تیسری شہادت
وہ ہے جسے جناب مرزا صاحب نے خود بھی نقل کیا ہے . جس کے الفاظ یہ ہیں :
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینزل عیسی ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ و یمکث خمساً و اربعین سنۃً ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا و عیسیٰ ابن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر
(مشکوٰۃ شریف باب نزول عیسیٰ علیہ السلام صفحہ 480)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین کی طرف اتریں گے ، پھر نکاح کریں گے اور ان کے اولاد پیدا ہو گی اور آپ پینتالیس سال زمین پر رہیں گے پھر فوت ہو کر میرے مقبرہ میں میرے ساتھ دفن ہوں گے . پھر میں ( رسول اللہ ) اور حضرت عیسیٰ ایک ہی مقبرہ سے قیامت کو اٹھیں گے جبکہ ہم ابو بکر اور عمر کے درمیان ہوں گے ‘‘ .
اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ موعود کا انتقال مدینہ طیبہ میں ہو گا . اس حدیث کو مرزا صاحب نے خود اپنے استدلال میں لیا ہوا ہے . اس میں جو حضرت عیسیٰ موعود کے تزوج (نکاح ) کا ذکر ہے اس کی نسبت مرزا صاحب نے بہت کوشش کی ہے کہ یہ ان پر صادق آئے.
ناظرین کو معلوم ہونا چاہئے کہ جناب موصوف نے ایک نکاح کی بابت الہامی پیش گوئی فرمائی تھی . جس کو اعجازی نکاح کہتے ہیں . جناب ممدوح لکھتے ہیں کہ یہ نکاح جو حضرت عیسیٰ ابن مریم موعود کا مذکورہ حدیث میں آیا ہے اس سے وہی اعجازی نکاح مراد ہے جس کی بابت میں نے پیش گوئی کی ہوئی ہے . چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ یہ ہیں :
انہ یتزوج و ذلک ایماء الیٰ آیۃ یظھرعند تزوجہ من ید القدرۃ و ارادۃ حضرت الوتر و قد ذکرنا ھا مفصلا فی کتابنا التبلیغ والتحفۃ واثبتنا فیہما ان ھذہ الاٰیت سیظھر علیٰ یدی
(حمامۃ البشریٰ ص 26، خزائن جلد 7 صفحہ 208)
’’حضرت عیسیٰ موعود نکاح کریں گے . یہ اس نشان کی طرف اشارہ ہے جو اس کے نکاح کے موقع قادر کی قدرت سے ظاہر ہو گا . اور ہم نے اس نشان کو مفصل اپنی دونوں کتابوں تبلیغ اور تحفہ میں ذکر کیا ہوا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ یہ نشان میرے ہاتھ پر ظاہر ہو گا ‘‘.
یعنی یہ نکاح وہی ہے جو میرا ہو گا . تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ اس کو دوسری کتاب ضمیمہ انجام آتھم میں یوں لکھتے ہیں :
’’ اس پیش گوئی ( یعنی میرے نکاح) کی تصدیق کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ
یتزوج و یولدلہ
یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز و ہ صاحب اولاد ہو گا . اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں . کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا . اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیش گوئی موجود ہے . گویا اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی . (ضمیمہ انجام آتھم ص 53، خزائن جلد11 حاشیہ صفحہ 337)
یہ عبارت با آواز بلند کہہ رہی ہے کہ جناب مرزا صاحب کو اس حدیث کی تسلیم سے انکار نہیں بلکہ اس کو اپنی دلیل میں لایا کرتے تھے . اس لئے ہم بھی اس حدیث سے استدلال کرنے کا حق رکھتے ہیں جو یوں ہے کہ :
’’ چونکہ مرزا صاحب مدینہ شریف میں فوت ہو کر روضہ مقدسہ میں دفن نہیں ہوئے . اس لئے عیسیٰ موعود نہیں ‘‘ .
الحمد اللہ کہ ازروئے احادیث شریفہ ہم نے ثابت کر دیا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ مسیحیت موعودہ کا صحیح نہیں.
آنکس کہ بقرآن دخبر از نرہی
اینست جوابش کہ جوابش ندہی
احادیث اس مضمون کی بکثرت ہیں مگر ہم نے بہ نیت اختصار بطور نمونہ انہی تین حدیثوں پر اکتفا کیا . کیونکہ ماننے والے کے لئے یہ بھی کافی سے زیادہ ہیں . نہ ماننے والے کو بہت بھی کچھ نہیں .
اگر صد باب حکمت پیش ناداں
بخوانی آئدش بازیچۂ درگوش
مختصر مضمون احادیث ثلاثہ :
تینوں حدیثوں کا مختصر مضمون تین فقروں میں ہے.
(1) حضرت عیسیٰ علیہ السلام حاکمانہ صورت میں آئیں گے.
(2) حضرت عیسیٰ علیہ السلام حج کریں گے ان کے احرام کی جگہ کا نام فج الروحاء ہے .
(3) حضرت عیسیٰ موعود علیہ السلام نکاح کرکے پینتالیس سال دنیا میں زندہ رہیں گے .
ان تینوں مضامین کے لحاظ سے مرزا صاحب کے حق میں نتیجہ صاف ہے کہ ’’ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی عیسیٰ موعود نہ تھے ‘‘ .
مختصر بات ہو مضمون مطول ہووے
تتمہ باب اول:
شاید کسی صاحب کو خیال ہو کہ جو الفاظ حضرت عیسیٰ موعود علیہ السلام کی بابت آئے ان سے ان کی حقیقت مراد نہیں بلکہ مجاز مراد ہے . مثلاً بقول ان کے عیسیٰ مسیح سے خاص حضرت عیسیٰ مراد نہیں . بلکہ مثل عیسیٰ مراد ہے . یا ’’حکم عدل ‘‘ سے ظاہری حاکم مراد نہیں بلکہ روحانی مراد ہے . غرض یہ کہ ان جملہ اوصاف مسیحیہ میں سے جو وصف جناب مرزا صاحب میں نہیں پایا جاتا اس سے مجازی وصف مراد ہے .
اس کا جواب بالکل آسان ہے .
علماء بلاغت کا قانون ہے کہ مجاز وہاں لی جاتی ہے جہاں حقیقت محال ہو . (ملاحظہ ہو مطول بحث حقیقت مجاز )
اب ہم دکھاتے ہیں کہ ان الفاظ کی حقیقت کی بابت جو حضرت عیسیٰ موعود علیہ السلام کے حق میں آئے ہیں مرزا صاحب کیا فرماتے ہیں . کیا ان کی حقیقت کو محال جانتے ہیں یا ممکن . پس مرزا صاحب کی عبارت مندرجہ ذیل کو بغور ملاحظہ کریں . فرماتے ہیں .
’’ بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آ جائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آ سکیں . کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا . درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے . اور جب کہ یہ حال ہے تو پھر علماء کے لئے اشکال ہی کیا ہے . ممکن ہے کسی وقت ان کی مراد بھی پوری ہو جائے ‘‘ . (ازالہ اوہام طبع اول ص 200، خزائن جلد 3 صفحہ 197-198)
اس عبارت میں مرزا صاحب کو تسلیم ہے کہ حقیقت مسیحیت محال نہیں بلکہ ممکن ہے . یہ بھی تسلیم ہے کہ ان کی حقیقت حکومت ظاہر یہ ہے جو مجھ میں نہیں . پس جب حقیقۃ ممکنہ ہے تو امکان حقیقت کے وقت مجاز کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے . فافہم
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا مرے حق میں
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا
گو مرزا صاحب کے اقرار کے بعد کسی شہادت کی حاجت نہیں . تاہم ایک ایسا گواہ پیش کیا جاتا ہے جس کی توثیق جناب مرزا صاحب نے خود اعلیٰ درجہ کی ہوئی ہے . فرماتے ہیں .
’’ مولوی نور الدین صاحب بھیروی کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں . میں نے اُن کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے اپنی خدمتوں میں جاں نثار پایا ‘‘ . (ازالہ اوہام طبع اول ص 777، خزائن جلد 3 صفحہ 520)
یہی مولوی صاحب ہیں جو مرزا صاحب کے انتقال کے بعد خلیفہ اول ہوئے . وہی مولوی نور الدین صاحب اصولی طور پر ہماری تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ہر جگہ تاویلات و تمثیلات سے ٬ استعارات و کنایات سے اگر کام لیا جائے تو ہر ایک ملحد ، منافق ، بدعتی اپنی آراء ناقصہ اور خیالات باطلہ کے موافق الٰہی کلمات طیبات کو لا سکتا ہے . اس لئے ظاہر معانی کے علاوہ اور معانی لینے کے واسطے اسباب قویہ اور موجبات حقہ کا ہونا ضرور ہے ‘‘ . (ضمیمہ ازالہ اوہام طبع اول ص8، خزائن جلد 3 صفحہ 231)
پس ثابت ہوا کہ چونکہ عیسیٰ موعود علیہ السلام کا اپنی اصل حقیقت کے ساتھ آنا ممکن ہے . لہٰذا مرزا صاحب عیسیٰ موعود نہیں ہیں .
(الحمد للہ )
....٭....