• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

غازی عامر عبدالرحمٰن چیمہ شہید

ضیاء رسول امینی

منتظم اعلیٰ
رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
غازی عامر عبدالرحمٰن چیمہ شہید رحمتہ اللہ علیہ 4 دسمبر 1977 کو حافظ آباد میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام پروفیسر محمد نذیر چیمہ ہے جو کہ اس وقت حشمت علی اسلامیہ کالج راولپنڈی میں پروفیسر تھے۔ جو کے بعد میں 1981 کو راولپنڈی میں تعینات ہوگئے غازی عامر عبدالرحمٰن چیمہ نے اپنی ابتدائی تعلیم ڈھوک کشمیریاں میں گورنمنٹ پرائمری سکول سے حاصل کی۔ اور میٹرک 1993 میں گورنمنٹ جامع ہائی سکول ڈھوک کشمیریاں سے کیا۔ اور 95۔1994 میں سرسید کالج راولپنڈی سے ایف ایس سی کا امتحان 80 فیصد نمبروں سے پاس کیا اور بی ایس سی نیشنل کالج اینڈ ٹیکسٹائل انجینیرنگ فیصل آباد سے کی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مختلف جگہوں پہ ملازمت کی اور ساتھ ہی ٹیکسٹائل انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی کرنے کی غرض سے جرمنی کی پندرین یونیورسٹی آف اپلایڈ سائنسز میں داخلے کے لیے درخواست جمع کروا دی اور تقریبا 2 سال بعد درخواست منظور ہوئی اور اس طرح آپ 26 نومبر 2004 کو تعلیم کی غرض سے جرمنی چلے گئے۔ اور ماسٹر آف ٹیکسٹائل اینڈ کلوننگ مینجمنٹ کے کورس میں ڈاخلہ لیا یہ دو سالہ کورس 6،6 ماہ کے 4 مراحل پر مشتمل تھا جس کے پہلے 3 مراحل انہوں نے کامیابی سے طے کیے کہ ان کی شہادت اور عظیم کارنامہ سرانجام دینے کا وقت آن پہنچا۔ آپ نے آخری بار 8 مارچ 2006 کو بذریعہ ٹیلیفوں اپنے گھر والوں سے بات کی۔
غازی عامر عبالرحمٰن چیمہ کی ایک یادگار تصویر
w18jtd.jpg

2005 میں جب کہ ان کے کورس کا وسطی دور تھا کہ اسلام دشمن عناصر نے ایک نہایت ناپاک جسارت کرتے ہوئے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے شروع کردیے سب سے پہلے ڈنمارک کے ایک اخبار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی ناپاک جسارت کی اور پھر جرمنی کے ایک اخبار ڈائی ویلٹ نے اس حرکت کو دوہرایا جس سے پوری امت مسلمہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور تمام عالم اسلام کے جذبات مجروح ہوئے یہ سانحہ یقینا غازی عبدالرحمٰن چیمہ کے لیئے بھی انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوا اور انہوں سے اس کے ذمہ دار گستاخون کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ٹھان لی اس غرض سے وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس جرمنی کے اخبار میں خاکے شائع کرنے کے ذمے داران کے بارے تفصیلات جمع کرنے میں لگ گئے۔
20 مارچ 2006 کو تمام معلومات جمع کرنے اور گستاخ کی نشاندہی کا یقین ہوجانے کے بعد غازی عامر چیمہ شہید نے نے مارکیٹ سے ایک تیز دھار خنجر خریدا اور اور مطلوبہ بلڈنگ کے ساتویں فلور پر اخبار ڈائی ویلٹ کے دفتر پہنچ گئے اور اخبار کے ایڈیٹر ہینرک براڈر کی نشاندہی کرکے اس کے کمرے کی طرف تیز قدموں سے بڑھے اور جاتے ہی اس پہ ٹوٹ پڑے اور خنجر کے پے درپے وار کرکے اس ملعون کو جہنم کی راہ دکھائی۔ وہاں موجود لوگوں نے موقع پر ہی آپ کو پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کردیا۔ آپ نے عدالت کے سامنے بلا خوف و خطر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتب ہوا اسی لیے اس کو قتل کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ آیندہ بھی اگر کوئی گستاخ میرے سامنے آیا تو اس کا بھی یہی حشر کروں گا۔ آپ کے اقبالی بیان کے بعد کسی قسم کی تفتیش کی ضرورت نہ تھی مگر کفار نے اس سانحے کو کسی دہشتگرد تنظیم سے جوڑنے کی غرض سے آپ پے بے پناہ تشدد کیے کہ کسی طرح اس کو قائل کیا جا سکے اور یہ بیان دلایا جاسکے کہ اس نے یہ کام کسی دہشتگرد یا کسی اسلامی تنظیم کے کہنے پہ کیا مگر غازی اپنے بیان پہ ڈٹا رہا دوران تفتیش ایک ملعون نے پھر کچھ گستاخانہ کلمات بولے تو آپ نے وہیں اس کے منہ پر تھوک دیا جس کے بعد آپ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کا اظہار انہوں نے جیل میں لکھے گئے ایک خط میں بھی کیا جس مین کہا کہ میری موت خودکشی پہ ہرگز نہ ہوگی جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پہ تشدد کیا جاتا تھا اور شاید اسے دھمکی دی جاتی ہو کہ تمہیں مار کہ خودکشی کا ڈرامہ رچائیں گے تاکہ تمہیں مسلمانوں میں شہید کے طور پہ نہ یاد کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ اور آخر کار 40 دن کے بد ترین تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے 3 مئی 2006 کو جام شہادت نوش کرگئے اس وقت آپ کی عمر لگ بھگ 28 سال اور 7 ماہ تھی۔13 مئی 2006 کو آپ کا جسد خاکی پاکستان میں آپ کے آبائی گاوں ساروکی چیمہ( گوجرانوالہ) پہنچا تو آپ کے استقبال کے لیے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹھاٹھین مارتا ہوا سمندر موجود تھا جہاں آپکی نماز جنازہ پڑھی گئی مگر کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر جنت البقیع میں دفن ہونے کی آپ کی خواہش کو عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جیل سے لکھے گئے خط کا عکس
25s0hg1.jpg

اخبار میں شائع ہونے والی خبر کا عکس

2vjdfs0.jpg
 
Top