• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

شہادت مرزا

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
فاتح قادیان حضرت امرتسری نوراللہ مرقدہ کا یہ رسالہ اس قدر آسان، رواں اور شستہ زبان میں ہے کہ قاری اسے مکمل کئے بغیر اس کی جان نہیں چھوڑتا ۔ انداز دلائل دقیق اور بھاری ہونے کے بجائے بالکل سادہ اور آسان ہے۔ کم از کم پڑھ کر ایک بار تو مرزا قادیانی کے کذاب ہونے میں’’ حق الیقین ‘‘ ہونے لگتا ہے ۔ حضرت امرتسری رحمہ اللہ کی حس مزاح ان کی تحریر کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔ قاری کے ہونٹوں پر بھی بے اختیار مسکراہٹ پھیل جاتی ہے ۔ اور ان کی علمی تحریر شگفتہ مزاح کے ساتھ دل و دماغ کو معطر کر دیتی ہے ۔ یہ ان کی تحریر کا خاصٔہ امتیاز ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری نور اللہ مرقدہ کی قادیانیت کے خلاف جدو جہد کو قبول کرتے ہوئے انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ ان کی حسنات کو قیامت تک دراز کرے ۔ اور ہمیں بھی اس راستے پر چلتے ہوئے مرزائیت کے خلاف جدوجہد میں اپنا عملی حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور اس سلسلے میں ہمارے ہرایک کارِ خیر کو قبول فرمائے ۔ ( آمین )


فہرست

پیش لفظ
دعوی مرزا صاحب
پہلی شہادت
دوسری شہادت
تیسری شہادت
چوتھی شہادت
پانچویں شہادت
چھٹی شہادت
ساتویں شہادت
آٹھویں شہادت
نویں شہادت
دسویں شہادت (قطعی فیصلہ)
فتنہ ارتداد اور سنگھٹن کا ذکر
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بسم اللہ الرحمن الرحیم. نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الریم!
و علیٰ آلہِ و اصحابہِ اجمعین.

پنجاب کے ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں ایک صاحب مرزا غلام احمد پیدا ہوئے ہیں. جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جن احادیث میں حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے قبل قیامت دنیا میں آنے کا ذکر ہے اُن سے مراد میں ہوں . یعنی میں عیسیٰ موعود ہوں . ان کے اس دعوے کی تردید میں خاکسار کی کئی ایک کتابیں شائع ہو چکی ہیں. جن میں زیادہ تر توجہ مرزا صاحب کی ان پیش گوئیوں پر ہے جو موصوف نے اپنی صداقت کے اظہار کرنے کے لئے وحی اور الہام کے نام سے کی ہیں . اس لئے میرے بعض مخلص دوستوں نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ ایسی بھی کوئی کتاب لکھوں جس میں دلائل حدیثیہ سے بھی گفتگو ہو . یعنی اُن احادیث کا ذکر بھی ہو جن میں حضرت عیسیٰ موعود کا آنا مذکور ہے . اس کے علاوہ اور کچھ بھی ہو تو مضائقہ نہیں . اس لئے اس مختصر رسالہ میں مرزا صاحب کے دعوے کی تردید میں تین طرح کی شہادات ناظرین ملاحظہ فرمائیں گے .
(1) احادیث صحیحہ سے
(2) مرزا صاحب کی (نام نہاد) وحی و الہام سے
(3) مرزا صاحب کے اپنے معیار اور اقوال سے .
امید ہے ناظرین اس رسالہ کو اس بحث میں اچھوتا پائیں گے . اور مقدور بھر اس کی اشاعت کرکے خدمت دین بجا لائیں گے .

رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیعُ العَلِیم
ابوالوفاء ثناء اللہ ( ملقب بہ فاتح قادیان )
صفر 1342ھ ، بمطابق اکتوبر 1923ء
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دعوی مرزا صاحب

جناب مرزا صاحب قادیانی کا دعویٰ خود ان کے الفاظ میں نقل کرنا مناسب ہے . گو آپ کا دعویٰ اس قدر مشہور و معروف ہے کہ کسی کو مجال انکار نہیں ہے . گو اُن کے دعوی نبوت و رسالت وغیرہ کے متعلق خود ان کی امت میں اختلاف ہے . لیکن ان کے دعوی مسیحیت کی بابت اختلاف نہیں . تاہم انہی کے الفاظ میں ان کا دعویٰ سناتے ہیں .
”وکنت اظن بعد ھذہ التسمیۃ ان المسیح الموعود خارج وما کنت اظن انہ انا حتی ظھر السر المخفی الذی اخفاہ اللہ علیٰ کثیرمن عبادہ ابتلائً امن عندہ وسمانی ربی عیسیٰ ابن مریم فی الھام من عندہ وقال یا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الیَّ ومطھرک من الذین کفروا وجاعل الذین تبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ انا جعلنک عیسیٰ ابن مریم وانت منی بمزلۃ لا یعلمھا الخلق وانت منی بمنزلۃ توحیدی و نفر یدی و انک الیوم لدینا مکین امین . فھذا ھو الدعویٰ الذی یجادلنی وقومی فیہ و یحسبوننی من المرتدین .“ (حمامۃ البشریٰ ص8 )
’’ خدا نے میرا نام متوکل رکھا . میں اس کے بعد بھی سمجھتا رہا کہ مسیح موعود آئے گا اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ میں ہی ہوں گا . یہاں تک کہ مخفی بھید مجھ پر کھل گیا جو بہت سے لوگوں پر نہیں کھلا . اور میرے پروردگار نے اپنے الہام میں میرا نام عیسیٰ ابن مریم رکھا . اور فرمایا اے عیسیٰ ہم ( خدا ) نے تجھے عیسیٰ بن مریم کیا اور تو مجھ سے ایسے مقام میں ہے کہ مخلوق اس کو نہیں جانتی اور تو (مرزا) میرے نزدیک میری توحید اور وحدت کے رتبے میں ہے اور تو آج ہمارے نزدیک بڑی عزت والا ہے . پس یہی (مسیح موعود ہونے کا ) دعویٰ ہے . جس میں مسلمان قوم مجھ سے جھگڑتی ہے . اور مجھ کو مرتد جانتی ہے‘‘.
یہ عبارت صاف لفظوں میں مرزا صاحب کا دعویٰ بتا رہی ہے . کہ آپ اس بات کے مدعی تھے کہ احادیث میں جن عیسیٰ موعود کی بابت خبر آئی ہے کہ وہ دنیا میں قریب قیامت کے ظاہر ہوں گے . وہ میں ہوں .
یہ بھی اس عبارت سے صاف ثابت ہے کہ مسلمان مرزا صاحب سے اسی دعوے میں بحث اور نزاع کرتے ہیں . یعنی وہ آپ کو عیسیٰ موعود وغیرہ نہیں مانتے . یہی اصلی نزاع ہے . اس کے سوا باقی کوئی ہے تو فرعی . یہ ہے مرزا صاحب کے دعوے کی تقریر جو انہی کے الفاظ میں نقل کی گئی۔

نوٹ : امت احمدیہ (مرزائیہ ) مرزا صاحب کے دعوی مسیحیت موعود ہ کے اثبات سے عاجز ہو کر کبھی وفات عیسیٰ پر بحث کرنے لگ جاتی ہے . کبھی دجال اور اس کے گدھے کی بابت اِدھر اُدھر کی بات شروع کر دیتی ہے . جس سے اصل مقصد دور ہو جاتا ہے . اس لئے فریقین ( محمدی اور احمدی ) با انصاف سے امید ہے کہ مرزا صاحب کے اس بیان کو غور سے پڑ ھ کر بس اسی (دعوی مسیحیت موعودہ ) پر مدار بحث رکھا کریں گے .

ناظرین سے درخواست: اس کتاب کو اول سے آخر تک بغور دیکھیں گے تو بہت سی نئی معلومات پائیں گے . اس لئے مصنف کی درخواست ہے کہ اول سے آخر تک بغور مطالعہ فرمائیں . (مصنف)

....٭....
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
باب اول
متعلق احادیث


پہلی شہادت :

سب سے پہلے بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے جس کے الفاظ مع ترجمہ یہ ہیں :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماعدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر و یضع الجزیۃ ویفیض المال حتیٰ لا یقبل احد حتیٰ تکون سجدۃ واحدۃ خیراً من الدنیا و ما فیھا ثم یقول ابو ھریرۃ فاقرؤا ان شئتم وان من اھل الکتاب الا لیؤ منن بہ قبل موتہ . . . الاٰیۃ، متفق علیہ. (بخاری جلد1 صفحہ 490 باب نزول عیسیٰ بن مریم، مسلم جلد 1 صفحہ 87 باب نزول عیسیٰ بن مریم، مشکوٰۃ شریف ص 479 باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، قسم ہے اللہ پاک کی بہت جلد ابن مریم منصف حاکم ہو کر تم میں اتریں گے . پھر وہ عیسائیوں کی صلیب کو (جس کو وہ پوجتے ہیں اسے ) توڑ دیں گے اور خنزیر ( جو خلاف حکم شریعت عیسائی کھاتے ہیں اُس) کو قتل کرائیں گے اور کافروں سے جو جزیہ لیا جاتا ہے اسے موقوف کر دیں گے اور مال بکثرت لوگوں کو دیں گے یہاں تک کہ کوئی اسے قبول نہ کرے گا . لوگ ایسے مستغنی اور عابد ہوں گے کہ ایک ایک سجدہ ان کو ساری دنیا کے مال و متاع سے اچھا معلوم ہو گا . ( حدیث کے یہ الفاظ سنا کر )ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے تم اس حدیث کی تصدیق قرآن مجید میں چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو : ان من اھل الکتاب آخر تک ‘‘. ( اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترتے وقت کل اہل کتاب اُن پر ایمان لے آویں گے ).
یہ حدیث اپنا مطلب بتانے میں کسی شرح کی محتاج نہیں . صاف لفظوں میں حضرت عیسیٰ موعود علیہ السلام کو منصف حاکم یعنی بادشاہ قرار دیا ہے . اور مرزا صاحب کو یہ وصف حاصل نہ تھا . چنانچہ آگے اس کا ذکر آتا ہے .
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دوسری شہادت:


اس سے بھی زیادہ صاف اور فیصلہ کن ہے جو صحیح مسلم میں مروی ہے .
عن النبی صلی اللہ علی وسلم والذی نفسی بیدہ لیہلن ابن مریم بفج الروحاء حاجّاً او معتمراً او لیثنینھما (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 408 باب جواز التمتع فی الحج والقِران)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مسیح موعود فج الروحاء سے (جو مکہ مدینہ کے درمیان جگہ ہے. نووی شرح مسلم ) حج کا احرام باندھیں گے ‘‘.
یہ حدیث حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد ان کے حج کرنے اور ان کے احرام باندھنے کے لئے مقام کی بھی تعین کرتی ہے . مرزا صاحب کی بابت تو یہ بلا اختلاف مسلمہ ہے کہ وہ حج کو نہیں گئے . مقام معین سے احرام باندھنا تو کجا .
حیرت ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب اور ان کی احمدی امت نے اور حدیثوں کے جوابات دینے پر تو توجہ کی چاہے وہ کسی قسم کی ہو . مگر اس حدیث کا نام بھی ان کی تحریرات میں ہم نے نہیں دیکھا . حالانکہ اخبار اہل حدیث مورخہ 15شوال (یکم جون 1923ء) میں یہ حدیث نقل کرکے جوا ب طلب کیا گیا تھا.
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تیسری شہادت


وہ ہے جسے جناب مرزا صاحب نے خود بھی نقل کیا ہے . جس کے الفاظ یہ ہیں :
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینزل عیسی ابن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ و یمکث خمساً و اربعین سنۃً ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا و عیسیٰ ابن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر (مشکوٰۃ شریف باب نزول عیسیٰ علیہ السلام صفحہ 480)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین کی طرف اتریں گے ، پھر نکاح کریں گے اور ان کے اولاد پیدا ہو گی اور آپ پینتالیس سال زمین پر رہیں گے پھر فوت ہو کر میرے مقبرہ میں میرے ساتھ دفن ہوں گے . پھر میں ( رسول اللہ ) اور حضرت عیسیٰ ایک ہی مقبرہ سے قیامت کو اٹھیں گے جبکہ ہم ابو بکر اور عمر کے درمیان ہوں گے ‘‘ .
اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ موعود کا انتقال مدینہ طیبہ میں ہو گا . اس حدیث کو مرزا صاحب نے خود اپنے استدلال میں لیا ہوا ہے . اس میں جو حضرت عیسیٰ موعود کے تزوج (نکاح ) کا ذکر ہے اس کی نسبت مرزا صاحب نے بہت کوشش کی ہے کہ یہ ان پر صادق آئے.
ناظرین کو معلوم ہونا چاہئے کہ جناب موصوف نے ایک نکاح کی بابت الہامی پیش گوئی فرمائی تھی . جس کو اعجازی نکاح کہتے ہیں . جناب ممدوح لکھتے ہیں کہ یہ نکاح جو حضرت عیسیٰ ابن مریم موعود کا مذکورہ حدیث میں آیا ہے اس سے وہی اعجازی نکاح مراد ہے جس کی بابت میں نے پیش گوئی کی ہوئی ہے . چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ یہ ہیں :
انہ یتزوج و ذلک ایماء الیٰ آیۃ یظھرعند تزوجہ من ید القدرۃ و ارادۃ حضرت الوتر و قد ذکرنا ھا مفصلا فی کتابنا التبلیغ والتحفۃ واثبتنا فیہما ان ھذہ الاٰیت سیظھر علیٰ یدی (حمامۃ البشریٰ ص 26، خزائن جلد 7 صفحہ 208)
’’حضرت عیسیٰ موعود نکاح کریں گے . یہ اس نشان کی طرف اشارہ ہے جو اس کے نکاح کے موقع قادر کی قدرت سے ظاہر ہو گا . اور ہم نے اس نشان کو مفصل اپنی دونوں کتابوں تبلیغ اور تحفہ میں ذکر کیا ہوا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ یہ نشان میرے ہاتھ پر ظاہر ہو گا ‘‘.
یعنی یہ نکاح وہی ہے جو میرا ہو گا . تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ اس کو دوسری کتاب ضمیمہ انجام آتھم میں یوں لکھتے ہیں :
’’ اس پیش گوئی ( یعنی میرے نکاح) کی تصدیق کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ یتزوج و یولدلہ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز و ہ صاحب اولاد ہو گا . اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں . کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا . اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیش گوئی موجود ہے . گویا اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی . (ضمیمہ انجام آتھم ص 53، خزائن جلد11 حاشیہ صفحہ 337)
یہ عبارت با آواز بلند کہہ رہی ہے کہ جناب مرزا صاحب کو اس حدیث کی تسلیم سے انکار نہیں بلکہ اس کو اپنی دلیل میں لایا کرتے تھے . اس لئے ہم بھی اس حدیث سے استدلال کرنے کا حق رکھتے ہیں جو یوں ہے کہ :
’’ چونکہ مرزا صاحب مدینہ شریف میں فوت ہو کر روضہ مقدسہ میں دفن نہیں ہوئے . اس لئے عیسیٰ موعود نہیں ‘‘ .
الحمد اللہ کہ ازروئے احادیث شریفہ ہم نے ثابت کر دیا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ مسیحیت موعودہ کا صحیح نہیں.

آنکس کہ بقرآن دخبر از نرہی
اینست جوابش کہ جوابش ندہی

احادیث اس مضمون کی بکثرت ہیں مگر ہم نے بہ نیت اختصار بطور نمونہ انہی تین حدیثوں پر اکتفا کیا . کیونکہ ماننے والے کے لئے یہ بھی کافی سے زیادہ ہیں . نہ ماننے والے کو بہت بھی کچھ نہیں .

اگر صد باب حکمت پیش ناداں
بخوانی آئدش بازیچۂ درگوش

مختصر مضمون احادیث ثلاثہ :

تینوں حدیثوں کا مختصر مضمون تین فقروں میں ہے.
(1) حضرت عیسیٰ علیہ السلام حاکمانہ صورت میں آئیں گے.
(2) حضرت عیسیٰ علیہ السلام حج کریں گے ان کے احرام کی جگہ کا نام فج الروحاء ہے .
(3) حضرت عیسیٰ موعود علیہ السلام نکاح کرکے پینتالیس سال دنیا میں زندہ رہیں گے .
ان تینوں مضامین کے لحاظ سے مرزا صاحب کے حق میں نتیجہ صاف ہے کہ ’’ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی عیسیٰ موعود نہ تھے ‘‘ .

مختصر بات ہو مضمون مطول ہووے

تتمہ باب اول:
شاید کسی صاحب کو خیال ہو کہ جو الفاظ حضرت عیسیٰ موعود علیہ السلام کی بابت آئے ان سے ان کی حقیقت مراد نہیں بلکہ مجاز مراد ہے . مثلاً بقول ان کے عیسیٰ مسیح سے خاص حضرت عیسیٰ مراد نہیں . بلکہ مثل عیسیٰ مراد ہے . یا ’’حکم عدل ‘‘ سے ظاہری حاکم مراد نہیں بلکہ روحانی مراد ہے . غرض یہ کہ ان جملہ اوصاف مسیحیہ میں سے جو وصف جناب مرزا صاحب میں نہیں پایا جاتا اس سے مجازی وصف مراد ہے .
اس کا جواب بالکل آسان ہے .
علماء بلاغت کا قانون ہے کہ مجاز وہاں لی جاتی ہے جہاں حقیقت محال ہو . (ملاحظہ ہو مطول بحث حقیقت مجاز )

اب ہم دکھاتے ہیں کہ ان الفاظ کی حقیقت کی بابت جو حضرت عیسیٰ موعود علیہ السلام کے حق میں آئے ہیں مرزا صاحب کیا فرماتے ہیں . کیا ان کی حقیقت کو محال جانتے ہیں یا ممکن . پس مرزا صاحب کی عبارت مندرجہ ذیل کو بغور ملاحظہ کریں . فرماتے ہیں .
’’ بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آ جائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آ سکیں . کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا . درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے . اور جب کہ یہ حال ہے تو پھر علماء کے لئے اشکال ہی کیا ہے . ممکن ہے کسی وقت ان کی مراد بھی پوری ہو جائے ‘‘ . (ازالہ اوہام طبع اول ص 200، خزائن جلد 3 صفحہ 197-198)
اس عبارت میں مرزا صاحب کو تسلیم ہے کہ حقیقت مسیحیت محال نہیں بلکہ ممکن ہے . یہ بھی تسلیم ہے کہ ان کی حقیقت حکومت ظاہر یہ ہے جو مجھ میں نہیں . پس جب حقیقۃ ممکنہ ہے تو امکان حقیقت کے وقت مجاز کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے . فافہم

ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا مرے حق میں
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا

گو مرزا صاحب کے اقرار کے بعد کسی شہادت کی حاجت نہیں . تاہم ایک ایسا گواہ پیش کیا جاتا ہے جس کی توثیق جناب مرزا صاحب نے خود اعلیٰ درجہ کی ہوئی ہے . فرماتے ہیں .
’’ مولوی نور الدین صاحب بھیروی کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں . میں نے اُن کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے اپنی خدمتوں میں جاں نثار پایا ‘‘ . (ازالہ اوہام طبع اول ص 777، خزائن جلد 3 صفحہ 520)
یہی مولوی صاحب ہیں جو مرزا صاحب کے انتقال کے بعد خلیفہ اول ہوئے . وہی مولوی نور الدین صاحب اصولی طور پر ہماری تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ہر جگہ تاویلات و تمثیلات سے ٬ استعارات و کنایات سے اگر کام لیا جائے تو ہر ایک ملحد ، منافق ، بدعتی اپنی آراء ناقصہ اور خیالات باطلہ کے موافق الٰہی کلمات طیبات کو لا سکتا ہے . اس لئے ظاہر معانی کے علاوہ اور معانی لینے کے واسطے اسباب قویہ اور موجبات حقہ کا ہونا ضرور ہے ‘‘ . (ضمیمہ ازالہ اوہام طبع اول ص8، خزائن جلد 3 صفحہ 231)
پس ثابت ہوا کہ چونکہ عیسیٰ موعود علیہ السلام کا اپنی اصل حقیقت کے ساتھ آنا ممکن ہے . لہٰذا مرزا صاحب عیسیٰ موعود نہیں ہیں .
(الحمد للہ )

....٭....
 
آخری تدوین :

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دوسرا باب
مرزا صاحب کے الہامات سے مرزا صاحب کے بر خلاف شہادات

جناب مرزا صاحب کے الہامات تو بکثرت ہیں جن میں امور غیبیہ کا دعویٰ کرکے انہیں اپنی صداقت کی شہادات بنایا ہے اُن سب کو دیکھنا ہو تو ہمارا رسالہ ’’ الہامات مرزا ‘‘ ملاحظہ کریں . اس مختصر رسالہ میں ہم چند الہامات پیش کرتے ہیں .

پہلا الہام…چوتھی شہادت:

مرزا صاحب نے اپنی صداقت کے لئے ایک پیش گوئی فرمائی تھی جو دراصل دو حصوں پر منقسم ہو کر دو پیش گوئیاں تھیں . ان دونوں پیش گوئیوں کی وجہ یہ پیش آئی تھی کہ جناب مرزا صاحب نے اپنے قریبی رشتہ میں ایک نو عمر لڑکی سے نکاح کا پیغام دیا . جس کی بابت لکھتے ہیں :
’’ وھی حدیثۃ السن و انا متجاوز علیٰ الخمسین ‘‘یعنی وہ لڑکی ابھی چھوکری ہے اور میں پچاس سال سے زیادہ ہوں . (آئینہ کمالات اسلام ص574)
اس لڑکی کے والد نے رشتہ کرنے سے انکار کر دیا تو آپ نے اعلان پر اعلان جاری کرنے شروع کر دئیے .کہ خدا نے مجھے بذریعہ الہام فرمایا ہے کہ اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بیاہی گئی تو تین سال کے عرصہ میں اس کا خاوند مر جائے گا اور وہ بیوہ ہو کر میرے ساتھ بیاہی جائے گی . چنانچہ مرزا صاحب کے اپنے الفاظ یہ ہیں :
’’ اس خدائے قادر مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہدے کہ تمام سلوک و مروت تم سے اسی شرط پرکیا جاوے گا . اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہو گا . اور ان تمام رحمتوں اور برکتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20فروری 1880ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہو گا . اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک . اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا. اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی . اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہیت اور غم کے امر پیش آئیں گے . “
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے بار بار توجہ کی گئی ہے تو معلوم ہوا کہ خدائے تعالیٰ نے جو مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلا ں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک مانع دور کرنے کے بعد آخر کار اسی عاجز کے نکاح میں لادے گا . اور بے دینوں کو مسلمان بنادے گا . اور گمراہوں میں ہدایت پھیلا دے گا . چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے :
کذبوا باٰیٰتنا و کانوا بھا یستھزؤن .فسیکفیکہم اللہ و یردھا الیک لا تبدیل الکلمات اللہ ان ربک فعال الما یرید . انت معی و انا معک عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محموداً .
یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا . اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے . سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مدد گار ہو گا . اور انجام کار اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا . کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے . تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہ ہو جاتا ہے . تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں . اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی. یعنی اول میں گو احمق و نادان لوگ بدباطنی و بد ظنی کی راہ سے بد گوئی کرتے ہیں. اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں . لیکن آخر کار خدا تعالیٰ کی مدد دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہو گی . (آج تک تو جیسی ہوئی ہے نمایاں ہے . مصنف)خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور 10جولائی 1888ء‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 157-158)
یہ عبارت مرزا صاحب کے اشتہار مورخہ 10جولائی 1888ء کی ہے . اس میں مسماۃ مذکورہ کو خطبہ نکاح کے بعد دھمکی دی ہے . دھمکی بھی معمولی نہیں بیوہ ہونے کی . پھر اُس کے بعد اس مقصود کی یعنی اپنے نکاح میں آنے کی .
اس پیش گوئی نے مرزائی امت کو سخت پریشان کر رکھا ہے . کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ فرماتا ہے . ان سب کا جواب دینے سے جناب مرزا صاحب نے ہم کو سبکدوش فرما دیا ہے . کیونکہ آپ بذات خود اس پیش گوئی کے متعلق ایک اعلان دے چکے ہیں جس کے سامنے غیر کی چل نہیں سکتی . امت مرزائیہ اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر حضرت مرزا صاحب کا فرمان سنیں . حضرت موصوف فرماتے ہیں .
’’ نفس پیش گوئی اس عورت ( محمدی بیگم ) کا س عاجز ( مرزا صاحب ) کے نکاح میں آنا تقدیر مبرم ( ان ٹل) ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی . کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے لا تبدیل لکلمات اللہ یعنی میری (اللہ کی) یہ بات نہیں ٹلے گی . پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے ‘‘ . (اشتہار 16کتوبر 1894ء مندرجہ کتاب تبلیغ رسالت جلد 3ص 115)

ناظرین ! اس سے بڑھ کر بھی کوئی صاف گوئی ہوگی جو حضرت مرزا صاحب نے اس عبارت میں فرمائی ہے . بات بھی صحیح ہے کہ خدا جس امر کی بابت خبر دے پھر اُس کی تاکید کے لئے ’’ لا تبدیل ‘‘ فرمائے پھر وہ تبدیل ہو جائے تو خدائی کلام کے جھوٹ ہونے میں کچھ شک رہتا ہے ؟
خدا جزائے خیر دے مرزا صاحب کو جنہوں نے ایسی صاف گوئی کرکے ہمیں اپنی امت کی بے جا تاویلوں سے چھڑایا . عاملہم اللہ بما ھم اھلہ
اب سوال یہ ہے کیا یہ نکاح مرزا صاحب سے ہو گیا ؟ آہ ! اس کا جواب بڑی حسرت اور افسوس کے ساتھ نفی میں دیا جاتا ہے . کہ تا حیات مرزا صاحب کا نکاح نہیں ہوا . یہاں تک کہ26مئی1908ء کے دن بیچارے اس حسرت کو اپنے ساتھ قبر میں لے گئے . اب اُن کی قبر سے گویا یہ آواز آتی ہے :

جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا

اس پیش گوئی کو مفصل دیکھنا ہو تو ہمارا رسالہ ’’الہامات مرزا ‘‘اور’’ نکاح مرزا ‘‘ ملاحظہ کریں.
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دوسرا الہام...پانچویں شہادت:


جو دراصل اسی پیش گوئی کے لئے بطور تمہید کے تھی . یوں ہے کہ اُس لڑکی کا خاوند یعنی جس شخص سے وہ لڑکی باوجود پیغام حضرت مرزا صاحب غلام احمد قادیانی کے بیاہی گئی تھی جس کا نام مرزا سلطان محمد ساکن پٹی ضلع لاہور ہے . اس کے حق میں اسی پہلی پیش گوئی میں فرما چکے ہیں کہ روز نکاح سے اڑھائی سال میں مر جائیگا . اس کی بابت یہ امر اظہار کرنا ضروری ہے کہ نکاح کس تاریخ کو ہوا . اور اُس کی آخری مدت حیات کیا تھی . اور وہ اُس مدت میں مرا یا نہیں ؟
پس واضح ہو کہ نکاح مذکور حسب اطلاع خود جناب مرزا صاحب قادیانی7 اپریل 1892ء کو ہوا . (رسالہ آئینہ کمالات اسلام ص 280مصنفہ مرزا صاحب قادیانی )
اس حساب سے 6 اکتوبر 1894ء کا دن مرزا سلطان محمد کی زندگی کا آخری روز ہوتا ہے مگر وہ آج تک (اکتوبر 1923ء) تک زندہ ہے . حالانکہ اس عرصہ میں وہ فرانس کی جنگ عظیم میں بھی شریک ہوا جس میں اس کے سر میں گولی بھی لگی مگر وہ زندہ رہا .
جب اکتوبر 1894ء گذر گیا اور مرزا سلطان محمد زندہ رہا اور مخالفوں نے طعن و تشنیع کرنے شروع کئے تو حضرت مرزا صاحب نے ان کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ایک آخری اعلان شائع فرمایا . جس کے الفاظ یہ ہیں :
’’ میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ ( مرزا سلطان محمد ناکح منکوحہ ) کی تقدیر مبرم ( ان ٹل ) ہے اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آ جائے گی‘‘ . (رسالہ انجام آتھم ص31)
بس یہ آخری فیصلہ تھا جو خدا کے فضل سے ہوا بھی آخری کہ مرزا صاحب خود تو مئی 1908ء میں فوت ہو گئے اور اُن کا رقیب جس کی موت کی پیش گوئی تقدیر مبرم کی صورت میں کرتے تھے اُن کی دعا سے آج ( اکتوبر 1923ء ) تک زندہ ہے . سچ ہے :

مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تیسرا الہام...چھٹی شہادت:


یوں تو مرزا صاحب کے الہامات اتنے ہیں کہ شمار بھی مشکل ہے . لیکن ہم شہادت میں ان کو پیش کرتے ہیں جو بطور تحدی (دعوت) کے انہوں نے پیش کئے ہیں . چنانچہ مرزا صاحب فرماتے ہیں :
’’ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ میری پیش گوئی سے صرف اس زمانہ کے لوگ ہی فائدہ نہ اٹھائیں . بلکہ بعض پیشگوئیاں ایسی ہوں کہ آئندہ زمانے کے لوگوں کے لئے ایک عظیم الشان نشان ہوں . جیسا کہ ’’براہین احمدیہ ‘‘ وغیرہ کتابوں کی یہ پیش گوئیاں کہ میں اسّی (80) برس یا چند سال زیادہ یا اس سے کچھ کم عمر دوں گا . اور مخالفوں کے ہر ایک الزام سے تجھے بری کروں گا وغیرہ ‘‘ . (تریاق القلوب ص 13 حاشیہ)
یہ عبارت مرزا صاحب کی عمر کی بابت پیش گوئی ہے کہ اسی سال کے ارد گرد ہوگی . اسی پیش گوئی کو دوسری کتاب میں جو اس کے بعد چھپی ہے بہت اچھے لفظوں میں آپ نے صاف کر دیا . فرماتے ہیں :
’’ جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدے کے متعلق ہیں وہ تو چوہتر اور چھیاسی کے اندر اندر عمر کی تعین کرتے ہیں ‘‘. (ضمیمہ براہین احمدیہ جلد پنجم ص 97)
بہت خوب. آخری مدت تو معین ہو گئی . اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ مرزا صاحب کی پیدائش کب کی ہے . شکر ہے کہ اس کے متعلق بھی ہمیں دماغ سوزی کی ضرورت نہیں . بلکہ مرزا صاحب نے ہم کو اس تکلیف سے بھی سبک دوش فرما دیا ہوا ہے . چنانچہ آپ کا کلام ہے کہ ’’ چودھویں صدی کے شروع ہوتے وقت میری عمر چالیس سال کی تھی ‘‘. چنانچہ یہ عبارت مرزا صاحب کی مع مزید تفصیل کے آگے کتاب ہذا پر درج ہے . اس کے علاوہ فیصلہ کن شہادت بھی ہمارے پاس ہے جو مرزا صاحب کے خلیفہ اول مولوی حکیم نور الدین صاحب نے مرزا صاحب کی زندگی میں شائع کی تھی . حکیم صاحب موصوف نے مرزا صاحب کی پیدائش سے اکسٹھ سالوں تک کا نقشہ یوں دیا ہے کہ پیدائش 1840ء بتا کر 1908ء میں آپ کی عمر 69سال بتائی ہے . (ملاحظہ ہو رسالہ نور الدین ص 171، 170 )
پیدائش کا معاملہ صاف ہو گیا . رہا انتقال کا واقعہ سو یہ تو بالکل صاف ہے کہ مرزا صاحب نے 26مئی 1908ء کو انتقال کیا ہے (تحفہ شہزادہ ویلز ص 62 مصنفہ مرزا محمود خلیفہ قادیان )

ناظرین ! خود مرزا صاحب اور مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول قادیان کی شہادت سے مرزا صاحب کی عمر بمشکل 69 سال تک پہنچتی ہے . حالانکہ آپ بوحی الٰہی فیصلہ کر چکے ہیں کہ میری عمر چوہتر سے چھیاسی سال کے درمیان ہو گی.

احمدی دوستو ! خدا کو حاضر ناظر جان کر بحکم الٰہی مثنے و فراویٰ ہو کر سوچو کہ یہ کیا بات ہے جس بات کو مرزا صاحب وحی الٰہی جتا کر بطور ثبوت پیش کرتے ہیں وہی غلط ثابت ہوتی ہے . گویا مرزا صاحب بزبان حال کہتے ہیں .

جو آرزو ہے اُس کا نتیجہ ہے انفعال
اب آرزو یہ ہے کہ کبھو آرزو نہ ہو

تتمہ : اس مذکورہ عبارت میں مرزا صاحب نے یہ بھی ایک ضمنی پیش گوئی فرما دی ہے کہ :
’’ مخالفوں کے ہر الزام سے تجھے بری کروں گا ‘‘ .

اور الزام تو رہے بجائے خود . خود پر یہ الزام عمر کا بھی بحال رہا . سچ ہے :

یہ عذر امتحاں جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزم اُن کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ساتویں شہادت اقوال مرزائیہ سے:


مرزا صاحب کے اپنے اقوال سے مرزا صاحب کا معاملہ خدا کے فضل سے ایک آسان ہے کہ کسی بیرونی شہادت کی حاجت نہیں . بلکہ خود ان کے اپنے بیانات ہی ایسے ہیں کہ ان کے مخالف کو بہت کچھ مفید ہو سکتے ہیں . عدالتی اور شرعی طریقہ پر مدعا علیہ کا اپنا بیان جس قدر کار آمد ہوتا ہے دوسرے گواہوں کا نہیں . اس لئے عدالتی طریق ہے کہ مدعی چاہے تو اپنے مدعا علیہ سے بحیثیت گواہ کے بیان لے سکتا ہے . اُس بیان میں مدعا علیہ اگر اقرار کر جائے تو دوسرے گواہوں کی نسبت بہت مفید ہوتا ہے .
ٹھیک اسی طرح بفضل تعالیٰ مرزا صاحب کے اپنے بیانات اتنے مفید ہیں کہ بیرونی شہادت اتنی مفید نہیں . کیونکہ مدعا علیہ کے بیان کے مطابق یہ مثل ہے جو بہت صحیح ہے .
’’ قضی الرجل علیٰ نفسہ‘‘
آدمی نے اپنے اوپر خود ڈگری کر لی
پس اس اصول کے ماتحت ہم مرزا صاحب کے اقوال بطور شہادت پیش کرتے ہیں . جن سے ہمارا دعویٰ (تکذیب مرزا ) با آسانی ثابت ہو سکے .

پہلا بیان: مرزا صاحب لکھتے ہیں .
’’تیسری مشابہت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے میری یہ ہے کہ وہ ظاہر نہیں ہوئے جب تک حضرت موسیٰ کی وفات پر چودہویں صدی کا ظہور نہیں ہوا . ایسا ہی میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے چودھویں صدی کے سر پر مبعوث ہوا ہوں ‘‘. ( رسالہ تحفہ گولڑویہ ص 71)

اسکی تردید: مرزا صاحب دوسری ایک کتاب میں یوں لکھتے ہیں.
’’ اور منجملہ ان علامات کے جو اس عاجز (مرزا) کے مسیح موعود ہونے کے بارے میں پائی جاتی ہیں . وہ خدمات خاصہ ہیں جو اس عاجز (مرزا) کو مسیح ابن مریم کی خدمات کے رنگ میں سپرد کی گئی ہیں . کیونکہ مسیح اس وقت یہودیوں میں آیا تھا کہ جب توریت کا مغز اور بطن یہودیوں کے دلوں پر سے اٹھایا گیا تھا . اور وہ زمانہ حضرت موسیٰ سے چوداں سو برس بعد تھا کہ جب ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا . پس ایسے ہی زمانہ میں یہ عاجز (مرزا) آیا . کہ جب قرآن کریم کا مغز اور بطن مسلمانوں کے دلوں پر سے اٹھایا گیا . اور یہ زمانہ بھی حضرت مثیل موسی کے وقت سے اُسی زمانہ کے قریب قریب گزر چکا ہے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان میں زمانہ تھا ‘‘. (ازالہ اوہام طبع اول ص 693٬ 692)
اس بیان میں جناب مرزا صاحب نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے درمیانی زمانہ کو چودہ سو برس سے کچھ زیادہ قرار دیا ہے . کیونکہ چودہ سو برس بعد کا لفظ چودہ سو پر زیادتی چاہتا ہے . عیسائیوں اور یہودیوں کی شہادت اس بارے میں 1451برس ہے . (دیکھو تقدیس اللغات )

حالانکہ پہلے بیان میں تیرہ سو برس ختم ہو کر چودھویں صدی کے سر پر آنا لکھا ہے . اس دوسرے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب ایک سو سال قبل از وقت ( بیفور ٹائم ) تشریف لے آئے . کیونکہ اس بیان کے مطابق مسیح موعود کی تشریف آوری کا وقت چودہ سو سال کے بعد ہے اور آپ چودھویں صدی کے شروع میں آئے ہیں . پس ثابت ہوا کہ آپ ایک سو سال سے بھی کچھ پہلے تشریف لے آئے ہیں لہٰذا سر دست تشریف لے جائیے ہم آپ پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہیں .
دوسری تردید: مذکورہ بالا تردیدی بیا ن کے سوا دوسرا ایک بیان مرزا صاحب کا ایسا صاف ہے جو ان دونوں کے مخالف ہے . آپ ایک جگہ مسلمانوں کو سمجھاتے ہیں کہ
’’ پیش گوئیوں میں ہمیشہ ابہام ہوتا ہے . صاف اور مفصل بیان نہیں ہوتا . کیونکہ پیش گوئیوں میں سننے والوں کا امتحان (ابتلاء ) کرنا منظور ہوتا ہے . چنانچہ توریت میں آنحضرت کے حق میں پیش گوئی اسی قسم کی مبہم ہے . جس میں وقت ملک اور نام نہیں بتایا گیا . اگر خدا تعالیٰ کو ابتلاء خلق اللہ کا منظور نہ ہوتا اور ہر طرح سے کھلے کھلے طور پر پیشگوئی کا بیان کرنا ارادہ الہٰی ہوتا تو پھر اس طرح پر بیان کرنا چاہیے تھا کہ ’’ اے موسیٰ میں تیرے بعد بائیسویں صدی میں ملک عرب میں بنی اسمٰعیل سے ایک نبی پیدا کروں گا . جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو گا ‘‘ . (ازالہ اوہام طبع اول ص 278)
اس بیان میں مرزا صاحب نے صاف تسلیم کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پوری اکیس صدیاں گزار کر بائیسویں صدی میں پیدا ہوئے تھے .

احمدی دوستو ! عبارت مرزا کو پھر غور سے پڑھو .

اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سرور کائنات کا درمیانی زمانہ کتنا ہے . کچھ شک نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عیسوی سنہ کے حساب سے22 اپریل 571ء کو ہوئی اور بعثت (رسالت )12فروری 610ء کو ہوئی تھی . یہ چھ سو اکیس سال صدیوں سے نکال دیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا درمیانی زمانہ پندرہ سو سال رہتا ہے .
پس نتیجہ صاف ہے کہ مرزا صاحب اپنے ہی بیان کے مطابق مقررہ وقت پر نہیں آئے بلکہ بہت پہلے ( بیفور ٹائم)تشریف لے آئے ہیں . لہٰذا آپ عیسیٰ موعود نہیں .غالباً اسی لئے قبل از تکمیل کار تشریف لے گئے .

ایسا جانا تھا تو جانا ! تمہیں کیا تھا آنا
 
Top