عدالت کا استدلال
میں نے اس سے قبل وہ حالات و واقعات بہ تفصیل بیان کر دیئے ہیں۔ جن کے ماتحت تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی۔ مرافعہ گزار نے بہت سی تحریری شہادتوں کی بناء پر یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مرزا اوراس کے مقلدین کے ظلم وستم پر جائز اور واجبی تنقید کرنے کے سوا اس کا کچھ مقصد نہ تھا۔ اس کا بیان ہے کہ اس کی تقریر کا مدعا سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگانا اور مرزائیوں کے افعال ذمیمہ کا بھانڈاپھوڑنا تھا۔ اس نے اپنی تقریر میںجابجا مرزا(محمود) کے ظلم وتشدد پر روشنی ڈالی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جو مسلمان مرزا کی نبوت سے انکار کرنے اوراس کے خانہ ساز اقتدار کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے مورد آفات و بلیات ہیں۔ ان کی شکایات رفع کی جائیں۔
میں نے قادیان کے حالات کی روشنی میں مرافعہ گزار کی تقریر پر غور کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ تقریر مسلمانوں کی طرف سے صلح کا پیغام تھی۔ لیکن اس تقریر کے سرسری مطالعہ سے ہر معقول شخص اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اعلان صلح کے بجائے یہ دعوت نبر د آزمائی ہے۔ممکن ہے کہ مرافعہ گزار نے قانون کی حدود کے اندر رہنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن جوش فصاحت و طاقت میں وہ ان امتناعی حدود سے آگے نکل گیا ہے او ر ایسی باتیں کہہ گیا ہے جو سامعین کے دلوں میں مرزائیوں کے خلاف نفرت کے جذبہ کے سوا اورکوئی اثر پیدا نہیں کر سکتیں۔ روما کے مارک انٹونی کی طرح مرافعہ گزار نے یہ اعلان تو کر دیا کہ وہ احمدیوں سے طرح آویزش نہیں ڈالنا چاہتا۔ لیکن صلح کا یہ پیغام ایسی گالیوں سے پر ہے۔ جن کا مقصد سامعین کے دلوں میںاحمدیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔