• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عیسائی مناظر عبداللہ آتھم کی موت کی پیشگوئی

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
عیسائی مناظر عبد اللّہ آتھم کی موت کی پیشگوئی

جس سے مرزا غلام احمد کی ناک کٹ گئی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
انگریزوں نے جب ہندوستان پر سیاسی اقتدار حاصل کر لیا اور ہندوستان میں اپنے اقتدار کو استحکام دینے کیلئے جہاں متعدد منصوبے بنائے تو ساتھ ہی انہوں نے برطانیہ سے کئی عیسائی مناظر اور مبلغین بھی بلائے جو ہندوستان کے ہندو بالخصوص مسلمانوں کو انکے مذہب کے بارے میں شک ڈال دیں اور انہیں اسلامی عقائد سے بغاوت پر آمادہ کریں تا کہ پورا ہندوستان نہ صرف معاشی طور پر انگریزوں کے قابو میں رہے بلکہ مذہبی سطح پر بھی یہاں عیسائیت کا جھنڈا لہراتا رہے. اس منصوبے کے تحت عیسائی مبلغین کی ایک بڑی تعداد ہندوستان میں پھیل پڑی اور جگہ جگہ ہندوؤں کو اپنے مذہب سے اور مسلمانوں کو اپنے دین سے نکال کر عیسائیت میں لایا جانے لگا. برطانیہ میں جب یہ خبر آئی کہ عیسائی مبلغین اپنے منصوبے میں کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں تو ممبر پارلیمنٹ مسٹر مینگلس نے 1857ء کے شروع میں پارلیمنٹ میں ایک تقریر کی جس میں اس نے کہا کہ
خدا نے آج ہمیں یہ دن دکھایا کہ ہندوستان کی سلطنت انگلستان کے زیر نگیں ہے تاکہ عیسیٰ مسیح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لہرائے. اس نے کہا اب ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیئے کہ تمام ہندوستان کے لوگوں کو عیسائی بنایا جائے اور اس میں کوئی سُستی نہ ہونی چاہیے. (حکومت خود اختیاری صفحہ 136)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ سے بھیجے ہوئے عیسائی مبلغین کس قوت سے اسلام پر حملہ آور تھے اور کس تیزی اور سرگرمی سے ہندوستان کے مسلمانوں کو مرتد بنانے میں لگے ہوئے تھے. ہندوستان کا شاید ہی کوئی شہر قصبہ بچا ہو گا جو پادریوں کی اس شرارت کی زد میں نہ آیا ہو اور شاید ہی انکی کوئی ایسی تقریر ہو گی جس میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو نشانہ نہ بنایا گیا ہو اور اسکے ساتھ استہزاء نہ کیا ہو.
اللہ تعالی نے دین حنیف کی حفاظت کیلئے ہندوستان ہی سے کچھ اپنے مقبولین پیدا کئے جنہوں نے عیسائی مناظرین اور مبلغین کی ہر جگہ ناکہ بندی کی اور انکے ایک ایک اعتراضات کا نہ صرف مدلل اور شافی جواب دیا بلکہ خود عیسائی مذہب پر ایسے اعتراضات کئے جس کا جواب عیسائی پادریوں کے پاس نہ تھا. مناظر اسلام حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی، حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی اور انکے دیگر رفقاء نے عیسائیوں کے ایک ایک سوال کا جواب دیا اور انہیں مناظرہ اور مباحثہ میں شکست فاش دی. عیسائی مناظر جہاں جاتے مسلمان علماء بھی وہیں پہنچ جاتے اور انہیں سوائے فرار کے اور کوئی چارہ نہ رہتا.
انہی دنوں قادیان کے مرزا غلام احمد کے بارے میں یہ مشہور کر دیا گیا کہ وہ اسلام کی حمایت میں پچاس کتابیں لکھ رہا ہے. جس میں تین سو سے زیادہ دلائل ہونگے اور کسی عیسائی کو اسکا جواب دینے کی جرأت نہ ہو گی. اس نے اسلام کی حمایت کے نام پر لوگوں سے چندہ اکٹھا کیا اور ساری رقم ہضم کر گیا. پھر اس نے عیسائی علماء سے چھیڑ چھاڑ بھی شروع کر دی تاکہ لوگ اسے بھی مسلمانوں کا نمائندہ جانیں. اہل حق علماء کرام اور قادیانی کے اس دہقان کے درمیان فرق یہ تھا کہ علماء کرام عیسائی مبلغین کا جواب دلائل سے دیتے تھے جس سے عیسائی مناظرین کو بھی مجال انکار نہ ہوتا تھا. جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی مناظرہ کو نتیجہ خیز بنانے کے بجائے پیشگوئیوں، موت کی دھمکیوں اور فریق ثانی کو جہنم میں بھیجنے کی وعیدوں کا اعلان کرتا تھا. اسی طرح کا ایک قصہ عیسائیوں کے معروف عالم مسٹر عبد اللہ آتھم کے ساتھ پیش آیا تھا.
مرزا غلام احمد اور عیسائی مناظر آتھم کے درمیان ایک مناظرہ طے پایا. مناظرہ کا موضوع تثلیث تھا. پندرہ دن تک دونوں اپنے موضوع پر (تحریری-ناقل) بحث کرتے رہے. اس مباحثہ میں مرزا غلام احمد قادیانی پر یہ بات کھل گئی تھی کہ وہ کامیاب نہیں ہوا. مناظرہ کے آخری روز اس نے اپنی خفت مٹانے کیلئے سب لوگوں کے سامنے ایک پیشگوئی کی اور اسے اللہ کی طرف منصوب کر دیا. مرزا غلام احمد نے کہا
’’آج رات جو مجھ پر کھُلا وہ یہ ہے کہ جبکہ مَیں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جنابِ الٰہی میں دُعا کی کہ تُو اِس امر میں فیصلہ کر. اور ہم عاجز بندے ہیں. تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث1میں دونوں فریقوں میں جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچّے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے. وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دِن ایک مہینہ لے کر یعنی 15 ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاویگا. اور اُس کو سخت ذلّت پہنچے گی. بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچّے خدا کو مانتا ہے اُس کی اِس سے عزت ظاہر ہوگی. اور اس وقت جب پیشگوئی ظہور میں آوے گی. بعض اندھے سوُجاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سُننے لگیں گے ‘‘ (روحانی خزائن جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 291-292 ، تذکرہ صفحہ 192)
مرزا غلام احمد کی یہ تحریر 5جون 1893ء کی ہے جس میں مرزا غلام احمد نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر جھوٹ اختیار کر رہا ہے یعنی ایک انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ پندرہ مہینے تک ہاویہ میں گرا دیا جائے گا. گویا 5 ستمبر 1894ء کو مسٹر آتھم نے ہاویہ میں گرنا تھا.
مرزا غلام احمد کے نزدیک ہاویہ میں گرنے سے کیا مراد ہے اسے مرزا غلام احمد کی تحریر میں دیکھیں
بشّرنی ربی بعد دعوتی بموتہ إلی خمسۃ عشر أشہر من یوم خاتمۃ البحث (روحانی خزائن جلد ۷- کَرامَات الصَّادقین: صفحہ 163)
ترجمہ : میری دعا کے بعد مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ آتھم خاتمہ بحث کے پندرہ ماہ بعد مر جائے گا.

مرزا غلام احمد اور مسٹر آتھم کے درمیان تثلیث کے موضوع پر ہونے والی بحث اس تحریر کے بعد ختم ہو گئی اور ہر دو فریق اپنے اپنے گھر روانہ ہو گئے. مرزا غلام احمد سے کسی نے اس پیشگوئی کے بارے میں پوچھا کہ کیا واقعی اسے خدا نے یہ بات بتائی ہے کہ آتھم پندرہ مہینہ میں مر جائے گا؟ کہیں اس نے یہ بات اپنی طرف سے تو نہیں کہہ دی. مرزا غلام احمد نے اسکا جواب دیا کہ
” اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی...... تو مَیں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیا جاوے. رُوسیاہ کیا جاوے. میرے گلے میں رسّہ ڈال دیا جاوے مجھ کو پھانسی دیا جاوے. ہر ایک بات کیلئے تیار ہوں اور مَیں اللہ جلّ شانہ‘ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کریگا. ضرور کریگا. ضرور کریگا. زمین آسمان ٹل جائیں پر اسکی باتیں نہ ٹلیں گی“ (روحانی خزائن جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 293)
مرزا غلام احمد نے آتھم کے 5 ستمبر 1894ء تک مرنے کی جو پیشگوئی کی تھی اس پر اس نے خدا کی قسم بھی اٹھائی تھی اور اس نے یہ بات پوری تاکید سے کہی تھی کہ ایسا ہو کر رہے گا، خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں. جب اللہ تعالی نے اسے یہ خبر دے دی کہ ایسا ہو کر رہے گا تو اب مرزا غلام احمد اسکے لیے دعا ہدایت تو کر سکتا تھا لیکن خود اسے ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہ تھی. مگر قادیانی کے لوگ مرزا غلام احمد کی بدحواسی اور اسکا اضطراب دیکھ کر حیران ہو رہے تھے اور جوں جوں دن بڑھ رہے تھے مرزا غلام احمد کی پریشانی میں اور اضافہ ہو رہا تھا حتی کہ میعاد کے دن پورا ہونے میں صرف چودہ دن رہ گئے اور مرزا صاحب کے جاسوس انہیں بتا رہے تھے کہ آتھم پوری طرح خیریت سے ہے. یہ خبر سن کر مرزا غلام احمد کے پاؤں تلے زمین نکل چکی تھی. اس نے اپنی اس پریشانی کا ذکر اپنے خط میں کیا جو اس نے 22 اگست 1894ء کو مرزا رستم کو لکھا کہ
”اب تو صرف چند دن پیشگوئی میں رہ گئے ہیں دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو امتحان سے بچاوے. شخص معلوم (آتھم) فیروز پور میں ہے اور تندرست اور فربہ ہے. خدا تعالی اپنے ضعیف بندوں کو ابتلا سے بچاوے. آمین ثم آمین. باقی خیریت ہے. مولوی صاحب کو بھی لکھیں کہ اس دعا میں شریک رہیں. خاکسار غلام احمد از قادیان“ (مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 601 مکتوب نمبر 221 ملفوف سابقہ جلد 5 حصہ سوم صفحہ 128 ملفوف 217)
جب پیشگوئی کا آخری دن آ گیا اور مرزا صاحب کو پتہ چلا کہ آتھم ابھی تک مرا نہیں ہے تو اب اس نے سفلی عملیات کا سہارا لیا کہ کسی طرح بھی آتھم مر جائے اور اس کی پیشگوئی پوری ہو جائے اس نے عبد اللہ سنوری اور میاں حامد علی کے ذریعہ راتوں رات چنے منگوائے اور اس کے گرد بیٹھ کر عمل شروع کیا. جب عمل ختم ہو گیا پھر کیا ہو؟ اسے مرزا بشیر احمد، عبد اللہ سنوری سے نقل کرتا ہے
” وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب (مرزا غلام احمد-ناقل) کے پاس لے گئے. کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا. اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا یہ دانے کسی غیرآباد کنویں میں ڈالے جائیں گے اور فرمایا کہ جب میں دانے کنویں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئیے. چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیرآباد کنویں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر سرعت کے ساتھ واپس لوٹ آئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی واپس چلے آئے اور کسی نے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا “ (سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد اول روایت نمبر 160 صفحہ 162-163)
مرزا غلام احمد کے دوسرے لڑکے مرزا محمود کا کہنا ہے اس دن انکے گھر ماتم برپا تھا اور عورتیں چیخ چیخ کر واویلا کر رہی تھیں. اسکا کہنا ہے
”جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب و اضطراب سے دعائیں کی گئیں. میں نے تو محرم کا ماتم بھی اتنا سخت کبھی نہیں دیکھا. حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد-ناقل) ایک طرف دعا میں مشغول تھے اور دوسری طرف بعض نوجوان...اکٹھے ہوگئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں اس طرح انہوں نے بین ڈالنے شروع کر دئیے. ان کی چیخیں سوسوگز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اﷲ آتھم مر جائے. یا اﷲ آتھم مر جائے. یا اﷲ آتھم مر جائے. مگر اس کہرام اور آہ و زاری کے نتیجہ میں آتھم تو نہ مرا.‘‘ (الفضل قادیان 29 جولائی 1940ء صفحہ 4)
آپ ہی بتائیں اس دن کس کے گھر ماتم برپا ہونا چاہیے تھا؟ مرزا غلام احمد کے گھر یا آتھم کے ہاں؟ مرزا غلام احمد کو پورے اطمینان سے آتھم کے مرنے کی خبر کا انتظار کر نا چاہیے تھا مگر یہاں معاملہ برعکس ہے. مرزا غلام احمد کے گھر ماتم برپا تھا سب چیخ چیخ کر بین ڈال رہے تھے اور خدا کی بشارتوں کے ملنے کے باوجود اور قسم کھا کھا کر اعلان کرنے باوجود مرزا غلام احمد کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی. یعقوب علی عرفان قادیانی نے اس دن کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے آپ بھی دیکھئے
” آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پثرمردہ ہیں اور دل سخت منقبض ہیں بعض لوگ مخالفین سے(آتھم کی) موت کی شرطیں لگا چکے ہیں ہر طرف سے اداسی اور مایوسی کے آثار ظاہر ہیں لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رو رہے ہیں کہ اے خدا ہمیں رسوا مت کریو غرض ایسا کہرام مچا ہے کہ غیروں کے رنگ بھی فق ہو رہے ہیں “ (سیرت مسیح موعود صفحہ7)
مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کی چیخ و پکار، ماتم شدید اور کہرام و زاری آخرت میں تو کام آنے والا نہیں. اس دنیا میں بھی وہ سب بے اثر ہو گئیں. اللہ تعالی نے سچ کہا ہے
وما دعاء الكافرين إلا في ضلال (سورۃ الغافر 40:50)
ترجمہ: کافروں کی دعائیں مخص بے اثر ہیں

5 ستمبر کا دن گزر گیا. مرزا غلام احمد اور قادیانی جماعت کو سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی. ہر طرف ذلت اور رسوائی کے سپاہ بادل ان پر چھائے ہوئے تھے اور ندامت اور خفت ایک ایک قادیانی کے چہرے پر نمایاں تھی. ہر قادیانی منہ پھیر رہا تھا. جو مرزا غلام احمد کے جتنا قریب تھا اتنا ہی وہ ذلیل و خوار ہو رہا تھا. 6 ستمبر کی صبح ہوتے ہی عیسائیوں اور دیگر غیر مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے مرزا غلام احمد کی اس پیشگوئی کے غلط اور جھوٹا ہونے پر جلوس نکالا اور بڑے بڑے پوسٹر شائع کئے. منظوم اشعار لکھے. مرزا غلام احمد کی اس حرکت کی وجہ سے اسلام دشمنوں کو خوب موقعہ ملا اور انہوں نے خدا تعالی، حضرت جبرئیل علیہ السلام اور اسلام کے بارے میں بڑے دل آزار پوسٹر تقسیم کیے. (معاذ اللہ!)
مسٹر آتھم نے 6 ستمبر کے دن مرزا غلام احمد کو لکھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور مرزا غلام احمد کی اسکے بارے میں جو پیشگوئی تھی وہ غلط ثابت ہوئی ہے. پھر مسٹر آتھم کا درج ذیل خط لاہور کی معروف اخبار وفادار کے ستمبر 1894 کے شمارے میں شائع ہوا کہ
”میں خدا کے فضل سے تندرست ہوں اور آپ کی توجہ مرزا صاحب کی بنائی ہوئی کتاب نزول مسیح کی طرف دلاتا ہوں جو میری نسبت اور دیگر صاحبان کی موت کی پیشگوئی ہے ...... اب مرزا صاحب کہتے ہیں کہ آتھم نے اپنے دل میں چونکہ اسلام قبول کر لیا ہے اس لیے نہیں مرا . خیر ان کو اختیار ہے جو چاہیں سو تاویل کریں کون کسی کو روک سکتا ہے میں دل سے اور ظاہر ا پہلے بھی عیسائی تھا اور اب بھی عیسائی ہوں اور خدا کا شکر کرتا ہوں......میں راضی خوشی اور تندرست ہوں اور ویسے مرنا تو ایک دن ضرور ہے زندگی اور موت صرف رب العالمین کے ہاتھ میں ہے. اب میری عمر 68 سال سے زیادہ ہے اور جو کوئی بھی چاہے پیشگوئی کر سکتا ہے. کہ ایک سو سال کے اندر اندر جو باشندے اس دنیا میں موجود ہیں سب مر جائیں گے “ (راست بیانی بر شکست قادیانی صفحہ 56، ماخوذ از قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ صفحہ 396)
ہم یہاں پھر سے یہ سوال دھرانا چاہتے ہیں کہ جب خدا نے مرزا غلام احمد کو بشارت کے طور پر یہ خبر دے دی تھی کہ آتھم پندرہ ماہ کے اندر مر جائے گا تو مرزا صاحب آخر تک کیوں بے چین ہو جاتے تھے؟ ہر وقت کیوں اس خوف میں رہتے تھے کہ وہ ابھی تک کیوں نہیں مرا؟ انہیں آتھم کی موت کیلئے سفلی عمل کی کیا ضرورت تھی؟ اور قادیان کے اندھے کنویں میں چنے پھینکنے کی کیا انہیں کیا ضرورت لاحق تھی؟ مرزا غلام احمد کی یہ بے چینی اور طرح طرح کی کیفیتیں بتاتی ہیں کہ اس نے مخص رعب ڈالنے کیلئے یہ بات اپنی طرف سے بنائی تھی کہ آتھم پندرہ ماہ میں مر جائے گا، اس میں خدائی باتوں کا کوئی دخل نہ تھا. اسی لئے وہ اپنی اس کوشش میں بری طرح نا کام ہوا اور ہر دو فریق کے ہاں ذلیل و رسوا ہوا.
اب موجودہ قادیانی سربراہ مرزا طاہر ہمارے درج ذیل دو آسان اور تاریخی سوالات کا جواب دیکر قادیانیوں کا مطمئن کریں کہ
٭ مرزا غلام احمد نے خدا کے نام سے جو پیشگوئی قسم کھا کر کی تھی وہ پوری ہوئی تھی؟
٭ کیا مسٹر آتھم وقت میعاد کے اندر موت سے ہمکنار ہوا؟
مرزا غلام احمد کی یہ پیشگوئی جب غلط ثابت ہوئی تو بجائے اسکے کہ وہ اپنی کذب بیانی کا اعتراف کرتا اس نے اپنے اس جھوٹ کو سہارا دینے کے لیے کئی اور جھوٹ بنائے اور کھلے عام جھوٹ بولتا رہا. مگر افسوس کہ وہ اس میں بھی کامیاب نہ ہو سکا اور آتھم کی گرفت سے باہر نہ نکل سکا.
٭ مرزا غلام احمد نے کہا کہ خدا نے میرے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا کہ آتھم کو پندرہ ماہ کے اندر اندر مار دے گا مگر خدا اپنے وعدے کو توڑ سکتا ہے اور اس میں کوئی ہرج نہیں.
”کیونکہ دراصل اس نے انسان کے لئے نیکی کا ارادہ کیا ہے “ (روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 10)
مرزا غلام احمد کا یہ کہنا کہ خدا اپنے وعدے توڑ سکتا ہے قرآن کی نص کے خلاف ہے. ان اللہ لا یخلف المیعاد...انک لا تخلف المیعادo اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کرتا وہ اپنے وعدہ لو پورا کرتا ہے.
آپ ہی بتائیں کیا آپ اس خدا کو مانیں گے جو وعدہ کر کے توڑ دیا کرے اور کسی دوسرے کو نہیں اپنے ہی مامور کو پندرہ ماہ تک پریشان کئے رکھے. مرزا غلام احمد نے اپنے اس جھوٹ کو بچانے کے لیے خدا کی توہین سے بھی گریز نہ کیا. پھر مرزا غلام احمد کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ خدا نے آتھم کیلئے نیکی کا ارادہ کیا تھا اسلئے اسے نہیں مارا گیا. سوال یہ ہے کہ کیا آتھم نے اسلام قبول کر لیا تھا؟ کیا وہ آئندہ اسلام کی مخالفت سے باز آگیا تھا؟ نہیں. آتھم نے اس مدت (پندرہ ماہ) میں تثلیث نامی کتاب لکھی جس میں خدا کی توحید کا مذاق اڑایا اور اسلام پر دل آزار حملے کئے. اگر اسی کا نام نیکی ہے تو معلوم نہیں پھر قادیانیوں کے ہاں بدی کا معیار کیا ہے؟ اور کفر کسے کہا جاتا ہے؟
٭ نے یہ بھی کہا کہ آتھم ظاہر میں زندہ نظر آ رہا تھا مگر حقیقت میں مر چکا تھا. اس نے لکھا کہ

”درحقیقت پیشگوئی کی عظمت نے اس کے دل پر اثر کیا اور درحقیقت وہ پیشگوئی کے زمانہ میں نہ معمولی طور پر بلکہ بہت ہی ڈرا اور وہ خوف کےؔ تمثلات اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار آئے “* (روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 7-8) ”اکثر وہ (آتھم) روتا تھا. اور اس کے ڈرنے والے دل کا نقشہ اس کے چہرہ پر نمودار تھا “(روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 10) ”آتھم صاحب موت سے پہلے ہی مر گئے “ (روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 11)
مگر آتھم اسکی کھلی تردید کرتا رہا اور مسلسل اسلام اور پیغمبر السلام کو طعن و تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا. اسکا مذکورہ خط پھر ایک مرتبہ پڑھئے اور بتائیے کہ مرزا غلام احمد کی اس بات میں کیا کوئی وزن رہ جاتا ہے؟ اسکے برعکس مرزا غلام احمد اپنی تحریر اور اسکے اپنے بیٹے کے اعتراف کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد ایک زندہ لاش بن گیا تھا اور قادیانی جماعت سخت خوف و ہراس میں مبتلا تھی اور حیرانی و پریشانی انکے ایک ایک قول عمل سے ظاہر ہو رہی تھی.
٭ مرزا غلام احمد کہتا ہے کہ خدا نے اسے بتایا کہ اس نے آتھم کو مزید کچھ عرصہ کیلئے مہلت دے دی تھی اس لیے وہ وقت میعاد میں نہیں مرا. اس نے لکھا
اطلع اللّٰہ علی ھمہ وغمہ (روحانی خزائن جلد ۹- اَنوارُلاسلاَم: صفحہ 2)
ترجمہ: ”خدا تعالی نے اس (آتھم-ناقل) کے ہم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی“
انوار الاسلام 27 اکتوبر کی تصنیف ہے. جبکہ پیشگوئی کی میعاد 5 ستمبر 1894ء تھی. جب یہ میعاد گذر گئی پھر خدا نے (ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گذر جانے کے بعد) مرزا صاحب کو بتایا کہ آپ اتنے کیوں پریشان ہیں اور قادیان میں غم کا ماتم کیوں برپا ہے. کیوں اندھے کیوں میں چنے پھینکے جا رہے ہیں. ہم نے تو اسے مہلت دے دی ہے اسلئے وہ اب نہیں مرے گا. کاش کہ مرزا صاحب کا خدا انہیں وقت سے پہلے بتا دیتا تو نہ قادیان میں بھنگڑا ڈالا جاتا نہ مفت کے چنے خراب ہوتے. اور نہ آتھم کو توہین اسلام کا موقع ملتا نہ مرزائیوں کے گھر ماتم برپا ہوتا. سو مرزا صاحب کی اس بات میں بھی کوئی وزن نہیں. یہ صرف اپنے آپ کو اور نادان قادیانیوں کو سہارا دینے کی ایک جھوٹی کوشش ہے.
٭ مرزا غلام احمد پھر آٹھ سال بعد 1902ء میں ایک اور نکتہ اٹھاتے ہیں کہ
آتھم نے مباحثہ کی مجلس میں ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کہا تھا سو (اسوقت میں نے کہا تھا-ناقل) تم اگر اس لفظ سے رجُوع نہیں کرو گے تو پندرہ مہینہ ؔ میں ہلاک کئے جاؤ گے. سو آتھم نے اسی مجلس میں رجوع کیا“ (روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 108-109)
مرزا غلام احمد نے مباحثہ کے آخری دن جو تحریر لکھی تھی وہ ہم ابتداء میں نقل کر آئے ہیں. آپ پھر سے ایک مرتبہ انہیں ملاحظہ کریں اور بتائیں کہ کیا اس میں مذکورہ بات یا اسکا اشارہ تک موجود ہے؟ اگر نہیں تو اب آٹھ سال بعد نئی بات بتانا صریح کذب بیانی نہیں تو اور کیا ہے؟
مرزا غلام احمد کی مذکورہ بات بفرض محال تسلیم کر لی جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تحریر لکھنے کی ضرورت تھی؟ اور مرزا غلام احمد اور اسکی ساری ذریت پندرہ ماہ تک کیوں مضطرب رہے؟ سفلی عمل کیوں اپنایا؟ اگر بات وہیں ختم ہو گئی تھی تو قادیان کی گلیوں میں یہ شور و غل کیوں تھا؟ اور قادیانی گھروں میں آہ و بکا کس لئے ہو رہا تھا؟ پھر مباحثہ کے صرف ساڑھے تین ماہ بعد یہ کیوں لکھا کہ
”ماسوا اِس کے بعض اور عظیم الشّان نشان اِس عاجز کی طرف سے معرض امتحان میں ہیں جیسا کہ منشی عبد اللہ آتھم صاحب امرتسری کی نسبت پیشگوئی جس کی میعاد 5جون 1893ء سے پندرہ مہینہ تک “ ہے (روحانی خزائن جلد ۶- شَھادَۃُ القرآن: صفحہ 375)
اگر 5 جون 1893ء کو ہی آتھم اپنی بات سے رجوع کر چکا تھا تو پھر 22 ستمبر کی تالیف میں مذکورہ بیان کس بات کی غمازی کر رہا ہے؟
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ مرزا غلام احمد نے عیسائی پادری مسٹر آتھم کے بارے میں موت کی جو پیشگوئی کی تھی کیا وہ پوری ہوئی تھی؟ مرزا غلام احمد کی تحریرات گواہ ہیں کہ اسکی یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی. بجائے اسکے کہ ہم کچھ کہیں مرزا غلام احمد کے جھوٹا ہونے کے لئے اسکا اپنا فیصلہ ملاحظہ کیجئے
” اگر ثابت ہو کہ میری سو۱۰۰ پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی ہو تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں “ (روحانی خزائن جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 461)
یہاں روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم کے متعلق مرزا غلام احمد کی پیشگوئی جھوٹی نکلی سو وہ بقلم خود جھوٹا نکلا. اب مرزا غلام احمد کو مسلمان پرلے درجے کا جھوٹا کہتے ہیں تو قادیانیوں کو برا نہیں منانا چاہیے کہ یہ فیصلہ خود اسکا اپنا کیا ہوا ہے.


فاعتبرو یا اولی الابصار


شکوہ کرنا ہو، تو اپنا کر، مقدر کا نہ کر

خود عمل تیرا ہے صورت گر تیری صورت کا


........................................................................................................................................................................
*مرزا قادیانی نے آتھم کو پھنسانے کا عجب کھیل کھیلا لکھتا ہے” اگر وہ خوف جس کا تمہیں خود اقرار ہے. اسلام کی عظمت سے نہیں تھا بلکہ کسی اور وجہ سے تھا تو تم قسم کھا جاؤ اور اس قسم پر تمہیں چار ہزار روپیہ نقد ملے گا ...لیکن اس نے ہرگز قسم نہ کھائی.“ (روحانی خزائن جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 315) دراصل عیسائیت میں قسم کھانا جائز نہیں ہے دیکھیں (انجیل متی باب ۵ص۸،آیت نمبر ۳۴،۳۵) مرزا قادیانی بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے. مسلمانو! ” قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہرگز قسم نہ کھاؤ“ (روحانی خزائن جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 29) اب اگر آتھم قسم کھا لیتا اور وہ بھی دو تین مرتبہ تو مرزا قادیانی مع ذریت شور ڈالتی کے آتھم نے عیسائیت سے توبہ کر لی تبھی تو اس نے انجیل کی تعلیم کے خلاف قسم کھائی. اور جب آتھم نے قسم نہ کھائی تو مرزا قادیانی نے اس کا مسئلہ بنا دیا. اس کا جواب آتھم نے یوں دیا تھا کہ ”مرزا صاحب آپ سور کھا کر ہمارے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں؟“ جیسے مرزا قادیانی یہ کام نہیں کر سکتا تھا ویسے آتھم نے یہ کام نہ کیا.
 
Top