وحید احمد
رکن ختم نبوت فورم
اس میں شک نہیں کہ اصل کتابِ ہدایت قرآن کریم ہے ،حدیثِ نبوی اس کی تفسیر وتشریح ہے، جس کو نظر انداز کرکے صرف قرآن کے ذریعہ راہ یاب نہیں ہوا جاسکتا، جیساکہ قرآنی ارشاد اس پر صریح دلالت کررہا ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم
اور حدیث ایک اتھاہ سمندر ہے، سرکار دوعالم ﷺ کی تئیس سالہ زندگی میں آپ کے اقوال، افعال، تقریرات خلقی وخُلقی احوال کا مجموعہ جو دربار نبوی کے حاضرباش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ نقل در نقل ہوتا ہوا امت کوپہنچا ہے، روایت ودرایت کے اعتبار سے اس کی صحت وصداقت کو جانچنے کے لئے محدثین اور فقہاء امت نے اس قدر ممکنہ تدابیر وقوانین اپنائے جو صرف اور صرف اسی امت محمدیہ کی خصوصیت ہیں، ثبوت واستناد کے اعتبار سے حدیثوں کے مختلف درجات قائم کئے ،جن کو صحیح، حسن، ضعیف وغیرہ سے جانا جاتا ہے ، چنانچہ عمل اور استدلال کے اعتبار سے بھی ان میں فرق مراتب لابدی امر ہے۔
حدیث صحیح کی پانچ شرطیں ہیں: ۱:․․․سند کا اتصال۲:․․․راویوں کی عدالت۳:․․․ضبط ۴:․․․شذوذ ۵:․․․علت قادحہ سے محفوظ ہونا۔
حدیث حسن بھی انہیں صفات کی حامل ہوتی ہے، البتہ اس کے کسی راوی میں ضبط کے اعتبار سے معمولی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدیث نہ تو صحیح کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ضعیف میں شمار ہوتی ہے۔
حسن کی ایک قسم وہ ضعیف ہے جو تعدد طرق کی وجہ سے قوت پاکر حسن بن جاتی ہے اور جو حدیث اس سے بھی فروتر ہو وہ ضعیف کہلاتی ہے، جس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں، سب سے گھٹیا موضوع ہے۔
صحیح اور حسن کے تو قابل استدلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ جمیع ابواب دین میں ان سے استدلال کیا جاتا ہے، البتہ ضعیف کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کا خیال ہے کہ احکام یعنی حلال وحرام کے باب میں تو ضعیف کو حجت نہیں بنایا جاسکتا ہے، البتہ فضائل اعمال ترغیب وترہیب، قصص، مغازی وغیرہ میں اس کو دلیل بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ موضوع نہ ہو ، چنانچہ ابن مہدی،امام احمدوغیرہم سے منقول ہے:
اذا روینا فی الحلال والحرام شددنا، واذا روینا فی الفضائل ونحوہا تساہلنا
(فتح المغیث، وظفر الامانی ص:۱۸۲ نقلاً عنہ)
بعض کے نزدیک باب احکام میں بھی حجت ہے، جبکہ دوسرے بعض کے نزدیک سرے سے حجت نہیں۔
قال العلامة اللکنوی بعد ذکرہ الآراء الثلاثة فی المسئلة: ومنع ابن العربی العمل بالضعیف مطلقاً، ولکن قد حکی النووی فی عدة من تصانیفہ اجماع اہل الحدیث وغیرہم علی العمل بہ فی فضائل الاعمال ونحوہا خاصة ،فہذہ ثلاثة مذاہب ا ھ
(الاجوبة الفاضلة)
اور جیساکہ آگے معلوم ہوگا کہ جمہور عملاً باب احکام میں بھی ضعاف کو کسی نہ کسی وجہ میں قابل عمل مانتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج بعض حلقوں کی جانب سے پوری شد ومد کے ساتھ یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ ضعیف حدیث قطعاً ناقابل اعتبار ہے، اس کا محل موضوع کی طرح ردی کی ٹوکری ہے، حجت صرف صحیح حدیث ہے، صحیح کے مصداق میں کچھ باشعور حضرات حسن کو تو شامل کر لیتے ہیں، ورنہ عام سطح کے لوگ اس کے بھی روادار نہیں ہیں، اور بعض غلو پسند طبیعتیں تو صحیحین کو چھوڑ کر بقیہ کتب حدیث کو۔ صحیح الکتاب الفلانی وضعیف الکتاب الفلانی جیسے عمل جراحی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، اور اپنے اجتہاد کے مطابق اہم کتب حدیث کی حدیثوں کو صحیح اور ضعیف دوخانوں میں تقسیم کرکے شائع کیا جانے لگا ہے۔ فالی اللہ المشتکیٰ۔آیئے ضعیف حدیثوں کی استدلالی حیثیت کا مختصراً جائزہ لیں۔