ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
قادیانی عتراض :
" عن عائشہ رضی اللہ عنہا ان عیسیٰ ابن مریم عاش عشرین و ما ئۃ سنۃ۔"
۔یعنی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ١٢٠ برس تک زندہ رہے یہاں عاش ماضی کا صیغہ ہے جس سے معلوم ہوا کے ١٢٠ سال کے بعد ان کا انتقال ہو گیا ....
الجواب
قادیانی اپنی تلبیس کی عادت قدیمہ پر عمل کرتے ہوۓ یہ حدیث پوری نقل نہیں کرتے اگر پوری نقل کرے تو ان کا سارا پول کھل جائے ...
حدیث کی ابتدا یوں ہے کے ..
" انھ لم یکن کان بعدہ نبی الا عاش نصف عمری الذی کان قبله ،و ان عیسیٰ ابن مریم عاش عشرین و ما ئۃ سنۃ. " .(کنزا العمل صفحہ ٤٧٩ حدیث ٣٢٢٦٢ ) ہر بعد میں انے والا نبی اپنے سے پہلے نبی کی آدھی عمر پاتا ہے اور بیشک حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے ١٢٠ برس عمر پائی
اصل بات یہ ہے کے یہ حدیث عقلاََ بھی اس قابل نہیں کے اس کی طرف ادنیٰ سا بھی غور کیا جائے کیونکے اس روایت کے شروع میں یہ مضمون بھی ہے کے ہر بعد میں آنے والا نبی اپنے سے پہلے نبی کی آدھی عمر پاتا ہے.
اب اگر اسے صحیح مان کر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے اوپر کے دس انبیاء کی عمریں شمار کی جائیں تو ان کی عمریں ہزاروں لاکھوں برسوں سے تجاوز کر جائیں گی اور حضرت آدم علیہ اسلام کی عمر تو اتنا بڑھ جائے گی کے مجودہ زمانے کے کمپیوٹر اسے شمار کرنے سے عجاز آئیں گے .
اگر حساب کیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر بیسویں نبی کی عمر ٦ کروڑ ٢٩ لاکھہ ١٤ ہزار ٥٦٠ سال بنتی ہے حالانکہ خود قران مجید میں حضرت نوح علیہ اسلام کی عمر ٩٥٠ برس بتائی گئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے بہت پہلے کے رسول ہیں ..
لہذا جب روایت کا پہلا جز ہی نہ قابل اعتبار ٹھہرا تو دوسرے جز پر کیسے اعتبار کیا جا سکے گا ؟
اگر حدیث کا پہلا جز صحیح ہے کے ہر بعد میں انے والا نبی اپنے سے پہلے نبی کی آدھی عمر پاتا ہے تو اس رو سے مرزا جھوٹا ثابت ہوتا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ٦٣ برس ہے اور چونکہ قادیانی حضرات مرزے کو نبی مانتے ہیں تو اس لئے اس حدیث کے لحاظ سے اس کی عمر ٣١ ،٣٢ ہونی چاہیے تھی حالانکہ اس کی عمر ٧٠ کے لگ بھگ تھی .
یہ حدیث ابن لہیہ کے واسطے سے مروی ہے جو محدثین کے نزدیک بالاتفاق مردود اور نا قابل عتبار راوی ہے اس لیے روایت صحیع کی مجودگی میں یہ روایت بلکل نہ قابل قبول ہے .
اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو دیگر حدیث متواتر کو سامنے رکھہ کر اس طرح تطبیق دی جائے گی کے وہ نصوص کے مخلاف نہ ہو چانچہ ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی تطبیق اس طرح دینے کی کوشس کی ہے کے نبوت سے قبل ٤٠ سال ،نبوت کے بعد ٣٣ سال اور قیامت کے قریب نازل ہونے کے بعد کے ٤٥ سال اس طرح کل ملا کے ١١٨ سال ہوۓ حدیث میں کسر کو پورا کر کے ١٢٠ سال کہہ دیا جس حدیث میں نزول کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ اسلام صرف ٧ سال زندہ رہنے کی بات ہے وہ قتل دجال کے بعد ٧ سال تک زندہ رہنے پر محمول کی جائے گی.
تحقیق : حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ
(انتخاب :مقالا ت اثریہ )
سیدہ عائشہؓ، حضرت فاطمہؓ سے مرفوعاً نقل کرتی ہیں:
''(١) کسی نبی کے بعد کوئی نبی نہیں ہوتا، مگر وہ گزشتہ نبی کی عمر سے نصف عمر زندگی گزارتا ہے۔
(٢) اور انھوں نے مجھے خبر دی کہ (سیدنا) عیسیٰؑ ایک سو بیس برس زندہ رہے۔
(٣) اور میں اپنے بارے میں خیال نہیں کرتا، مگر یہ کہ میں بھی ساٹھ برس کی عمر میں فوت ہونے والا ہوں۔''
اس روایت سے قادیانی اور مرزائی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ بن مریمؑ فوت ہوگئے ہیں، حالانکہ یہ روایت بلحاظِ سند اور بلحاظِ متن دونوں طرح سے ثابت نہیں، بلکہ ضعیف و باطل ہے۔ اصولِ حدیث کا مسئلہ ہے کہ ایسی روایت ناقابلِ استدلال ہوتی ہے۔
اس روایت کو امام طحاویؒ نے ''شرح مشکل الآثار (٥/ ١٩٩، ح: ١٩٣٧، ١/ ١٣٩۔ ١٤٠، ح: ١٤٦، دوسرا نسخہ: ٢/ ٣٨٤، ١/ ٤٩)،
امام طبرانیؒ نے المعجم الکبیر (٢٢/ ٤١٦، ح: ١٠٣١، مختصراً)،
امام ابن ابی عاصمؒ نے الأحاد و المثاني (٥/ ٢٦٩۔٢٧٠، ح: ٢٩٧٠ و رقم: ٢٩٦٥۔ مختصراً)،
امام بیہقیؒ نے دلائل النبوۃ (٧/ ١٦٥، ١٦٦)،
امام ابن عبدالبرؒ نے التمھید (١٤/ ٢٠٠)
اور امام ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق (٤٧/ ٤٨١، ٤٨٢) میں
''محمد بن عبد اﷲ بن عمرو بن عثمان أن أمہ: فاطمۃ ابنۃ الحسین، عن عائشۃ، عن فاطمۃ'' کی سند سے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن کثیرؒ نے اس حدیث کو المستدرک للحاکم اور المعرفۃ والتاریخ للإمام یعقوب الفارسي'' کی طرف منسوب کیا ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ: ٢/ ٩٥)
یہ روایت ان کتب میں تو دستیاب نہ ہو سکی، البتہ زیادات المعرفۃ والتاریخ (٣/ ٢٦٥، ٢٦٦، ضمن المعرفۃ والتاریخ) میں البدایۃ والنہایۃ کے حوالے سے موجود ہے۔
الدیباج متکلم فیہ راوی ہے:
اس روایت کا مرکزی راوی محمد بن عبداﷲ المعروف بالدیباج متکلم فیہ ہے، اس کے بارے میں ائمہ نقاد (جرح و تعدیل کے اماموں) کی تنقید ملاحظہ فرمائیں:
٢۔ امام مسلمؒ۔ ''عن أبي الزناد منکر الحدیث''(الکنی: ١/ ٤٨٧، رقم: ١٨٨٤، تاریخ دمشق: ٥٦/ ٢٨٦)
٣۔ امام ابن حبانؒ۔ ''في حدیثہ عن أبي الزناد بعض المناکیر'' (الثقات: ٧/ ٤١٧)
٤۔ امام ابن الجاردوؒ۔ ''لا یکاد یتابع علی حدیثہ.''(تہذیب التہذیب: ٩/ ٢٦٩)
٥۔ امام ابن خزیمہؒ۔ ''وأنا أبرأ من عھدتہ.''(تاریخ دمشق لابن عساکر: ٥٦/ ٣٨٤ و سندہ صحیح)
٦۔ امام ابو احمد الحاکم الکبیرؒ۔ ''لیس بالقوي عندھم''(تاریخ دمشق: ٥٣/ ٢٨٤، ٢٨٥ و سندہ صحیح)
٧۔ امام نسائیؒ ۔ ''لیس بالقوي'' (تاریخ دمشق: ٥٦/ ٢٨٦)
ائمہ معدلین اور ان کی تعدیل:
١۔ امام عجلیؒ ۔ ''ثقۃ'' (تاریخ الثقات، ص: ٤٠٦، رقم: ١٤٧٢، معرفۃ الثقات بترتیب الہیثمي والسبکي: ٢/ ٢٤٢، رقم: ١٦١٤)
٢۔ امام نسائیؒ ۔ ''ثقۃ'' (میزان الاعتدال: ٣/ ٥٩٣ و تہذیب الکمال: ٦/ ٣٧٩)
٣۔ امام ابن عدیؒ۔ ''حدیثہ قلیل و مقدار مالہ یکتب'' اس کی حدیثیں تھوڑی ہیں اور اس کی روایتیں لکھی جاتی ہیں۔ (الکامل: ٦/ ٢٢٢٤)
یہ توثیق ہے اور نہ جرح ہے، لیکن جرح کی طرف اشارہ ہے۔
٤۔ حافظ ابن حجر ؒ۔ ''صدوق'' (التقریب: ٦٠٧٦) ''ثقۃ''(تعجیل المنفعۃ، ص: ٣٠٦ ترجمۃ: عمرو بن جعفر)
مگرحافظ صاحب نے ''فتح الباري، کتاب الطب، باب الجذام (١٠/ ١٥٩، رقم: ٥٧٠٧) کے تحت سنن ابن ماجہ کی اس کے واسطے سے ایک روایت: ((لا تدیموا النظر إلی المجذوم)) کو ضعیف کہا ہے۔ اس روایت کی تخریج کے لیے ملاحظہ ہو: ''الصحیحۃ للألباني (٣/٥١۔ ٥٣ ح: ١٠٦٤) اور أنیس الساري في تخریج أحادیث فتح الباري (٩/ ٦٠٨١۔ ٦٠٨٥)
اس سے معلوم ہوا کہ حافظ صاحب نسیان یا تردد کا شکار ہوگئے ہیں یا پھر یہی ان کا آخری فیصلہ ہے، ایسے متکلم فیہ راوی اور ضعیف عند الجمہور کا تفرد بالخصوص جب اس کی روایت میں ضعف اور نکارت ہو، ناقابلِ قبول ہے۔
مضعفینِ حدیث:
اس روایت کے بارے میں حافظ ہیثمیؒ فرماتے ہیں:
''اس حدیث کو امام طبرانیؒ نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ امام بزار رحمہ اللہ نے بھی اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے اور اس کے رجال میں کمزوری ہے۔'' (مجمع الزوائد: ٩/ ٢٣)
حافظ ابن عساکرؒ نے یہ فرما کر اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے:
''صحیح بات یہی ہے کہ عیسیؑ اس عمر کو نہیں پہنچے۔''(تاریخ دمشق: ٤٧/ ٤٨٢)
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
''حدیث غریب'' (البدایۃ والنھایۃ: ٢/ ٩٥، دوسرا نسخہ: ٢/ ٢٩٢)
حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس روایت کے اثبات میں شک کا اظہار یوں کیا ہے:
''جب عیسیؑ کو (آسمانوں پر) اٹھایا گیا تو اس وقت ان کی عمر میں اختلاف کیا گیا ہے، ایک قول کے مطابق تینتیس برس اور دوسرے کے مطابق ایک سو بیس برس ہے۔'' (فتح الباری: ٦/ ٤٩٣)
محدث البانیؒ رقمطراز ہیں:
''اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے۔'' (الضعیفۃ: ٩/ ٤٢٥)
خلاصہ یہ کہ محمد بن عبداﷲ الدیباج جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ متقدمین میں سے اس کی توثیق صرف ایک محدث سے ثابت ہے، امام نسائی نے ثقۃ بھی قرار دیا ہے اور لیس بالقوي کی جرح بھی کی ہے۔ اور جرح چھ محدثین سے ثابت ہے، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
عامر بن واثلۃ کی متابعت:
محمد بن عبداﷲ الدیباج کی عامر بن واثلہ اللیثی ابو الطفیل نے متابعت کی ہے، اسے امام طبرانی رحمہ اللہ نے (المعجم الکبیر: ٢٢/ ٤١٧، ٤١٨، ح: ١٠٣٠) میں ''عبد الکریم بن یعقوب(!) عن جابر عن أبي الطفیل عن عائشۃ عن فاطمۃ'' کی سند سے بیان کیا ہے، مگر یہ سند بھی درج ذیل علل کی وجہ سے ضعیف ہے:
١۔ جابر جعفی ضعیف اور مشہور رافضی ہے۔ (التقریب: ٨٨٦)
٢۔ عبدالکریم بن یعقوب1: عبدالکریم بن یعفور جعفی ابو یعفور سے محرف ہے، جیسا کہ طبرانی میں دوسری جگہ درست نام مذکور ہے۔
(المعجم الکبیر: ٣/ ٩٥، ح: ٢٧٦٧)
عبدالکریم بن یعفور کو امام ابو حاتم نے شیخ لا یعرف کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل: ٦/ ٦١)
امام بخاری نے اس کے بارے میں سکوت کیا ہے۔ (التاریخ الکبیر: ٦/ ٩١)
ابن حبان نے الثات میں ذکر کیا ہے۔ (الثقات: ٨/ ٤٢٣)
حافظ ذہبی نے المشتبہ (٢/ ٦٧٠)
حافظ ابن حجر نے تبصیر المنتبہ (٤/ ١٤٩٥) میں لا یعرف کہا ہے۔
امام ابن ناصرالدین الدمشقی کا رجحان بھی اسی جانب ہے۔ (توضیح المشتبہ: ٩/ ٤٧١)
شیخ البانی نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔ (الضعیفۃ: ١٢/ ١٨٣)
حافظ ابن حجر نے مقبول کہا ہے۔ (التقریب: ٤١٨١)
خلاصہ یہ کہ ابن یعفور مجہول الحال ہے۔ ابن حبان کا اسے الثقات میں ذکر کرنا فائدہ مند نہیں حافظ ابن حجر اگر ازدی کی جرح کو ملحوظ رکھتے تو یقینا وہ اسے مقبول نہ کہتے۔ واﷲ اعلم۔ اس لیے الدیباج کے لیے یہ متابعت بھی قابلِ تقویت نہیں۔ یہ روایت اپنی سندوں کے باوجود ضعیف ہے۔
عبدالکریم کے بارے میں ملاحظہ:
حافظ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال (٢/ ٦٤٧) میں کسی دلیل کے بغیر عبدالکریم بن یعفور خزاز کو ولید بن صالح کا استاد قرار دیا ہے۔ حالانکہ امام ابن ابی حاتمؒ نے ان کو علیحدہ علیحدہ ذکر کر کے ان پر مختلف جرح نقل کی ہے۔
ابن یعفور کو امام ابو حاتمؒ نے ''شیخ لا یعرف'' کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل: ٦/ ٦١، رقم: ٣٢٠)
اور اس کا لقب خزاز (خراز) ذکر نہیں کیا۔
امام بخاریؒ نے بھی التاریخ الکبیر (٦/ ٩١) میں اس کے بارے میں سکوت کیا ہے، جبکہ ولید بن صالح کے استاد عبدالکریم پر امام ابو حاتمؒ نے''کان یکذب'' کی جرح کی ہے۔ (الجرح والتعدیل: ٦/ ٦٢، رقم: ٣٢٦)
حافظ ابن حجرؒ نے لسان المیزان (٤/ ٥٣) میں حافظ ذہبیؒ کا رد کیا ہے، مگر ان کے کلام سے اس کی تفصیل واضح نہیں ہوتی۔
تیسرا راوی عبدالکریم بن خراز ہے جو جابر جعفی کا شاگرد ہے، اس کے بارے میں حافظ ازدی نے کہا: ''واھی الحدیث جداً'' حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
''یہ عبدالکریم بن عبدالرحمن خراز ہے۔'' (لسان المیزان: ٤/ ٥٣)
یعنی یہ راوی اسی طبقے کا ہے مگر عبدالرحمن کا بیٹا ہے ابن یعفور نہیں۔ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے سنن میں اس سے روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال: ١٢/ ٧)
حافظ ابن حبانؒ نے اسے ''مستقیم الحدیث'' کہا ہے۔
(الثقات: ٧/ ٤٢٣، اس میں عبدالکریم بن عبدالکریم بجلی ہے جو خطا ہے، درست وہی ہے جو ہم ذکر کر آئے ہیں)
حافظ ذہبیؒ نے ''وثق'' کہا ہے۔ (الکاشف: ٢/ ٢٠٥، رقم: ٣٤٧٣)
حافظ ذہبیؒ اس اصطلاح کا اطلاق عام طور پر ان راویوں پر کرتے ہیں جن کو صرف حافظ ابن حبانؒ نے ثقہ کہا ہوتا ہے، مگر خود حافظ ذہبیؒ میزان الاعتدال میں عام طور پر ان راویوں کو مجہول کہتے ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایسے راویوں کو مقبول کہتے ہیں جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔
شائقین ملاحظہ فرمائیں: (الصحیحۃ للألباني: ٥/ ١٧٩)
اب اس حدیث کے شواہد ملاحظہ فرمائیں:
پہلا شاہد: حضرت عائشہؓ:
امام بزار اور امام ابن عبدالبرؒ نے ''ابن لھیعۃ عن جعفر بن ربیعۃ، عن عبد اﷲ بن عبد اﷲ بن الأسود، عن عروۃ، عن عائشۃ'' کی سند سے مرفوعاً یہ الفاظ بیان کیے ہیں:
''ما بعث النبي إلا کان لہ من العمر نصف عمر الذي قبلہ وقد بلغت نصف عمر الذي قبلي، فبکیت.''
(کشف الأستار للہیثمی: ١/ ٣٩٨، ح: ٨٤٦، التمھید: ١٤/ ١٩٩، ٢٠٠، موسوعۃ شروح الموطأ: ٢٢/ ٢٦١، الذریۃ الطاہرۃ للدولابي، رقم: ١٧٨)
مذکورہ سند کا آخری راوی ابن لہیعہ متکلم فیہ ہے، بعض محدثین نے انھیں مختلطین میں بھی شمار کیا ہے اور ان کے اختلاط کے پیشِ نظر ان کے شاگردوں کی تقسیم بندی کی ہے، یعنی جنھوں نے اختلاط سے پہلے سنا ہے ان کی روایت صحیح تسلیم کی جائے گی اور بعد از اختلاط روایت کرنے والوں کی روایت ضعیف ہوگی۔
مگر معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اختلاف سے قبل ہی سیء الحفظ تھے اور اختلاط کی وجہ سے ان کے ضعف میں مزید اضافہ ہوگیا، دوسرا یہ کہ ابن لہیعہ روایت اور سماعِ حدیث کے معاملے میں بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے تھے، جس کی تفصیل ہمارے مضمون ''احادیثِ فضیلت شب براء ت اور امام البانیؒ'' میں ملاحظہ فرمائیں۔
عروہؒ کے شاگرد عبداﷲ بن عبداﷲ بن الاسود کا ترجمہ نہیں مل سکا۔ التمہید میں عبداﷲ بن عبیداﷲ (تصغیر) اور الذریۃ الطاہرۃ میں عبدالملک بن عبیداﷲ ہے۔
اگر یہ راوی مختلف نہیں اور ناسخ یا طابع کی غلطی بھی نہیں تو ممکن ہے کہ یہ بھی ابن لہیعہ کا وہم ہو۔ واﷲ أعلم بالصواب.
حافظ بزارؒ نے اس کے تفرد اور نکارت کی جانب یوں اشارہ کیا ہے:
''لا نعلم روي عبد اﷲ عن عروۃ إلا ھذا.'' (کشف الأستار: ١/ ٣٩٨)
حافظ ہیثمیؒ فرماتے ہیں:
''وروی البزار بعضہ أیضاً وفي رجالہ ضعف.'' (مجمع الزوائد: ٩/ ٢٣)
حاصل یہ کہ یہ شاہد بھی ضعیف ہے۔
دوسرا شاہد: حدیث حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ :
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں:
((ما بعث اﷲ عز و جل نبیاً إلا عاش نصف ما عاش الذي کان قبلہ))
اس روایت کو امام طحاویؒ نے شرح مشکل الآثار (٥/ ٢٠٠، ح: ١٩٣٨) دوسرا نسخہ (٢/ ٣٨٤۔ ٣٨٥)،
امام بخاری نے التاریخ الکبیر (٧/ ٢٤٤۔ ٢٤٥، رقم ١٠٤٢)،
امام یعقوب الفارسی نے المشیخۃ میں (بحوالہ المقاصد الحسنۃ، ص: ٣٦٣ و الشذرۃ لابن طولون: ٢/ ١٠٢)،
امام ابن عدیؒ نے الکامل (٦/ ٢١٠٢)،
حافظ دیلمیؒ نے مسند الفردوس (٤/ ٣٧٣، ح: ٦٢١٥)
امام ابو نعیمؒ نے معرفۃ الصحابۃ (٣/ ١١٧٥، ح: ٢٩٨١) و حلیۃ الاولیاء (٥/ ٦٨)
اور حافظ سخاویؒ نے المقاصد الحسنۃ (٩٤٤) میں
''عبید بن إسحاق العطار عن کامل بن العلاء أبي العلاء التمیمي عن حبیب ابن أبي ثابت عن یحیی بن جعدۃ عن زید بن أرقم'' کی سند سے بیان کیا ہے۔
عبید العطار سخت ضعیف ہے:
اس کی سند میں عبید العطار سخت ضعیف راوی ہے۔ جس کے بارے میں محدثین کی بعض گواہیاں درج ذیل ہیں:
١۔ امام بخاریؒ۔ ''عندہ مناکیر.''
(التاریخ الکبیر: ٥/ ٤٤١، الضعفاء الصغیر، رقم: ٢٢٣)
٢۔ امام مسلمؒ۔ ''متروک الحدیث'' (الکنی: ١/ ٥٢٨، رقم: ٢١٠٧)
٤۔ امام ابن حبانؒ۔ ''ممن یروي عن الأثبات ما لا یشبہ حدیث الثقات، لا یعجبنی الاحتجاج بما انفرد من الأخبار''
(المجروحین: ٢/ ١٧٦)
٥۔ امام ابن عدیؒ: ''وعامۃ ما یرویہ إما أن یکون منکر الإسناد أو منکر المتن'' (الکامل: ٥/ ١٩٨٧)
دیکھیے: (میزان الاعتدال: ٣/ ١٨ و لسان المیزان: ٢/ ٣٤٩۔ ٣٥٠)
دوسری علت:
حبیب ابن ابی ثابت کثیر التدلیس مدلس راوی ہیں۔ معجم المدلسین لمحمد بن طلعت (ص: ١٢٨۔ ١٢٩)، طبقات المدلسین لابن حجر (٦٩/٣)، التدلیس في الحدیث/ د۔ مسفر دمینی (ص: ٢٨٩۔ ٢٩٠) اور روایت معنعن ہے۔
محدث البانیؒ نے اس حدیث کو سخت ضعیف قرار دیا ہے۔
(الضعیفۃ: ٩/ ٤٢٤، ح: ٤٤٣٤، ضعیف الجامع الصغیر: ٥/ ٨٩، ح: ٥٠٤٠)
علامہ مناوی (صوفی) نے بھی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(فیض القدیر: ٥/ ٤٣٢، ح: ٧٨٥٥)
تیسرا شاہد: حدیث یزید بن زیاد:
امام ابن سعدؒ نے الطبقات الکبریٰ (٢/ ١٩٥) اور انھی کی سند سے امام ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق (٤٧/ ٤٨٢) میں ''ھاشم بن القاسم عن أبي معشر نجیح بن عبد الرحمن عن یزید بن زیاد'' کی سند سے مرفوعاً یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
''إنہ لم یکن نبي إلا عاش نصف عمر أخیہ الذي کان قبلہ، عاش عیسی بن مریم مائۃ وخمساً وعشرین سنۃ وھذہ اثنتان وستون سنۃ ومات في نصف السنۃ''
یہ سند بھی بایں وجہ معلول ہے:
١۔ ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن السندی ضعیف اور مختلط ہے۔
(تقریب التہذیب: ٧٩٩٤، تہذیب الکمال: ١٩/ ٤٧۔ ٥٢)
٢۔ انقطاع: اس کی سند میں مذکور یزید مدنی ہیں یا دمشقی، ان کی نبی اکرمﷺ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ مدنی ثقہ ہیں جبکہ دمشقی متروک ہے اور اگر مذکورہ شخص صحابی ہیں تو ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن السندی کی ان سے ملاقات نہیں، کیونکہ حافظ ابن حجرؒ کے ہاں ابو معشر چھٹے طبقے کا راوی ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ اس طبقے کے راویوں کی ملاقات کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔ (مقدمۃ التقریب، ص: ٢٨)
اور اگر وہ صحابی نہیں تو یہ روایت منقطع ہے، جو ناقابلِ احتجاج ہے۔
چوتھا شاہد: حدیث حضرت ابن مسعودؓ:
امام سخاویؒ نے المقاصد الحسنۃ (ص: ٣٦٣)،
حافظ ابن طولون رحمہ اللہ نے الشذرۃ (٢/ ١٠٣)
اور علامہ ابن الدیبعؒ نے تمییز الطیب (ص: ١٤٣) میں امام ابو نعیمؒ کے حوالے سے سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ان الفاظ سے ذکر کی ہے:
((یا فاطمۃ! إنہ لم یعمر نبي إلا نصف عمر الذي قبلہ))
اس کے بارے میں حافظ عجلونیؒ رقمطراز ہیں:
''اس حدیث کے بارے میں ''حواشي المواھب للشبراملسي'' میں کلام (تنقید) موجود ہے۔'' (کشف الخفائ: ٢/ ٢٣٨)
اس روایت کی سند نا معلوم ہے، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
پانچواں شاہد: حدیث حضرت ام حبیبہؓ:
امام ابن ابی حاتمؒ نے کسی سند کے بغیر سیدہ ام حبیبہؓ کی روایت کو ان الفاظ سے بیان کیا ہے:
(( إن اﷲ لم یبعث نبیاً إلا عمر في أمتہ شطر ما عمر النبي الماضي قبلہ وأن عیسی بن مریم کان أربعین سنۃ في بنی إسرائیل، وھذہ لي عشرون سنۃ وأنا میت في السنۃ))
(تفسیر ابن أبي حاتم: ١٠/ ٣٤٧٢، ح: ١٩٥٢١)
امام ابن مرودیہ نے بھی سیدہ ام حبیبہ سے روایت نقل کی ہے۔
(الدر المنثور للسیوطي: ٦/ ٤٠٦، ٤٠٧)
اس روایت اور اس کے ما بعد آثار وغیرہ میں سیدنا عیسیٰؑ کی بنی اسرائیل میں مدتِ اقامت پچھلی روایات کے برعکس چالیس برس بیان کی گئی ہے۔
یہ روایت بھی بے سند ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
چھٹا شاہد: مرسل یحییٰ بن جعدۃؒ:
امام ابن شاہینؒ نے فضائل فاطمہ (ح: ٧، ص: ٢١) اور انھی کی سند سے امام ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق (٤٧/ ٤٨٣) میں یحییٰ بن جعدہ تابعی سے ایک مرفوع روایت ان الفاظ سے بیان کی ہے:
((إن اﷲ لم یبعث نبیاً إلا وقد عمر الذي بعدہ نصف عمرہ وأن عیسی لبث في بني إسرائیل أربعین سنۃ وھذہ توفي لي عشرین. ولا أراني إلا میت في مرضي ھذا...))
دیکھیے: مسند إسحاق بن راہویہ، مخطوطہ: ٢٤٦/ ب، طبقات ابن سعد ٢/ ٣٠٨، والمطالب العالیۃ لابن حجر، ح: ٣٤٦١، دوسرا نسخہ، ح: ٣٤٧٢)
یہ روایت المطالب، دار الوطن، الریاض کے مطبوعہ نسخے میں نہیں ہے۔
یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ساتواں شاہد: مرسل ابراہیم النخعیؒ:
طبقات ابن سعد میں مروی ہے کہ:
''سفیان الثوري عن الأعمش عن إبراھیم قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: یعیش کل نبي نصف عمر الذي قبلہ وإن عیسیٰ بن مریم مکث في قومہ أربعین عاماً.''
(٢/ ٣٠٨۔ ٣٠٩)
یہ روایت سفیان ثوری اور اعمش دونوں کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ یاد رہے کہ مرسل روایت بذات خود ضعیف ہوتی ہے۔
آٹھواں شاہد: اثر ابراہیم النخعیؒ:
امام ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق میں جناب ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے ان کا قول یوں بیان کیا ہے:
''لم یکن نبي إلا عاش مثل نصف عمر صاحبہ الذي کان قبلہ وعاش عیسیٰ في قومہ أربعین سنۃ.'' (٤٧/ ٤٨٣)
اس اثر میں سلیمان بن مہران الاعمش کثیر التدلیس راوی ہے۔
(معجم المدلسین، ص: ٢٣٣، ٢٤٢، و التدلیس في الحدیث، ص: ٣٠١۔ ٣٠٥)
اور اثر معنعن ہے، لہٰذا ضعیف ہے۔
طبقات ابن سعد میں ہے کہ (سیدنا) حسن بن علیؓ نے (سیدنا) علیؓ کی شہادت کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
''آپ اس رات ستائیس رمضان کو فوت ہوئے ہیں، جس رات عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی روح بلند کی گئی تھی۔'' (٣/ ٣٨، ٣٩)
اس اثر کی سند میں عمرو بن عبداﷲ ابو اسحاق السبیعی مشہور بالتدلیس ہے۔ (طبقات المدلسین لابن حجر، ص: ٥٨) اور اثر معنعن ہے