احقر محمد مدثر علی راؤ
رکن ختم نبوت فورم
شرائطِ اجتہاد اور جاوید احمد غامدی
احقر محمد مدثر علی راؤ
غامدی صاحب اپنی کتاب مقامات کے صفہ 154 پر اجتہاد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔" یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اجتہاد کے کوئی شرائط نہیں ہیں۔لوگوں کو اجتہاد کرنا چاہیے۔اُن میں سے ایک غلطی کرے گا تو دوسرے کی تنقید اسے درست کردے گی"۔
(مقامات طبع سوم جولائی 2014ء صفہ 154)
قارئین کرام! غامدی صاحب کی یہ بات کتنی درست ہے اس سے پہلے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اجتہاد کہتے کسے ہیں اور یہ کیسے کیا جاتا ہے۔
"لغوی اعتبار سے اجتہاد کا مطلب کسی کام کی انجام دہی کے لیے تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا ہوتا ہے جبکہ شرعی اصطلاح میں۔۔۔۔۔۔" اگر کوئی مسئلہ ہمیں قرآن مجید میں نہ ملے تو اسے احادیث مبارکہ میں تلاش کیا جاتا ہے اور اگر اس مسئلہ میں امت مسلمہ کا اجماع بھی نہ ہو تو پھر ایسی صورت حال میں مجتہدین اجتہاد کر کے اس مسئلہ کا حل تلاش کرتے ہیں"۔
اجتہاد اور قیاس شریعت اسلامیہ کی چوتھی دلیل ہے۔
قرآن
حدیث
اجماع امت
قیاس و اجتہاد
کیا اجتہاد کی کوئی شرائط بھی ہیں یا پھر ہر شخص اجتہاد کر سکتا ہے؟ جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے!
چونکہ غامدی صاحب اسلامی عقائد و نظریات کو عقل سلیم کے مطابق دیکھتے ہیں لہٰذا ہم بھی عقل سلیم کی روشنی میں ہی اجہتاد کی شرائط بیان کریں گے۔
عقل کی رو سے اجتہاد کی شرائط
قرآن مجید کے علوم کا ماہر ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے قرآن مجید کے علوم کا ماہر ہونا اور قرآن مجید کو اسکی زبان میں سمجھ سکتا ہو کیونکہ اگر اسے قرآن مجید کے علوم کا علم ہی نہیں ہوگا تو اسے یہ کیسے پتا چلے گا کہ فلاں مسئلہ قرآن مجید میں آ چکا ہے یا نہیں؟
احادیث شریفہ اور ان کے اصول کا مکمل علم ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے احادیث شریفہ کا مکمل علم ہو۔صحیح و ضعیف اور موضوع حدیث کو سمجھتا اور پہچانتا ہو تاکہ اسے معلوم ہو کہ فلاں حدیث صحیح ہے تو اس سے اجتہاد و استنباط ہو سکتا ہے اور فلاں حدیث موضوع ہے لہٰذا اس سے اجتہاد و استنباط نہیں ہو سکتا۔مجتہد کو حدیث کا علم ہوگا تو ہی وہ جان سکے گا کہ فلاں مسئلہ کا حل احادیث مبارکہ میں موجود ہے لہٰذا اس پر اجتہاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اجماعی مسائل کا علم ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے اجماعی مسائل کا علم ہو کہ کن مسائل میں امت مسلمہ کا اجماع ہو چکا ہے کیونکہ جس مسئلہ میں اجماع ہو چکا ہو اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔
قیاس و استنباط کرنے کا علم ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے قیاس و استنباط کیسے کیا جاتا ہے۔اسکے لیے اسے بنیادی شرط کا بھی علم ہونا ضروری ہے جسکا طریقہ یہ ہے کہ جو مسئلہ مجتہد کو درپیش ہے۔۔۔اس مسئلہ کی مشابہت قرآن مجید اور احادیث شریفہ کے کن مسائل کے ساتھ ہے۔کونسی وہ چیزیں ہیں کہ جو اس مسئلہ میں اور قرآن و حدیث میں قریباً ملتی ہیں۔اس مشابہت اور مناسبت کو دیکھ کر مجتہد کو قیاس کرنے کا علم ہوگا تب ہی وہ قیاس و استنباط کر سکے گا ورنہ نہیں۔
ناسخ و منسوخ کا علم ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے ناسخ و منسوخ مسائل کے علم کا ہونا اس معاملے میں طے شدہ ہے۔جیسا کہ ابتدائی دور میں نماز میں گفتگو کرنا جائز تھا لیکن بعد میں یہ عمل منسوخ کردیا گیا۔اب مجتہد کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کونسے مسائل منسوخ ہیں اور کن دلائل کی وجہ سے وہ مسائل منسوخ ہوئے۔اب اگر مجتہد کو ناسخ منسوخ کا علم ہی نہیں ہوگا تو عین ممکن ہے کہ وہ کسی منسوخ مسئلہ کے مطابق مسئلے کا حل نکال کر فیصلہ کر بیٹھے جو کہ غلط ہوگا لہٰذا اسی وجہ سے مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ اسے ناسخ و منسوخ مسائل کا بھی ضروری علم ہو۔
عربی زبان کا ماہر ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے عربی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے اور یہ عقلی و منطقی بات ہے کیونکہ اگر وہ عربی زبان سے ہی واقف نہیں ہوگا تو وہ قرآن و حدیث کو جو کہ عربی زبان میں ہیں انہیں کیسے سمجھے گا؟
قارئین کرام! اب آپ کو بخوبی اس بات کا علم ہو گیا ہوگا کہ ایک مجتہد کو ، قرآن مجید ، احادیث مبارکہ ، اجماعی مسائل ، قیاس و استنباط کرنے کا طریقہ ، ناسخ و منسوخ اور عربی زبان کا مکمل علم ہوگا تب ہی ایک مجتہد یہ جان سکے گا کہ کوئی بھی مسئلہ منصوص ہے یا غیر منصوص۔اسی سے مجتہد کو علم ہوگا کہ اسے اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ہے۔اب اگر مجتہد کو ان تمام شرائط میں سے کسی ایک شرط کا بھی علم نہ ہو تو وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ اور اگر وہ ان شرائط کی لاعلمی کی وجہ سے اجتہاد کرتا بھی ہے تو وہ غلط فیصلہ کرے گا جو کہ دین و دنیا دونوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
قارئین کرام! آپ کو تعجب ہوگا کہ غامدی صاحب کے نزدیک اجتہاد کی کوئی شرائط نہیں ہیں جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا جا چکا ہے۔بلکہ غامدی صاحب تو لوگوں کو اجتہاد کرنے کا بھی مشورہ دے رہے ہیں۔یہ ایک عجیب بات ہے کہ جس شخص کو قرآن و حدیث اور دیگر امور کا علم ہی نہیں ہوگا تو وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟؟؟
⭕️ شاید غامدی صاحب خود ان شرائط پر پورا نہیں اترتے جس کی وجہ سے انہوں نے ان شرائط کا بلکل ہی انکار کر دیا اور ہر کسی کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھول کر رکھ دیا۔
احقر محمد مدثر علی راؤ
غامدی صاحب اپنی کتاب مقامات کے صفہ 154 پر اجتہاد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔" یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اجتہاد کے کوئی شرائط نہیں ہیں۔لوگوں کو اجتہاد کرنا چاہیے۔اُن میں سے ایک غلطی کرے گا تو دوسرے کی تنقید اسے درست کردے گی"۔
(مقامات طبع سوم جولائی 2014ء صفہ 154)
قارئین کرام! غامدی صاحب کی یہ بات کتنی درست ہے اس سے پہلے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اجتہاد کہتے کسے ہیں اور یہ کیسے کیا جاتا ہے۔
"لغوی اعتبار سے اجتہاد کا مطلب کسی کام کی انجام دہی کے لیے تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا ہوتا ہے جبکہ شرعی اصطلاح میں۔۔۔۔۔۔" اگر کوئی مسئلہ ہمیں قرآن مجید میں نہ ملے تو اسے احادیث مبارکہ میں تلاش کیا جاتا ہے اور اگر اس مسئلہ میں امت مسلمہ کا اجماع بھی نہ ہو تو پھر ایسی صورت حال میں مجتہدین اجتہاد کر کے اس مسئلہ کا حل تلاش کرتے ہیں"۔
اجتہاد اور قیاس شریعت اسلامیہ کی چوتھی دلیل ہے۔
قرآن
حدیث
اجماع امت
قیاس و اجتہاد
کیا اجتہاد کی کوئی شرائط بھی ہیں یا پھر ہر شخص اجتہاد کر سکتا ہے؟ جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے!
چونکہ غامدی صاحب اسلامی عقائد و نظریات کو عقل سلیم کے مطابق دیکھتے ہیں لہٰذا ہم بھی عقل سلیم کی روشنی میں ہی اجہتاد کی شرائط بیان کریں گے۔
عقل کی رو سے اجتہاد کی شرائط
قرآن مجید کے علوم کا ماہر ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے قرآن مجید کے علوم کا ماہر ہونا اور قرآن مجید کو اسکی زبان میں سمجھ سکتا ہو کیونکہ اگر اسے قرآن مجید کے علوم کا علم ہی نہیں ہوگا تو اسے یہ کیسے پتا چلے گا کہ فلاں مسئلہ قرآن مجید میں آ چکا ہے یا نہیں؟
احادیث شریفہ اور ان کے اصول کا مکمل علم ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے احادیث شریفہ کا مکمل علم ہو۔صحیح و ضعیف اور موضوع حدیث کو سمجھتا اور پہچانتا ہو تاکہ اسے معلوم ہو کہ فلاں حدیث صحیح ہے تو اس سے اجتہاد و استنباط ہو سکتا ہے اور فلاں حدیث موضوع ہے لہٰذا اس سے اجتہاد و استنباط نہیں ہو سکتا۔مجتہد کو حدیث کا علم ہوگا تو ہی وہ جان سکے گا کہ فلاں مسئلہ کا حل احادیث مبارکہ میں موجود ہے لہٰذا اس پر اجتہاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اجماعی مسائل کا علم ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے اجماعی مسائل کا علم ہو کہ کن مسائل میں امت مسلمہ کا اجماع ہو چکا ہے کیونکہ جس مسئلہ میں اجماع ہو چکا ہو اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔
قیاس و استنباط کرنے کا علم ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے قیاس و استنباط کیسے کیا جاتا ہے۔اسکے لیے اسے بنیادی شرط کا بھی علم ہونا ضروری ہے جسکا طریقہ یہ ہے کہ جو مسئلہ مجتہد کو درپیش ہے۔۔۔اس مسئلہ کی مشابہت قرآن مجید اور احادیث شریفہ کے کن مسائل کے ساتھ ہے۔کونسی وہ چیزیں ہیں کہ جو اس مسئلہ میں اور قرآن و حدیث میں قریباً ملتی ہیں۔اس مشابہت اور مناسبت کو دیکھ کر مجتہد کو قیاس کرنے کا علم ہوگا تب ہی وہ قیاس و استنباط کر سکے گا ورنہ نہیں۔
ناسخ و منسوخ کا علم ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے ناسخ و منسوخ مسائل کے علم کا ہونا اس معاملے میں طے شدہ ہے۔جیسا کہ ابتدائی دور میں نماز میں گفتگو کرنا جائز تھا لیکن بعد میں یہ عمل منسوخ کردیا گیا۔اب مجتہد کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کونسے مسائل منسوخ ہیں اور کن دلائل کی وجہ سے وہ مسائل منسوخ ہوئے۔اب اگر مجتہد کو ناسخ منسوخ کا علم ہی نہیں ہوگا تو عین ممکن ہے کہ وہ کسی منسوخ مسئلہ کے مطابق مسئلے کا حل نکال کر فیصلہ کر بیٹھے جو کہ غلط ہوگا لہٰذا اسی وجہ سے مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ اسے ناسخ و منسوخ مسائل کا بھی ضروری علم ہو۔
عربی زبان کا ماہر ہو
مجتہد کو اجتہاد کرنے کے لیے عربی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے اور یہ عقلی و منطقی بات ہے کیونکہ اگر وہ عربی زبان سے ہی واقف نہیں ہوگا تو وہ قرآن و حدیث کو جو کہ عربی زبان میں ہیں انہیں کیسے سمجھے گا؟
قارئین کرام! اب آپ کو بخوبی اس بات کا علم ہو گیا ہوگا کہ ایک مجتہد کو ، قرآن مجید ، احادیث مبارکہ ، اجماعی مسائل ، قیاس و استنباط کرنے کا طریقہ ، ناسخ و منسوخ اور عربی زبان کا مکمل علم ہوگا تب ہی ایک مجتہد یہ جان سکے گا کہ کوئی بھی مسئلہ منصوص ہے یا غیر منصوص۔اسی سے مجتہد کو علم ہوگا کہ اسے اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ہے۔اب اگر مجتہد کو ان تمام شرائط میں سے کسی ایک شرط کا بھی علم نہ ہو تو وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ اور اگر وہ ان شرائط کی لاعلمی کی وجہ سے اجتہاد کرتا بھی ہے تو وہ غلط فیصلہ کرے گا جو کہ دین و دنیا دونوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
قارئین کرام! آپ کو تعجب ہوگا کہ غامدی صاحب کے نزدیک اجتہاد کی کوئی شرائط نہیں ہیں جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا جا چکا ہے۔بلکہ غامدی صاحب تو لوگوں کو اجتہاد کرنے کا بھی مشورہ دے رہے ہیں۔یہ ایک عجیب بات ہے کہ جس شخص کو قرآن و حدیث اور دیگر امور کا علم ہی نہیں ہوگا تو وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟؟؟
⭕️ شاید غامدی صاحب خود ان شرائط پر پورا نہیں اترتے جس کی وجہ سے انہوں نے ان شرائط کا بلکل ہی انکار کر دیا اور ہر کسی کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھول کر رکھ دیا۔
آخری تدوین
: