• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

فارقلیط

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
فارقلیط

23.jpg

فارقلیط کی اسلامی تشریح
یونانی زبان میں فارقلیط کو پریکلتوس یا پراقلیقوس بھی کہا جاتا ہے ، بعض عیسائی علماء نے اس کو تسلی دینے والے یا روح القدس کے معنی میں بیان کیا ہے لیکن بعض علماء نے اس کو بہت زیادہ تعریف شدہ کے معنی میں بیان کیا ہے جو کہ احمدکے نام سے مطابقت رکھتا ہے اور سورہ صف کی چھٹی آیت جس میں فرمایا ہے : ""میں اپنے بعد آنے والے ایک نبی کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد ہوگا ""، سے مطابقت رکھتا ہے ۔ اس لغت کے مادہ میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں فارقلیط یونانی کلمہ ہے ، اس کا اصل مادہ پریقلیتوس ہے جس کے معنی بہت زیادہ تعریف شدہ ہے ،لیکن اس لفظ کو ""پراقلیتوس"" یعنی تسلی دینے والے ""کے لفظ سے اشتباہ کرتے ہوئے تبدیل کردیا ہے ۔
کتاب چراغ کے مصنف (آقای حسینیان) نے اپنے ایک کتابچہ میں انجیل یوحنا کی انگریزی عبارت کو کتاب کے آغاز میں لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ فارقلیط وہاں پر پرِکلیت (جس کے معنی عربی میں احمد اور فارسی میں بہت زیادہ تعریف شدہ کے ہیں) کی صورت میں بیان ہوا ہے ، پَرَکلیت (پاراکلیت) کی طرح نہیں ہے جس کے معنی تسلی دینے والے کے ہیں (١) لیکن کچھ مدت بعد اناجیل میں پہلی تعبیر کے بجائے دوسری تعبیر ذکر ہونے لگی ۔
انہوں نے مزید کہا ہے : قدیم نصاری لفظ پرکلیت سے خاص شخص کا نام سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے سریانی ترجمہ میں اصل لفظ یعنی فارقلیط کو ذکر کیا ہے اور عبرانی ترجمہ میں جو کہ میرے پاس موجود ہے اور میں نے خود دیکھا ہے ،فرقلیط ذکر کیا ہے کیونکہ اس کو (معین) انسان کا نام سمجھتے تھے اور عیسائیوں کے نزدیک عبرانی اور سریانی ترجمہ کی اہمیت اور اعتبار بہت زیادہ ہے (٢) ۔
حقیقت میں یہ لفظ ، محمد علی، حسن اور حسین (علیہم السلام) جیسے کلمہ کی طرح ہے جن کا ترجمہ کرتے وقت ترجمہ نہیں کیا جاتا ، مثلا اس جملہ ""جاء علی "" کے ترجمہ میں کوئی نہیں کہتا کہ بلند مرتبہ آیا ،بلکہ کہتے ہیں علی آیا ۔ لیکن افسوس کہ عیسائی علماء نے کچھ مدت کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی علامتوں کو محو کرنے کے لئے ""پرکلیت"" کو ""پاراکلیت"" سے تبدیل کردیا ،اس کے علاوہ اس کو خاص اسم سے نکال کر وصفی معنی کی صورت میں ذکر کیا ہے اور اس کو تسلی دینے والے کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔
اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اصلی لفظ پریقلیتوس ہے تو اس کے معنی بہت زیادہ تعریف شدہ کے ہیں اور غلطی سے پراقلیتوس کے معنی میں ذکر کرنا بعید نہیں ہے البتہ اس تفسیر میں عمدی طور پر تبدیل کرنے کا احتمال بھی غلط ہے ۔
مرحوم علامہ شعرانی نے اپنی کتاب نثر طوبی میں کہا ہے : میں نے ایک یونانی لغت میں دیکھا ہے کہ فارقلیط کو بہت زیادتعریف شدہ اور جس کا نام سب کی زبان پر ہو اور اس کو نیکی کے ساتھ یاد کرتے ہوں ، کے معنی میں ترجمہ کیا ہے ۔ پھر مزید لکھا ہے : یونانی کتابیں انگلش زبان اور فرانسی لغت سب جگہ موجود ہے (اس میں مراجعہ کرسکتے ہیں ) ۔ لیکن عیسائیوں نے اس کی تصیح کی ہے اور اس کو تسلی دینے والے کے معنی میں ترجمہ کیا ہے اورہم نے خود اس سلسلہ میں مستقل مقالہ لکھا ہے (٣) ۔
ڈاکٹر قریب کی کتاب ""فرہنگ لغات قرآن"" میں ذکر ہوا ہے : روایات سے جو بات استفادہ ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء کرام نے اپنی کتابوں میں پیغمبر کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بشارت دی ہے ۔ پھر بہت سی اسلامی کتابوں سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت (ص) کا نام انجیل میں الفارقلیطا ہے جس کے معنی احمد ہیں () ۔
کتاب التحقیق فی کلمات القرآن الکریم میں ذکر ہوا ہے : اس کلمہ (فارقلیط)کی اصل یونانی زبان میں پرکلیت ہے جس کے معنی احمد اور پسندیدہ کے ہیں ، پھر کلمہ پرکلیت سے تحریف ہوگیا جس کے معنی تسلی دینے والے کے ہیں (٥) ۔ (٦) ۔
١۔ کتاب چرغ، صفحہ ١ ۔
٢۔ گزشتہ حوالہ، صفحہ ٦ ۔
٣۔ نثر طوبی، جلد ١، صفحہ ١٩٧ ۔
٤۔ فرہنگ لغات قرآن، جلد ١، صفحہ ٣٥١ ۔
٥۔ التحقیق ، جلد ٢،صفحہ ٣٠٥ (مادہ حمد) ۔
٦۔ پیام قرآن ، جلد ٨، صفحہ ٣٨٨ ۔

بشکریہ ویب
 
آخری تدوین :
Top