غیراحمدیوں کے ساتھ شادی بیاہ
مرزابشیرالدین محمود (خلیفہ دوم قادیانی صاحبان) لکھتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیراحمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے باربار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔ لیکن آپ 1918نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو، لیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیراحمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اوّل نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹادیا اور جماعت سے خارج کر دیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجودیکہ وہ باربار توبہ کرتا رہا۔ (اب میں نے اس کی سچی توبہ دیکھ کر قبول کر لی ہے)‘‘
(انوار خلافت ص۹۳،۹۴)
آگے لکھتے ہیں: ’’میں کسی کو جماعت سے نکالنے کا عادی نہیں۔ لیکن اگر کوئی اس حکم کے خلاف کرے گا تو میں اس کو جماعت سے نکال دوں گا۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۴)
البتہ مسلمانوںکی لڑکیاں لینے کو قادیانی مذہب میں جائز قرار دیا گیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مرزاغلام احمد صاحب کے دوسرے صاحبزادے مرزابشیر احمد لکھتے ہیں کہ: ’’اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۶۹، مندرجہ ریویو ج۱۴ ص۱۴۰)