مولوی دیکھ مربیوں کے تو تن جل جاتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
سامنا یہ حق سچ کا کرنے سے کتراتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
جھوٹ کی یہ جھوٹے لوگ تعریف نہ ہیں کر پاتے
بھاگتے دوڑتے تھک جاتے مرتے مرتے مر جاتے
تاریخ مرزے کے دعوے کی بتانے سے گھبراتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
کیسے ہوئی مرزے کی موت ذرا بتلا دو
سیرت مھدی کے دو تین صفحات پڑھ کے دکھلا دو
کاٹنے کو یہ دوڑتے ہیں منہ سے گند گراتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
عقل و علم والوں سے تو جان ان کی جاتی ہے
بلی جیسے جنگل میں شیروں سے گھبراتی ہے
فقط کچھ نادانوں کے ایماں پہ ضرب لگاتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
حوالہ شیطانی خزائن کا ہو یا ہو مرزے کی بات
پھر شوق سے اپنا تھوکا ہی جاتے ہیں یہ چاٹ
ہر سو پھنس جاتے ہیں تو لفظوں کو گھماتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
یہاں بہشتی مقبرہ ہے اور سب کا ہے سناتے ہیں
پر انہی کو دفناتے ہیں جو چندہ دے کے جاتے ہیں
یوں سودا نام پہ جنت کے دوزخ کا کرواتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
تاریخ پیدائش مرزے کی جو پوچھے وہ حیران ہو
جب ہر اک مربی کا ہی الگ الگ بیان ہو
نبی جسے کہتے ہیں اسکا بیان جھٹلاتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
پیشگوئی کی بات چلے تو کانوں کو کھجلاتے ہیں
انہیں میں پھنس جاتے ہیں تاویلیں جو سناتے ہیں
مرزے کو نا سمجھ کہہ کے آخر جان چھڑاتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
خلیفے تک بھی ان کے در در رلتے پھرتے ہیں
جنہیں دجال کہتے انہی کی پناہ میں رہتے ہیں
جانے کون سے منہ سے باتیں ترقی کی سناتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
سامنا یہ حق سچ کا کرنے سے کتراتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
جھوٹ کی یہ جھوٹے لوگ تعریف نہ ہیں کر پاتے
بھاگتے دوڑتے تھک جاتے مرتے مرتے مر جاتے
تاریخ مرزے کے دعوے کی بتانے سے گھبراتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
کیسے ہوئی مرزے کی موت ذرا بتلا دو
سیرت مھدی کے دو تین صفحات پڑھ کے دکھلا دو
کاٹنے کو یہ دوڑتے ہیں منہ سے گند گراتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
عقل و علم والوں سے تو جان ان کی جاتی ہے
بلی جیسے جنگل میں شیروں سے گھبراتی ہے
فقط کچھ نادانوں کے ایماں پہ ضرب لگاتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
حوالہ شیطانی خزائن کا ہو یا ہو مرزے کی بات
پھر شوق سے اپنا تھوکا ہی جاتے ہیں یہ چاٹ
ہر سو پھنس جاتے ہیں تو لفظوں کو گھماتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
یہاں بہشتی مقبرہ ہے اور سب کا ہے سناتے ہیں
پر انہی کو دفناتے ہیں جو چندہ دے کے جاتے ہیں
یوں سودا نام پہ جنت کے دوزخ کا کرواتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
تاریخ پیدائش مرزے کی جو پوچھے وہ حیران ہو
جب ہر اک مربی کا ہی الگ الگ بیان ہو
نبی جسے کہتے ہیں اسکا بیان جھٹلاتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
پیشگوئی کی بات چلے تو کانوں کو کھجلاتے ہیں
انہیں میں پھنس جاتے ہیں تاویلیں جو سناتے ہیں
مرزے کو نا سمجھ کہہ کے آخر جان چھڑاتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
خلیفے تک بھی ان کے در در رلتے پھرتے ہیں
جنہیں دجال کہتے انہی کی پناہ میں رہتے ہیں
جانے کون سے منہ سے باتیں ترقی کی سناتے ہیں
شرم سے منہ چھپاتے ہیں سو سو بل کھاتے ہیں
۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول
آخری تدوین
: