محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
مشہور صوفی شیخ محی الدین ابن عربی
رحمۃ اللہ علیہ
جوکہ شیخ اکبر کے نام سے مشہور ہیں ان کی چند عبارات سے بھی دھوکہ دیا جاتا ہے اور یوں کہاجاتاہے کہ انہوں نے لکھا ہے صرف تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے اور نبی کریم ص
لى الله عليه وسلم
نے جو یہ فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے مخالف ہو ،اگر کوئی ہوگا تو وہ میری شریعت کے تابع ہوگا …
(الفتوحات المکیہ، جلد 2 صفحہ 3) ۔
اس پر عرض ہے کہ شیخ ابن عربی کی جن عبارات میں تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کے الفاظ ملتے ہیں اور جن سے جماعت مرزائیہ و غامديه یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ شیخ ابن عربی ایسی نبوت کے جاری ہونے کے قائل ہیں جو کوئی نئی شریعت لے کر نہ آئے ، یہ بات سراسر غلط ہے ، چنانچہ جب ہم شیخ ابن عربی کی دوسری عبارات کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جو ولایت کے مقابلے میں ہے اور جسے شریعت نے نبوت کہا ہے ، اور انہوں نے کمالات نبوت اور مبشرات کو غیر تشریعی نبوت فرمایا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے اسے نبوت نہیں کہا یعنی جو نبوت بغیر تشریع ہو وہ نبوت نہیں کہلاتی بلکہ نبوت کا اطلاق اسی وقت درست ہوتا ہے کہ جب تمام اجزائے نبوت جن میں تشریع بھی داخل ہے مکمل موجود ہوں پس کامل نبوت باقی نہیں صرف بعض اجزائے نبوت باقی ہیں جنہیں نہ شرعاً نبوت کہا جاسکتا ہے نہ عرفاً ، پس اگر غیر تشریعی نبوت کو باقی بھی کہاجائے تو اس کا معنیٰ صرف یہ ہے کہ سچے خواب اور مبشرات باقی ہیں جو نہ نبوت کہلا سکتی ہے اور نہ صاحب مبشرات نبی کہلاسکتا ہے۔
ابن عربیؒ کے نزدیک ہر نبوت تشریعی ہے
آئیے ہم شیخ ابن عربی کی عبارات سے ہی اس بات کو ثابت کرتے ہیں :۔
" فما بقی للاولیاء الیوم بعد ارتفاع النبوۃ الا التعریف وانسدت ابواب الاوامر الالہیۃ والنواہی ، فمن ادعاہا بعد محمد فہو مدع شریعۃ أوحی بہا الیہ سواء وافق بہا شرعنا او خالف… ".
پس نبوت ختم ہوجانے کے بعد اولیاء کے لئے صرف معارف باقی رہ گئے ہیں اور اللہ کے اوامر ونواہی کے دروازے بند ہوچکے پس اگر کوئی محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ (اللہ نے اسے کوئی حکم دیا ہے یا کسی بات سے منع کیا ہے) تو وہ مدعی شریعت ہی ہے خواہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے موافق ہو یا خلاف ہو (وہ مدعی شریعت ضرور ہے) ۔
( الفتوحات المکیۃ، جلد 3 صفحہ 39 ، طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر )
شیخ کی اس عبارت سے واضح ہوا کہ مدعی شریعت صرف وہی نہیں جوشریعت محمدیہ کے بعدنئے احکام لے کر آئے ، بلکہ وہ مدعیِ نبوت جس کا دعویٰ ہوکہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے بالکل مطابق ہے ، وہ بھی مدعی شریعت ہے اور یہ دعویٰ بھی ختم نبوت کے منافی ہے ، لہذا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد جس طرح نئی شریعت کا دعویٰ ختم نبوت کا انکار ہے اسی طرح شریعت محمدیہ کے مطابق وحی کا دعویٰ بھی ختم نبوت کا انکار ہے ، اس عبارت سے واضح ہوا کہ شیخ ابن عربی کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جسے شریعت نبوت کہے خواہ وہ نبوت نئی شریعت کی مدعی ہو یا شریعت محمدیہ کی موافقت کا دعویٰ کرے، اس طرح شیخ کے نزدیک غیر تشریعی نبوت سے مراد وہ کمالات نبوت اور کمالات ولایت ہوں گے جن پر شریعت نبوت کا اطلاق نہیں کرتی اور وہ نبوت نہیں کہلاتے ۔
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات کے ساتھ ہی وحی منقطع ہوگئی
" واعلم أن لنا من اللہ الالہام لا الوحی فان سبیل الوحي قد انقطع بموت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد کان الوحي قبلہ ولم یجيء خبر الہي أن بعدہ وحیاً کما قال ولقد أوحي الیک والی الذین من قبلک ولم یذکر وحیاً بعدہ وان لم یلزم ہذا وقد جاء الخبر النبوی الصادق فی عیسیٰ علیہ السلام وقد کان ممن أوحي الیہ قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یؤمّنا الّا مِنّا أی بسنتنا فلہ الکشف اذا نزل والالہام کما لہذہ الامۃ… ".
جان لوکہ ہمارے لئے (یعنی اس امت کے لئے) اللہ تعالی کی طرف سے صرف الہام ہے وحی نہیں ۔ وحی کا سلسلہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات پر ختم ہو چکا ہے ۔ آپ سے پہلے بے شک یہ وحی کا سلسلہ موجودتھا۔ اور ہمارے پاس کوئی ایسی خبر الٰہی نہیں پہنچی کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد بھی کوئی وحی ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے : اور وحی کی گئی تیری طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف ۔ [الزمر:65] ، اللہ تعالی نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا ۔ ہاں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سچی خبر پہنچی ہے ، اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے پہلے وحی کی گئی تھی ۔ آپ جب اس امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ جب نازل ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہء کشف بھی ہوگا اور الہام بھی جیسا کہ یہ مقام (اولیاء) امت کے لئے ہے ۔
( الفتوحات المکیۃ، جلد 3 صفحہ 238 ، طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر )
یہاں شیخ نے صراحت کے ساتھ اس امت میں وحی نبوت کا سلسلہ بند بتلایا ہے ، اگر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد وحی جاری ہوتی تو شیخ ابن عربی اس طرح اس کے بند ہونے کا ذکر نہ فرماتے ، نیز یہ بھی وضاحت فرمادی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آپ کے نزول کے بعد اگر کوئی وحی اترے گی تو وہ کشف اور الہام کے معنی میں ہوگی اصطلاحی وحی نہ ہوگی جو صرف نبیوں پر آتی ہے وہ نئی شریعت کے ساتھ ہویاپرانی شریعت کے ساتھ ، نیز اس تحریر سے شیخ ابن عربی کا یہ عقیدہ بھی پتہ چل گیا کہ آپ انہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کے قائل ہیں جن پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے پہلے وحی نازل ہوچکی تھی ، جبکہ قادیانی عقیدہ اس کے بر عکس ہے ۔
نبی کا لفظ صرف اس پر بولا جائے گا جو صاحب تشریع ہو
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:۔
"ف أخبر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ان الرؤیا جزء من اجزاء النبوۃ فقد بقي للناس من النبوۃ ہذا وغیرہ ومع ہذا لا یُطلق اسم النبوۃ ولا النبي الا علی المشرع خاصۃ فحجر ہذا الاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ وماحجر النبوۃ التی لیس فیہا ہذا الوصف الخاص وان کان حجر الاسم… "
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اچھا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے ۔ پس نبوت میں سے لوگوںکے لئے یہ رؤیا وغیرہ باقی رہ گیا ہے مگر اس کے باوجود نبوت اور نبی کا نام صرف اس پر بولاجاتا ہے جو صاحب دین وشریعت ہو۔ ایک خاص وصف معین کی بناء پر اس نام (نبی) کی بندش کردی گئی ہے ۔
( الفتوحات المکیۃ ، جلد 2 صفحہ 276 طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر )
شیخ ابن عربی کی یہ تحریرواضح طور پر بتلارہی ہے کہ ان کے نزدیک نبی کا لفظ صرف اس کے ساتھ خاص ہے جو صاحب دین وشریعت ہو (چاہے اسے نئی شریعت ملی ہو یا کسی پرانی شریعت پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہو) اور یہ نبوت ختم ہوچکی ہے ، اب لوگوں کے لئے مبشرات وغیرہ ہی باقی رہ گئے ہیں اور ان پر نبوت کا لفظ نہیں بولا جاسکتا ۔
اب کسی کا نام نبی یا رسول نہیں ہوسکتا
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔
" ولہذا قال صلى الله عليه وسلم ان الرسالۃ والنبوۃقد انقطعت وما انقطعت الا من وجہ خاص انقطع منہا مسمی النبی والرسول ولذلک قال فلا رسول بعدی ولا نبی ثم ابقی منہا المبشرات وابقی حکم المجتہدین وازال عنہم الاسم … "
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ بے شک رسالت ونبوت ختم ہوچکی ، یہ ختم ہونا ایک خاص وجہ سے ہے ، اب نبی اور سول کا نام ختم ہوچکا ہے (یعنی اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہا جاسکتا) اسی لئے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی ، پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے مبشرات کو باقی رکھا اور مجتہدین کے حکم کو باقی رکھا لیکن ان سے (نبی اور رسول) کا نام دور کردیا ۔
( الفتوحات المکیۃ ، جلد 2 صفحہ 252 ، طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر )
دیکھیے کس صراحت کے ساتھ شیخ نے لکھا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد اب نبی یا رسول کا نام کسی کے لئے نہیں بولا جاسکتا ، ہاں نبوت کے اجزاء یعنی اچھے خواب وغیرہ باقی ہیں (جسے شیخ نبوت کے باقی ہونے سے تعبیر کرتے ہیں ) لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ صاحب مبشرات کو نبی یا رسول نہیں کہ سکتے ۔
(الفتوحات المکیہ، جلد 2 صفحہ 3) ۔
اس پر عرض ہے کہ شیخ ابن عربی کی جن عبارات میں تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کے الفاظ ملتے ہیں اور جن سے جماعت مرزائیہ و غامديه یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ شیخ ابن عربی ایسی نبوت کے جاری ہونے کے قائل ہیں جو کوئی نئی شریعت لے کر نہ آئے ، یہ بات سراسر غلط ہے ، چنانچہ جب ہم شیخ ابن عربی کی دوسری عبارات کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جو ولایت کے مقابلے میں ہے اور جسے شریعت نے نبوت کہا ہے ، اور انہوں نے کمالات نبوت اور مبشرات کو غیر تشریعی نبوت فرمایا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے اسے نبوت نہیں کہا یعنی جو نبوت بغیر تشریع ہو وہ نبوت نہیں کہلاتی بلکہ نبوت کا اطلاق اسی وقت درست ہوتا ہے کہ جب تمام اجزائے نبوت جن میں تشریع بھی داخل ہے مکمل موجود ہوں پس کامل نبوت باقی نہیں صرف بعض اجزائے نبوت باقی ہیں جنہیں نہ شرعاً نبوت کہا جاسکتا ہے نہ عرفاً ، پس اگر غیر تشریعی نبوت کو باقی بھی کہاجائے تو اس کا معنیٰ صرف یہ ہے کہ سچے خواب اور مبشرات باقی ہیں جو نہ نبوت کہلا سکتی ہے اور نہ صاحب مبشرات نبی کہلاسکتا ہے۔
ابن عربیؒ کے نزدیک ہر نبوت تشریعی ہے
آئیے ہم شیخ ابن عربی کی عبارات سے ہی اس بات کو ثابت کرتے ہیں :۔
" فما بقی للاولیاء الیوم بعد ارتفاع النبوۃ الا التعریف وانسدت ابواب الاوامر الالہیۃ والنواہی ، فمن ادعاہا بعد محمد فہو مدع شریعۃ أوحی بہا الیہ سواء وافق بہا شرعنا او خالف… ".
پس نبوت ختم ہوجانے کے بعد اولیاء کے لئے صرف معارف باقی رہ گئے ہیں اور اللہ کے اوامر ونواہی کے دروازے بند ہوچکے پس اگر کوئی محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ (اللہ نے اسے کوئی حکم دیا ہے یا کسی بات سے منع کیا ہے) تو وہ مدعی شریعت ہی ہے خواہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے موافق ہو یا خلاف ہو (وہ مدعی شریعت ضرور ہے) ۔
( الفتوحات المکیۃ، جلد 3 صفحہ 39 ، طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر )
شیخ کی اس عبارت سے واضح ہوا کہ مدعی شریعت صرف وہی نہیں جوشریعت محمدیہ کے بعدنئے احکام لے کر آئے ، بلکہ وہ مدعیِ نبوت جس کا دعویٰ ہوکہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے بالکل مطابق ہے ، وہ بھی مدعی شریعت ہے اور یہ دعویٰ بھی ختم نبوت کے منافی ہے ، لہذا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد جس طرح نئی شریعت کا دعویٰ ختم نبوت کا انکار ہے اسی طرح شریعت محمدیہ کے مطابق وحی کا دعویٰ بھی ختم نبوت کا انکار ہے ، اس عبارت سے واضح ہوا کہ شیخ ابن عربی کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جسے شریعت نبوت کہے خواہ وہ نبوت نئی شریعت کی مدعی ہو یا شریعت محمدیہ کی موافقت کا دعویٰ کرے، اس طرح شیخ کے نزدیک غیر تشریعی نبوت سے مراد وہ کمالات نبوت اور کمالات ولایت ہوں گے جن پر شریعت نبوت کا اطلاق نہیں کرتی اور وہ نبوت نہیں کہلاتے ۔
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات کے ساتھ ہی وحی منقطع ہوگئی
" واعلم أن لنا من اللہ الالہام لا الوحی فان سبیل الوحي قد انقطع بموت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد کان الوحي قبلہ ولم یجيء خبر الہي أن بعدہ وحیاً کما قال ولقد أوحي الیک والی الذین من قبلک ولم یذکر وحیاً بعدہ وان لم یلزم ہذا وقد جاء الخبر النبوی الصادق فی عیسیٰ علیہ السلام وقد کان ممن أوحي الیہ قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یؤمّنا الّا مِنّا أی بسنتنا فلہ الکشف اذا نزل والالہام کما لہذہ الامۃ… ".
جان لوکہ ہمارے لئے (یعنی اس امت کے لئے) اللہ تعالی کی طرف سے صرف الہام ہے وحی نہیں ۔ وحی کا سلسلہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات پر ختم ہو چکا ہے ۔ آپ سے پہلے بے شک یہ وحی کا سلسلہ موجودتھا۔ اور ہمارے پاس کوئی ایسی خبر الٰہی نہیں پہنچی کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد بھی کوئی وحی ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے : اور وحی کی گئی تیری طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف ۔ [الزمر:65] ، اللہ تعالی نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا ۔ ہاں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سچی خبر پہنچی ہے ، اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے پہلے وحی کی گئی تھی ۔ آپ جب اس امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ جب نازل ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہء کشف بھی ہوگا اور الہام بھی جیسا کہ یہ مقام (اولیاء) امت کے لئے ہے ۔
( الفتوحات المکیۃ، جلد 3 صفحہ 238 ، طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر )
یہاں شیخ نے صراحت کے ساتھ اس امت میں وحی نبوت کا سلسلہ بند بتلایا ہے ، اگر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد وحی جاری ہوتی تو شیخ ابن عربی اس طرح اس کے بند ہونے کا ذکر نہ فرماتے ، نیز یہ بھی وضاحت فرمادی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آپ کے نزول کے بعد اگر کوئی وحی اترے گی تو وہ کشف اور الہام کے معنی میں ہوگی اصطلاحی وحی نہ ہوگی جو صرف نبیوں پر آتی ہے وہ نئی شریعت کے ساتھ ہویاپرانی شریعت کے ساتھ ، نیز اس تحریر سے شیخ ابن عربی کا یہ عقیدہ بھی پتہ چل گیا کہ آپ انہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کے قائل ہیں جن پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے پہلے وحی نازل ہوچکی تھی ، جبکہ قادیانی عقیدہ اس کے بر عکس ہے ۔
نبی کا لفظ صرف اس پر بولا جائے گا جو صاحب تشریع ہو
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:۔
"ف أخبر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ان الرؤیا جزء من اجزاء النبوۃ فقد بقي للناس من النبوۃ ہذا وغیرہ ومع ہذا لا یُطلق اسم النبوۃ ولا النبي الا علی المشرع خاصۃ فحجر ہذا الاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ وماحجر النبوۃ التی لیس فیہا ہذا الوصف الخاص وان کان حجر الاسم… "
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اچھا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے ۔ پس نبوت میں سے لوگوںکے لئے یہ رؤیا وغیرہ باقی رہ گیا ہے مگر اس کے باوجود نبوت اور نبی کا نام صرف اس پر بولاجاتا ہے جو صاحب دین وشریعت ہو۔ ایک خاص وصف معین کی بناء پر اس نام (نبی) کی بندش کردی گئی ہے ۔
( الفتوحات المکیۃ ، جلد 2 صفحہ 276 طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر )
شیخ ابن عربی کی یہ تحریرواضح طور پر بتلارہی ہے کہ ان کے نزدیک نبی کا لفظ صرف اس کے ساتھ خاص ہے جو صاحب دین وشریعت ہو (چاہے اسے نئی شریعت ملی ہو یا کسی پرانی شریعت پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہو) اور یہ نبوت ختم ہوچکی ہے ، اب لوگوں کے لئے مبشرات وغیرہ ہی باقی رہ گئے ہیں اور ان پر نبوت کا لفظ نہیں بولا جاسکتا ۔
اب کسی کا نام نبی یا رسول نہیں ہوسکتا
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔
" ولہذا قال صلى الله عليه وسلم ان الرسالۃ والنبوۃقد انقطعت وما انقطعت الا من وجہ خاص انقطع منہا مسمی النبی والرسول ولذلک قال فلا رسول بعدی ولا نبی ثم ابقی منہا المبشرات وابقی حکم المجتہدین وازال عنہم الاسم … "
آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ بے شک رسالت ونبوت ختم ہوچکی ، یہ ختم ہونا ایک خاص وجہ سے ہے ، اب نبی اور سول کا نام ختم ہوچکا ہے (یعنی اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہا جاسکتا) اسی لئے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی ، پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے مبشرات کو باقی رکھا اور مجتہدین کے حکم کو باقی رکھا لیکن ان سے (نبی اور رسول) کا نام دور کردیا ۔
( الفتوحات المکیۃ ، جلد 2 صفحہ 252 ، طبع دار الکتب العربیۃ الکبری،مصر )
دیکھیے کس صراحت کے ساتھ شیخ نے لکھا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد اب نبی یا رسول کا نام کسی کے لئے نہیں بولا جاسکتا ، ہاں نبوت کے اجزاء یعنی اچھے خواب وغیرہ باقی ہیں (جسے شیخ نبوت کے باقی ہونے سے تعبیر کرتے ہیں ) لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ صاحب مبشرات کو نبی یا رسول نہیں کہ سکتے ۔
مدیر کی آخری تدوین
: