غلام نبی قادری نوری سنی
رکن ختم نبوت فورم
عقیدۂ ختم نبوت اصول اربعہ کی روشنی میں
کسی بھی موضوع کو آسانی سے سمجھنے کا ایک طریقہ معروضی ہوتا ہے، جو تحقیقی دنیا میں بھی بہت مشہور و مقبول ہے، یعنی موضوع کو سمجھنے کے لئے کچھ سوالات قائم کئے جاتے ہیں اور ان کے جوابات سے موضوع کو سمجھاجاتا ہے۔ ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کوسمجھنے اور سمجھانے کے لئے بھی ہم اس تحریر میں معروضی انداز اختیار کریں گے۔ چنانچہ…
1… ’’عقیدہ‘‘ کیا ہے؟
2… ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ سے کیا مراد ہے؟
3… شریعت مطہرہ میں عقیدہ ’’کس طرح ثابت ہوتا ہے؟‘‘
4… ایمان و کفر کی تعریف کیا ہے؟
5… کامل ایمان والا کون ہے؟
6… کفر اور کافر کی اقسام کتنی اور کون کون سی ہیں؟ نیز ان کے احکام کیا ہیں؟
7 سب سے اہم یہ کہ ’’ضروریات دین‘‘ سے کیا مراد ہے؟ وغیرہ وغیرہ
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہر مسلمان کو جاننا ضروری ہے۔ آنے والی سطور میں ان کے جوابات کو آسان انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ عام مسلمانوں کے لئے نفع کا باعث ہو اور راقم کے لئے آخرت میں زاد راہ ہوسکے۔
عقیدے کی تعریف
عقیدہ عربی زبان کے لفظ ’’عقد‘‘ سے بنا ہے جس کا لغوی معنی ’’کسی چیز کو باندھنا‘‘ یا ’’گرہ لگانا‘‘ ہے، اس کی جمع ’’عقائد‘‘ آتی ہے۔
شریعت مطہرہ میں ’’عقیدہ‘‘ سے مراد ’’وہ دلی بھروسہ اور اعتبار ہے جو کسی امر یا شخص کو درست وحق سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے‘‘ آسان الفاظ میں عقیدہ سے مراد ’’ان دینی اصولوں پرپختہ یقین اور اعتقاد کرنا ہے جن پر ایمان لانا ضروری ہے‘‘
ختم نبوت کی تعریف
’’ختم‘‘ کا معنی ہے اختتام اور مہر (Seal) یعنی کسی چیز کو اس طرح بند کرنا کہ اس کے بعد نہ باہر سے کوئی چیز اندر جاسکے اور نہ اندر سے کچھ باہر نکالا جاسکے۔
’’نبوت‘‘ کا معنی ہے نبی ہونا، لہذا ’’ختم نبوت‘‘ کا معنی ہوگا نبوت کا اختتام، سلسلہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کا رک جانا، ختم ہوجانا۔
عقیدہ ختم نبوت
شریعت مطہرہ میں ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ سے مراد ہے: یہ اعتقاد اور یقین رکھنا کہ محمد رسول اﷲﷺ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل ہوچکا ہے، اب قیامت تک کسی نئے نبی یا رسول کی ضرورت نہیں رہی۔
عقیدہ کس طرح ثابت ہوتا ہے؟
جس طرح فقہ کے اصول یا ماخذ چار ہیں کہ جن سے کوئی فقہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح عقائد کے اصول یا ماخذ بھی چار ہیں، جن سے کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے یہ سب اصول و ماخذ مندرجہ ذیل ہیں۔
اصول فقہ اصول عقائد
قرآن قرآن
سنت سنت
اجماع سواداعظم
قیاس عقل صحیح
اصول عقائد کی وضاحت
1۔ قرآن: یعنی: اﷲ تعالیٰ کا کلام جو رسول اﷲﷺ پر نازل کیا گیا، رہا گزشتہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شریعتوں کا تعلق تو وہ قرآن کریم کے تابع ہیں۔
2۔ سنت: یعنی: مصطفی کریمﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات (وہ بات یا کام جو کسی نے رسول اﷲﷺ کی موجودگی میں کیا ہو مگر آپ علیہ السلام نے اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ اسے برقرار رکھتے ہوئے سکوت فرمایا۔ گویا یہ سکوت فرمانا ہی ’’اذن‘‘ ہے کیونکہ اگر وہ بات یا کام خلاف شرع ہوتا تو آپﷺ ضرور منع فرماتے) ’’سنت‘‘میں داخل ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے اقوال، سنت کے تابع ہیں (حاشیہ طحطاوی علی الدر، خطبہ کتاب، ج 1،ص 25)
3۔ سواداعظم: اس سے مراد لوگوں کی بڑی جماعت ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’سواداعظم‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں؟ اس سے مراد ’’اہل سنت‘‘ ہیں۔
4۔ عقل صحیح: یعنی: عقل سلیم۔
اصول عقائد کا ثبوت
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مذکورہ ’’اصول عقائد‘‘ کا کسی معتبر عالم دین نے ذکر بھی کیا ہے یا یہ تقسیم بلا دلیل ہے؟ چنانچہ مولانا احمد رضا خان حنفی علیہ الرحمہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر کرتے ہیں:
’’جس طرح فقہ میں چار اصول ہیں۔ کتاب، سنت، اجماع اور قیاس، اسی طرح عقائد میں بھی چار اصول ہیں: کتاب، سنت، سواداعظم اور عقل صحیح۔ جو کوئی عقائد سے متعلق کسی مسئلہ کو ان چار اصولوں کے ذریعہ جانتا ہے تو گویا اس مسئلہ کو دلیل سے جانتا ہے۔ نہ کہ بے دلیل محض کسی دوسرے کی تقلید کے ذریعے۔ اسلام میں سواداعظم ’’اہل سنت‘‘ ہی ہیں لہذا ان کا حوالہ دینا بھی دراصل دلیل کا حوالہ دینا ہے نہ کہ کسی کی تقلید کرنا۔ یوں ہی آئمہ کرام کے اقوال سے استدلال و استناد کا یہی معنی ہے کہ یہ اہل سنت کا مذہب ہے، لہذا ایک دو نہیں بلکہ دس بیس اکابر علماء ہی سہی اگر وہ ’’جمہور علمائے کرام اور سواداعظم‘‘ کے خلاف لکھیں گے، تو اس وقت ان کے اقوال پر نہ اعتماد جائز ہے نہ استدلال و استناد، کیونکہ اب یہ استدلال واستناد کرنا ’’تقلید‘‘ ہے اور تقلید عقائد میں جائز نہیں۔ اس دلیل شرعی یعنی سواداعظم کی جانب رشد و ہدایت کاہونا، اﷲ و رسول جل و علاء و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کمال رحمت ہے، کیونکہ ہر شخص میں یہ قدرت کہاں ہے کہ وہ عقیدہ کو کتاب و سنت سے ثابت کرے۔
رہا معاملہ عقل کا، تو یہ خود ہی سمعیات (یعنی سنے جانے والے امور) میں کافی نہیں، لہذا ناچار عوام کو عقائد میں تقلید کرنے کی ضرورت پڑتی اور عقائد میں تقلید جائز نہیں، لہذا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیینﷺ نے مسلمانوں کو یہ واضح روشن دلیل عطا فرمائی کہ سواداعظم مسلمین جس عقیدہ پر ہو، وہ حق ہے، اس کی پہچان کچھ دشوار نہیں‘‘
کیا زمانہ صحابہ کرام میں بھی ’’سواداعظم‘‘ تھا؟
رہا یہ سوال کہ کیا یہ ’’سواداعظم‘‘ زمانہ صحابہ میں بھی تھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے وقت میں تو کوئی بدمذہب تھا ہی نہیں اور بعد کو اگرچہ پیدا ہوئے مگر دنیا بھر کے سب مذہب ملاکر کبھی اہل سنت کی گنتی کو نہیں پہنچ سکے۔ وﷲ الحمد۔ فقہ میں جس طرح ’’اجماع‘‘ ایک بڑی قوی دلیل ہے کہ اس سے اختلاف کا اختیار مجتہد کو بھی نہیں، اگرچہ وہ اپنی رائے میں کتاب و سنت سے اس کا خلاف پاتا ہو، یقینا یہ سمجھا جائے گا کہ اس مجتہد کے یا تو فہم کی خطا ہے یا یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اور مجتہد کو اس کا ناسخ معلوم نہیں، یونہی اجماع اُمّت تو ایک عظیم شے ہے۔
سواداعظم کے خلاف کوئی عقیدہ قابل قبول نہیں
سواداعظم یعنی اہل سنت کا عقائد کے کسی مسئلہ پر اتفاق بھی ایک بڑی قوی دلیل ہے، لہذا اگر بالفرض کسی کو کتاب و سنت سے اس کا برخلاف کچھ سمجھ میں آئے تو فہم کی غلطی تصور ہوگا، کیونکہ حق سواداعظم کے ساتھ ہے۔ رہی عقل تو ایک معنی پر یہاں عقل بھی ایک بڑی قوی دلیل ہے، وہ اس طرح کہ اور دلائل کی حجیت بھی اسی عقل صحیح سے ظاہر ہوئی ہے۔ یہ محال (ناممکن) ہے کہ سواداعظم کا اتفاق کسی ایسی دلیل پر ہو جو عقل صحیح کے خلاف ہو۔ یہ گنتی کے جملے یں مگر بحمدہ تعالیٰ بہت نافع و سودمند۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 29، ص 214)
فعضوا علیہا بالنواجذ واﷲ تعالیٰ اعلم (یعنی انہیں مضبوطی سے تھام لو)
ایمان و کفر کی تعریف
’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کے دلائل ذکر کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ایمان اور کفر کی تعریف بیان کردی جائے۔
ان الایمان فی الشرع ہو التصدیق بما جاء بہ الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم من عنداﷲ ای : تصدیق النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فی جمیع ماعلم بالضرورۃ مجیئہ بہ من عنداﷲ تعالیٰ اجمالا (دیکھے شرح ’’عقائد نسفی‘‘ مع ’’نبراس ’’مکتبہ حقانیہ، محلہ جنگی پشاور، ص 392)
یعنی: محمد رسول اﷲﷺ کو ہر بات میں سچا جاننا، حضور کی حقانیت کو صدق دل سے ماننا ’’ایمان‘‘ ہے اور جو اس کا اقرار کرے وہ ’’مسلمان‘‘ ہے جبکہ اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیینﷺ کا انکار یا تکذیب یا توہین نہ پائی جائے (ملخصاً از ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ج 29،ص 254)
یا اسے یوں سمجھ لیں کہ ’’سید العالمین محمدﷺ جو کچھ اپنے رب کے پاس سے لائے، ان سب میں ان کی تصدیق کرنا اور سچے دل سے ان کی ایک ایک بات پر یقین لانا ’’ایمان‘‘ ہے اور ان میں کسی بات کا جھٹلانا اور اس میں ذرہ برابر شک لانا ’’کفر‘‘ ہے (معاذ اﷲ)
کامل ایمان
اس مسلمان کا ایمان کامل ہوگا جس کے دل میں اﷲ و رسول جل وعلا وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا علاقہ تمام علاقوں پر غالب ہو۔ اﷲ و رسول کے محبوں سے محبت رکھے، اگرچہ اپنے دشمن ہوں اور اﷲ و رسول کے مخالفوں و بدگویوں سے عداوت رکھے اگرچہ اپنے جگر کے ٹکڑے ہوں، جو کچھ دے اﷲ کے لئے دے جو کچھ روکے، اﷲ کے لئے روکے۔ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں:
ومن احب ﷲ وابغض ﷲ واعطی ﷲ ومنع ﷲ فقد استکمل الایمان (ملخصاً از ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ج 29، ص 254)
کفر کی اقسام
پھر یہ ’’انکار‘‘ جس سے اﷲ تعالی ہم سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے، دو طرح ہوتا ہے۔
1… التزامی اور 2… لزومی
1۔ التزامی
یہ کہ ضروریات دین سے کسی شے کا تصریحاً خلاف کرے، یہ قطعاً اجماعاً کفر ہے۔ اگرچہ نام کفر سے چڑے اور کمال اسلام کا دعویٰ کرے… جیسے نیچری فرقے کا فرشتوں، جن، شیطان، جنت و جہنم اور معجزات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام کے ان معانی کا انکار کرنا اور ان معانی میں اپنی باطل تاویلات کرنا، جو معانی مسلمانوں کو نبی اکرمﷺ سے تواتر کے ساتھ پہنچے ہیں۔
2۔لُزومی
یہ کہ جو بات اس نے کہی، عین کفر نہیں مگر منجر بکفر (کفر کی طرف لے جانے والی) ہوتی ہے یعنی مآل سخن ولازم حکم کو ترتیب مقدمات و تتمیم تقریبات کرتے لے چلئے تو انجام کار اس سے کسی ضرورت دینی کا انکار لازم آئے، جیسے روافض کا خلافت حقہ راشدہ خلیفہ رسول اﷲﷺ حضرت جناب صدیق اکبر و امیر المومنین حضرت جناب فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے انکار کرنا وغیرہ۔ اس قسم کے کفر میں علماء اہلسنت مختلف ہوگئے جنہوں نے مآل مقال و لازم سخن کی طرف نظر کی حکم کفر فرمایا اور تحقیق یہ ہے کہ کفر نہیں، بدعت و بدمذہبی و ضلالت و گمراہی ہے۔
والعیاذ باﷲ رب العالمین
کافروں کی کتنی اقسام ہوتی ہیں؟
کفر کی طرح کافر بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔
1۔ اصلی 2۔ مرتد
1۔ اصلی: وہ کہ شروع سے کافر اور کلمہ اسلام کا منکر ہے۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں۔
1…مجاہر اور 2… منافق
1۔ مجاہر وہ کہ علی الاعلان کلمہ کا منکر ہو، جیسے دہریہ، مشرک اور مجوسی۔ ان کی عورتوں سے نکاہ باطل اور ان کا ذبح کیا ہوا جانور مردار ہے۔ رہے اہل کتاب یعنی یہودونصاریٰ تو ان کی عورتوں سے نکاح ممنوع و گناہ ہے۔
اور (2) منافق وہ کہ بظاہر کلمہ پڑھتا اور دل میں اس کا انکار کرتا ہو، آخرت کے اعتبار سے یہ قسم سب اقسام سے بدتر قسم ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
ان المنٰفقین فی الدرک الاسفل من النار (سورۂ نسائ، 145/4)
ترجمہ: بے شک منافقین سب سے نیچے طبقہ دوزخ میں ہیں۔
2۔ مرتد: وہ کہ کلمہ گو ہو کر کفرے کرے اس کی بھی دو قسم ہیں۔
1۔ مجاہر اور 2۔ منافق
1۔ مرتد مجاہر: وہ کہ پہلے مسلمان تھا پھر علانیہ اسلام سے پھر گیا، کلمۂ اسلام کا منکر ہوگیا۔ چاہے دہریہ ہوجائے یا مشرک یا مجوسی یا کتابی کچھ بھی ہو۔
2۔ مرتد منافق: وہ کہ کلمہ اسلام اب بھی پڑھتا ہے۔ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا ہے پھر بھی اﷲ عزوجل یا رسول اﷲﷺ یا کسی نبی کی توہین کرتا ہے یا ضروریات دین میں سے کسی شے کا منکر ہے۔
ان کے احکام
حکم دنیا میں سب سے بدتر مرتد ہے، اس کا نکاح کسی مسلم، مرتد اس کے ہم مذہب یا مخالف مذہب، غرض کسی سے نہیں ہوسکتا۔ مرتد مرد ہو خواہ عورت، ان میں سب سے بدتر مرتد منافق ہے۔ یہی وہ ہے کہ اس کی صحبت زیادہ نقصان دہ ہے کہ یہ مسلمان بن کر کفر سکھاتا ہے، خصوصا آج کل کے بدمذہب کہ اپنے آپ کو خاص اہلسنت کہتے ہیں، نماز روزہ ہمارا سا ادا کرتے ہیں، ہماری کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس رسول معظمﷺ کو گالیاں دیتے ہیں، یہ سب سے بدتر زہر قاتل ہیں، ہوشیار خبردار! مسلمانو! اپنا دین بچائو ان سے (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 14، ص 329-327)
ضروریات دین سے کیا مراد ہے؟
اقسام کفر و کافر میں ’’ضروریات دین‘‘ کا ذکر آیا ہے لہذا اسے بھی سمجھ لیجئے۔ ’’ضروریات دین‘‘ سے مراد وہ دینی مسائل ہیں جن کو عوام و خواص سب جانتے ہوں۔ مثلا اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت، رسول اﷲ کی ختم نبوت، آخرت، نماز اور روزہ وغیرہ۔
’’عوام‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دینی مسائل سے ذوق و شغل رکھتے ہوں اور علماء کرام کی صحبت سے فیض یاب ہوں۔ ’’عوام‘‘ سے مراد وہ لوگ نہیں جو دینی مسائل خصوصا ضروریات دین سے ناواقف و غافل ہیں، مثلا بہت سے گائوں دیہاتوں میں رہنے والے جاہل خصوصا برصغیر اور مشرق وغیرہ میں رہنے والے ایسے ہیں جو بہت سے ضروریات دین کے مسائل سے ناواقف اور غافل ہیں۔ ان کی ناواقفیت اور غفلت سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ یہ ضروریات دین کے منکر ہیں، غافل ہونے اور انکار کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 1،ص 243-239)
تنبیہ ضروری
مسلمانو! دین میں اصل مدار ’’ضروریات دین‘‘ ہیں اور ’’ضروریات‘‘ اپنے ذاتی روشن بدیہی ثبوت کے سبب مطلقاً ہر ثبوت سے غنی ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اگر بالخصوص ان پر کوئی نص قطعی اصلاً نہ بھی ہو، جب بھی ان کا وہی حکم رہے گا کہ منکر یقینا کافر ہے۔ یہی سبب ہے کہ ضروریات دین میں کسی قسم کی کوئی تاویل نہیں سنی جائے گی۔ جیسے نیچریہ نے آسمان کو بلندی، جبرئیل و ملائکہ کو قوت خیر، ابلیس وشیاطین کو قوت بدی، حشر ونشر و جنت و نار کو محض روحانی نہ جسدی بنالیا۔
غلام احمد قادیانی نے ’’خاتم النبیین‘‘ کو ’’افضل المرسلین‘‘ گھڑ لیا اور ایک دوسرے شقی نے ’’خاتم النبیین‘‘ کو ’’نبی بالذات‘‘ سے بدل دیا، ایسی تاویلیں سن لی جائیں تو اسلام و ایمان قطعاً درہم برہم ہوجائیں گے۔ اگریہ باطل تاویلیں درست مان لی جائیں تو بت پرست ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کی تاویل یوں کرلیں گے کہ یہ ’’افضل واعلیٰ‘‘ سے مخصوص ہے یعنی ’’خدا‘‘ کے برابر دوسرے خدا بھی ہیں، مگر وہ ’’خدا‘‘ سب دوسروں سے بڑھ کر خدا ہے۔ یہ معنی نہیں کہ دوسرا خدا ہی نہیں اور اس کی دلیل عرب کا یہ محاورہ ہے کہ لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار (یعنی علی کرم اﷲ وجہ جیسا کوئی بہادر جوان نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں) نعوذ باﷲ من ذلک تو کیا اس بت پرست کی یہ باطل تاویل سنی جائے گی؟ یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنے کا ہے کہ بہت سے گمراہ و بے دین مدعیان اسلام کے مکروہ اوہام سے نجات و شفا ہے (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 14، ص 266)
ایک شبہ کا ازالہ
اگر بظاہر اکابرین امت میں سے کسی امام، مفسر، محدث، فقیہ یا مفتی وغیرہ کی کوئی بات خلاف شرع معلوم ہوتی ہو، یا اس کا موقف سواداعظم کے خلاف جاتا ہوا نظر آئے تو ایسے میں ہم کیا کریں۔ کس کی بات مانیں اور کس کا ساتھ دیں؟
اس سلسلے میں صحیح اور معتدل قول یہ ہے کہ ’’انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء کے سوا کوئی انسان معصوم نہیں اور غیر معصوم سے کوئی نہ کوئی کلمہ غلط یا بے جا صادر ہونا کچھ نادر کالعدم نہیں، پھر سلف صالحین و آئمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہے کہ کل ماخوذ من قولہ ومردود علیہ الا صاحب ہذا القبرﷺ (یعنی رسول اﷲﷺ جو اس روضہ پاک میں آرام فرما ہیں، ان کے سوا ہر شخص کا قول لیا جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے‘‘ یہ قول سیدنا امام مالک بن انس علیہ الرحمہ نے حضور خاتم النبین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی قبر انور کے پاس ارشاد فرمایا تھا) لہذا جس کی جو بات خلاف اہل حق و جمہور دیکھی، وہ اسی پر چھوڑی اور اعتقاد وہی رکھا جو جماعت یعنی سواداعظم کا ہے کہ حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے:
یداﷲ علی الجماعۃ اور فرمایا اتبعوا السواد الاعظم (یعنی اﷲ تعالیٰ کی حمایت جماعت کے ساتھ ہے اور فرمایا سواد اعظم کی پیروی کرو)
(ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 15، ص 466-465)
عقیدہ ختم نبوت پر کیسا ایمان ہونا چاہئے؟
مسلمانوں پر جس طرح لاالہ الا اﷲ ماننا، اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کو احد صمد لاشریک لہ جاننا فرض اول و مناط ایمان ہے، یونہی محمد رسول اﷲﷺ کو ’’خاتم النبیین‘‘ ماننا، ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نئے نبی کی بعثت کو یقینی طور پر محال و باطل جاننا اہم فرض اور جزء ایقان ہے (ولکن رسول اﷲ و خاتم النبیین) (ترجمہ: ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبییوں کے پچھلے) (الاحزاب: 40/33)
نص قطعی قرآن ہے، اس کا منکر تو منکر بلکہ شبہ کرنے والا، بلکہ اس میں شک کرنے والا کہ ادنیٰ ضعیف احتمال کی وجہ سے اس کا خلاف کرنے والا ہو، قطعاً اجماعاً کافر ملعون ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے والا ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو ایسے شخص کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہوکر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، بلکہ جو ایسے شخص کے کافر ہونے میں شک و تردد کو راہ دے، وہ بھی واضح طور پر کافر ہے (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، ج 15، ص 630)
عقیدہ ختم نبوت اور قرآن کریم
عقیدہ ختم نبوت سے متعلق قرآن کریم میں بے شمار صریح آیات ہیں، ان میں سے چند حصول برکت کے لئے ذکر کی جاتی ہیں۔ الحمدﷲ مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اﷲ عزوجل نے ایسا فرمایا ہے اور اس چیز کا حکم دیا ہے یا اس کے محبوب خاتم النبیینﷺ نے یہ بات یوں ارشاد فرمائی ہے یااپنے غلاموںکو یہ حکم دیا ہے، پھر وہ مسلمان مرد ہو یا خواہ عورت، کسی قسم کا تامل کئے بغیر اسے قبول کرلیتے ہیں، اس حکم کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور مصروف عمل ہوجاتے ہیں، چاہے انہیں اس کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وماکان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اﷲ ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم، ومن یعص اﷲ ورسولہ فقد ضل ضلٰلاً مبیناً
(الاحزاب: 36/33)
ترجمہ: اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اﷲ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اﷲ اور اس کے رسول کا وہ بے شک صریح گمراہی بہکا‘‘
اور فرماتا ہے:
ما اٰتٰکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہو واتقوا اﷲ ان اﷲ شدید العقاب (الحشر: 7/59)
ترجمہ: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، باز رہو اور اﷲ سے ڈرو، بے شک اﷲ کا عذاب سخت ہے۔
عقیدہ ختم نبوت سے متعلق ذیل میں صرف چار آیات پر اکتفا کیاجاتا ہے:
قل یآایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا الذی لہ ملک السمٰوٰت والارض، لا الہ الا ہو یحی و یمیت فاٰمنو باﷲ و رسولہ النبی الامی الذی یومن باﷲ وکلمٰتہ واتبعوہ لعلکم تہتدون (سورۂ اعراف: 158/7)
ترجمہ: تم فرمائو: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اﷲ کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کو ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جلائے اور مارے تو ایمان لائو اﷲ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اﷲ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پائو۔
تفسیر خزائن العرفان میں ہے:
’’یہ آیت سید عالمﷺ کے عموم رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام خلق کے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی امت: بخاری و مسلم کی حدیث ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں‘‘ انہیں میں فرمایا: ’’ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا… اور میں تمام خلق کی طرف رسول بنایا گیا اور میرے ساتھ انبیاء ختم کئے گئے‘‘
ومآ ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین (سورۂ انبیائ: 107/21)
ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘
تفسیر روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں اکابر کا یہ قول نقل کیا ہے۔
’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر رحمت مطلقہ تامہ کاملہ عامہ شاملہ جامعہ محیطہ بہ جمیع مقیدات، رحمت غیبیہ و شہادت علمیہ و عینیہ ووجودیہ و شہودیہ و سابقہ ولاحقہ وغیر ذلک تمام جہانوں کے لئے عالم ارواح ہوں یا عالم اجسام، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول اور جو تمام عالموں کے لئے رحمت ہو، لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو‘‘
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیماً (الاحزاب: 40/33)
ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اﷲ سب کچھ جانتا ہے۔
تفسیر خزائن العرفان میں ہے:
’’یعنی آخر الانبیاء ہیں کہ نبوت آپ پر ختم ہوگئی۔ آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتی کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نمازپڑھیں گے، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے۔ نص قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث توحد تواتر تک پہنچتی ہیں۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضورﷺ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے‘‘
وما ارسلنٰک الا کافۃ للناس بشیراً و نذیراً و لٰکن اکثر الناس لایعلمون (سورۂ سبا: 28/34)
ترجمہ: اور اے محبوب! ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے، خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔
خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت ہے:
’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور سید عالمﷺ کی رسالت عامہ ہے تمام انسان اس کے احاطہ میں ہیں۔ گورے ہوں یا کالے، عربی ہوں یا عجمی، پہلے ہوں یا پچھلے سب کے لئے آپ ’’رسول‘‘ ہیں اور وہ سب آپ کے ’’امتی‘‘۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے۔ سید عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا فرمائی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئی… یہاں تک کہ فرمایا ’’اور انبیاء خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا‘‘
عقیدہ ختم نبوت اورسنت
مولانا احمد رضا خان حنفی علیہ الرحمہ نے صرف ایک رسالہ میں ’’ختم نبوت‘‘ کے بارے میںایک سوبیس احادیث، اکہتر صحابہ کرام اور گیارہ تابعین عظام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے مروی نقل کی ہیں۔ اتنے راویان حدیث کی تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے، کسی متواتر چیز کا انکار کرنا اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ من جملہ ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ بھی انہی احکام سے ہے، جس کا ثبوت تواتر سے ہے۔ اس حدیث کے راویان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔) ۔
(جاری ہے)
مدیر کی آخری تدوین
: