عقائد مرزا ( الگ دین، الگ امت)
مرزاغلام احمد قادیانی کے سلسلہ کے تمام لوازم اور مناسبات کو دیکھتے ہوئے اس امر کا فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ وہ اپنے پیروؤں کو تمام مسلمانوں سے ایک الگ امت بنانے میں کس درجہ ساعی وکوشاں ہیں۔ حسب ذیل تصریحات ملاحظہ فرمائیں۔
*… ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا ختلاف صرف وفات مسیح اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایا۔ اﷲتعالیٰ کی ذات، رسول کریمﷺ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ غرض یہ کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے اختلاف ہے۔‘‘
(خطبہ مرزا محمود، الفضل قادیان ج۱۹ نمبر۱۳)
*… ’’کیا مسیح ناصری نے اپنے پیروؤں کو یہودیوں سے الگ نہیں کیا؟ کیا وہ انبیاء جن کے سوانح کا علم ہم تک پہنچا ہے اور ہمیں ان کے ساتھ جماعتیں بھی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعتوں کو غیروں سے الگ نہیں کیا؟ ہر شخص کو ماننا پڑے گا کہ بے شک کیا ہے۔ پس اگر حضرت مرزاصاحب نے ہی جو کہ نبی اور رسول ہیں۔ اپنی جماعت کو منہاج نبوت کے مطابق غیروں سے علیحدہ کر دیا تو نئی اور انوکھی بات کون سی بات ہے۔‘‘
(الفضل ج۵ ش۶۹، نمبر۷۰)
*… ’’مگر جس دن سے کہ تم احمدی ہوئے۔ تمہاری قوم تو احمدیت ہوگئی۔ شناخت اور امتیاز کے لئے اگر کوئی پوچھے تو اپنی ذات یا قوم بتا سکتے ہو۔ ورنہ اب تو تمہاری گوت، تمہاری ذات احمدی ہی ہے۔ پھر احمدیوں کو چھوڑ کر غیراحمدیوں میں کیوں قوم تلاش کرتے ہو؟‘‘
(ملائکۃ اﷲ ص۴۶،۴۷)
*… ’’میں نے اپنے نمائندہ کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلوا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں۔ جس پر اس افسر نے کہا کہ وہ تو اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ ہو۔ اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیں۔ جس طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کئے گئے ہیں۔ اس طرح ہمارے بھی کئے جائیں۔ تم ایک پارسی پیش کردو۔ اس کے مقابلہ میں دو دو احمدی پیش کرتا جاؤں گا۔‘‘
(مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ئ)