﷽
غازی علم الدین کے ہاتھوں راج پال ملعون کا عبرتناک انجام
غازی علم الدین کے ہاتھوں راج پال ملعون کا عبرتناک انجام
مکمل واقعہ
گھر والوں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ علم الدین نےکیا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے اندر کب سے طوفان انہیں بے چین کر رہا ہے اور اس کا منقطی انجام کیا ہو گا ۔ ان کی زندگی میں جو بے ترتیبی آئی ہے اس کا سبب کیا ہے؟؟؟
ارادہ تو کر ہی چکے تھے ۔ دوسری بار خواب میں بزرگ کو دیکھا تو ارادہ اور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا۔
آخری بار اپنے دوست شیدے سے ملنے گئے۔ اسے اپنے چھتری اور گھڑی یاد گار کے طور پر دی گھر آئے رات گئے تک جاگتے رہے۔ نیند کیسے آتی؟؟؟؟ وہ تو زندگی کے سب سے بڑے مشن کی تکمیل کی بات سوچ رہے تھے۔اس کے علاوہ اب کوئی دوسرا خیال پاس بھی پھٹک نہ سکتا تھا۔
اگلی صبح گھر سے نکلے ۔ گمٹی بازار کی طرف گئے اور آٹمارام نامی کباڑئیے کی دکان پر پہنچے جہاں چھریوں اور چاقوؤں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ وہاں سے انہوں نے اپنے مطلب کی چھری لے لی۔ اور چل دیئے، اب "نغمہ بیش ازتار ہو گیا، روح بے قابو ہو گئی"۔
انار گلی میں اسپتال روذ پر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے ہی راجپال کا دفتر تھا۔
معلوم ہو کہ راجپال ابھی نہیں آیا۔ آتا ہے تو پولیس اس کی حفاظت کے لیے آجاتی ہے۔اتنے میں راجپال کار پر آیا کھوکھے والے نے بتایا کہ اس کار میں سے نکلنے والا شخص راجپال ہے۔ اسی نے حضرت محمد ﷺ کے خلاف کتاب چھاپی ہے۔
راجپال ہردوار سے واپس آیا تھا۔ دفتر میں جا کر اپنی کرسی پر بیٹھا اور پولیس کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لئے ٹیلیفون کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ علم الدین دفتر کے اندر داخل ہو گئے، اس وقت راجپال کے دو ملازم وہاں پر موجود تھے ،کدار ناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہا تھا۔ جبکہ بھگت رام راجپال کے پاس ہی کھڑا تھا۔ راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ کے نوجوان کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا، لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔ پلک چپکتے ہی اس نوجوان نے چھری نکالی اور ہاتھ کو فضا میں بلند کر دیا۔ اور پھر راجپال کے سینے پر جا لگا۔ چھری کا پھل سینے میں اُتر چکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راج پال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز ہی آئی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جا گرا۔
۔
ملعون کے قتل پر ہندوؤں کا واویلہ
۔علم الدین الٹے قدموں باہر دوڑے ، کدارناتھ اور بھگت رام نے باہر نکل کر شور مچایا
پکڑو پکڑو،،،، مار گیا ،،،،، مار گیا ،،،، مار گیا،
راجپال کے قتل کی خبر آنا فانا شہر میں پھیل گئی۔ پوسٹ مارٹم ہوا تو گئی ہزار ہندو ہسپتا پہنچ گئے اور آریہ سماجہ ہندو دھرم کی جے، ویدک دھرم کی جے کے نعرے سنائی دینے لگے۔
امرت دھارا کے موجد پنڈت ٹھاکردت شرما ، رائے بہادربدری داس اور پرمانند کا وفد ڈپٹی کمشنر سے ملا اور راجپال کی ارتھی کو ہندو محلٓوں میں لے جانے کی درخواست کی۔ لیکن ڈپٹی کمشنر نہ مانا۔۔ کیسے مانتا؟ اس کی منشا کے عین مطابق حسب ضرورت ہندومسلم اتحاد درہم برہم ہونے کی صورت پیدا ہو گئی تھی، وہ کسی کو اس حد کے آگے کیونکر جانے دیتا ، اکلا مرحلہ تصادم کا تھا جس سے امن قائم نہ رہتا، فرنگی کو اس سے نقصان ہوتا، چنانچہ جب لوگ زبردستی کرنے لگے اور ارتھی کا جلوس نکالنے پر تل گئے تو پولیس کو لاٹھی چارج کا حکم ملا، پنجاب پولیس امن قائم رکھنے کا بڑا تجربہ رکھتی تھی ، پولیس نے لٹھ برسائے اور وہ کٹھم لٹھا ہوئی کہ توبہ ہی بھلی
"علم الدین کے اہل و عیال کا خیرت و خوشی کا حسنِ امتزاج"
علم الدین کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں یہ پتہ چل گیا کہ ان کے چشم و چراغ نے کیسا زبردست کارنامہ سر انجام دیا ہے اور ان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔ پولیس نے ان کے گھر پر پڑاؤڈال لیا اور ہجوم کو ہٹا دیا ، اب کوئی ان کے گھر میں نہ جا سکتا تھا ، اور نہ ہی وہ گھر سے باہر آسکتے تھے، شیدا باہر رہ کر انہیں ضرورت کی چیزیں پہنجانے لگا،
طالع مند کو قرعہ اندازی کا علم ہوا تو شیدے کے بارے میں سارے شکوک و شبہات رفع ہو گئے ، پھر اس نے جس لکن سے خدمت کی اس نے ان کا دل موہ لیا۔
انگریز حکومت خاموشی سے توہین رسالت کا تماشادیکھتی رہی
مسلمان اب چاہتے تھے کہ حکومت غازی علم الدین شہید کے اقدام کو درست سمجھے ، کیونکہ انہوں نے بجا طور پر اپنے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی گورا نہیں کی ، ان کا دل مجروح ہوا جس کے نتیجے میں بد باطن راجپال کا خاتمہ کیا، علم الدین اپنے فعل میں حق بجانب ہے
غازی علم الدین کی بے گناہی میں نہ صرف ہند بلکہ افغانستان تک میں بھی آوازیں اٹھنے لگیں اور علم الدین کی بریت پر زوردیاجانے لگا
ادھر آریہ سماج والے چلا رہے تھے کہ مسلمان ان فرئض منصبی میں رعڑے اٹکا رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ انہیں اسلام اور بانی اسلام ﷺ کی توہین کے لئے کھلی چھٹی دی جائے۔ وہ دل آزار تقریریں کرتے اور اشتعال انگیز کتابیں کھلم کھلا چھپاتے رہیں۔ مسلمان چُپ چاپ یہ سب کچھ دیکھتے رہیں۔اور ان سے باز پُرس نہ کریں
(فرنگی تماشہ دیکھ رہا تھا اور طوفان بد تمیزی کو روک نہ رہا تھا۔)
دونوں طرف سے آگ کے شعلے پھیل رہے تھے۔ بالآخر دونوں قوموں کے رہنماؤں اور اخبار والوں نے سدباب کی تدبیر کی ۔ باہمی افہام و تفہیم سے طے پایا کہ لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے تا کہ فساد نہ ہو جائے۔ ایسا ہوا تو گلی گلی، کوچہ کوچہ خون کی ندیاں بہہ نکلیں گی اور بڑے پیمانے ٌپر معصوم انسانی جانیں گنوا بیٹھیں گے۔ مولانا ظفر علی خان سےاستدیا کی کہ اپنے اخبار "زمیندار " میں اشتعال انگیز خبریں اور مضامین نہ چھاپیں۔ مولانا نے صاف صاف کہا ۔اگر راج پال کے خلاف پہلے ہی کاروائی کی جاتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اب جو بویا ہے سو اسے ہی اب تم کاٹو۔ تاہم وہ اس شرط پر مان گئے کہ ہندو اخبارات کی زبان بندی بھی کی جائی ۔ ورنہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔
ڈپٹی کمشنر نے یقین دلایا کہ ہندو اخبارات کو بھی کنٹرول کیا جائے گا۔ تاہم معاملہ معمولی نہ تھا۔ جسے لوگ دل سے اُتار دیتے ۔ لاہور میں علامہ اقبار، مولانا محمد علی، شیخ شفیع، مراتب علی شاہ اور میاں عبدالعزیز نے غازی علم دین کے حق میں قرار داد پاس کروائی۔ اور کئی دوسرے شہروں میں بھی ایسی قراردادیں منظور ہوئیں۔
ایک انصاف پسند ہندورہنما کی تائید فریقین کے لیئے نعمتِ عظمی
بخشے بش داس نے کہا کہ میں ہندو ہوں اور ہندو بھی کوں؟ آریہ ، بلکہ آریہ سے بھی دس قدم آگے ، میں نے قرآن شریف پڑھا ہے اس میں لکھا ہے کہ تم کسی بت کو بھی گالی نہ دو، اس میں تمام مسلماتوں کا قصور نہیں ہے بلکہ برا فعل کرنے والا اپنے فعل کاخود ذمہ دار ہے۔
سو امی دیانند کو ایک ہندو برہمن نے زہر دے دیا ، اس میں قصور بر ہمن کا تھانہ کہ تمام ہندوؤں کا،مہاشے رام چند کو جموں میں ہندوؤں نے ہی لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کردیا،اس میں قصور صرف ہندوؤں کا ہی تھا۔نہ کہ ہندوستان کے تمام ہندوؤں کا
اس طرح ہندومسلم کشیدگی میں کمی آئی اور اب توجہ اس امر پر دی جانے لگی کہ عدالت انصاف سے کام لے، آخر عدالت کا دروازہ کھلا اور غازی علم الدین کے فیصلے کی نوبت آئی۔ سب کی نظریں ایک نقطہ پر جمع ہو گئیں
عاشق رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سزا کے متعلق عدالت کی اسلام دشمنی
غازی علم الدین کی طرف سے کوئی وکیل پیش نہ ہوا ، کیسی تعجب کی بات ہے کہ اس سے پہلے بھی یہی صورت تھی ، مرد غازی خدا بخش کو جہاں پر راجپال پر قاتلانہ حملہ کےنے کے الزام میں مقدمہ چلا تو انہیں کوئی وکیل میسر نہ آیا، اسی طرح افغانستان کے تاجر عبدالعزیز بھی راجپال پر قاتلانہ حملے کے الزام میں وکیل کے بغیر ہی عدالت میں پیش ہوئے۔
بہر حال تین مرتبہ ایسا ہی ہوا ۔ بعد ازاں غازی علم الدین کی طرف سے چوٹی کے وکیل پیش ہوئے،بعدازاں خواجہ فیروزالدین بیرسٹر نے یہ مقدمہ لے لیا۔ ان کے معاون ڈاکٹر اے آر خان تھے۔ فرخ حسین بیرسٹر تو پہلے سے شامل تھے ۔ ان میں مسٹر سلیم اور دیگر وکلابھی شامل ہو گئے۔
وکلانے جرح کی اور صفائی میں دلائل دیئے ۔ لیکن یہاں دلائل سننے والا اور انہیں درخور اعتنا کرنے والا کون تھا؟
عدالت طوفان میل کی طرح مقدمے کی سماعت کرنے اور فیصلہ سانے کے لئے بےچین تھی۔ صفائی کے وکلا کی کوئی بات مانی نہیں گئی۔ اور22 مئی کو سزائے موت سنادی ۔ فرخ حسین بیرسٹر ممبئی گئے۔ اور ہندُوستان کے ذہین ترین نوجوان وکیل محمد علی جناح سے ملے تاکہ وہ ہائیکورٹ میں غازی علم الدین کی اپیل کی پیروی کریں۔
اس وقت ہائیکورٹ کی صورت یہ تھی کہ سرشاری لال چیف جسٹس تھے۔ جسٹس میاں شاہ دین ہمایوں جو سرشاری لال سے سینیئرتھے۔ انتقال کر چکے تھے۔ ان کے پوتے میاں منظر بشیر کے بقول میں شاہ دیں کے نام سے مال روڈ (شاہراہ قائداعظم محمد علی جناح) پرشاہ دین بلڈنگ تعمیرہوئی۔ قریب ہی 23 لارنس روڈ پر وہ کوٹھی ہے جہاں شاہ دین ہمایوں کے فرزند ارجمند میں بشیر احمد رہے اور قائد اعظم تحریک پاکستان کے دوران قیام فرماتے تھے۔
میاں شاہ دیں کی موت کےباعث جونیئر سرشاری لال کو چیف جسٹس بننے کا موقع مل گیا۔ جس کی وجہ سے غازی علم الدین کے مقدمے میں عام عدالت سے لے کر ہائی کورٹ تک کوئی فرق نہ رہا۔ ایک ہی راگ الاپاجارہاتھا کہ راجپال نے جو فتنہ کھڑا کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی،وہ درست ہے غازی علم الدین نے شاتم رسول ﷺ کو قتل کیا ، وہ لائق گردن زدنی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کی طرف سے غازی علم الدین کا دفاع
ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے دفاع میں دو نکات پیش کیئے۔
1-- راجپال نے پیغمبر ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے ، بد زبانی کی ہے ، ملزم کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی جس سے غصے میں آکر اس نے راجپال پر حملہ کیا۔ جرم اس پر ٹھونسا گیا۔
2--- ملزم کی عمر انیس اور بیس سال کےئ قریب ہے ۔ وہ سزائے موت سے مستثنیٰ ہے
(بحوالہ مقدمہ امیر بنام کراؤن نمبر 954 سال 1922)
لیکن فرنگی اور سر شاری لال کی موجودگی میں غازلی علم الدین کو کیسے بخشا جا سکتا تھا۔
چنانچہ غازی علم الدین شہید رحمۃُاللہ علیہ کو13-10-1929 کو سزائے موت سنا دی گئی۔
غازی علم الدین کو پھانسی ہو گئی۔ آخر وقت تک وہ بلکل پر سکون رہے،وہ رسول اللہ ﷺ کی عزت اور ناموس کی خاطر تختہ دار پر چڑھ گئے ،
سید عطااللہ شاہ بخاری رحمۃُاللہ علیہ نے ان کی پھانسی کے موقعہ پر فرمایا
"علم الدین ہم سے بہت آگے نکل گیا"
اللہُ اکبر
غازی علم الدین کی جیل کی کوٹھری پر روشنی
کچھ عرصہ بعد ختم نبوت کی تحریک کے سلسلے میں حضرت قاضی احسان احمد صاحب شجاع آبادی گرفتار ہوئے۔ اور اتفاق سے انہیں اسی کوٹھری میں بند کیا گیا جس میں غازی علم الدین شہید رحمۃُ اللہ علیہ رہ چکے تھے۔ جیل کے وارڈن نے انہیں کوٹھری میں داخل کرتے ہوئے کہا۔ کہ مولانا آپ بہت خوش قسمت ہیں۔
مولانا احسان رحمۃُاللہ علیہ نے حیران ہو کر جیل وارڈن کی طرف دیکھا اور پوچھا وہ کیسے؟
اس نے جواب دیا یہ وہی بابرکت کوٹھری ہے جس میں علم الدین کو رکھا گیا تھا۔ ایک رات میں نے اچانک کوٹھری کو روشن ہوتے ہوئے دیکھا۔ کوٹھر یکدم نور کا ٹکڑا بن گئی ، میں سمجھا کہ شاید کوٹھری میں آگ لگ گئی ہے۔ دوڑ کر نزدیک آیا۔ کوٹھری میں تو نور ہی نور پہیلاہواتھا۔ اور اندر علم الدین مزے سے سو رہے تھے۔ میں ہکا بکا کھڑا رہا ۔ کافی دیر گزرنے پر کوٹھری سے روشنی ختم ہو گئی۔
میں نے علم الدین کو جگایا اور ان کو بتایاکہ میں نے کوٹھری میں کیا دیکھا تھا۔ پھر میں نے ان سے بار بار پوچھا ۔ اس بارے میں آپ مجھے بتائیں ، آخر میری منت سماجت کرنے پر غازی علم الدین شہید رحمۃُاللہ علیہ نے مجھے بتایا۔
"خواب میں میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا۔ آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) فرما رہے تھے کہ علم الدین ، ڈٹ جاؤ میں حوض کوثر پر تیرا انتظار کر رہا ہوں"
اللہُ اکبر ،،،،،، اللہُ اکبر ،،،،،، اللہُ اکبر
کتنے خوش قسمت تھے غازی علم الدین شہید رحمۃُاللہ علیہ
سید عطااللہ شاہ بخاری رحمۃُ اللہ علیہ نے صحیح فرمایا تھاکہ
"علم الدین تو ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے"
پیر سیال شریف صاحب کا غازی صاحب سے ملاقات کے دوران واقعہ
12 اکتوبر 1929 کو صبح سویرے میانوالی ڈسٹرکٹ جیل میں آپ کو منتقل کیا گیا، وہاں کافی نامی گرامی لوگ ملاقات اور زیارت کے لیے حاضر ہوتے رہے ۔ سجادہ نشین سیال شریف بھی ملاقات کے لیئے آئے۔ پیر صاحب غازی کے جمال و جلال سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ کوئی خاص بات تو نہ کر سکے۔ البتہ سورۃ یوسف پڑھنے لگے۔ پیر صاحب ایک اچھے قاری اور حافظ تھے۔ لیکن سورۃیوسف کے دوران جذبات پر قابو نہ پا سکے اور فرط جذبات سے بار بار رکنے لگے۔
اس پر غازی علم الدین شہید صاحب نے حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ آپ بسم اللہ شریف پڑھ کر ایک دفعہ پھر سے شروع کریں ۔ پیر صاحب نے دوبارہ تلاوت کا آغاز کیا۔ لیکن اس بار بھی روانگی نہیں تھی ۔ اکثر کلوکیر ہو کر رک جاتے اور کسی اور عالم میں پہنچ جاتے، غازی علم الدین جو کہ قرآن پاک نہیں پڑھے ہوئے تھے۔ اور سورۃ یوسف پہلے ہر گز نہیں آتی تھی۔ پیر صاحب کے رکنے پر آپ ان کو ٹھیک ٹھیک بتاتے۔ اور سورۃ یوسف پڑھنے میں مدد کی۔ پیر صاحب ملاقات کرکے باہر آئے تو فرط حیرت و استعجاب سے بول نہیں پا رہے تھے۔
صرف اتنا ہی فرمایا۔
میں علم الدین کے لبادے میں کوئی اور ہستی پاتا ہوں۔ کون کہتا ہے کہ غازی علم الدین اَن پڑھ اور جاہل ہیں؟ انکو علم لدنی حاصل ہے اور وہ کائنات کے اسرارورموزے سے بھی واقف ہیں
جیل میں غازی علم الدین شہید رحمۃُاللہ علیہ کی کرامتوں کا ظہور
وارڈن جیل نواب دین کا بیان ہے کہ غازی علم الدین کو 13 اکتوبر کو تختہ دار پر چڑھایا جانا تھا اور بارہ اکتوبر کی درمیانی شب کو میں ان کے کمرے کا نگراں تھا، غازی صاحب نے وہ ساری رات سجدے اور تلاوت کرتے ہوئے گزاری۔ صبح کے چار بجےمیں نے دیکھا کہ کوٹھری بدستور مقفل ہے لیکن غازی صاحب اندر موجود نہیں ہیں۔ میں پریشان ہو گیا کہ انہیں اس کوٹھری سے کوئی نکال کر لے گیا ہو گا۔ اور اب میں حکام جیل کو کیا جواب دوں گا۔
میں نے اپنے ساتھیوں کو اس امر سے مطلع کیا اور کہا کہ اگر کوئی سازش ہوئی ہے تو غازی صاحب کہیں دور نہیں جا سکتے۔ کیونکہ ابھی ابھی وہ سر بسجود تھے۔ میں جونہی ایک چکر لگا کر آیا تو ان کو غائب پایا ۔ اس پر سب نے اندر غور سے جھانکا ، لیکن کوٹھری خالی تھی۔ ہم ان کو ادھر اُدھر باہر تلاش کر رہے تھے۔ کہ یکایک اُن کا کمرہ روشنی سے جگمگا اُٹھا۔ اور میں نے دیکھا
کہ وہ مصلی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور ایک نورانی صورت بزرگ ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ اب ہم نے جونہی اندر جھانکا تو وہ بزرگ غائب تھے۔ اور غازی علم الدین صاحب تسبیح لیئے پڑھ رہے تھے۔