• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام عبدالوہاب شعرانیؒ کا عقیدہ)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام عبدالوہاب شعرانیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
۱… ’’مرزاقادیانی نے امام عبدالوہاب شعرانیؒ کو ان لوگوں میں شمار کیا ہے۔ جو محدث اور صوفی ہونے کے علاوہ معرفت کامل اور تفقہہ تام کے رنگ سے رنگین تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۹، خزائن ج۳ ص۱۷۶)
۲… مرزاقادیانی امام شعرانیؒ کے مرتبہ کے اس قدر قائل تھے کہ انہیں صرف امام صاحب کے نام سے یاد فرماتے تھے۔
(ازالہ اوہام ص۱۵۰،۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۶)
اب ہم اس مرتبہ کے بزرگ کی کلام حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ عبارت چونکہ بہت طویل ہے۔ ہم صرف اس کے اردو ترجمہ پر اکتفاء کرتے ہیں۔ شائقین حضرات عربی عبارت کے لئے اصل کی طرف رجوع کریں۔ امام موصوف فرماتے ہیں۔
’’اگر تو سوال کرے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آئے گا تو وہ کب مرے گا؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ جب دجال کو قتل کر چکیں گے تب فوت ہوں گے۔ اسی طرح شیخ اکبر نے فتوحات کے باب ۳۶۹ میں لکھا ہے۔ اگر تو سوال کرے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر کیا دلیل ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ ان کے نزول پر دلیل اﷲ تعالیٰ کا یہ قول ہے۔ ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ یعنی جس وقت نازل ہوگا اور لوگ اس پر اکٹھے ہوں گے اور معتزلہ اور فلاسفر اور یہود اور نصاریٰ جو عیسیٰ علیہ السلام کے جسم کے ساتھ آسمان پر جانے کے منکر ہیں۔ اس وقت یہ سب لوگ ایمان لائیں گے اور اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا۔ ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ (اور عیسیٰ علیہ السلام البتہ قیامت کی نشانی ہے) اور قرآن کے لفظ علم کو عین اور لام کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور ’’ انہ ‘‘ میں جو ضمیر ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے۔ چونکہ اﷲتعالیٰ کا قول ہے۔ ’’ولما ضرب بن مریم مثلاً‘‘ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ تحقیق مسیح علیہ السلام کا نازل ہونا قیامت کی نشانی ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ لوگ نماز میں ہوں گے کہ ناگہاں اﷲتعالیٰ بھیجے گا۔ حضرت مسیح ابن مریم کو وہ اتریں گے دمشق کی مشرقی طرف سفید منارہ کے پاس حضرت مسیح علیہ السلام نے زرد رنگ کی دو چادریں پہنی ہوں گی۔ دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوں گے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا نازل ہونا کتاب وسنت کے ساتھ ثابت ہوگیا۔ حق یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ (بلکہ اﷲ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا) حضرت ابوطاہر قزوینیؒ نے کہا جان کہ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان میں جانے کی کیفیت اور اس کے اترنے اور آسمان میں ٹھہرنے کی کیفیت اور کھانے پینے کے سوا اس قدر عرصہ تک ٹھہرنا، یہ اس قبیل سے ہے کہ عقل اس کے جاننے سے قاصر ہے اور ہمارے لئے اس میں بجز اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ہم اس کے ساتھ ایمان لائیں اور اﷲ کی اس قدرت کو تسلیم کریں۔ پس اگر کوئی سوال کرے کہ اس قدر عرصہ تک کھانے پینے سے بے پرواہ ہوکر رہنا یہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ وما جعلنا ہم جسد الا یاکلون الطعام ‘‘ یعنی ہم نے نبیوں کا ایسا جسم نہیں بنایا جو کھانے پینے سے مستغنی ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طعام کھانا اس شخص کے لئے ضروری ہے جو زمین میں ہے۔ کیونکہ اس پر گرم وسرد ہوا غالب ہے۔ اس لئے اس کا کھاناپینا تحلیل ہو جاتا ہے۔ جب پہلی غذا ہضم ہو جاتی ہے تو اﷲتعالیٰ اس کو اور غذا اس کے بدلے میں عنایت کرتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا غبار آلود میں اﷲ کی یہی عادت ہے۔ لیکن جس شخص کو اﷲ آسمان کی طرف اٹھا لے۔ اﷲ اس کے جسم کو اپنی قدرت سے لطیف اور نازل کر دیتا ہے اور اس کو کھانے اور پینے سے ایسا بے پرواہ کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اس نے فرشتوں کو ان سے بے پرواہ کردیا ہے۔ پس اس وقت اس کا کھانا تسبیح ہوگا اور اس کا پینا تہلیل ہوگا۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے اس سوال کے جواب میں فرمایا۔ جب کہ آپ سے
پوچھا گیا کہ کیوں یا رسول اﷲﷺ آپ کھانے پینے کے بغیر پے در پے روزے رکھتے ہیں اور ہم لوگوں کو اجازت نہیں دیتے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے پاس رات گزارتا ہوں۔ میرا رب مجھ کو کھانا دیتا ہے اور پانی پلاتا ہے اور مرفوع حدیث میں ہے کہ دجال کے پہلے تین سال قحط کے ہوں گے۔ پہلے سال میں آسمان تیسرا حصہ بارش کم کر دے گا اور زمین تیسرا حصہ زراعت کا کم کر دے گی اور دوسرے سال میں دو حصے بارش کے کم ہو جائیں گے اور دو حصے زراعت کے کم ہو جائیں گے اور تیسرے سال میں بارش بالکل بند ہو جائے گی۔ پس اسماء بنت زیدؓ نے عرض کی یار سول اﷲﷺ اب تو ہم آٹا گوندھنے سے پکنے تک صبر نہیں کر سکتے۔ اس دن کیا کریں گے۔ فرمایا جو چیز اہل آسمان کو کفایت کرتی ہے یعنی اﷲ کی تسبیح اور تقدیس کرنا، وہی چیز اہل ایمان کو کافی ہوگی۔ شیخ ابوطاہرؒ نے فرمایا ہے۔ ایک شخص نامی خلیفہ فراط کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ شہر الیہر میں (جو مشرقی بلاد سے ہے) مقیم تھا۔ اس نے ۲۳سال تک کچھ نہیں کھایا اور دن رات اﷲ کی عبادت میں مشغول رہا تھا اور اس سے اس میں کچھ ضعف نہیں آیا تھا۔ پس جب یہ بات ممکن ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آسمانوں میں تسبیح وتہلیل کی غذا ہو تو کیا بعید ہے اور ان باتوں کا اﷲ ہی اعلم ہے۔‘‘
مندرجہ بالا عبارت سے یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ حضرت امام عبدالوہاب شعرانیؒ وفات مسیح کے قائل نہ تھے۔ بلکہ برعکس حیات مسیح کے قائل تھے۔ چنانچہ ان کے یہ الفاظ قابل غور ہیں۔
’’حق یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے۔‘‘
(الیواقیت والجواہر مصنفہ امام شعرانی ج۲ ص۱۴۶، بحث۶۵)
معزز قارئین! غور فرمائیں کس طرح مرزائیوں کے مسلم امام فقیہ، محدث اور صوفی مرزائی جماعت کے دلائل وفات مسیح کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ مرزائیوں کے تمام دلائل وفات مسیح علیہ السلام اور حیات مسیح علیہ السلام پر ان کے اعتراضات ایک طرف رکھے جائیں تو بھی امام شعرانی کی کلام ان سب کی تردید کے لئے کافی ہے۔
 
Top