بعد استماع خطبہ صدیقیہ کے آیت
انک میت وانھم میتون
(زمر 3)اور ایسا ہی آیت (
ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل )
کے بھول جانے کا اقرار نہیں کیا تھا۔اور آپ نے جو مزعوم صحابہ کی پیشین گوئیوں کا نہ پورا ہونا فرمایا ہے کیا آیت انک میت یا قدخلت من قبلہ الرسل )اس کےلیے تردید ٹھہر سکتی ہے؟ہرگز نہیں ۔کیونکہ ان آیات کا یہ معنی نہیں کہ فلاں تاریخ میں وفات شریف واقع ہوگی تاکہ پیشین گوئیوں کے وقوع تک کے انتظار کو رفع کرے۔
قولہ:۔صفحہ 258سے 276تک کے مضمون کی تردید ہوچکی ہے۔پھر صفحہ 276سے 282تک فائدہ کے طور پر تفسیر رحمانی کا مطلب بیان فرماتے ہیں۔مصنف تفسیر رحمانی کو محققین مفسرین سے لکھتے ہیں۔اور صفحہ 280سطر10پر لکھتے ہیں"جو معنی ہم نے لکھے ہیں وہی معنیٰ محققین مفسرین نے بھی تحریر فرمائے ہیں۔چنانچہ تفسیر رحمانی میں لکھا ہے( ولوتقول ای افترای علینا بقوۃ فصاحتہ وبلاغتہ بعض الاقاویل مع ظھوران لایانی الاعجاز للفصحاء والبلغاء فی جمیع اقاویلھم لاخذنا منہ قوۃ الفصاحۃ والبلاغۃ باالیمین ای بقوتنا ثم لقطعنا منہ الوتین ای نیاط قلبہ الذی بہ یتحرک لسانہ فنجعل کلامہ ضحکۃ للناظرین وھذاۃ للساخرین کترھات مسیلمۃ وابی العلاء المعری وغیرھما فمامنکم من احد عنہ عن سلب بلاغتہ وفصاحتہ حاجزین اع مانعین فانکم وان اعنتموہ حینئذلم یتات منہ کلام بلیغ فضلا عن المعجزوذلک لانہ یغضی الی تلبیس لایمکن دفعہ وھو مناف للحکمۃ وکیف یکون افترء وانہ لتذکرۃ للمتقین فانھم بتصفیتھم للبواطن یتذکرون بھام علوما تفیدھم فی الدین من غیرانتھا ء لھا ولا شئی من المفتری کذلک ۔اور اسی تفسیر رحمانی میں ہے۔ثم اشارالی ان قتل محمد ﷺ وموتہ لیس من اسباب الضعف بل ھو کالقرح فقال وما محمد الارسول والرسل منھم من مات ومنھم من قتل فلامنافاۃ بین الرسالۃ والقتل والموت اذ قدخلت من قبلہ الرسل بل الضعف عن الجھاد حینئذ مشعر بالردۃ اتومنون بہ فی حال حیوتہ فان مات او قتل انقلبتم ای ارتددتم کانکم انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقیبہ فلن یضراللہ شئیا بابطال دینہ فانہ سیظھرہ علی یدی من یشکرہ وسیجزی اللہ بالنصروالغلبۃ فی الدنیا والثواب والرضوان فی الاخرۃ والشاکرین نعمۃ الاسلام بالجھاد فیہ ۔
اقول:۔بجائے (اور جو معنی ہم نے لکھے ہیں وہی معنی محققین مفسرین نے لکھے ہیں)کے یوں فرمانا چاہیے تھا۔(اورجو معنیٰ محققین مفسرین نےلکھے ہیں وہی معنیٰ ہم نے ان کی کلام کو دیکھ کرلکھے ہیں)ایہاالناظرون !غور فرماویں تفسیر رحمانی کی عبارت ذیل ( فلامنافاۃ بین الرسالۃ والقتل والموت اذقدخلت من قبلہ الرسل )کہ اس نے تصریح کر دی ہے کہ مزعوم صحابہ کا وفات شریف کے دن منافات بین الموت والرسالۃ تھی۔جس کا امروہی صاحب اوپر انکار فرماچکے ہیں۔چونکہ رحمانی کے مصنف کو محققین مفسرین سے شمار کیاہے۔لہذا آپ کو ان کے قول کی تسلیم ضروری ہے۔اور بموجب مفاد آیت ولو تقول علینا بعض الاقاویل الخ (الحافۃ ۔44)کے قادیانی صاحب کی تفسیر فاتحہ کی (جس کو اس نے اعجاز ٹھہرایا ہے) ضحکۃ للناظرین وہزاۃ للساخرین ہورہی ہے۔اور اس کے حواری گوکہ ا س کی امداد اور اعانت بھی کریں تو بھی بحسب قولہ تعالی:۔فمامنکم من احد عنہ حاجزین ۔(الحافۃ ۔47)کے اس کے کلام بلیغ پر قدرت نہیں ہوسکتی ۔فضلاعن المعجزء کیونکہ بر تقدیر معجز ہونے تفسیر فاتحہ للقادیانی کےتلبیس غیر مندفع پیدا ہوتی ہے جومنافی ہے حکمت الہیہ کو۔ناظرین خوب غور فرماویں کیا آیت مذکورہ کےمضمون کا تحقق بموجب تفسیر رحمانی کے ہوا ہے یا نہیں۔یعنی کلام اس کےمضحکہ ناظرین بنی ہے یا نہیں۔
قولہ:۔صفحہ 258سے 276تک کے مضمون کی تردید ہوچکی ہے۔پھر صفحہ 276سے 282تک فائدہ کے طور پر تفسیر رحمانی کا مطلب بیان فرماتے ہیں۔مصنف تفسیر رحمانی کو محققین مفسرین سے لکھتے ہیں۔اور صفحہ 280سطر10پر لکھتے ہیں"جو معنی ہم نے لکھے ہیں وہی معنیٰ محققین مفسرین نے بھی تحریر فرمائے ہیں۔چنانچہ تفسیر رحمانی میں لکھا ہے( ولوتقول ای افترای علینا بقوۃ فصاحتہ وبلاغتہ بعض الاقاویل مع ظھوران لایانی الاعجاز للفصحاء والبلغاء فی جمیع اقاویلھم لاخذنا منہ قوۃ الفصاحۃ والبلاغۃ باالیمین ای بقوتنا ثم لقطعنا منہ الوتین ای نیاط قلبہ الذی بہ یتحرک لسانہ فنجعل کلامہ ضحکۃ للناظرین وھذاۃ للساخرین کترھات مسیلمۃ وابی العلاء المعری وغیرھما فمامنکم من احد عنہ عن سلب بلاغتہ وفصاحتہ حاجزین اع مانعین فانکم وان اعنتموہ حینئذلم یتات منہ کلام بلیغ فضلا عن المعجزوذلک لانہ یغضی الی تلبیس لایمکن دفعہ وھو مناف للحکمۃ وکیف یکون افترء وانہ لتذکرۃ للمتقین فانھم بتصفیتھم للبواطن یتذکرون بھام علوما تفیدھم فی الدین من غیرانتھا ء لھا ولا شئی من المفتری کذلک ۔اور اسی تفسیر رحمانی میں ہے۔ثم اشارالی ان قتل محمد ﷺ وموتہ لیس من اسباب الضعف بل ھو کالقرح فقال وما محمد الارسول والرسل منھم من مات ومنھم من قتل فلامنافاۃ بین الرسالۃ والقتل والموت اذ قدخلت من قبلہ الرسل بل الضعف عن الجھاد حینئذ مشعر بالردۃ اتومنون بہ فی حال حیوتہ فان مات او قتل انقلبتم ای ارتددتم کانکم انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقیبہ فلن یضراللہ شئیا بابطال دینہ فانہ سیظھرہ علی یدی من یشکرہ وسیجزی اللہ بالنصروالغلبۃ فی الدنیا والثواب والرضوان فی الاخرۃ والشاکرین نعمۃ الاسلام بالجھاد فیہ ۔
اقول:۔بجائے (اور جو معنی ہم نے لکھے ہیں وہی معنی محققین مفسرین نے لکھے ہیں)کے یوں فرمانا چاہیے تھا۔(اورجو معنیٰ محققین مفسرین نےلکھے ہیں وہی معنیٰ ہم نے ان کی کلام کو دیکھ کرلکھے ہیں)ایہاالناظرون !غور فرماویں تفسیر رحمانی کی عبارت ذیل ( فلامنافاۃ بین الرسالۃ والقتل والموت اذقدخلت من قبلہ الرسل )کہ اس نے تصریح کر دی ہے کہ مزعوم صحابہ کا وفات شریف کے دن منافات بین الموت والرسالۃ تھی۔جس کا امروہی صاحب اوپر انکار فرماچکے ہیں۔چونکہ رحمانی کے مصنف کو محققین مفسرین سے شمار کیاہے۔لہذا آپ کو ان کے قول کی تسلیم ضروری ہے۔اور بموجب مفاد آیت ولو تقول علینا بعض الاقاویل الخ (الحافۃ ۔44)کے قادیانی صاحب کی تفسیر فاتحہ کی (جس کو اس نے اعجاز ٹھہرایا ہے) ضحکۃ للناظرین وہزاۃ للساخرین ہورہی ہے۔اور اس کے حواری گوکہ ا س کی امداد اور اعانت بھی کریں تو بھی بحسب قولہ تعالی:۔فمامنکم من احد عنہ حاجزین ۔(الحافۃ ۔47)کے اس کے کلام بلیغ پر قدرت نہیں ہوسکتی ۔فضلاعن المعجزء کیونکہ بر تقدیر معجز ہونے تفسیر فاتحہ للقادیانی کےتلبیس غیر مندفع پیدا ہوتی ہے جومنافی ہے حکمت الہیہ کو۔ناظرین خوب غور فرماویں کیا آیت مذکورہ کےمضمون کا تحقق بموجب تفسیر رحمانی کے ہوا ہے یا نہیں۔یعنی کلام اس کےمضحکہ ناظرین بنی ہے یا نہیں۔