرزاصاحب کی نمک خواری کا حق آپ خوب اداکرتے ہیں۔خدا کے بندے ساری کتاب میں ایک جگہ بھی تو اس کو فائدہ پہنچایا ہوتا۔
2۔آنحضرتﷺ نے حدیث دمشقی میں صرف اتنا ہی فرمایا ہے کہ نزول مسیح ملائکہ کے کندھوں پر ہتھیلی رکھی ہوئے ہوگا۔اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس وقت کےموجودہ لوگ بھی ضرور ان کو دیکھیں گے، جائز ہے کہ یہ نزول اس طرح پر ہوجیسا کہ نزول ملائکہ کاسورہ قرآنیہ کے ساتھ ہوتارہا ہے ۔جن کامشاہدہ آپ ہی کے ساتھ مخصوص ہے یا خواص میں سے کسی کو ہوتا ہویا جیسا کہ رفع جنائزولاشیں بعض صحابہ کا ملائکہ سے ہوا ہے۔کمامرفی قصہ عامر بن فہیرہ وغیرہ ۔پھر ہم کہتے ہیں۔کہ ان ملائک کا نزول صورت بشری میں بھی متصور ہوسکتاہ ،اور آیتہ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ ﴿انعام ۔٩﴾چونکہ رسول ملکی کے شان میں وارد ہے(یعنی اس سے یہ مراد ہے کہ اگر کسی فرشتہ کو رسول بنا کر لوگوں کی طرف بھیجا جاوے ۔جیسا کہ کفار کا سوال ہے تو یہ بھیجنا عبث وفضول ہے۔کیونکہ پھر بھی ان کو اشتباہ باقی نہ رہے گا)لہذا یہ حدیث دمشقی کی مکذب نہیں۔دیکھو حدیث احسان میں جبرائیل علیہ السلام بصورت بشری نازل ہوئے ۔اور صحابہ نے بھی ان کو دیکھا ۔ایسا ہی بہترے مواضع ہیں۔توکیا کوئی خیال کرسکتا ہے کہ اس حدیث کی مکذب آیت مذکورہ ہے؟ہرگز نہیں اور آیات مذکورہ میں اس نزول اور اتیان کا ذکر ہے جو کھلے طور پر بغیر صورت بشری کےہو جو مخصوص بیوم الحشر ہے۔
قولہ:۔صفحہ 239اور 240کاحاصل:۔
1۔ہم کب کہتے ہیں کہ زمین پرکوئی فرشتہ متمثل بہ صورت بشری نہیں ہوا۔
2۔حدیث دمشقی کو جس میں نزول مسیح ملائکہ کے کندھوں پر ہتھیلی رکھے ہوئے مذکور ہے۔اس کی تکذیب آیات ذیل کررہی ہیں ۔ ویوم تشقق السمآء بالغمام ونزل المئلکۃ تنزیلا (فرقان 25)ایضا هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّـهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ(بقرہ۔210) ایضاھل ینظرون الا ان یاتیھم الملائلکۃ اویاتی ربک ایضا وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ ﴿ا نعام۔٨﴾
اقول:۔1۔دیکھو ایام الصلح صفحہ 116سطر17۔"ایں آیۃ کریمہ جہرا گوید نزول دمشقی ملائکہ برہئیت رجال بنی آدم از عادت الہیہ نیست ،انتہی ۔مرزاصاحب کی نمک خواری کا حق آپ خوب اداکرتے ہیں۔خدا کے بندے ساری کتاب میں ایک جگہ بھی تو اس کو فائدہ پہنچایا ہوتا۔
2۔آنحضرتﷺ نے حدیث دمشقی میں صرف اتنا ہی فرمایا ہے کہ نزول مسیح ملائکہ کے کندھوں پر ہتھیلی رکھی ہوئے ہوگا۔اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس وقت کےموجودہ لوگ بھی ضرور ان کو دیکھیں گے، جائز ہے کہ یہ نزول اس طرح پر ہوجیسا کہ نزول ملائکہ کاسورہ قرآنیہ کے ساتھ ہوتارہا ہے ۔جن کامشاہدہ آپ ہی کے ساتھ مخصوص ہے یا خواص میں سے کسی کو ہوتا ہویا جیسا کہ رفع جنائزولاشیں بعض صحابہ کا ملائکہ سے ہوا ہے۔کمامرفی قصہ عامر بن فہیرہ وغیرہ ۔پھر ہم کہتے ہیں۔کہ ان ملائک کا نزول صورت بشری میں بھی متصور ہوسکتاہ ،اور آیتہ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ ﴿انعام ۔٩﴾چونکہ رسول ملکی کے شان میں وارد ہے(یعنی اس سے یہ مراد ہے کہ اگر کسی فرشتہ کو رسول بنا کر لوگوں کی طرف بھیجا جاوے ۔جیسا کہ کفار کا سوال ہے تو یہ بھیجنا عبث وفضول ہے۔کیونکہ پھر بھی ان کو اشتباہ باقی نہ رہے گا)لہذا یہ حدیث دمشقی کی مکذب نہیں۔دیکھو حدیث احسان میں جبرائیل علیہ السلام بصورت بشری نازل ہوئے ۔اور صحابہ نے بھی ان کو دیکھا ۔ایسا ہی بہترے مواضع ہیں۔توکیا کوئی خیال کرسکتا ہے کہ اس حدیث کی مکذب آیت مذکورہ ہے؟ہرگز نہیں اور آیات مذکورہ میں اس نزول اور اتیان کا ذکر ہے جو کھلے طور پر بغیر صورت بشری کےہو جو مخصوص بیوم الحشر ہے۔