مشہور صوفی شیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ شیخ اکبر کے نام سے مشہور ہیں ان کی چند عبارات سے مرزائی دھوکہ دیا جاتا ہے کہ اور یوں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے لکھا ہے صرف تشریعی نبوت کا در وازہ بند ہے اور نبی کریمؐ نے جو یہ فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے مخالف ہو ، اگر کوئی ہوگا تو وہ میری شریعت کے تابع ہوگا ۔۔۔ ( الفتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 3 ) ۔
شیخ ابن عربی کے بارے میں مرزا غلام قادیانی کے خیالات
اس سے پہلے کے ہم شیخ ا بن عربی پر لگائے گئے اس بہتان کا جائزہ لیں اور بتائیں کہ شیخ ابن عربی کے نزدیک نبوت کا مفہوم کیا ہے ؟ اور ان کے نزدیک تشریعی نبوت سے کیا مراد ہے ؟ اور کیا ان کے نزدیک آنحضرت ؐ کے بعد کسی کو نبی یا رسول کہا جا سکتا ہے ؟ ہم آپ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مرزا ٖغلام قادیانی کے پیروکاروں کو آپنے مذہب کی تائید میں شیخ ابن عربی کی عبارات کو پیش کرنے کا حق نہیں پہنچتا ، کیونکہ ان کے پیشوا مرزا ٖغلام قادیانی نے شیخ ابن عربی کو مسئلہ وحدت الوجود کے تناظر میں قابل نفرت ، قابل کراہت اور دہریوں کے مثل قرار دیا ہے ۔ نیز مرزا نے صاف لکھا ہے کہ وہ شیخ ابن عربی کی اس بات کے ساتھ متفق نہیں کہ غیر تشریعی نبوت جاری ہے ۔ ہم سر دست یہ حوالے آپ لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں ۔
مسئلہ وحدت الوجود کا ذکر کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے کہا :
شیخ محی الدین ( ابن عربی ) سے پہلے اس وحدت الوجود کا نام ونشان نہ تھا " اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا " دیکھا گیا ہے کہ یہ وحدت الوجود والے عموماََ اباحتی ہوتے ہیں اور نماز روزہ کی ہر گز پرواہ نہیں کرتے ، یہاں تک کے کنجروں کے ساتھ بھی تعلقات رکھتے ہیں " ( ملفوظات جلد دوم 2 صفحہ 232 پانچ جلدوں والا ایڈیشن )
ایک اور جگہ مرزا نے کہا :
وجودیوں ( یعنی شیخ ابن عربی وغیرہ ۔ ناقل ) کا یہ مذہب ہے کہ ہم لاالہ الااللہ پڑھتے ہیں اور ہم ہی سچے موحد ہیں اور باقی سب مشرک ہیں ، جس کا نتیجہ عوام میں یہ ہوا کہ اباحت پھیل گئی اور فسق وفجور میں ترقی ہوگئی کیونکہ وہ اسے حرام نہیں سمجھتے اور نماز روزہ اور دوسرے اوامر کو ضروری نہیں سمجھتے ، اس سے اسلام پر بہت بڑی آفت آئی ہے ، میرے نزدیک وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے ۔ یہ وجودی ( شیخ ابن عربی وغیرہ ۔ ناقل ) سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں "( ملفوظات جلد 4 صفحہ 397 ، پانچ جلدوں والا ایڈیشن )
یہ ہیں مرزا ٖغلام قادیانی کے خیالات شیخ ابن عربی وغیرہ کے بارے میں ، اب یہ پڑھیں مرزا نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
محی الدین ابن عربی نے لکھا تھا کہ تشریعی نبوت جائز نہیں دوسری جائز ہے ، مگر میرا اپنا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے ، صرف آنحضرت ﷺ کے انعکاس سے جو نبوت ہو وہ جائز ہے " ( ااخبار البدر۔ قادیان ، 17 اپریل 1903 صفحہ 102 )
جب مرزا قادیانی کے نزدیک شیخ ابن عربی مسئلہ وحدت الوجود کے موجد ہیں اور اس کے نزدیک وجودی سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں ، وجودیوں کے ہاں نماز روزے کی کوئی اہمیت نہیں ، اور پھر مرزا خود شیخ ابن عربی کے ساتھ غیر تشریعی نبوت کے مسئلے میں متفق نہیں تو مرزا کی امت کس منہ سے شیخ ابن عربی کی عبارات کو اپنے حق میں پیش کرتی ہے ؟ کیا اس طرح وہ اپنے نبی کی نافرمانی کے مرتکب نہیں ہو رہے ؟۔
اب ہم آتے ہیں شیخ ابن عربی کی ان عبارات کی طرف جن کے اندر تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کے الفاظ ملتے ہیں اور جن سے جماعت مرزائیہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ شیخ ابن عربی ایسی نبوت کے جاری ہونے کے قائل ہیں جو کہ کوئی نئی شریعت لے کر نہ آئے ، جبکہ بات سراسر غلط ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ صوفیاء کی بات کو سمجھنا ہر کسی کا کام نہیں ، چناچہ جب ہم شیخ ابن عربی کی دوسری عبارات کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جو ولایت کے مقابلے میں ہے اور جسے شریعت نے نبوت کہا اور انہوں نے کمالات نبوت اور مبشرات کو غیر تشریعی نبوت فرمایا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے اسے نبوت نہیں کہا یعنی جو نبوت بغیر تشریع ہو وہ نبوت نہیں کہلاتی بلکہ نبوت کا اطلاق اس وقت درست ہوتا ہے کہ جب تمام اجزائے نبوت جن میں تشریع بھی داخل ہے مکمل موجود ہوں پس کامل نبوت باقی نہیں صرف بعض اجزائے نبوت باقی ہیں، جنہیں نہ شرعاََ نبوت کہا جا سکتا ہے نہ عرفاََ ، پس اگر غیر تشریعی نبوت کو باقی بھی کہا جائے تو اس کا معنی صرف یہ ہے کہ سچے خواب اور مبشرات باقی ہیں جو نہ نبوت کہلاسکتی ہے اور نہ صاحب مبشرات نبی کہلا سکتا ہے ۔
ابن عربی ؒ کے نزدیک ہر نبوت تشریعی ہے
آئیے ہم شیخ ابن عربی کی عبارات سے ہی اس بات کو ثابت کرتے ہیں :
فما بقی للاولیاء الیوم بعد ارتفاع النبوۃ الا التعریف وانسدت ابواب الاوامر الالھیۃ والنواھی ، فمن ادعاھا بعد محمد فھو مدع شریعۃ اوحی بھا الیہ سواء وافق بھا شرعنا او خالف
پس نبوت ختم ہوجانے کے بعد اولیاء کے لئے صرف معارف باقی رہ گئے ہیں اور اللہ کے اوامر ونواہی کے دروازے بند ہوچکے پس اگر کوئی محمدﷺ کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ ( اللہ نے اسے کوئی حکم دیا ہے یا کسی بات سے منع کیا ہے ) تو وہ مدعی شریعت ہی ہے خواہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے موافق ہو یا خلاف ہو ( وہ مدعی شریعت ضرور ہے ) ۔ ( الفتوحات المکیہ ، جلد 3 صفحہ 39 )
شیخ کی اس عبارت سے واضح ہوا کہ مدعی شریعت صرف وہی نہیں جو شریعت محمدیہ کے بعد نئے احکام لے کر آئے ، بلکہ وہ مدعی نبوت جس کا دعویٰ ہو کہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے بالکل مطابق ہے وہ بھی مدعی شریعت ہے ۔ اور یہ دعویٰ بھی ختم نبوت کے منافی ہے ، لہٰذا آنحضرتﷺ کے بعد جس طرح نئی شریعت کا دعویٰ ختم نبوت کا انکار ہے اسی طرح شریعت محمدیہ کے مطابق وحی کا دعویٰ بھی ختم نبوت کا انکار ہے ، اس عبارت سے واضح ہوا کہ شیخ ابن عربی کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جسے شریعت نبوت کہے خواہ وہ نبوت نئی شریعت کی مدعی ہو یا شریعت محمدیہ کی موافقت کا دعویٰ کرے ، اس طرح شیخ ابن عربی کے نزدیک غیر تشریعی نبوت سے مراد وہ کمالات نبوتا اور کمالات ولایت ہوں گے جن پر شریعت نبوت کا اطلاق نہیں کرتی اور وہ نبوت نہیں کہلاتے ۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے ساتھ ہی وحی منقطع ہوگئی
واعلم ان لنا من اللہ الالھام لاالوحی فان سبیل الوحی قد انقطع بموت رسول اللہ ﷺ وقد کان الوحی قبلہ ولم یجیء خبر الھی ان بعدہ وحیاََ کما قال ولقد اوحی الیک اولی الذین من قبلک ولم یذکر وحیاََ بعدہ وان لم یلزم ھذا وقد جاء الخبر النبوی الصادق فی عیسیٰ علیہ اسلام وقد کان ممن اوحی الیہ قبل رسول اللہ ﷺ لایؤمنا الامنا ای بسنتنا فلہ الکشف اذا نزل والالھام کما لھذہ الامۃ
جان لو کہ ہمارے لئے ( یعنی اس امت کے لئے ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف الہام ہے وحی نہیں ۔ وحی کا سلسلہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر ختم ہوچکا ہے ۔ آپ سے پہلے بے شک یہ وحی کا سلسلہ موجود تھا ۔ اور ہمارے پاس کوئی ایسی خبر الہٰی نہیں پہنچی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی کوئی وحی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور وحی کی گئی تیری طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف ۔ ( الزمر :65 ) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بعد کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا ۔ ہاں آنحضرت ﷺ کی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے بارے میں سچی خبر پہنچی ہے ، اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف آنحضرت ﷺ سے پہلے وحی کی گئی تھی ۔ آپ جب امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ جب نازل ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہء کشف بھی ہوگا اور الہام بھی جیسا کہ یہ مقام ( اولیاء ) امت کے لئے ہے ۔( الفتوحات المکیہ ، جلد 3 صفحہ 238 )
یہاں شیخ نے صراحت کے ساتھ اس امت میں وحی نبوت کا سلسلہ بند بتلایا ہے ، اگر آنحضرت ﷺ کے بعد وحی جاری ہوتی تو شیخ ابن عربی اس طرح اس کے بند ہونے کا ذکر نہ فرماتے ، نیز یہ بھی وضاحت فرمادی کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پر آپ کی وفات کے بعد کوئی وحی اترے گی تو وہ کشف اور الہام کے معنی میں ہوگی اور اصطلاحی وحی نہ ہوگی جو صرف نبیوں پر آتی ہے وہ نئی شریعت کے ساتھ ہو یا پرانی شریعت کے ساتھ ، نیز اس تحریر سے شیخ ابن عربی کا یہ عقیدہ بھی پتہ چل گیا کہ آپ انہی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے نازل ہونے کے قائل ہیں جن پر آنحضرت ﷺ سے پہلے وحی نازل ہوچکی تھی ، جبکہ قادیانی عقیدہ اس کے برعکس ہے ۔
نبی کا لفظ صرف اس پر بولا جائے گا جو صاحب تشریع ہو
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
فاخبر رسول اللہ ﷺ ان الرؤیا جزء من اجزاء النبوۃ فقد بقی للناس من النبوۃ ھذا وغیرہ ومع لا یطلق اسم النبوۃ ولا النبی الاعلی المشرع خاصۃ فحجر ھذا الاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ وماحجر النبوۃ التی لیس فیھا ھذا الوصف الخاص وان کان حجر الاسم
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے ، پس نبوت میں سے لوگوں کے لیے یہ رؤیا وغیرہ باقی رہ گیا ہے مگر اس کے باوجود نبوت اور نبی کا نام صرف اس پر بولا جاتا ہے جو صاحب دین وشریعت ہو۔ ایک خاص وصف معین کی بناء پر اس نام (نبی ) کی بندش کر دی گئی ہے ۔( الفتوحات المکیہ ۔ جلد 2 صفحہ 376 )
شیخ ابن عربی کی یہ تحریر واضح بتلا رہی ہے کہ ان کے نزدیک نبی کا لفظ صرف اس کے ساتھ خاص ہے جو صاحب دین وشریعت ہو ( چاہے اسے نئی شریعت ملی ہو یا کسی پرانی شریعت پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہو ) اور یہ نبوت ختم ہو چکی ہے اب لوگوں کے لئے مبشرات وغیرہ ہی باقی رہ گئے ہین اور ان پر نبوت کا لفظ نہیں بولا جاسکتا ۔
اب کسی کا نام نبی یا رسول نہیں ہوسکتا
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
ولھذا قال ﷺ ان الرسالۃوالنبوۃ قد انقطعت وما انقطعت الامن وجہ خاص انقطع منھا مسمی النبی والرسول الذلک قال فلا رسول بعدی ولا نبی ثم ابقی منھا المبشرات وابقی حکم المجتھدین وازال عنھم الاسم
آپ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوچکی ، یہ ختم ہونا ایک خاص وجہ سے ہے ، ا ب نبی اور رسول کا نام ختم ہوچکا ہے ( یعنی اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہا جا سکتا ) اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی م پھر آپ ﷺ نے مبشرات کو باقی رکھا اور مجتہدین کے حکم کو باقی رکھا لیکن ان سے ( نبی اور رسول ) کا نام دور کر دیا ۔( الفتوحات المکیہ ، جلد3 صفحہ 380 )
دیکھیے کس صراحت کے ساتھ شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اب نبی یا رسول کا نام کسی کے لئے نہیں بولا جا سکتا ، ہاں نبوت کے اجزاء یعنی اچھے خواب وغیرہ باقی ہیں ( جسے شیخ ابن عربی نبوت کے باقی ہونے سے تعبیر کرتے ہیں ) لیکن ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ صاحب مبشرات کو نبی یا رسول نہیں کہہ سکتے ۔
جو وحی نبی اور سول کے ساتھ خاص ہے وہ منقطع ہوچکی ، اب کسی کو نبی یا رسول کا نام نہیں دیا جاسکتا
وانما انقطع الوحی الخاص بالرسول والنبی من نزول الملک علی اذنہ وقبلہ وتحجیر اسم النبی والرسول
جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر ( وحی لے کر ) نازل ہوتا تھا وہ وحی بند ہوچکی ، اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع ہوگیا ۔( الفتوحات المکیہ ، جلد 3 صفحہ 381 )
شیخ ابن عربی ؒ کا واضح عقیدہ ختم نبوت
شیخ ابن عربی آپنی دوسری کتاب فصوص الحکم میں اپنا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں ۔
لانہ اکمل موجود فی ھذا النوع الانسانی ولھذا بدیء بہ الامر وختم ، فکان نبیاََ وآدم بین الماء والطین ثم کان بنشئتہ خاتم النبیین
آپ ﷺ نوع انسانی میں سب سے زیادہ کامل انسان ہیں اور اسی لئے نبوت کا معاملہ آپ سے ہی شروع ہوا ، اور آپ پر ہی ختم ہوا ۔ آپ نبی تھے اور آدم علیہ اسلام ہنوزآب وگلِ میں تھے ، پھر آپ ﷺ اپنی نشئاۃ بشری کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں ( یعنی آخری نبی ہیں ) ۔ ( فصوص الحکم ، صفحہ 214 )
الغرض ! شیخ ابن عربی ؒ نے آپنے عقیدے کی جو وضاحت کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے فیضان نبوت سے اس امت میں کمالات نبوت باقی ہیں ، مبشرات ( سچے خواب ) بھی اجزاء نبوت میں سے ہیں ، اور محفوظ الہامات بھی کمالات نبوت میں سے ہیں ، شریعت کے صافی چشمہ سے اجتہاد واستنباط کے ذریعے نئے نئے مسئلوں کی دریافت بھی کمالات نبوت میں سے ہے ، لیکن اس کے باوجود نبی کا لفظ نہ سچے خواب دیکھنے والوں پر بولا جائے گا ، نہ صاحب کشف کا ملین پر اور نہ ائمہ مجتہدین پر ، اس امت سے نبی اور رسول کا لفظ ہمیشہ کے لئے روک دیا گیا ہے ۔نیز شیخ ابن عربی کے نزدیک تشریعی نبوت کی اصطلاح اس نبی کے لئے استعمال کی گئی ہے جنہیں شریعت نے نبی کہا ، اور یہ لفظ آپ کی عبارات میں اولیاء یا صاحبین مبشرات وغیرہ کے مقابلے میں آیا ہے ، اور شیخ ابن عربی کے نزدیک غیر تشریعی نبوت کی ایک خاص اصطلاح ہے جو ولایت کے مترادف ہے اور انہوں نے یہ تصریح متعدد جگہ پر فرما دی ہے کہ کسی ولی کا مقام نبوت حاصل نہیں ہوسکتا ، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ شیخ ابن عربی صرف لغوی طور پر اولیاءاللہ کے الہامات ومبشرات کو نبوت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن نہ کسی ولی کو نبی کی طرح مفترض الطاعۃ کہتے ہیں اور نہ ہی کسی ولی کے انکار کو کفر کہتے ہیں اور نہ ہی کسی ولی کا نبی یا رسول کے لفظ سے یاد کرنا ٹھیک سمجھتے ہیں ، بلکہ اولیاء اللہ کے لئے جس الہام واخبار من اللہ کو نبوت سے تعبیر کرتے ہیں اس نبوت کا حیوانات میں بھی جاری ہونا مانتے ہیں ، چناچہ ایک جگی لکھتے ہیں:
وھذہ النبوۃ ساریۃ فی الحیوان مثل قولہ تعالی واوحی ربک الی النحل
اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی ۔( الفتوحات المکیہ ، جلد 3 صفحہ 382 )
بلکہ شیخ تو اس " لغوی " نبوت کو ہر موجود چیز میں جاری مانتے ہیں ، چناچہ ان کے الفاظ ہیں :
علم ان النبوۃ ساریۃ فی کل موجود یعلم ذلک اھل الکشف والوجود
معلوم ہوا کہ نبوت ہر موجود چیز میں جاری وساری ہے اور یہ بات اہل کشف خوب جانتے ہیں ۔ ( الفتوحات المکیہ ، جلد3صفحہ 382 )
تو کیا مرزائی شہد کی مکھی کو بھی " غیر تشریعی نبی " کہنا شروع کر دیں گے ۔ ؟ یا وہ ہر حجر وشجر کو نبی پکارنا شروع کر دیں گے ؟
شیخ ابن عربی کے بارے میں مرزا غلام قادیانی کے خیالات
اس سے پہلے کے ہم شیخ ا بن عربی پر لگائے گئے اس بہتان کا جائزہ لیں اور بتائیں کہ شیخ ابن عربی کے نزدیک نبوت کا مفہوم کیا ہے ؟ اور ان کے نزدیک تشریعی نبوت سے کیا مراد ہے ؟ اور کیا ان کے نزدیک آنحضرت ؐ کے بعد کسی کو نبی یا رسول کہا جا سکتا ہے ؟ ہم آپ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ مرزا ٖغلام قادیانی کے پیروکاروں کو آپنے مذہب کی تائید میں شیخ ابن عربی کی عبارات کو پیش کرنے کا حق نہیں پہنچتا ، کیونکہ ان کے پیشوا مرزا ٖغلام قادیانی نے شیخ ابن عربی کو مسئلہ وحدت الوجود کے تناظر میں قابل نفرت ، قابل کراہت اور دہریوں کے مثل قرار دیا ہے ۔ نیز مرزا نے صاف لکھا ہے کہ وہ شیخ ابن عربی کی اس بات کے ساتھ متفق نہیں کہ غیر تشریعی نبوت جاری ہے ۔ ہم سر دست یہ حوالے آپ لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں ۔
مسئلہ وحدت الوجود کا ذکر کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے کہا :
شیخ محی الدین ( ابن عربی ) سے پہلے اس وحدت الوجود کا نام ونشان نہ تھا " اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا " دیکھا گیا ہے کہ یہ وحدت الوجود والے عموماََ اباحتی ہوتے ہیں اور نماز روزہ کی ہر گز پرواہ نہیں کرتے ، یہاں تک کے کنجروں کے ساتھ بھی تعلقات رکھتے ہیں " ( ملفوظات جلد دوم 2 صفحہ 232 پانچ جلدوں والا ایڈیشن )
ایک اور جگہ مرزا نے کہا :
وجودیوں ( یعنی شیخ ابن عربی وغیرہ ۔ ناقل ) کا یہ مذہب ہے کہ ہم لاالہ الااللہ پڑھتے ہیں اور ہم ہی سچے موحد ہیں اور باقی سب مشرک ہیں ، جس کا نتیجہ عوام میں یہ ہوا کہ اباحت پھیل گئی اور فسق وفجور میں ترقی ہوگئی کیونکہ وہ اسے حرام نہیں سمجھتے اور نماز روزہ اور دوسرے اوامر کو ضروری نہیں سمجھتے ، اس سے اسلام پر بہت بڑی آفت آئی ہے ، میرے نزدیک وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے ۔ یہ وجودی ( شیخ ابن عربی وغیرہ ۔ ناقل ) سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں "( ملفوظات جلد 4 صفحہ 397 ، پانچ جلدوں والا ایڈیشن )
یہ ہیں مرزا ٖغلام قادیانی کے خیالات شیخ ابن عربی وغیرہ کے بارے میں ، اب یہ پڑھیں مرزا نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
محی الدین ابن عربی نے لکھا تھا کہ تشریعی نبوت جائز نہیں دوسری جائز ہے ، مگر میرا اپنا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے ، صرف آنحضرت ﷺ کے انعکاس سے جو نبوت ہو وہ جائز ہے " ( ااخبار البدر۔ قادیان ، 17 اپریل 1903 صفحہ 102 )
جب مرزا قادیانی کے نزدیک شیخ ابن عربی مسئلہ وحدت الوجود کے موجد ہیں اور اس کے نزدیک وجودی سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں ، وجودیوں کے ہاں نماز روزے کی کوئی اہمیت نہیں ، اور پھر مرزا خود شیخ ابن عربی کے ساتھ غیر تشریعی نبوت کے مسئلے میں متفق نہیں تو مرزا کی امت کس منہ سے شیخ ابن عربی کی عبارات کو اپنے حق میں پیش کرتی ہے ؟ کیا اس طرح وہ اپنے نبی کی نافرمانی کے مرتکب نہیں ہو رہے ؟۔
اب ہم آتے ہیں شیخ ابن عربی کی ان عبارات کی طرف جن کے اندر تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کے الفاظ ملتے ہیں اور جن سے جماعت مرزائیہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ شیخ ابن عربی ایسی نبوت کے جاری ہونے کے قائل ہیں جو کہ کوئی نئی شریعت لے کر نہ آئے ، جبکہ بات سراسر غلط ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ صوفیاء کی بات کو سمجھنا ہر کسی کا کام نہیں ، چناچہ جب ہم شیخ ابن عربی کی دوسری عبارات کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جو ولایت کے مقابلے میں ہے اور جسے شریعت نے نبوت کہا اور انہوں نے کمالات نبوت اور مبشرات کو غیر تشریعی نبوت فرمایا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے اسے نبوت نہیں کہا یعنی جو نبوت بغیر تشریع ہو وہ نبوت نہیں کہلاتی بلکہ نبوت کا اطلاق اس وقت درست ہوتا ہے کہ جب تمام اجزائے نبوت جن میں تشریع بھی داخل ہے مکمل موجود ہوں پس کامل نبوت باقی نہیں صرف بعض اجزائے نبوت باقی ہیں، جنہیں نہ شرعاََ نبوت کہا جا سکتا ہے نہ عرفاََ ، پس اگر غیر تشریعی نبوت کو باقی بھی کہا جائے تو اس کا معنی صرف یہ ہے کہ سچے خواب اور مبشرات باقی ہیں جو نہ نبوت کہلاسکتی ہے اور نہ صاحب مبشرات نبی کہلا سکتا ہے ۔
ابن عربی ؒ کے نزدیک ہر نبوت تشریعی ہے
آئیے ہم شیخ ابن عربی کی عبارات سے ہی اس بات کو ثابت کرتے ہیں :
فما بقی للاولیاء الیوم بعد ارتفاع النبوۃ الا التعریف وانسدت ابواب الاوامر الالھیۃ والنواھی ، فمن ادعاھا بعد محمد فھو مدع شریعۃ اوحی بھا الیہ سواء وافق بھا شرعنا او خالف
پس نبوت ختم ہوجانے کے بعد اولیاء کے لئے صرف معارف باقی رہ گئے ہیں اور اللہ کے اوامر ونواہی کے دروازے بند ہوچکے پس اگر کوئی محمدﷺ کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ ( اللہ نے اسے کوئی حکم دیا ہے یا کسی بات سے منع کیا ہے ) تو وہ مدعی شریعت ہی ہے خواہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے موافق ہو یا خلاف ہو ( وہ مدعی شریعت ضرور ہے ) ۔ ( الفتوحات المکیہ ، جلد 3 صفحہ 39 )
شیخ کی اس عبارت سے واضح ہوا کہ مدعی شریعت صرف وہی نہیں جو شریعت محمدیہ کے بعد نئے احکام لے کر آئے ، بلکہ وہ مدعی نبوت جس کا دعویٰ ہو کہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے بالکل مطابق ہے وہ بھی مدعی شریعت ہے ۔ اور یہ دعویٰ بھی ختم نبوت کے منافی ہے ، لہٰذا آنحضرتﷺ کے بعد جس طرح نئی شریعت کا دعویٰ ختم نبوت کا انکار ہے اسی طرح شریعت محمدیہ کے مطابق وحی کا دعویٰ بھی ختم نبوت کا انکار ہے ، اس عبارت سے واضح ہوا کہ شیخ ابن عربی کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جسے شریعت نبوت کہے خواہ وہ نبوت نئی شریعت کی مدعی ہو یا شریعت محمدیہ کی موافقت کا دعویٰ کرے ، اس طرح شیخ ابن عربی کے نزدیک غیر تشریعی نبوت سے مراد وہ کمالات نبوتا اور کمالات ولایت ہوں گے جن پر شریعت نبوت کا اطلاق نہیں کرتی اور وہ نبوت نہیں کہلاتے ۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے ساتھ ہی وحی منقطع ہوگئی
واعلم ان لنا من اللہ الالھام لاالوحی فان سبیل الوحی قد انقطع بموت رسول اللہ ﷺ وقد کان الوحی قبلہ ولم یجیء خبر الھی ان بعدہ وحیاََ کما قال ولقد اوحی الیک اولی الذین من قبلک ولم یذکر وحیاََ بعدہ وان لم یلزم ھذا وقد جاء الخبر النبوی الصادق فی عیسیٰ علیہ اسلام وقد کان ممن اوحی الیہ قبل رسول اللہ ﷺ لایؤمنا الامنا ای بسنتنا فلہ الکشف اذا نزل والالھام کما لھذہ الامۃ
جان لو کہ ہمارے لئے ( یعنی اس امت کے لئے ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف الہام ہے وحی نہیں ۔ وحی کا سلسلہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر ختم ہوچکا ہے ۔ آپ سے پہلے بے شک یہ وحی کا سلسلہ موجود تھا ۔ اور ہمارے پاس کوئی ایسی خبر الہٰی نہیں پہنچی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی کوئی وحی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور وحی کی گئی تیری طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف ۔ ( الزمر :65 ) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بعد کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا ۔ ہاں آنحضرت ﷺ کی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے بارے میں سچی خبر پہنچی ہے ، اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف آنحضرت ﷺ سے پہلے وحی کی گئی تھی ۔ آپ جب امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ جب نازل ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہء کشف بھی ہوگا اور الہام بھی جیسا کہ یہ مقام ( اولیاء ) امت کے لئے ہے ۔( الفتوحات المکیہ ، جلد 3 صفحہ 238 )
یہاں شیخ نے صراحت کے ساتھ اس امت میں وحی نبوت کا سلسلہ بند بتلایا ہے ، اگر آنحضرت ﷺ کے بعد وحی جاری ہوتی تو شیخ ابن عربی اس طرح اس کے بند ہونے کا ذکر نہ فرماتے ، نیز یہ بھی وضاحت فرمادی کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پر آپ کی وفات کے بعد کوئی وحی اترے گی تو وہ کشف اور الہام کے معنی میں ہوگی اور اصطلاحی وحی نہ ہوگی جو صرف نبیوں پر آتی ہے وہ نئی شریعت کے ساتھ ہو یا پرانی شریعت کے ساتھ ، نیز اس تحریر سے شیخ ابن عربی کا یہ عقیدہ بھی پتہ چل گیا کہ آپ انہی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے نازل ہونے کے قائل ہیں جن پر آنحضرت ﷺ سے پہلے وحی نازل ہوچکی تھی ، جبکہ قادیانی عقیدہ اس کے برعکس ہے ۔
نبی کا لفظ صرف اس پر بولا جائے گا جو صاحب تشریع ہو
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
فاخبر رسول اللہ ﷺ ان الرؤیا جزء من اجزاء النبوۃ فقد بقی للناس من النبوۃ ھذا وغیرہ ومع لا یطلق اسم النبوۃ ولا النبی الاعلی المشرع خاصۃ فحجر ھذا الاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ وماحجر النبوۃ التی لیس فیھا ھذا الوصف الخاص وان کان حجر الاسم
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے ، پس نبوت میں سے لوگوں کے لیے یہ رؤیا وغیرہ باقی رہ گیا ہے مگر اس کے باوجود نبوت اور نبی کا نام صرف اس پر بولا جاتا ہے جو صاحب دین وشریعت ہو۔ ایک خاص وصف معین کی بناء پر اس نام (نبی ) کی بندش کر دی گئی ہے ۔( الفتوحات المکیہ ۔ جلد 2 صفحہ 376 )
شیخ ابن عربی کی یہ تحریر واضح بتلا رہی ہے کہ ان کے نزدیک نبی کا لفظ صرف اس کے ساتھ خاص ہے جو صاحب دین وشریعت ہو ( چاہے اسے نئی شریعت ملی ہو یا کسی پرانی شریعت پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہو ) اور یہ نبوت ختم ہو چکی ہے اب لوگوں کے لئے مبشرات وغیرہ ہی باقی رہ گئے ہین اور ان پر نبوت کا لفظ نہیں بولا جاسکتا ۔
اب کسی کا نام نبی یا رسول نہیں ہوسکتا
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
ولھذا قال ﷺ ان الرسالۃوالنبوۃ قد انقطعت وما انقطعت الامن وجہ خاص انقطع منھا مسمی النبی والرسول الذلک قال فلا رسول بعدی ولا نبی ثم ابقی منھا المبشرات وابقی حکم المجتھدین وازال عنھم الاسم
آپ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوچکی ، یہ ختم ہونا ایک خاص وجہ سے ہے ، ا ب نبی اور رسول کا نام ختم ہوچکا ہے ( یعنی اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہا جا سکتا ) اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی م پھر آپ ﷺ نے مبشرات کو باقی رکھا اور مجتہدین کے حکم کو باقی رکھا لیکن ان سے ( نبی اور رسول ) کا نام دور کر دیا ۔( الفتوحات المکیہ ، جلد3 صفحہ 380 )
دیکھیے کس صراحت کے ساتھ شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اب نبی یا رسول کا نام کسی کے لئے نہیں بولا جا سکتا ، ہاں نبوت کے اجزاء یعنی اچھے خواب وغیرہ باقی ہیں ( جسے شیخ ابن عربی نبوت کے باقی ہونے سے تعبیر کرتے ہیں ) لیکن ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ صاحب مبشرات کو نبی یا رسول نہیں کہہ سکتے ۔
جو وحی نبی اور سول کے ساتھ خاص ہے وہ منقطع ہوچکی ، اب کسی کو نبی یا رسول کا نام نہیں دیا جاسکتا
وانما انقطع الوحی الخاص بالرسول والنبی من نزول الملک علی اذنہ وقبلہ وتحجیر اسم النبی والرسول
جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر ( وحی لے کر ) نازل ہوتا تھا وہ وحی بند ہوچکی ، اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع ہوگیا ۔( الفتوحات المکیہ ، جلد 3 صفحہ 381 )
شیخ ابن عربی ؒ کا واضح عقیدہ ختم نبوت
شیخ ابن عربی آپنی دوسری کتاب فصوص الحکم میں اپنا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں ۔
لانہ اکمل موجود فی ھذا النوع الانسانی ولھذا بدیء بہ الامر وختم ، فکان نبیاََ وآدم بین الماء والطین ثم کان بنشئتہ خاتم النبیین
آپ ﷺ نوع انسانی میں سب سے زیادہ کامل انسان ہیں اور اسی لئے نبوت کا معاملہ آپ سے ہی شروع ہوا ، اور آپ پر ہی ختم ہوا ۔ آپ نبی تھے اور آدم علیہ اسلام ہنوزآب وگلِ میں تھے ، پھر آپ ﷺ اپنی نشئاۃ بشری کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں ( یعنی آخری نبی ہیں ) ۔ ( فصوص الحکم ، صفحہ 214 )
الغرض ! شیخ ابن عربی ؒ نے آپنے عقیدے کی جو وضاحت کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے فیضان نبوت سے اس امت میں کمالات نبوت باقی ہیں ، مبشرات ( سچے خواب ) بھی اجزاء نبوت میں سے ہیں ، اور محفوظ الہامات بھی کمالات نبوت میں سے ہیں ، شریعت کے صافی چشمہ سے اجتہاد واستنباط کے ذریعے نئے نئے مسئلوں کی دریافت بھی کمالات نبوت میں سے ہے ، لیکن اس کے باوجود نبی کا لفظ نہ سچے خواب دیکھنے والوں پر بولا جائے گا ، نہ صاحب کشف کا ملین پر اور نہ ائمہ مجتہدین پر ، اس امت سے نبی اور رسول کا لفظ ہمیشہ کے لئے روک دیا گیا ہے ۔نیز شیخ ابن عربی کے نزدیک تشریعی نبوت کی اصطلاح اس نبی کے لئے استعمال کی گئی ہے جنہیں شریعت نے نبی کہا ، اور یہ لفظ آپ کی عبارات میں اولیاء یا صاحبین مبشرات وغیرہ کے مقابلے میں آیا ہے ، اور شیخ ابن عربی کے نزدیک غیر تشریعی نبوت کی ایک خاص اصطلاح ہے جو ولایت کے مترادف ہے اور انہوں نے یہ تصریح متعدد جگہ پر فرما دی ہے کہ کسی ولی کا مقام نبوت حاصل نہیں ہوسکتا ، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ شیخ ابن عربی صرف لغوی طور پر اولیاءاللہ کے الہامات ومبشرات کو نبوت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن نہ کسی ولی کو نبی کی طرح مفترض الطاعۃ کہتے ہیں اور نہ ہی کسی ولی کے انکار کو کفر کہتے ہیں اور نہ ہی کسی ولی کا نبی یا رسول کے لفظ سے یاد کرنا ٹھیک سمجھتے ہیں ، بلکہ اولیاء اللہ کے لئے جس الہام واخبار من اللہ کو نبوت سے تعبیر کرتے ہیں اس نبوت کا حیوانات میں بھی جاری ہونا مانتے ہیں ، چناچہ ایک جگی لکھتے ہیں:
وھذہ النبوۃ ساریۃ فی الحیوان مثل قولہ تعالی واوحی ربک الی النحل
اور یہ نبوت حیوانات میں بھی جاری ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی ۔( الفتوحات المکیہ ، جلد 3 صفحہ 382 )
بلکہ شیخ تو اس " لغوی " نبوت کو ہر موجود چیز میں جاری مانتے ہیں ، چناچہ ان کے الفاظ ہیں :
علم ان النبوۃ ساریۃ فی کل موجود یعلم ذلک اھل الکشف والوجود
معلوم ہوا کہ نبوت ہر موجود چیز میں جاری وساری ہے اور یہ بات اہل کشف خوب جانتے ہیں ۔ ( الفتوحات المکیہ ، جلد3صفحہ 382 )
تو کیا مرزائی شہد کی مکھی کو بھی " غیر تشریعی نبی " کہنا شروع کر دیں گے ۔ ؟ یا وہ ہر حجر وشجر کو نبی پکارنا شروع کر دیں گے ؟
مدیر کی آخری تدوین
: