شیخ راحیل احمد
شیخ راحیل پیدائشی منکر ختم نبوت تھے وہ قادیان میں 1947ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی مستقل رہائش چناب نگر (سابقہ ربوہ) میں تھی وہیں پلے بڑھے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ کچھ عرصہ ملتان میں اور 1964ء اور 1980ء تک کراچی میں رہے اور وہیں پرائیویٹ طور پر بی اے کیا۔ 1984ء میں ضیاء الحق دور حکومت میں قادیانی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد بہت سے قادیانیوں کی طرح شیخ راحیل نے بھی جرمنی کا رخ کیا اور وہیں مقیم ہو گئے۔ انہوں نے 23 اگست 2003ء کو اپنے بیوی بچوں سمیت اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔قبول اسلام کے بعد وہ ختم نبوت کے ایسے مجاہد کے روپ میںسامنے آئے کہ جس نے مرزائیت کے ایوان باطل میں زلزلہ بپا کئے رکھا۔ جو کچھ سیکھا تھا وہ ختم نبوت کے دفاع میں استعمال کیا۔ مرزائی شاطروں کے داؤپیچ ، ان کا انداز، ان کی مہارت بالآخر ختم نبوت کے کام آئی اور 56 برس کی غفلت کی زندگی کا آخری6 برس میں انہوں نے یوں کفارہ ادا کیا کہ آنکھیں حیرت و استعجاب سے پھٹی رہ گئیں۔ بڑے بڑے دعویدار انگشت بدنداں سوال کرتے پائے گئے کہ جب ختم نبوت کے محاذ کی وارث شخصیات اور تنظیمیں اپنے کام سے غافل ہیں تو اس ایک شخص نے اتنا کام کس طرح کردیا انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد سے انتقال تک بقیہ زندگی منکرین ختم نبوت کو اسلام کی دعوت دینے میں گزار دی اور ان کی اس جدوجہد کے نتیجہ میں کئی منکرین ختم نبوت کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔
شیخ راحیل پیدائشی منکر ختم نبوت تھے وہ قادیان میں 1947ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی مستقل رہائش چناب نگر (سابقہ ربوہ) میں تھی وہیں پلے بڑھے اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ کچھ عرصہ ملتان میں اور 1964ء اور 1980ء تک کراچی میں رہے اور وہیں پرائیویٹ طور پر بی اے کیا۔ 1984ء میں ضیاء الحق دور حکومت میں قادیانی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد بہت سے قادیانیوں کی طرح شیخ راحیل نے بھی جرمنی کا رخ کیا اور وہیں مقیم ہو گئے۔ انہوں نے 23 اگست 2003ء کو اپنے بیوی بچوں سمیت اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔قبول اسلام کے بعد وہ ختم نبوت کے ایسے مجاہد کے روپ میںسامنے آئے کہ جس نے مرزائیت کے ایوان باطل میں زلزلہ بپا کئے رکھا۔ جو کچھ سیکھا تھا وہ ختم نبوت کے دفاع میں استعمال کیا۔ مرزائی شاطروں کے داؤپیچ ، ان کا انداز، ان کی مہارت بالآخر ختم نبوت کے کام آئی اور 56 برس کی غفلت کی زندگی کا آخری6 برس میں انہوں نے یوں کفارہ ادا کیا کہ آنکھیں حیرت و استعجاب سے پھٹی رہ گئیں۔ بڑے بڑے دعویدار انگشت بدنداں سوال کرتے پائے گئے کہ جب ختم نبوت کے محاذ کی وارث شخصیات اور تنظیمیں اپنے کام سے غافل ہیں تو اس ایک شخص نے اتنا کام کس طرح کردیا انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد سے انتقال تک بقیہ زندگی منکرین ختم نبوت کو اسلام کی دعوت دینے میں گزار دی اور ان کی اس جدوجہد کے نتیجہ میں کئی منکرین ختم نبوت کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔