• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عقیدہ ختم نبوّت اور قادیانیّت کے منہ پر طمانچہ قرآن کی روشنی میں

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
عقیدہ ختم نبوّت اور قادیانیّت کے منہ پر طمانچہ قرآن کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ ال ِسلَامَ دِیناً ط (سورة مائدہ، پارہ۶)

”آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی، اور تمہارے لےے دین اسلام ہی پسند کیا۔“

یہ آیتِ کریمہ اس امتِ مرحومہ کی ایک بہت بڑی مخصوص فضیلت اور شرافت کا اعلان کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظمؓ سے ایک مرتبہ کہا کہ اے امیر المومنین! تمہارے قرآن میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہو اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے، جس دن یہ نازل ہوئی، آپؓ نے فرمایا وہ کونسی آیت ہے؟ یہودی نے کہا:

اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی

حضرت سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:

”ہم اُس دن اور اس جگہ کو خوب جانتے ہیں جس میں یہ آیت نازل ہوئی، یہ آیت نبی کریم ﷺ پر جمعہ کے دن اس وقت نازل ہوئی جب آپﷺ عرفہ میں کھڑے ہوئے تھے۔“ (بخاری و مسلم)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس دن پانچ عیدیں جمع تھیں، جمعہ، عرفہ، عید یہود، عید نصاریٰ، عید مجوس اور دنیا کی تاریخ میں (نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد) تمام مللِ دنیا کی عیدیں کبھی آج تک جمع نہیں ہوئیں۔ (تفسیرخازن: ص۵۳۴، ج ا)

غرض کہ یہ آیت شریفہ اس امت کی اس عظیم الشان خصوصی فضیلت کو بیان کر رہی ہے جو باقرار اہل کتاب اس امت سے پہلے کسی کو نہیں ملی، یعنی خدا وند عالم نے اپنا دینِ مقبول اس امت کے لےے ایسا کامل فرمادیا کہ قیامت تک اس میں ترمیم کی ضرورت نہیں، عقائد، اعمال، اخلاق، حکومت، سیاست، شخصی آداب، حرام و حلال، مکروہات و مستحبات کے قوانین اور قیامت تک کے لےے تمام ضروریات معاش و معاد کے اصول ان کے لےے اس طرح کھول دےے کہ وہ تاقیامِ قیامت کسی نئے دین یا نئے نبی کی رہبری کے محتاج نہیں، یہاں تک کہ اس خیرالامم کے پیشوا سید الاولین و الآخرین ﷺ اس وقت اس عالم ظاہری سے رخصت ہوئے ہیں جبکہ وہ اپنی امت کے لےے ایک ایسی صاف و سیدھی اور روشن شاہراہ تیار فرماچکے ہیں جس پر چلنے والے کو دن اور رات میں کوئی خطرہ مانع نہ ہو، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے:

”میں نے ایک ایسی صاف روشن راہ مستقیم کو چھوڑا ہے کہ جس کا رات دن برابر ہے۔“

یہاں تک کہ یہ امت کسی دوسرے دن اور دوسری نبوت کی محتاج نہیں رہی۔

بہرحال یہ آیت حکم کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لےے دین کو بہمہ وجوہ کامل فرما دیا ہے، اس کو آنحضرت ﷺ کے بعد نہ کسی نئے نبی کے پیدا ہونے کی ضرورت ہے اور نہ کسی نئے دین کی۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آیت مذکورہ میں اکمالِ دین سے مراد یہ ہے کہ فرائض اور سنن اور حُدود و احکام اور حلال و حرام کو مکمل بیان فرمادیا گیا، اس کے بعد کوئی حلال و حرام نازل نہیں ہوا اور نہ اس کی قیامت تک ضرورت رہی۔

بعض حضراتِ مفسرین نے فرمایا ہے کہ اکمالِ دین سے مراد ہے کہ یہ دین قیامت تک رہنے والا ہے، کبھی منسوخ یا مندرس اور بے نام و نشان نہ ہوگا۔ بعض مفسرین نے اس امت کے لےے اکمال دین کی یہ مراد قرار دی ہے کہ یہ امت ہر ایک نبی اور ہر آسمانی کتاب پر ایمان لائی، کیونکہ تمام انبیاءاور تمام کتابیں اس امت سے پہلے صفحۂ وجود میں آچکے، بخلاف تمام پہلی امتوں کے ان کو یہ فضیلت نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ان کے زمانہ میں تمام انبیاءاور تمام آسمانی کتابیں وجود میں نہیں آئی تھیں۔

بہر حال مذکورة الصدر تینوں کی تینوں تفسیروں میں سے اکمالِ دین کی جو تفسیر بھی رکھی جائے یہ آیت ہمارے زیر بحث مسئلہ ”ختم نبوت“ کے لےے ایک روشن دلیل ہے، کیونکہ تینوں تفسیروں کا حاصل یہ ہے کہ اس دین کے بعد کوئی دین اور آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی تاقیامت پیدا نہ ہوگا۔

الغرض کم ازکم یہ آیت آیاتِ احکام میں سے آخری آیت ہے اور آئندہ کے لےے انقطاع وحی و نبوت کی خبر دے رہی ہے اور حدیث میں ہے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو فاروق اعظمؓ رونے لگے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا، کیوں روتے ہو؟ فاروق اعظمؓ نے عرض کیا:

”تحقیق ہم اپنے دین میں زیادتی اور ترقی میں تھے، لیکن جب وہ کامل ہوگیا تو (عادت اللہ اسی طرح جاری ہے) کہ جب کوئی شے کامل ہوجاتی ہے تو پھر وہ ناقص ہوجاتی ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تم نے سچ کہا اور یہی آیت آنحضرت ﷺ کی خبر وفات سمجھی گئی اور آپ اس کے بعد صرف اکیاسی روز اس عالم میں زندہ رہے۔“

فاروق اعظمؓ کا یہ واقعہ مذکورہ سابق تفسیر کی روشن دلیل اورکھلی شہادت ہے، کیونکہ اگر اکمالِ دین اور تمامِ نعمت سے نزولِ احکام دین کا اختتام اور وحی و نبوت کا انقطاع اور خاتم الانبیاءﷺ کی وفات مراد نہ تھی تو فاروق اعظمؓ کا اس موقع پر رونا بے محل اور بے معنی ہوجائے گا اور امام المفسرین علامہ ابن کثیرؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

”یہ اس اُمت پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے اُن کے لےے دین کو کامل فرمایا، لہذا امتِ محمدیہﷺ نہ اور کسی دین کی محتاج ہے نہ اور کسی نبی کی، اسی لےے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاءبنایا اور تمام جن و بشر کی طرف مبعوث فرمایا۔“

ابن کثیر کی اس تفسیر سے جیسا کہ اکمالِ دین کے معنے حسب تحریر سابق معلوم ہوئے، اسی طرح اس کا بھی فیصلہ ہوگیا کہ آپ کے بعد نہ کسی شریعت اور صاحب شریعت نبی کی ضرورت ہے اور نہ مطلق نبی کی، صاحبِ شریعت ہو یا نہ ہو۔

علامہ فخر الدین رازیؒ اپنی تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے قفال مروزیؒ سے نقل کرتے ہیں اور خود بھی اسی کو اختیار فرماتے ہیں:

”دین الہٰی کبھی ناقص نہیں تھا، بلکہ ہمیشہ سے کامل تھا اور تمام شرائع الہٰیہ اپنے اپنے وقت کے لحاظ بالکل مکمل اور کافی تھیں مگر اللہ تعالیٰ پہلے ہی جانتا تھا کہ وہ شریعت جو آج کامل ہے کل کافی نہ رہے گی، اس لےے وقت مقررہ پر پہنچ کر اس کو منسوخ کردیا جاتا تھا۔ لیکن آخر زمانِ بعثت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی شریعت کاملہ بھیجی جو ہر زمانہ کے اعتبار سے کامل ہے اور اس کے تاقیامت باقی رہنے کا حکم فرمایا۔“

خلاصہ یہ کہ پہلی شریعتیں بھی کامل تھیں، مگر ایک وقت مخصوص تک کے لےے اور یہ شریعت قیامت تک کے لےے کافی اور کامل ہے اور اسی معنیٰ کی بناءپر اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم فرمایا گیا۔“

امام رازیؒ کی اس تحریر سے بھی یہ امر واضح ہوگیا کہ اکمالِ دین کی مراد وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی اور اس امت کے لےے اکمالِ دین کی غرض یہ ہے کہ یہ امت آخر الامم ہے اور اس کا زمانہ آخر زمانِ بعثت ہے کہ اس کے بعد کوئی نبی مبعوث نہ کیا جائے گا۔

امام موصوف نے اس تحریر میں ان تمام شبہات و اوہام کی جڑ قطع کردی اور فرمادیا کہ آیت کی ہرگز یہ مراد نہیں کہ اب سے پہلی تمام شریعتیں اور ادیان سماویہ ناقص تھے، صرف یہ دین کامل نازل ہوا۔

بلکہ ہر دینِ الہٰی اور شریعت الہٰیہ ہمیشہ اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے کامل تھے اور اس زمانہ کے لوگوں کی ہدایت کے لےے بالکل کافی و شافی تھے البتہ خداوند عالم کو معلوم تھا کہ آئندہ کسی زمانہ میں بوجہ انقلاب حالات یہ شریعت اور قانون آئندہ نسلوں کے لےے ناکافی ہوگا اور اس کو منسوخ کرکے دوسرا دین اور شریعت بھیجی جائے گی لہٰذا پہلی تمام شرائع و ادیانِ سماویہ کا کمال صرف اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے تھا اور یہ دین متین جس کو لے کر خاتم الانبیاءﷺ تشریف لائے قیامت تک کے لےے ہدایت و رہبری کا وثیقہ ہے، اس کا کمال غیر موقت اور ہمیشہ کے لےے ہے۔

خلاصہ یہ کہ دین الہٰی کوئی ناقص نہیں سب کامل ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ جس طرح پہلے انبیاءعلیہم السلام خاص خاص مدت اور خاص خاص لوگوں کے لےے مبعوث ہوتے تھے ان کی بعثت نہ باعتبار زمانہ کے عام اور باعتبار انسانوں کے طبقات کے عام اور سب پر محیط ہوتی تھی، اسی طرح اُن کی شریعتیں بھی ہمیشہ کے لےے نہ تھیں۔

لیکن اس سے نہ اُن انبیاءعلیہم السلام کی توہین ہوتی ہے اور نہ پہلے ادیان شرائع کا ناقص ہونا لازم آتا ہے اور ہمارے نبی کریم ﷺ جیسے تمام جن و انس کی طرف قیامت تک کے لےے مبعوث ہوئے، اسی طرح آپﷺ کا دین بھی قیامت تک کے لےے کافی اور کامل ہوا اور یہ خاتم الانبیاءﷺ کی خصوصی شرافت اور آخر الامم کی مخصوص فضیلت ہے۔

ذالک الفضل من اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔

نیز تفسیر لباب التاویل معروف بخازن: ص ۵۳۴ میں بھی آیت مذکورہ کی یہی تفسیر منقول ہے:

”آیت اکملت لکم دینکم الخ کی تفسیر یہ ہے کہ فرائض اور سنن، حدود اور احکام اور حلال و حرام کے بیان سے تمہارا دین مکمل کر دیا گیا، چنانچہ اس کے بعد حلال و حرام یا فرائض میں سے کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔

یہی قول ہے حضرت ابن عباسؓ کا۔“

اور امام راغب اصفہانیؒ نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے:

” اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺ کی نبوت کے ساتھ نبوت کو ختم کردیا اور پہلی بار شرائع کو آپ کی شریعت کے ذریعہ ایک اعتبار سے مکمل فرمایا: جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے الیوم اکملت لکم الآیة۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ:

اگرچہ ہم آیت مذکورہ میں اکمالِ دین کی مذکورة الصدر تفسیر کو احادیث اور آثار صحاب اور ائمہ تفسیر کے مستند اقوال سے ثابت کرچکے ہیں جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔

لیکن اگر کوئی دشمن اب بھی یہ تاویل کرے کہ اکمالِ دین کے لغوی معنی صرف دین کو کامل کرنے کے ہیں اور دین کو کامل کرنے سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو تمام ادیان دنیا پر غلبہ عنایت فرمایا اور اس امت کو تمام دشمنوں سے محفوظ فرمایا۔

سو اس کے متعلق ہم صرف فاروق اعظمؓ کے رونے کا واقعہ اور آپﷺ کا اُن کے خیال پر تصدیق فرمانا وغیرہ کی یاد دہانی کردینا کافی سمجھتے ہیں، کیونکہ ادیان پر اس دین کا غالب ہونا یا موسمِ حج کا کفار سے خالی ہونا کسی عقلمند انسان کے لےے رونے کا باعث نہیں ہوسکتا۔
 
Top