ضعیف احادیث پر عمل کرنا
سوال
صحاحِ ستہ میں بعض ضعیف احادیث بھی ہیں، ان پر عمل کرنا کیسا ہے؟
جواب
اگر کسی حدیث کو ایک محدث یا بعض محدثین ضعیف قرار دیں، لیکن دوسرا محدث یا کئی محدثین اس کی تصحیح کریں یا اسے عملاً قبول کرلیں، یا کسی حدیث کو بعد کے محدثین تو ضعیف قرار دیں (مثلاً بعد کے کسی راوی کے ضعف کی وجہ سے) لیکن امامِ مجتہد نے ان محدثین کے زمانے سے پہلے اس حوالے سے احادیث کی پرکھ کرنے کے بعد کسی حدیث کو قبول کرلیا ہو تو محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے سے امامِ مجتہد کا استدلال ضعیف یا ناقابلِ اعتبار نہیں ہوتا، اور نہ ہی اسے ضعیف حدیث پر عمل کہا جاتاہے، بلکہ قرونِ اولیٰ کا کسی حدیث کو عملاً قبول کرنا اس کی تصحیح ہے۔
نیز یہ نکتہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ جو بات تواترِ قولی یا تواترِ عملی سے ثابت ہو، اس کے لیے روایات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، ہاں اگر اس متواتر عمل کی موافقت میں کوئی حدیث منقول ہو تو وہ اس کی تائید شمار ہوتی ہے، اب اگر کسی متواتر ثابت شدہ چیز یا قرونِ اولیٰ میں اہلِ علم کے درمیان مشہور عمل کی تائید کسی ضعیف روایت سے بھی ہورہی ہو (مثلاً اس کی سند میں ضعف ہو) تو اس حدیث کو اس کے اثبات میں بیان کردیا جاتاہے، گو اصل عمل ضعیف سے ثابت نہیں ہوتا، لیکن اس کے ثبوت میں اسے بھی پیش کردیا جاتاہے۔
مذکور الذکر صورتیں کتبِ ستہ کی بہت سی روایات کے حوالے سے پیش آتی ہیں، اس لیے کسی حدیث کو ایک جگہ ضعیف لکھا ہوا دیکھنے، یا کسی ایک محقق کے ضعیف قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ حدیث قطعاً قابلِ استدلال نہیں رہی۔
ہاں وہ حدیث جس کے ضعف کو جمہور محدثین و فقہاءِ کرام تسلیم کرتے ہوں اس کے حوالے سے جمہور محدثین وفقہاءِ کرام کی رائے یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو فضا ئلِ اعمال ،ترغیب و ترہیب ،قصص اور مغازی وغیرہ میں دلیل بنایا جاسکتا ہے ،اور ان پر عمل کیاجاسکتا ہے، بشرطیکہ وہ حدیث ضعیف ہو موضوع نہ ہو ، اور اس کی اصل شریعت میں موجود ہو، اور اس عمل کی سنیت کا اعتقاد نہ رکھا جائے۔ چنانچہ ابن مہدی ، امام احمد وغیرہم سے منقول ہے :
النكت على مقدمة ابن الصلاح (2/ 308):
" أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال".
فتح المغيث (1/ 289):
"قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200075
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
سوال
صحاحِ ستہ میں بعض ضعیف احادیث بھی ہیں، ان پر عمل کرنا کیسا ہے؟
جواب
اگر کسی حدیث کو ایک محدث یا بعض محدثین ضعیف قرار دیں، لیکن دوسرا محدث یا کئی محدثین اس کی تصحیح کریں یا اسے عملاً قبول کرلیں، یا کسی حدیث کو بعد کے محدثین تو ضعیف قرار دیں (مثلاً بعد کے کسی راوی کے ضعف کی وجہ سے) لیکن امامِ مجتہد نے ان محدثین کے زمانے سے پہلے اس حوالے سے احادیث کی پرکھ کرنے کے بعد کسی حدیث کو قبول کرلیا ہو تو محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے اس حدیث کو ضعیف قرار دینے سے امامِ مجتہد کا استدلال ضعیف یا ناقابلِ اعتبار نہیں ہوتا، اور نہ ہی اسے ضعیف حدیث پر عمل کہا جاتاہے، بلکہ قرونِ اولیٰ کا کسی حدیث کو عملاً قبول کرنا اس کی تصحیح ہے۔
نیز یہ نکتہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ جو بات تواترِ قولی یا تواترِ عملی سے ثابت ہو، اس کے لیے روایات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، ہاں اگر اس متواتر عمل کی موافقت میں کوئی حدیث منقول ہو تو وہ اس کی تائید شمار ہوتی ہے، اب اگر کسی متواتر ثابت شدہ چیز یا قرونِ اولیٰ میں اہلِ علم کے درمیان مشہور عمل کی تائید کسی ضعیف روایت سے بھی ہورہی ہو (مثلاً اس کی سند میں ضعف ہو) تو اس حدیث کو اس کے اثبات میں بیان کردیا جاتاہے، گو اصل عمل ضعیف سے ثابت نہیں ہوتا، لیکن اس کے ثبوت میں اسے بھی پیش کردیا جاتاہے۔
مذکور الذکر صورتیں کتبِ ستہ کی بہت سی روایات کے حوالے سے پیش آتی ہیں، اس لیے کسی حدیث کو ایک جگہ ضعیف لکھا ہوا دیکھنے، یا کسی ایک محقق کے ضعیف قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ حدیث قطعاً قابلِ استدلال نہیں رہی۔
ہاں وہ حدیث جس کے ضعف کو جمہور محدثین و فقہاءِ کرام تسلیم کرتے ہوں اس کے حوالے سے جمہور محدثین وفقہاءِ کرام کی رائے یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو فضا ئلِ اعمال ،ترغیب و ترہیب ،قصص اور مغازی وغیرہ میں دلیل بنایا جاسکتا ہے ،اور ان پر عمل کیاجاسکتا ہے، بشرطیکہ وہ حدیث ضعیف ہو موضوع نہ ہو ، اور اس کی اصل شریعت میں موجود ہو، اور اس عمل کی سنیت کا اعتقاد نہ رکھا جائے۔ چنانچہ ابن مہدی ، امام احمد وغیرہم سے منقول ہے :
النكت على مقدمة ابن الصلاح (2/ 308):
" أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال".
فتح المغيث (1/ 289):
"قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200075
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن