• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

فتنہ قادیانیت قرآن و حدیث کی روشنی میں اور مرزا کذّاب اعظم کی کذب بیانیاں و کفریات

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
فتنہ قادیانیت قرآن و حدیث کی روشنی میں اور مرزا کذّاب اعظم کی کذب بیانیاں و کفریات خود مرزا کی کتابوں سے ثبوت حاضر ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ انسانوں کا خالق و رب ہے اور رب ہی کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی تمام ضروریات کی تکمیل کا سامان فراہم کرے ۔ چنانچہ مادی ضرورتوں کے لئے کائنات بنایا ۔ اور ان کی سب سے اہم و بنیادی ضرورت یعنی ہدایت و رہنمائی کے لئے آدم ؑ تا عیسیٰ علیہم السّلام تک دنیا کے ہر ملک ‘ علاقے اور قوم میں پیغمبر مبعوث کرکے کتابیں نازل فرماتا رہا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ۝۰ۚ …… سورہ یونس ۴۷ اور ہر اُمَّت کے لئے رسول ہے ۔

وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ۝۷ۧ ……… سورہ رعد ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔

اور ہدایت و رہنمائی کے سامان کی حفاظت اہل ایمان ہی کے ذمہ رکھی ۔

بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللہِ …… سورہ المائدہ ۴۴ (بوجہ اس کے کہ ان کو کتاب اللہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا )

جب عیسیٰ ؑ پر ایمان لانے والے بھی کتاب اللہ کی حفاظت نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ’’القرآن‘‘ جس کی قیامت تک حفاظت کرنے کا وعدہ کرکے نازل فرمایا اور اپنے اس وعدہ حفاظت کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ قرآن میں پیغمبروں ‘ صالحین ‘ محسنین ‘ متقین ‘ مصلحین ‘ عباد الرحمن ‘ طالبانِ آخرت و طالبانِ دنیا ‘ کافر و مومن ‘ فرمانبردار و نافرمان ‘ مفسدین اور سرکشوں کے اعمال بیان کرتے ہوئے ہدایت و گمراہی ‘ علم و جہل‘ اصلاح و بگاڑ ‘ اچھائی و برائی ‘ منکر و معروف ‘ نیکی و بدی ‘ اتفاق و اختلاف ‘ ضد و ہٹ دھرمی ‘ ایثار و خود غرضی ‘ بخل و سخاوت ‘ غرض انسان کے ہر اچھے و برے جذبات و خواہشات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے دنیوی و اخروی ‘ عارضی و ابدی انجام کو اپنے قانون جزا کی روشنی میں تفصیل سے بیان فرمادیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا۝۰ۭ (سورۃ الانعام : آیت ۱۱۴)( وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اتاری ہے ) تَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ … (سورہ یونس : ۳۷) کتاب میں تفصیل کردیا ہے ۔ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ … (سورہ یوسف ۱۱۱) اور (کتاب میں ) ہر چیز کی تفصیل ہے۔ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ (سورۃ النحل ۸۹ ) ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والی کتاب ۔

اور قرآن کو علم کی کتاب فرمایا ہے۔ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ (سورہ النسآء ۱۶۶ )اس کو اتارا اپنے علم کے ساتھ۔ فَصَّلْنٰہُ عَلٰي عِلْمٍ (سورۃ الاعراف ۵۲ )( اس میں ہم نے علم کی تفصیلات دی ہیں) اور یہ بھی بتادیا کہ علم کی باتوں میں تضاد نہیں ہوتا ۔ اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۝۸۲ (سورۃ النساء ) کیا پس تم قرآن کی باتوں پر غور نہیں کرتے اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں اختلاف کثیر (تضاد بیانی ) ضرور ہوتا ۔ اور یہ طمانیت بھی فرمادی کہ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے ۔

وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا …(سورۃ الکہف ۱ )اور اس میں کسی بھی قسم کی کوئی کجی نہیں رکھی) اور یہ قطعی اعلان بھی فرمادیا کہ : اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ (سورۃ المائدہ ۔ ۳ )آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور میں نے اسلام ( اطاعت و فرمانبرداری) کو تمہارے لئے طریقہ زندگی کی حیثیت سے پسند کرلیا ۔

اس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ دین میں اب کسی قسم کی کمی یا اضافہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان تیقنات کے ساتھ ساتھ اللہ نے اپنی آخری کتاب کو محمدؐ پر نازل فرماکر آپؐ کو آخری نبی بنایا ہے اسی لئے آپؐ کو رحمۃ للعٰلمین فرما کر قیامت تک کے لئے ہر قسم کی نبوت کا دروازہ قطعی طور پر بند فرمادیا ۔ آپؐ کے رحمۃ للعٰلمین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت الٰہی کا مستحق بننے کا واحد صحیح طریقہ آپ کے ذریعہ ہی بندوں تک پہنچادیا گیا۔ چنانچہ اس کا ثبوت ان آیات سے ملتا ہے :

فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃ ٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِیْدًا۝۴۱ۭ۬ ( النساء)(اس وقت کا تصور کرو جب کہ ہر امت میں سے ہم ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ان سب پر (اے نبیؐ ) تم کو گواہ بنائیں گے )

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ شَہِيْدًا عَلَيْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَہِيْدًا عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ۝۰ۭ (سورہ نحل ۔۸۹) ( اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک فرد کو جو ان ہی میں کا ہوگا ان پر گواہ ہوگا اور ان تمام گواہوں پر تم کو گواہ بنائیں گے )

مذکورہ بالا دو آیتوں سے صرف نبی کریم ؐ ہی کا آخری نبی ہونا قطعاً ثابت ہے ۔ آپ کے بعد کوئی اور نبی یا آخری نبی مبعوث کیا جانے والاہوتا تو اس کا تذکرہ قرآن میں لازماً ہوتا اور یہ آیتیں ہرگز نازل ہی نہیں ہوتیں کیونکہ تضاد و خلاف بیانی سے قرآن قطعی پاک ہے اس کے علاوہ : قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا …(سورہ الاعراف ۔۱۵۸)(اے نبی ! اعلان کردیجئے کہ اے تمام انسانو ! میں تم سب کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ ) وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا (سورہ سباء ۲۸)( اور ہم نے اے نبی ؐ ! آپؐ کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری دینے اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔ ) اس کے علاوہ سورہ النساء آیت ۷۹ ‘ سورہ الحج آیت ۴۹ میں بھی آپ کے آخری نبی ہونے کی بات بیان ہوئی ہے۔ اور وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۝۰ۭ (سورہ احزاب ۔۴۰)(مگر وہ (محمدؐ) اللہ کے رسول اور نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں) کے ذریعہ اپنے قانون بعثت انبیاء و رُسل کی منسوخی کا اعلان فرمادیا ۔

ہر قسم کی گمراہی سے بچنے کے لئے یہ وعید بھی سنادی۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۱ (الانعام ) (اس سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹی باتیں گھڑے اور اللہ کی باتوں کو جھٹلائے بلاشبہ ایسا ظلم کرنے والے ہرگز فلاح نہیں پاسکتے ) اس وعید کو بے حد تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ الاعراف آیت ۲۷‘ یونس آیت ۱۷‘ ۶۹ اور سورہ ھود آیت ۱۸ میں اس انجا م بد سے بچنے کے لئے ہدایت فرمائی گئی کہ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ اِلَّا الْحَقَّ۝۰ۭ (سورہ انساء: ۱۷۱)( اللہ کے متعلق حق کے سوا کوئی بات مت کہو) اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِہٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۹۳ (سورہ انعام) (آج تم کو بدلہ دیا جائے گا دوزخ کے عذاب کا اس وجہ سے کہ تم اللہ کے متعلق غیر حق بات کہتے تھے اوراُس کی آیتوں کے مقابلہ میں اپنی غلط باتوں کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔) اور بتایا گیا کہ شیطان تم کو اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرہ ۔۱۶۹) یہ کہ اللہ کے ذمہ وہ باتیں کہو جن کو تم نہیں جانتے ۔) کی باتیں سکھاتا ہے اور اعراف آیت ۳۳ : قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (آپ فرمادیجئے کہ میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ ہر قسم کی فحش باتوں کو حرام کردیا ہے )میں اللہ کے متعلق بلا دلیل و بلا سند باتیں کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ و رسول کی پوری تعلیمات کا واحد مقصد اور نچوڑ بندوں میں ابدی زندگی کی فکر اور انابت الی اللہ یعنی حنیفیت پیدا کرنا ہے ۔

مندرجہ بالا ارشاداتِ الٰہی سے قطعاً ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن کے کسی لفظ یا آیت کا یا کسی حدیث کا کوئی ایسا مفہوم و مطلب ہوہی نہیں سکتا جو پیغمبروں اور عباد الرحمن کے اسوہ اور قرآن کی بنیادی تعلیم کے ضد یا خلاف ہو۔

ان حقائق کے باوجود اللہ و رسول کی تعلیمات سے اگر کوئی غلط معنی و مفہوم لیتا ہو تو اس کے متعلق صرف دو ہی باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کی فہم و فکر نے ٹھوکر کھائی ہے یا وہ نہایت جھوٹا ‘ فریبی اور شیطان ہے۔

یہی وہ حقائق ہیں جن کی بناء پر ہر مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک یا کسی بھی قوم سے ہو ‘ یہ ایمان یقین رکھتا ہے کہ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے اور محمد مصطفی ؐ ‘اللہ کے آخری نبی ہیں کیونکہ آپ کی تعلیمات بھی حفاظت قرآن کے تحت محفوظ ہیں ۔ اس لئے آپ ؐ کے بعد کسی بھی قسم کے نبی کی ضرورت نہیں۔ ان حقائق کے باوجود کسی پر کسی طرح بھی وحی ٔ نبوت نازل ہونے کو ماننا اللہ کو جھوٹا قرار دینا ہے۔

مرزا غلام احمد کے خاندانی حالات

مرزا صاحب کے جدِّ اعلیٰ سمر قند سے دہلی آئے تھے ان کو بہت سے دیہات جاگیر میں دیئے گئے۔ شہنشاہ بابر کے بعد جب مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی تو انھوں نے اپنی فوجی طاقت کو بڑھا کر بہت سے علاقوں کو قبضہ میں کرلیا۔ مرزا صاحب کے پردادا مرزا گل محمد صاحب سکھوں سے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور ہر دفعہ کامیاب رہے لیکن ان کے فرزند مرزا عطا محمد صاحب کے ہاتھ سے سوائے قادیان اور چند دیہات کے سارا علاقہ نکل گیا اور سکھوں کے جبر و ظلم سے ان کو اپنا مستقر بھی چھوڑنا پڑا ۔ کافی زمانے کے بعد مرزا صاحب کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب دوبارہ قادیان میں جابسے ۔ جن کو ان کے حصہ جدّی سے حکومت برطانیہ نے قادیان اور تین گائوں دیئے ۔ گورنر کے دربار میں ان کو بیٹھنے کے لئے کرسی ملتی تھی جنھوں نے انگریزوں کا حق نمک غدر میں کمپنی کو پچاس 50 گھوڑے سوار مہیا کرکے ادا کیا۔

مرزا صاحب کے دل میں اپنے جَدِّاعلیٰ کی طرح کسی بڑے علاقہ کے رئیس بننے کی تمنا ہونا ایک فطری بات تھی ۔ ہندوستان پر حکومت برطانیہ کا تسلط ہوجانے کے بعد ان کی تمنا کے پورے ہونے کے امکانات قطعی ختم ہوچکے تھے ۔ مرزا صاحب جیسے ذہین و چالاک کے لئے بغیر جدوجہد کئے حالات موجودہ پر قانع ہوجانا ممکن نہ تھا اس لئے انھوں نے سیاسی میدان کے بجائے مذہبی میدان میں اپنی قسمت آزمائی شروع کی ۔ اور یہی ایک ایسا واحد ذریعہ تھا جس سے نہ صرف عزت و شہرت و دولت بلکہ احترام بھی حاصل ہوسکتا تھا ۔ سب سے پہلے ہندوستان کے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ۔ بالخصوص خدائی اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے حالات اور ان کے ہتھکنڈوں سے خوب آگاہی حاصل کی۔

مرزا صاحب کے کارنامے

مرزا صاحب کے مشاہدہ میں تھا کہ جب بھی کوئی نیا مذہب یا سلسلہ نکلتا ہے تو دیگر مذاہب سے نہ سہی مگر مسلمانوں میں سے کچھ نہ کچھ لوگ اس کی طرف مائل ہو ہی جاتے ہیں اور ایسا ہونا اپنے مذہب سے محض جہل کی بنا پر ہی ہوتا ہے ۔ مرزا صاحب جانتے تھے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی ایک عظیم اکثریت اپنے دین سے محض کوری ہے ۔ مسلمانوں کی اس کمزوری سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کا انھوں نے فیصلہ کیا ۔ چنانچہ سب سے پہلے سلسلہ قادریہ ‘ چشتیہ کی طرح اپنا ایک نیا سلسلہ عالیہ احمدیہ قائم کیا ۔ اس طرح مسلمانوں میں سے اپنے مرید فراہم کرلئے اور عام مسلمانوں کی ہمدردیاں و عقیدت اور ساتھ ہی دولت حاصل کرنے کے لئے ایک شاطرانہ چال یہ چلی کہ ایک کتاب ’’مسمیٰ بہ براہین احمدیہ علی ٰ حقیقت کتاب اللہ و النبوہ المحمدیہ ‘‘ لکھی جس میں قرآن کے آخری کتاب الٰہی ہونے اور نبی کریم کے آخری نبی ہونے اور مسلمانوں کے اسلام پر ثابت قدمی کی تعریف کرتے ہوئے حسبِ ذیل ایک اشتہار بھی دے دیا :

’’ میں مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بواعدہ انعام دس ہزار روپے بمقابلہ جمیع ارباب مذاہب وملت کے جو حقانیت قرآن مجید اور نبوت محمدؐ سے منکر ہیں ۔ اتماماً للحجَّۃ شائع کرکے اقرار کرتا ہوں کہ اگر کوئی حسب شرائط مندرجہ اس کو رد کردے تو اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپے پر قبض و دخل دے دوں گا ۔ ‘‘

اور یہ تصریح کی کہ کتاب آریہ برہمو سماج کے خلاف لکھی گئی ہے جو وحی و نبوت کے منکر ہیں جس سے مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ مرزا صاحب اسلام کی طرف سے غیر مسلموں سے برسر مقابلہ ہیں چونکہ حریف کو مرعوب کرنے کے لئے لڑائی میں دھوکہ جائز کے تحت خلاف حقیقت واقعہ بیان کردینا شرعاً و عقلاً ناجائز نہیں ہے اس لئے ان کی یہ کتاب ایسی مقبول ہوئی کہ لوگ تین چار روپے والی کتاب کو پچیس پچیس روپے دے کر خریدے ۔ اس کے علاوہ مال دار حضرات نے طباعت کے لئے کثیر رقومات دیں۔ اس طرح مرزا صاحب ایک طرف تو کثیر رقم کے مالک بن گئے دوسرے بہت سے مسلمانوں کو اپنا معتقد بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ تیسرے اپنی نبوت کے لئے میدان ہموار کرلیا کہ کسی کو اس کے رد کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ چنانچہ اس میں نفس الہام اور مطلق نبوت کی بحث چھیڑ دی۔ اور وحی نبوت اور الہام کو ایک ہی چیز ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ الہام ‘ کشف اور مکالمہ الٰہی کو نبوت کا نام دیا۔ ان کی ان لاف زنیوں کی تردید و نفی اس لئے نہیں کی جاسکتی تھی کہ تصوف اور سلوک اولیائی کے حامل دینی رہنما و بزرگ بھی اپنے صاحبِ الہام و صاحب ِ کشف ہونے اور اللہ سے بات کرنے کے مدعی تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مرزا صاحب نے تصوف ‘ سلوک اولیائی کے اصطلاحات کو ذریعہ بناکر دین اسلام کے مسلمہ بنیادی عقائد کو ڈائنمٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرزا صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ابتداء ہی میں اگر وہ اپنی مستقل نبوت کا دعویٰ کرتے تو کوئی مسلمان بھی ان کے دعوے کو تسلیم نہیں کرسکتا تھا۔ اس لئے ابتداً ظلی ‘ بروزی کا لبادہ بظاہر اوڑھے رہے اور ان کی مستقل نبوت کی راہ میں جو چیزیں مانع و مزاحم تھیں یعنی قرآن و حدیث اس میں اپنے الہام و کشف کے نام پر من مانی تحریف و تفسیر کرڈالی۔ قرآنی آیات کا حسب مرضی معنی و مفہوم متعین کرنے کے لئے براہین احمدیہ کے صفحہ ۱۳۹ میں یہ قاعدہ لکھا کہ کشف سے معنیٰ قرآن نئے طور پر کھلتے ہیں تو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور حدیث لانبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کے بعد ’’الّا نبی ظلی ‘‘ (سوائے نبی ظلی کے ) بڑھا دیا ۔ اور ساٹھ جزوں پر مشتمل ہزاروں صفحات کی کتاب بنام ’’ازالۃ الاوہام ‘‘ لکھ ڈالی جس میں انھوں نے اپنے آپ کو مسیح موعود ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ان کا یہ دعویٰ دو باتوں پر موقوف تھا ایک عیسیٰ ؑ کی موت کا ثبوت ۔ دوسرا مرزا صاحب کا خدا کی طرف سے مامور ہونا ۔ اس کے لئے مرزا صاحب مفسرین پر بے حد خفا ہیں چنانچہ صفحہ ۷۲۶میں لکھتے ہیں کہ کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے مولویوں کو بہت خراب کیا ہے۔

جھوٹے نبی سے دلیل پوچھنا یا سننا یا بیان کرنا اگرچہ کفر ہے لیکن عوام کو ان کے فریب سے بچانے کے لئے ان کے دلائل کے غلط و جھوٹ ہونے کو واضح کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے ان کے اہم دلائل کا جائزہ پیش ہے ۔

۱۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ (سورہ فاتحہ ۔۶) ( ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا۔) انعام یافتہ بندوں کی تفصیل وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۝۶۹ۭ (سورہ النساء ) ( جو کوئی اللہ اور رسول ؐ کی اطاعت کرتا رہے گا پس ایسے ہی لوگ آخرت میں ان حضرات کے ساتھ رہیں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا جو نبیوں ‘ صدیقوں ‘ شہداء اور صالحین میں سے ہیں اور جو بہترین ساتھی ہیں۔ )

اس آیت سے مرزا صاحب نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ صدیق کی راہ پر چل کر کوئی بھی صدیق ہوسکتا ہے ‘ شہید کی راہ اختیار کرکے شہید بن سکتا ہے اور صالح کے طریقے کو اپنا کر صالح بننا ممکن ہے بالکل اسی طرح نبی کی راہ پر چل کر کوئی بھی نبی بن سکتا ہے۔

چنانچہ مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی کی راہ پر چل کر نبی بنے ہیں۔ مرزا صاحب اپنے اس شیطانی اصول کو صرف نبوت کی حد تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اللہ کی راہ پر بھی چل کر وہ خود اللہ بننے کی بات بھی کہہ چکے ہیں۔ حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ (فاتحہ۔۶) (ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔) بندے کی دعا کا ایک جز ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے التجا کرتا ہے کہ اے رب تیرے انعام یافتہ بندے انبیا ‘ صدیقین ‘ شہداء‘ صالحین جس طرح مرتے دم تک تیری اطاعت کرتے رہے اور آخرت کی فلاح کے لئے دنیا کی ہر تکلیف و نقصان بخوشی برداشت کرتے رہے اور دامے ‘ درمے سخنے تیرے دین کی اشاعت و تبلیغ کرتے رہے دنیا میں اسی طرح زندگی بسر کرنے کی مجھ کو بھی توفیق و ہمت عطا کر۔ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ (النساء : ۶۹) (اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کرتا رہے گا پس ایسے ہی لوگ ا ن کے ساتھ رہیں گے۔) وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا(النساء :۶۹) ( اور جو بہترین ساتھی ہیں ) ۔ یہ خط کشیدہ الفاظ علانیہ بتارہے ہیں کہ اللہ و رسول ؐ کی اطاعت کرنے والاآخرت میں اللہ کے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ رہے گا نہ کہ وہ انعام یافتہ بندوں کی طرح انعام یافتہ ہوجائے گا ۔ چنانچہ امت محمدیہ ؐ کے سابقون الاولون اور جن کو دنیا ہی میں رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ ( المائدہ ۱۱۹ ‘ توبہ ۱۰۰ ‘ المجادلہ ۲۲‘ البینہ ۸) جن سے اللہ دنیا میں راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔) کی خوشخبری سنادی گئی تھی۔

ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں صدیق ہوں ‘ شہید ہوں ‘ صالح ہوں یا ہوگیا ہوں کیونکہ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے لحاظ سے حشر کے دن فرمائے گا نہ کہ دنیا میں اور نہ اس کا فیصلہ کرنا بندوں کے اختیار میں ہے چنانچہ یہ حضرات مرتے دم تک معافی اور بخشش کی درخواست ہی کرتے رہے۔ لیکن نبی کا معاملہ بالکل اس کے برخلاف ہے کیونکہ دنیا ہی میں اسے نبی کی حیثیت سے مبعوث کیا جاتا ہے اور نبوت اعمال کی بناء پر نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے تحت عطا فرماتا ہے۔ اس لئے نبی کی راہ اختیار کرکے نبی بن جانے کی بات محض شیطانی بات ہے۔

ملاحظہ ہو کہ جس اصول سے مرزا صاحب نبی بننے کے دعویدار ہیں اس کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھ کر آئندہ کے لئے منسوخ قرار دے دیا ۔ اس طرح اپنے اخذ کردہ اصول کے غلط و جھوٹ ہونے کو خود ہی ثابت کردیا ۔ اس طرح خود اپنے دعویٔ نبوت میں جھوٹے ہونے کا ثبوت فراہم کردیا۔

(۲) نبی کریم ؐ کے بعد بھی نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کے سلسلہ میں يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝۰ۙ … (سورہ اعراف : ۳۵) ’’اے اولادِ آدم ! جب کبھی تمہارے لئے رسول کی ضرورت ہوگی وہ تم ہی میں سے تمہارے پاس آتے رہیں گے ۔ میرے احکام تم سے بیان کرتے رہیں گے۔‘‘ پیش کی جاتی ہے اور مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جب تک بنی آدم دنیا میں موجود رہیں گے ان میں بگاڑ پیدا ہوتا رہے گا جس کی اصلاح کے لئے رسول مبعوث کئے جاتے رہیں گے ۔ یہ قطعاً غلط اور تفسیر بالرائے ہے۔ کیونکہ اس آیت کا تعلق بندوں کے اپنے پیدا کردہ بگاڑ سے نہیں ہے بلکہ اللہ و رسول کی تعلیمات کے بگڑ جانے سے ہے جس کو فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۳۸ (سورہ البقرہ) ( بس جب کبھی تم کو ہدایت کی ضرورت ہوگی تو تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آتی رہے گی پس جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا بس ایسوں ہی کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ) میں بھی بیان کیا گیا ہے جس میں لفظ رسول کی بجائے ھدًی آیا ہے ۔ یہ دونوں آیات جو ایک دوسرے کی تفسیر ہیں ‘ کا تعلق نفسِ دین کی اصل و صحیح تعلیمات بگڑ کر بالکلیہ مسخ ہوجانے سے ہے ۔ دین کے معاملہ میں بندوں میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نہیں۔

کتاب و رسولؐ کی تعلیمات اپنی اصلی شکل و صورت میں موجود ہونے کے باوجود شرک و بدعات کے ذریعہ بندے اپنے اندر جب بگاڑ پیدا کرلیتے ہیں تو اس کی اصلاح علماء دین کرتے ہیں جس پر ان کو مجدّد کہا جاتا ہے ۔ ایسے بگاڑ کی اصلاح کے لئے رسول کی ضرورت ہی نہیں ۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے’’العلماء الامتی کانبیاء بنی اسرائیل ‘‘ (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مانند ہیں ) یعنی علماء اللہ و رسول ؐ کی صحیح تعلیمات کی روشنی میں بگاڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگو ں کو اپنی اصلاح کرلینے کی دعوت دیں گے۔

اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ …(سورہ اٰل عمران ۔۵۵) ( اور جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ ؑ بے شک میں تم کو وفات دینے والا ہوں اور میں تم کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔) یہاں متوفیک و رافعک دونوں اسمِ فاعل ہیں جن کے درمیان ’و‘ ہے۔ اس سے ترتیب پر استدلال کرنا صحیح نہیں یعنی پہلے موت بعد رفع کی دلیل پیش کرنا صحیح نہیں ۔ کیونکہ ’و‘ سے جو عطف ہے اس میں ترتیب لازمی نہیں ہوتی چنانچہ سورہ انعام آیت ۸۴ تا ۸۶ میں اٹھارہ پیغمبروں کے نام ’ و ‘ کے عطف کے ساتھ آئے ہیں ۔ لیکن ان میں ترتیب زمانی نہیں ہے ۔ چنانچہ ابن عباسؓ سے بھی اس آیت کے معنوں میں تقدیم و تاخیر یعنی پہلے رفع کا عمل بعد میں وفات کا عمل ہونا منقول ہے ۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں حشر کے دن عیسیٰ ؑ صرف تَوَ فَّیْتَنِیْ (تو نے مجھے وفات دی ) فرمائیں گے جس سے قطعی ثابت ہے کہ وفات کا عمل رفع کے بعد ہوا نہ کہ وفات کے بعد رفع ۔ چنانچہ عیسیٰ ؑ کا ان کی وفات سے پہلے اٹھائے جانے کا ذکر سورہ النساء کی حسبِ ذیل آیت میں ہے :

وَقَوْلِـہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللہِ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰكِنْ شُـبِّہَ لَہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْہِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ۝۰ۭ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۝۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ يَقِيْنًۢا۝۱۵۷ۙ (سورہ النساء) ( ان کا یہ کہنا کہ یقیناً ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ؑ ابن مریم کو قتل کرڈالا ( صحیح نہیں ) کیوں کہ انھوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو اشتباہ (شبہ) ہوگیا اور بلا شبہ جو لوگ اس معاملہ میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں ہیں اور ان کے پاس اس کے لئے کوئی دلیل نہیں بجز قیاس و گمان کے ۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَيْہِ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۝۱۵۸ (سورہ النساء ) (اور یقیناً انھوں نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑے زبردست حکمت والے ہیں ۔ )

رفع کا لفظ قرآن میں اوپر اٹھانے کے معنی میں آیا ہے ملاحظہ ہو سورہ البقرہ آیت ۶۳ ‘ ۹۳ ‘ سورہ النساء ۱۵۴‘ اعراف ۱۷۱ ۔ لفظ رفع کے معنی ’باعزت موت ‘کے کرنا لغت کی کسی کتاب سے بھی ثابت نہیں۔ اور عیسیٰ ؑ کے وفات پانے سے پہلے تمام اہلِ کتاب آپ پر ایمان لائیں گے ‘کی بات بھی فرمائی گئی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا۝۱۵۹ۚ (سورہ النساء) (اور اہل کتاب کا ہر فرد عیسیٰ ؑ کی موت سے پہلے آپ پر ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسیٰ ؑ ان پر گواہ ہوں گے۔)یہا ں ’ ہ ‘ سے مراد اہل کتاب کا فرد نہیں بلکہ عیسیٰ ؑ مراد ہیں ۔ اس کے علاوہ سورہ زخرف آیت ۶۱ میں عیسیٰ ؑ کو وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ (اور بلا شبہ وہ ( عیسیٰ ؑ ) قیامت کے لئے یقینی ایک نشان ہے ) قرار دیا گیا ہے کہ جس سے قیامت کے قریب آپ کا آسمان سے نازل ہونے کی بات ہی صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ مزید یہ کہ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۴۶ (سورہ اٰل عمران) ’’ اور وہ لوگوں سے بات کرے گا گہوارہ میں بھی اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وہ صالحین میں سے ہوگا ‘‘کی اطلاع دی گئی ہے۔ گہوارہ میں بات کرنے کی بات تو ایک مسلمہ ہے لیکن ’کَھل ‘ عمر میں لوگوں سے بات کرنا ابھی باقی ہے کیونکہ آپ ۲۵ سال کی عمر میں اوپر اٹھالئے گئے ۔ کھل چالیس سال کی عمر کو کہا جاتا ہے جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ دوبارہ آسمان سے نازل ہوکر ادھیڑ عمر کو پہنچیں گے اور لوگوں سے خطاب کریں گے۔

۴۔ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۝۰ۭ (المائدہ : ۷۵) ’’مسیح ابن مریم اللہ کے ایک رسول کے سوا کچھ بھی ( اللہ کا بیٹا ) نہیں ۔ تحقیق ان سے پہلے بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں۔ ‘‘

خط کشیدہ الفاظ سے عیسیٰ ؑ کے وفات پاچکنے کی بات کہنا غلط ہے کیونکہ یہاں آپ کی وفات پانے کو بیان کرنا نہیں بلکہ اللہ کا بیٹا ہونے کے عقیدہ کی تردید کی گئی ہے ۔ خط کشیدہ الفاظ سورہ آل عمران آیت ۴۴ میں بھی نبی کریم ؐ کے تعلق سے آئے ہیں جو جنگ احد پر تبصرہ کے سلسلہ میں نازل ہوئے ہیں ۔ ان کے نزول کے وقت آپؐ زندہ تھے اور مزید سات سال تک زندہ رہے ۔ یہ الفاظ نبی کریم ؐ کے وفات پانے کے سلسلہ میں پیش کرنا جس طرح صحیح نہیں اسی طرح عیسیٰ ؑ کے وفات پاچکنے کے ثبوت میں پیش کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔

عیسیٰ ؑ کی پیدائش عام قانون طبعی کے خلاف ہوئی ہے اور آپ کو جو معجزے دیئے گئے وہ کسی اور پیغمبر کو نہیں دیئے گئے ۔ اسی طرح آپ کا آسمان پر اٹھالیا جانا اور قیامت کے قریب نازل ہونا ‘ ایک خصوصی معاملہ ہے جس کا تعلق اللہ کی قدرت سے ہے اور اللہ کی قدرت زیر بحث نہیں آسکتی ۔ سنت الٰہی اور قدرت الٰہی کو ایک سمجھنا صحیح نہیں ۔ بیک نظر سچ و جھوٹ معلوم ہوجانے کیلئے جدول پیش ہے۔

اللہ کی طرف سے نبی ہونے کا ثبوت

مرزا صاحب کے جھوٹے نبی ہونے کا ثبوت

۱ قرآن میں جن پیغمبروں کا ذکر ہے ان سب کے نام منفرد ہیں یعنی ہر نبی کا نام ایک ہی لفظ پر مشتمل ہے۔ نوٹ ۱؎

مرزا غلام احمد صاحب کا نام دو الفاظ پر مشتمل ہے ایک غلام دوسرا احمد ۔ اس لحاظ سے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے

نوٹ ۱؎ : آدم ۔ نوح ۔ ھود ۔ صالح ۔ ابراہیم ۔ لوط ۔ شعیب ۔ اسماعیل ۔ الیسع ۔ ذالکفل ۔ اسحاق ۔ یعقوب۔ یوسف ۔ یونس ۔ ادریس ۔ ایوب ۔ الیاس ۔ موسیٰ ۔ ہارون ۔ دائود ۔ سلیمان ۔ زکریا ۔ یحییٰ ۔ عیسیٰ اور محمد علیھم السلام ۔

۲ قرآن میں جن انبیاء کے نام آئے ہیں ان میں ایک نام کے دو پیغمبر نہیں ہوئے ہیں ۔ نبی کریم ؐ کا نام احمد ہونا قرآن سے ثابت ہے ۔

نوٹ ۲؎اس لحاظ سے ’’احمد ‘‘ نام کا نبی ‘ نبی کریم ؐ کے سوا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا ۔ اس لئے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے ۔

نوٹ ۲؎ : مِنْۢ بَعْدِي اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ( الصف : ۶) ( میرے بعد جو رسول آنے والے ہیں ان کا نام احمد ہوگا) چنانچہ اسی بناء پر دنیا کے تمام مسلمان نبی کریم ؐ کے نام ’’احمد ‘‘ سے واقف ہیں۔

۳ ۔ آدم ؑ تا محمد مصطفیؐ تک جتنے پیغمبر آئے ہیں وہ سب کے سب آزاد تھے وہ کسی کے غلام نہ تھے۔

مرزا صاحب کا اپنے نام ’’غلام احمد ‘‘ ہی سے احمد کا غلام ہونا ثابت ہے۔ غلام چونکہ نبی نہیں ہوسکتا اس لئے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے ۔

۴ اللہ کے نبی جہاں وفا ت پاتے ہیں وہیں دفن کئے جاتے ہیں ۔

نوٹ مرزا غلام احمد صاحب کی وفات لاہور میں ہوئی لیکن دفن قادیان میں کئے گئے اس لحاظ سے بھی مرزا صاحب نبی نہیں ہوسکتے ۔

نوٹ ۳؎ : ( نبی کریم ؐ کی وفات پر آپ کے دفن کرنے کا مسئلہ جب پیدا ہوا تو ابو بکر صدیق ؓ نے یہ ارشاد رسول سنایا ما من نبی یقبض الادفن تحت مصجعہ (اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو جہاں دفن کرانا منظور ہوتا ہے وہیں نبی کو وفات دیتا ہے۔)

۵ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اپنے کسب سے پیغمبر نہیں بنے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنایا ان تمام حضرات کی نبوت وھبی ہے کسبی نہیں ۔

مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان کو نبوت ان کے کسب سے حاصل ہوئی اپنے اس دعوے کی دلیل میں صراط الذین انعمت علیھم پیش کرتے ہیں جس کے غلط ہونے کی تفصیل اوپر گزرچکی ہے۔

۶ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اپنی نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کئے۔ چنانچہ نبی کریم ؐنے اپنی نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے کسی بھی قسم کا اعلان نہیں فرمایا۔

مرزا صاحب ابتداء ً اپنے محدث ‘ مجدد ‘ امام زماں ‘ مہدی ‘ مریم ‘ مثل مسیح ہونے کے دعوے پر دعوے کرتے چلے گئے اس لحاظ سے بھی ان کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے۔

۷ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر نے سابقہ پیغمبروں سے اپنے آپ کو افضل قرار نہیں دیا چنانچہ نبی کریمؐ نے اس معاملہ میں تاکید کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ نوٹ ۴؎

مرزا صاحب نے اپنے آپ کے بشمول نبی کریم ؐ کے تمام نبیوں سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس قسم کی باتیں ایک جھوٹا نبی ہی کرسکتا ہے۔

نوٹ ۴؎ : (الف) مجھ کو نبیوں کے درمیان ممتاز نہ ٹہرائو ( متفق علیہ )

(ب) اللہ کے نبیوں میں کسی کو دوسرے پر فضیلت نہ دو ۔ (بخاری )

(ت) کسی شخص کو نہیں چاہئے کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں( متفق علیہ )

(ج) جس شخص نے کہا کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا (بخاری)
 

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
8 اللہ تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر نے اپنی تبلیغ و اشاعت کا کوئی معاوضہ قوم سے طلب نہیں کیا جیسا کہ ارشاد ہے۔ قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ الفرقان : ۵۷

مرزا صاحب نے اپنی نبوت کی دہائی دے کر اپنے معتقدین کو مختلف طریقوں سے بٹورا ۔

نوٹ ۵؎ : اپنی اور اپنے اہل بیت اور اپنی خاص جماعت کی تصویریں اترواکر بیچ کر لاکھوں روپیہ حاصل کئے ۔ کتاب ندارد مگر کتاب کی قیمت پیشگی وصول کی گئی۔ ایک کتاب کے دو نام رکھ کر دونوں نام کی قیمت وصول کی گئی۔ زکوٰۃ دینے کی ترغیب و ترھیب اس غرض سے کی جاتی کہ اپنی تصنیفات اس سے خریدی جائیں۔ مینار المسیح جس میں گھڑی اور لال ٹین لگائی گئی ‘ اس کی تعمیر کے لئے دس ہزار کا چندہ وصول کیا گیا۔ پریس ‘ کاغذات اور کاپی نویس کے واسطے ڈھائی سو روپیہ کا ماہانہ چندہ کیا جاتا ۔ دعا کی اجرت پیشگی لی جاتی ۔ مسجد و مدرسہ کے نام سے بھی چندہ جمع کیا جاتا ۔ بہشتی مقبرہ کے نام سے ایک مقبرہ کی بنیاد ڈالی جس میں دفن ہونے کی شرط یہ لگائی کہ دفن ہونے والا اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کی وصیت کردے۔ قادیان کو ارض حرم قرار دیا ۔ (درثمین صفحہ ۵۲) مکہ اور مدینہ دونوں قادیان ہی کے نام قرار دیئے ۔ لوگ معمولی اور نفلی طور پر بھی حج کرنے جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے زیادہ ثواب ہے ۔ ( آئین کمالات اسلام صفحہ ۲۵۲) اس طرح قادیان کی زیارت کے لئے آنے والے مرزا صاحب کے لئے آمدنی کا اچھا ذریعہ بنے۔ مرزا صاحب کا حکم ہے کہ جو لنگر میں چندہ نہ دے وہ اسلام سے خارج ہے ۔ یہ تمام چندہ مع زکوٰۃ مرزا صاحب ہی کے تصرف میں آتا تھا۔

۹ اللہ کے تمام پیغمبر معصوم تھے ان میں سے کسی نے بھی کوئی نشہ آور چیز استعمال نہیں کی ۔

مرزا صاحب شراب پیتے تھے ۔

نوٹ ۶؎ مرزا صاحب کا خط بنام محمد حسین صاحب

نوٹ ۶؎ : محبی اقویم حکیم محمد حسین صاحب ’’ اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے ۔ آپ اشیاء خوردنی خود خرید دیں۔ اور ایک بوتل ٹانک وائن کی فلومر کی دوکان سے خرید دیں مگر ٹانک وائن چاہئے اس کا لحاظ رہے ۔ باقی خیریت ‘‘ (خطوط امام بنام غلام صفحہ ۵)

نوٹ : اس شراب کی قیمت اُس زمانہ میں پانچ روپیہ آٹھ آنے سکہ کلدار فی بوتل تھی۔

۱۰ تمام پیغمبروں کو ان کی اپنی مادری زبان میں وحی بھیجی گئی

۔ نوٹ ۷؎ مرزا صاحب کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن ان کو دعویٰ تھا کہ عربی ‘ فارسی اور انگریزی زبان میں وحی آتی ہے ۔ اس لحاظ سے بھی مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے۔

نوٹ ۷؎ : جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے : وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ … (ابراہیم:۴) ’’اور ہم نے تمام پیغمبروں کو وحی ان ہی کی قوم کی زبان میں نازل کرکے ان کو پیغمبر بناکر بھیجا ۔ ‘‘چنانچہ نبی کریم ؐ کی مادری زبان عربی تھی اس لئے قرآن عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ ( سورہ یوسف: ۲ ‘ سورہ طٰہً ۱۱۳)

۱۱ انبیاء پر وحی ان کی اپنی مادری زبان میں نازل کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ پیغمبر اللہ کی باتیں اپنی قوم کو کھول کھول کر بتاسکیں ۔ لتبین لھم (ابراہیم:۴) (تاکہ تم اپنے لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرسکو )

مرزا صاحب پر وحی انگریزی زبان میں جس سے وہ کورے تھے نازل ہوئی ہے ۔ نوٹ ۸؎

نوٹ ۸؎ : اپنے انگریزی الہامات کا مطلب ایک ہندو سے معلوم کرتے ہیں ۔ (مکتوبات احمدیہ جلد اول۸ ۶)۔ مرزا صاحب کی ہر بات دروغ گو را حافظہ نہ باشد کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ چنانچہ وحی کی زبان کے بارے میں خود ان کا یہ فیصلہ ہے ’’ اور بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام کسی اور زبان میں جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا ‘ کیونکہ اس میں تکلیف بالایطاق ہے ۔ (چشم معرفت صفحہ ۲۰۹) ملاحظہ ہو یہ غیر معقولیت کا کام ( انگریزی زبان میں وحی ) نعوذ باللہ ۔ اللہ کی طرف سے تو ہو نہیں سکتا۔ لامحالہ یہ مانے بغیر چارہ ہی نہیں کہ شیطان ہی اس قسم کے غیر معقول و بیہودگی کی باتیں اپنے شاگردِ رشید کے دل میں ڈالتا ہے ۔

۱۲ اللہ تعالیٰ کے کسی پیغمبر نے بھی اپنے جانی دشمنوں تک کو کبھی بھی گالی نہیں دی۔

مرزا صاحب اپنے مخالفین کو کھلے طور پر گالیاں دیئے ہیں ۔

نوٹ ۹؎ : اے ظالم مولویو ‘ اے مردار خور مولویو ‘ اے گندی روحو ‘ اے اندھیرے کے کیڑو ‘ یہ مولوی جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح مردار کا گوشت کھاتے ہیں ۔ اے بے ایمان ‘ نیم عیسائیو ‘ دجال کے ہمرائیو ‘ اسلام کے دشمنو ‘ تمہاری ایسی تیسی ‘ اے عورتوں کی عار ثناء اللہ ‘ کفن فروش کتا ‘ خبیث ‘ سور ‘ بدذات ‘ گوخور (الہامات از مرزا( ۱۲۲) ۔ اعجازِ احمدی ‘ تتمہ ‘ حقیقت الوحی ‘ اشتہار انعامی تین ہزاری ‘ ضمیمہ انجام اتھم صفحہ ۲)

۱۳ اللہ تعالیٰ کے کسی نبی نے بھی کسی بھی باطل کی نہ خوشامد کی نہ چاپلوسی کی ۔ ( آلِ عمران ۔ آیت ۱۴۶)

مرزا غلام احمد صاحب نے حکومت برطانیہ کی خوشامد و چاپلوسی کرنے میں قرآنی آیات تک کی تحریف کرڈالی ۔نوٹ ۱۰؎

نوٹ ۱۰؎ : وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ۝۰ۭ (الانفال : ۳۳) ’’ اللہ تعالیٰ کی شان نہیں کہ ان لوگوں کو عذاب دے جبکہ اے رسول تم ان میں زندہ موجود ہو ‘‘مرزا صاحب اس کا یہ مطلب بیان کئے ہیں کہ ’’خدا ایسا نہیں کہ اس گورنمنٹ کو کچھ تکلیف پہنچائے حالانکہ تو ( مرزا صاحب) ان کی عملداری میں رہتا ہے ۔‘‘ وہ اس گورنمنٹ کے اقبال و شوکت میں تیرے (مرزا غلام احمد صاحب ) وجود و دعا کا اثر ہے اور اس کی فتوحات تیرے (غلام احمد صاحب کے ) سبب سے ہے ‘‘ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ’’جدھر تیرا (غلام احمد صاحب کا ) منہ ہے ادھر خدا کا منہ ہے ‘‘ اور دلیل میں فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۝۰ۭ (بقرہ ۱۱۵) ’’پس تم جدھر بھی منہ (رخ) کروگے ادھر اللہ کا رخ ہے ۔‘‘ براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۱ اور عریضہ بخدمت گورنمنٹ حاشیہ ۱۶۹۔

وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۝۰ۤ فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۱۱۵ (بقرہ) ’’ اور مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں جب بھی تم چاہو ‘ تمہارا رخ کسی بھی سمت ہو اپنے رب سے عرض کرنا چاہو تو وہ تمہارے حال پر متوجہ ہوگا۔ بے شک اللہ بڑی وسعت و علم والا ہے ۔‘‘ بگڑے ہوئے دین میں رسومات کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ تحویل ِ قبلہ پر شدید ترین مخالفت کی جانے لگی تو فرمایا گیا کہ مشرق و مغرب کی طرف منہ کرلینا کوئی اصلی و حقیقی نیکی نہیں۔ مشرق کی بجائے مغرب کی طرف منہ کرلینے سے اعمال برباد نہیں ہوتے ۔کیونکہ مشر ق و مغرب تو اللہ ہی کے ہیں ۔ سب سے اہم چیز اللہ کے حکم کی تعمیل کرکے ’’اللہ ‘‘ سے تعلق پیدا کرنا ہے ۔ خط کشیدہ لفظ ’’تولوا ‘‘ جمع کا صیغہ ہے جو غلام احمد صاحب کے جھوٹ کو ظاہر کرتا ہے ۔

۱۴ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اپنے فعل و عمل اور اعلان نبوت میں سچے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت کیلئے منتخب فرمایا تھا۔

مرزا غلام احمد صاحب اپنے دعویٔ نبوت میں قطعی جھوٹے تھے کیونکہ ان کو اللہ کی طرف سے نبی نہیں بنایا گیا بلکہ شیطانی جذبہ انا خیر منہ ( میں اس سے بہتر ہوں) کے تحت اپنے آپ کو نبی بنالیا۔

۱۵ اللہ کے تمام پیغمبر اہلِ باطل کے خلاف فکری و لسانی جہاد کئے ۔ اور ضرورت پڑنے پر مجبوراً قتال بھی کئے اور یہی تعلیم اپنی امتوں کو دیتے رہے ۔ چنانچہ جہاد کو دین اسلام میں سب سے بڑی عبادت قرار دیا گیا ہے ۔

مرزا صاحب نے اہل باطل بالخصوص حکومت برطانیہ کے خلاف جہاد کے حکم الٰہی کو منسوخ کرکے جہاد کرنے کو حرام قرار دے دیا ہے چنانچہ ان کی بیعت کے شرائط میں ایک اہم و بنیادی شرط ترک جہاد ہے ۔

۱۶ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو بھی نبی بنایا تو اس کی طرف یا تو راست وحی فرمایا یا پردہ کے پیچھے سے خطاب فرمایا یا فرشتہ کے ذریعہ وحی بھیجا ۔ (شوریٰ آیت ۵۲)

مرزا صاحب نے کثرت مکالمہ اور مخاطبت الٰہی کا نام نبوت رکھ لیا حالانکہ بہت سے دینی رہنمائوں نے بھی اپنے ملہم ہونے اور اللہ سے بات کرنے کی بات کہی ہے لیکن اپنے نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔۔۔ نبی کریم ؐ کے بعد ہر دعویدار نبوت کو جھوٹا ہی قرار دیا اس لحاظ سے بھی مرزا صاحب اپنے دعویٔ نبوت میں جھوٹے ہیں۔

۱۷ اللہ کے جس پیغمبر پر بھی وحی الٰہی نازل ہوتی تھی تو پیغمبر اسی وحی کو عوام کے سامنے پیش کرکے دعوت دیتے تھے۔

مرزا صاحب انبیاء کے طریقہ کے خلاف عوام کے سامنے قرآنی آیات سے اپنی من مانی تفسیر کے ذریعہ اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اگر واقعی وہ نبی ہوتے تو ان پر نازل شدہ وحی کو پیش کرتے ۔ اس لحاظ سے بھی دعویٰ نبوت جھوٹا ہے ۔

۱۸ اللہ کے تمام پیغمبر اللہ کی وحی کو عوام کے سامنے پیش کرتے تھے ۔

مرزا صاحب اپنے پر نازل شدہ وحی جس کا نام ’’کتاب المبین ‘‘ اور ’’تذکرہ ‘‘ رکھ لیا گیا ہے ‘ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا بلکہ پوشیدہ رکھا ۔ جو ان کی فریب کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

۱۹ اللہ کے نبی کی امت میں نبی کی وفات کے فوری بعد کوئی گروہ یا جماعت ایسی پیدا نہیں ہوئی جو اپنے نبی ہی کی نبوت کا انکار کرے ۔

قادیانیوں میں پانچ بڑے فرقے ہیں ۔ احمدی لاہوری ‘ دیندار ‘ حقیقت پسند ‘ تما پوری ‘ قادیانی۔ صرف قادیانی فرقہ ہی مرزا صاحب کو نبی مانتا ہے دوسرے ان کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔

۲۰ اللہ کے ہر پیغمبر نے انسانوں کو رب کے بندے بننے کی دعوت دی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ؐ کو بار بار داعیا الی اللہ ( اللہ کی طرف بلانے والا ) کہا گیا۔نوٹ ۱۱؎

مرزا غلام احمد صاحب کی پوری تعلیمات صرف اپنی شخصیت کے اطراف گھومتی ہے جو ان کے جھوٹے ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

نوٹ ۱۱؎ : مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۝۷۹ۙ وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا۝۰ۭ اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۸۰ۧ (آل عمران ) ’’کسی بشر کا یہ کام نہیں کہ اللہ تو اس کو کتاب و حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جائو ۔ بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ رب کے سچے بندے بنو ۔ جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا بنیادی تقاضہ ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو ۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو اور پیغمبروں کو اپنا حاجت روا مانو ۔ کیا ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جبکہ تم اللہ کے مطیع و فرمانبردار ہو۔ ‘‘

۲۱ مریم ؑ کی پیدائش عام قانون طبعی کے تحت ہوئی ہے جس کو آل عمران آیت ۳۵ تا ۳۷ میں بیان کیا گیا ہے۔

مرزا صاحب خود مریم بن جاتے ہیں ۔

نوٹ ۱۲؎ : ’’سوچو کہ خدا جانتا تھا کہ اس نکتہ پر علم نہ ہونے سے یہ دلیل ضعیف ہوجائے گی اس لئے گو اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے کہ دو سال تک صفت مریم میں ‘ میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشونما پاتا رہا ۔ ‘‘ ( کشتی نوح : صفحہ ۴۸)

۲۲ عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا واقعہ آلِ عمران آیت ۴۵ تا ۵۱ اور سورہ مریم آیت ۱۶ تا ۳۶ میں بیان کیا گیا ہے جو قانون الٰہی کے بجائے قدرتِ الٰہی کے تحت ہے۔

مرزا صاحب کی عیسیٰ ؑ ابن مریم بننے کی تفصیل خود ان کی زبانی ملاحظ ہو۔

نوٹ ۱۳؎ : ’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینوں کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ الہام جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ بس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا اور خدا نے براہین احمدیہ کے وقت اس سرِ خفی کی مجھے خبر نہ دی ‘‘۔ ( کشتی نوح صفحہ ۴۸)

۲۳ قیامت کے قریب عیسیٰ ؑ دوبارہ کسی کے بطن سے پیدا نہیں ہوں گے بلکہ آسمان سے نازل ہوں گے جس کا ذکر آل عمران ۴۶ ‘ النساء ۱۵۹ ‘ زخرف ۶۱ میں ہے ۔

مرزا صاحب اپنے آپ کو عیسیٰؑ ابن مریم ثابت کرنے کے لئے کبھی مرد سے عورت اور کبھی عورت سے مرد بننے کی خلا بازیاں ‘ استعارہ کے رنگ میں لگاتے ہیں جس سے نہ پیدا ہونے کی بات ثابت ہوتی ہے اور نہ نازل ہونے کی بات ثابت ہوتی ہے۔

اللہ کے تمام پیغمبر بگاڑ کی اصلاح کیلئے مبعوث کئے گئے ۔

مرزا صاحب اپنے جھوٹے دعویٔ نبوت کے ذریعہ بہت سے سادہ لوح مسلمانوں کو دوزخ کا ایندھن بنائے ہیں۔

مرزا صاحب کی تضاد بیانی

تضاد بیانی کی ایک معمولی سمجھ والے سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی اور اگر وہ کسی غفلت و بھول کی بنا پر ہوجائے تو اس کی تلافی عذر کے ذریعہ ہوسکتی ہے لیکن جو تضاد بیانی عمداً بالخصوص اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لئے کی جائے تو وہ سنگین گناہ ہے کیونکہ تضاد بیانی کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ بیان کردہ دو باتوں میں سے ایک بات یقینی جھوٹ ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ تضاد بیانی کرنے والا دراصل اپنے جھوٹے ہونے کا خود ثبوت فراہم کرتا ہے تو یہ اظہارِ حقیقت ہی ہوگا جو مرزا صاحب پر صد فیصد صادق آتا ہے۔

مرزا صاحب نے ابتدا تو پیری مریدی سے کی اور کشف و الہام کی آڑ لے کر کبھی محدث بنے ‘ کبھی امام زماں ‘ کبھی مجدّد ‘ کبھی مہدی اور کبھی مثیل مسیح ہونے کے دعوے کرتے چلے گئے جس کے لئے انھوں نے کئی باتیں مسلمہ عقائد کے خلاف کہیں اور لکھیں ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اسلام کے مسلمہ عقائد کو بار بار دہرا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ان کا بھی وہی عقیدہ ہے جو عام مسلمانوں کا ہے اور قرآن کو اللہ کا کلام اور نبی کریم ؐ کو آخری نبی مانتے ہیں اور ۱۹۰۱ ؁ء میں اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کردیا تو ان کے مریدین و معتقدین ہی ان کی امّت بنے ۔ مرشد کے مرید ہوتے ہی نبی کو ماننے والے امّتی کہلاتے ہیں۔ مرزا صاحب کو نبی ماننے والے بھی فریب سے کام لے کر اپنے لئے امت کا لفظ استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کو ایک سلسلہ ‘ ایک جماعت ‘ ایک فرقہ ہی کہتے ہیں تاکہ مسلم عوام یہ سمجھتے رہیں کہ ایک نئے نبی کو مان کر بھی وہ امت محمدیہ ہی کے فرد رہتے ہیں۔

قرآن کی جن آیتوں سے نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کو ثابت کرنے کی کوشش کرکے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا لیکن ہر قسم کی نبوت کو صرف اپنی ذات پر ختم کرڈالاجس سے ان کے وہ تمام دلائل جو نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کے سلسلہ میں پیش کئے ‘ خود بہ خود جھوٹ و فریب ثابت ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ فنا فی الرسول (فنا فی المرزا) کے مقام پر اپنے آپ کو فائز سمجھنے والوں میں سے بعض نے مثلاً مولوی یار محمد قادیانی ‘ احمد نور کابلی قادیانی ‘ عبداللطیف قادیانی ‘ چراغ دین جمونی قادیانی ‘ غلام محمد قادیانی ‘ عبداللہ تماپوری اور صدیق دیندار چن بسیشور۱؎قادیانی نے اپنی اپنی نبوت کا جب اعلان کیا اور دلائل وہی پیش کئے جو مرزا صاحب اپنے نبی ہونے کے سلسلہ میں پیش کئے تو قادیانیوں نے ان سب دعویدارانِ نبوت کو جھٹلایا۔

نوٹ ۱؎ : موصوف نے قادیان چھوڑ کر حیدرآباد دکن آصف نگر میں اپنا ڈیرہ جمایا جس کا نام’’خانقاہِ سرورِعالم ‘‘ رکھا گیاہے۔

جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قادیانیوں کا اولین و بنیادی عقیدہ مرزا صاحب کو خاتم النبیین ماننا ہے لیکن یہ اپنے عقائد کو پوشیدہ رکھنے کیلئے کس قدر جھوٹ و فریب سے کام لیتے ہیں ۔ ذیل کے واقعہ سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ قادیانی پیشوا مرزا محمود سے ۱۹۵۳ ؁ء میں پاکستان کی تحقیقاتی عدالت نے جب سوال کیا کہ ’’محمد ؐکے بعد کتنے سچے نبی گزرے ہیں ‘‘ تو جواب میں مرزا محمود نے کہا ’’ میں کسی کو نہیں جانتا مگر اس اعتبار سے کہ ہمارے نبی کریمؐ کی حدیث کے مطابق آپ کے امّت تک میں آپ کی عظمت و شان کا انعکاس ہوتا ہے ۔ سینکڑوں اور ہزاروں ہوچکے ہوں گے۔‘‘ اسی عدالت نے مرزا محمود سے جب یہ پوچھا ’’کہ آیا مرزا غلام احمد کی نبوت اور ان کے دوسرے کئی دعوؤں پر ایمان لانا جزو ایمان ہے ؟‘‘ تو صاف جواب دیا ’’مرزا صاحب کے کسی دعویٰ پر ایمان لانا جزوایمان نہیں ہے ۔‘‘ حالانکہ خود مرزا صاحب نے لکھا ہے ’’ خدائے تعالیٰ نے مجھ سے ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے ‘‘۔ جو شخص میری پیروی نہیں کرے گا اور میری بیعت میں داخل نہ ہوگا اور میرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔‘‘ (الہام مرزا صاحب ۔ مندرجہ تبلیغ رسالت جلد نہم ۲۷)
 

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کی تضاد بیانی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں

۱۔ قرآن کا محرف و مبدل ہونا محال ہے کیونکہ لاکھوں مسلمان اس کے حافظ ہیں ‘ ہزارہا اس کی تفسیریں ہیں ‘ پانچ وقت اس کی آیتیں نماز میں پڑھی جاتی ہیں … قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی پس ان ہی معنوں سے شریعت فرقانی مختتم اور مکمل ٹھہری ۔ پہلی شریعتیں ناقص ہوئیں اور قرآن شریف کے لئے اب یہ ضرورت پیش نہیں کہ اس کے بعد اور کتاب بھی آئے چونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں ۔ ( براہین احمدیہ صفحہ ۹ اور صفحہ ۱۱۰)

’’وحی رسالت بجہت عدم ضرورت منقطع ہے۔ (براہین احمدیہ صفحہ ۱۵) پس ثابت ہوا کہ آنحضرت حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔‘‘

’’کیا تو نہیں جانتا کہ پروردگار رحیم و صاحب فضل نے ہمارے نبی ؐ کا بغیر کسی استثناء کے خاتم النبیین نام رکھا اور ہمارے نبی نے اہل طلب کے لئے اس کی تفسیر اپنے قول ’’لانبی بعدی ‘‘ میں واضح طور پر فرمادی اور اگر ہم اپنے نبی کریم ؐ کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز قرار دیں تو گویا ہم بابِ وحی بند ہوجانے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے اور یہ صحیح نہیں ہے۔

۱۔ ’’ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے ۔ یہودیوں ‘ عیسائیوں اور ہندوئوں کے دین کو ہم مردہ کہتے ہیں تو اسی لئے کہ ان میں اب کوئی نبی نہیں ہوتا ۔ اگر اسلام کا بھی یہی حال ہوتا تو پھر ہم بھی قصہ گو ٹھیرے ۔‘‘ (ارشاد مرزا غلام احمد مندرجہ اخبار بدر قادیان ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ ؁ء)

’’یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلعم کے وحی الٰہیہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا … اور صرف قصوں کی پوجا کرو بس کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہوسکتا ہے جس میں براہ راست خدا کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا جو کچھ ہیں قصے ہیں …میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی … (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۸۳)

وحی اور الہام کے ایک ہی چیز ہونے پر کافی زور دے کر لکھا کہ اس کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا ہوا ہے ’’کیا سرمایہ خدا کا خرچ ہوگیا یا اس کے منہ پر مہر لگ گئی یا الہام بھیجنے سے عاجز ہوگیا ‘‘ اور رسالت کے متعلق کہا کہ ’’وہ ہر شخض کو مل نہیں سکتی بلکہ حسبِ قابلیت بعض افراد کو ملا کرتی ہے ۔

جیسا کہ مسلمانوں پر ظاہر ہے اور ہمارے رسول ؐ کے بعد نبی کیوں کر آسکتا ہے ۔ درآں حال یہ کہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ فرمادیا ‘‘۔ (حمامۃ البشریٰ صفحہ ۳۴) ’’مجھے کب جائز ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجائوں اور کافروں کی جماعت سے جاملوں۔‘‘(حمامۃ البشریٰ صفحہ ۹۶)

اب سمجھنا چاہئے کہ گو اجمالی طور پر قرآن شریف اکمل و اتم کتاب ہے مگر ایک حصہ کثیرہ دین کا اور طریقہ عبادت وغیرہ کا مفصل اور مبسوط طور پر احادیث سے ہم نے لیا ہے۔ (ازالۃ الاوہام صفحہ ۵۵۶)

حال کے نیچری جن کے دلوں میں کچھ بھی عظمت قال اللہ و قال الرسول کی باقی نہیں رہی یہ بے اصل خیال پیش کرتے ہیں کہ جو مسیح ابن مریم کی آنے کی خبریں صحاح میں موجود ہیں یہ تمام خبریں ہی غلط ہیں شائد ان کا ایسی باتوں سے مطلب یہ ہے کہ اس عاجز کے اس دعویٰ کی تحقیر کرکے کسی طرح اس کو باطل ٹھیرایا جائے۔ ( ایضاً صفحہ ۵۵۶)

یہ امر پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیشن گوئی ایک اول درجہ کی پیشن گوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کیا ہے تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے ۔ (ایضاً ۵۵۷)

غرض یہ بات کہ مسیح جسمِ خاکی کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا اور اسی جسم کے ساتھ اترے گا نہایت لغو اور بے اصل بات ہے۔ صحابہ کا ہرگز اس پر اجماع نہیں ۔ بھلا اگر ہے تو کم سے کم تین یا چار سو صحابہ کا نام لیجئے جو اس بارے میں اپنی شہادت ادا کرگئے ورنہ ایک یا دو آدمی کا نام اجماع رکھنا سخت بددیانتی ہے۔ (ازالۃ الاوہام صفحہ ۳۰۳)

چنانچہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ’’کسی مرے ہوئے کو اللہ نے زندہ کیا ہی نہیں ۔ ‘‘اور کسی کو آسمان پر زندہ اٹھا لئے جانے کا بھی انکار کیا اور نبی کریم ؐ کے معراج میں آسمان پر جانے کی بھی تکذیب کی اور دنیوی جسم کے ساتھ حشر کا بھی انکار کردیا۔

مسلمانوں اور قادیانیوں میں فرق و اختلاف

۱ مسلمان اللہ تعالیٰ کو سُبحان ( ہر نقص و عیب و کمزوری سے پاک ) سمجھتے ہیں۔

قادیانیوں کا خدا مباشرت و مجامعت بھی کرتا ہے ۔ ( اسلامی قربانی صفحہ ۳۴)

۲ مسلمان رسولوں کو معصوم مانتے ہیں ۔

مرزا غلام احمد صاحب ٹانک وائن کے پینے والے اور مخالفین کو گالیاں دینے والے ہیں ۔ (خطوط امام بنام محمد حسین قریشی صفحہ ۔۵ منقول از سودائے مرزا ۳۹؎ و الہام اتھم ۲۱؎

۳ مسلمان کا ایمان ہے کہ نبی کریم ؐ خاتم الانبیاء ہیں۔

قادیانی غلام احمد صاحب کو خاتم الانبیاء سمجھتے ہیں۔ ( حقیقت الوحی صفحہ ۳۹۱)

۴ مسلمان نبی کریم ؐ کے بعد ہر دعویدار نبوت کو جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔

قادیانی سلسلہ نبوت جاری رہنے کے اپنے خود ساختہ عقیدہ کے تحت ہر دعویدار نبی کو سچا نبی ماننے کی بات کہتے ہے لیکن حقیقت میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو خاتم الانبیاء سمجھتے ہیں ۔ ( ایضاً صفحہ ۳۹۱)

۵ نبی کریم ؐ پر جو وحی نازل ہوئی ہے اس کو مسلمان اللہ کی کتاب مانتے ہیں ۔

مرزا صاحب کے الہامات کے مجموعہ کا نام کتاب المبین یا تذکرہ ہے ۔ ( الفضل قادیان مورخہ ۱۵؍ فروری ۱۹۱۹ ؁ ء)

۶ مسلمانوں کا کلمہ لا الٰہ الَّا اللہ محمد رسول اللہ ہے ۔

قادیانیوں کا کلمہ لا الٰہ الا اللہ احمد جری اللہ ہے۔ (المہدی ۴۴؎)

۷ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّ ضِعَ لِنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً ۔(آل عمران۱۹۶) ’’انسانوں کے لئے سب سے پہلا گھر جو مقرر کیا گیا جو بیچ مکہ کے ہے اور برکت والا ہے۔‘‘ مکہ میں جو بیت اللہ ہے وہی سب سے پہلا اور قدیم گھر ہے جو زمین میں انسانوں کے لئے بنایا گیا اور مسلمان اسی کو بیت اللہ مانتے ہیں اور اسی کا حج کرتے ہیں۔

قادیانیوں کا بیت اللہ قادیان ہے چنانچہ مکہ ‘ مدینہ قادیان ہی کے نام قرار دیئے گئے ہیں۔ (در ثمین صفحہ ۵۲)

قادیانیوں کا حج قادیان کے سالانہ جلسہ میں حاضری کا نام ہے (برکات خلافت مجموعہ تقاریر مرزا محمود پسر غلام احمد قادیانی)

۸ مسلمانوں کے لئے جہاد فرض عین ہے ۔

قادیانیوں کے لئے جہاد حرام ہے۔ (تبلیغ رسالت جلد نہم ۳۵‘ ۳۶)

نزول کتاب و بعثت انبیاء کا مقصد

پیغمبر کی بعثت اور کتاب کے نزول کا مقصد بندوں کے لئے سامان ہدایت فراہم کرنا ہے ۔ کتاب کے نزول کیلئے پیغمبر کی ضرورت اس لئے ہے کہ وہ کلام الٰہی سے منشا و مراد الٰہی کو بتائے اور احکام الٰہی پر عمل کرکے نمونہ بندگی انسان کے سامنے رکھ دے تاکہ بندے اختلاف و انتشار سے بچ سکیں اور حشر کے دن سامان ہدایت کی عدم فراہمی کا عذر بھی پیش نہ کرسکیں۔

بعثت انبیاء کا قانون الٰہی

کسی قوم یا ملک میں پیغمبر مبعوث نہ کیا گیا ہو اور اس تک کسی اور قوم یا ملک سے ہدایت الٰہی نہ پہنچ سکی ہو تو نبی مبعوث کرکے کتاب نازل کی جاتی ہے یا کتاب تو نازل ہوئی تھی لیکن انسانوں نے اپنے خیالات اورمو شگافیوں سے اس کو بدل دیا ہو یا نبوی تعلیم و اسوہ اس قدر بگڑ چکا ہو کہ اس کی اصلی صورت و شکل معلوم کرنا جب ممکن نہ رہا تو نبی مبعوث کیا گیا ہے ۔ جیسے بنی اسرائیل یا کافروں نے کتاب ِ الٰہی کو گم کردیا تو نبی مبعوث کیا گیا جو امّت کے لئے کتاب از سر نو مدون کئے۔ جیسے بنی اسرائیل یا کسی نبی کی مدد کے لئے ایک اور نبی مبعوث کیا گیا جیسے موسیٰ ؑ کی مدد کے لئے ہارون ؑ اور یحییٰ ؑ و عیسیٰ ؑ ۔

نزول کتاب و بعثت نبی کا ایک اور اہم و بنیادی مقصد انسانوں کے لئے ایک برادری (امۃ واحدہ ) بننے کا سامان فراہم کرنا ہے ۔ چنانچہ جب بھی کوئی کتاب نازل ہوئی یا نبی مبعوث ہوئے تو مُصَدِّقَ لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ’’ تصدیق کرنے والا اس کا جو کچھ ان کے پاس پہلے سے ہے ‘‘ کے اعلان کے ساتھ ہوئے ہیں۔ یہ اعلان قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے ۔ اسی لئے اللہ کے تمام پیغمبروں اور تمام کتابوں کو ماننا مسلمانوں کے ایمان کی ایک اہم شرط ہے ۔ اور اللہ کی کسی بھی کتاب یا کسی بھی پیغمبر کا انکار کرنا گویا تمام کتب و تمام پیغمبروں کا انکار کرنا قرار دیا گیا ہے ۔ اس لحاظ سے نبی کو ماننے اور نہ ماننے کا معاملہ نہایت ہی اہم و بنیادی معاملہ ہے جو بے حد نازک ہونے کے ساتھ ساتھ شدید نتائج کا حامل ہے ۔ چنانچہ اللہ کے نبی کو ماننے والا مومن ( اگر اس میں برائیاں نہ ہوں تو ) جنتی ۔ اور انکار کرنے والا کافر چاہے اس میں کتنی ہی دوسری خوبیاں کیوں نہ ہوں دوزخی ۔ اسی طرح جھوٹے نبی کو ماننے والا کافر و دوزخی چاہے وہ کتنا ہی پارسا کیوں نہ ہو اور جھوٹے نبی کا انکار کرنے والامومن اگر فرمانبردار ہو تو جنتی ۔ جس سے ثابت ہوا کہ سچے جھوٹے نبی کو ماننے کا معاملہ انسانوں کی ابدی زندگی کا معاملہ ہے ۔ اس کی اسی اہمیت کی بنا پر ہر نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری اپنی اپنی امتوں کو دیئے ہیں۔ چنانچہ آخری نبی کی بعثت سے متعلق موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑکی دی ہوئی خوشخبریاں توریت و انجیل کے محرف ہوجانے کے باوجود اب بھی موجود ہیں۔ اور عیسیٰ ؑاپنی امّت کو آخری نبی کی خوشخبری دیئے ہیں۔ وہ قرآن میں ہے ۔ وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ۝۰ۭ (الصف ۔ ۶) ’’ اور جب عیسیٰ ؑ ابن مریم نے بنی اسرائیل سے کہا اے بنی اسرائیل بلا شبہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے توریت آچکی ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد صرف ایک ہی رسول آنے والے ہیں جن کا نام احمد ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں ۔‘‘ ملحوظ رہے کہ عیسیٰ ؑ کی اس بشارت میں سابقہ پیغمبروں کی تصدیق اور آنے والے پیغمبر کی خوشخبری موجود ہے ۔ اس قانون کی رو سے قرآن کے بعد کوئی اور کتاب نازل اور نبی کریم ؐ کے بعد کوئی اور نبی کو مبعوث کرنا ہوتا تو اس کا ذکر قرآن میں ہونا ضروری تھا ۔ اور نبی کریم ؐ کے ارشادات میں بھی ضرور اس قسم کی پیشین گوئی ہوتی ۔ حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ فرما کر قرآن کو آخری کتاب قرار دے دیا ۔ اور نبی کریم ؐ کو ’’رحمت للعٰلمین ‘‘ اور ’’ خاتم النبیین ‘‘ کا خطاب نہیں بلکہ لقب دے کر اپنی بعثت انبیاء کی سنت کو منسوخ فرمادیا۔ اور نبی کریم ؐ نے اپنے ارشادات ’’لانبی بعدی‘‘ کے علاوہ دیگر ارشادات کے ذریعہ یہ صراحت و وضاحت فرمادی ہے کہ میرے بعد ہر دعویدار نبوت چاہے وہ ظلی ہو یا بروزی ‘ امتی ہو یا غیر امتی یقیناً جھوٹا و فریبی ہے ۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ نزول کتب و بعثت انبیاء کے ذریعہ تمام انسانوں میں اتحاد و اتفاق (عقیدہ و عمل کی یکسانیت ) پیدا کرکے ایک برادری بننے کا سامان فراہم کرنا ہے ۔ چنانچہ دینِِ اسلام کی ایک اہم و بنیادی دعوت بھی یہی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کی نسل و اصل ایک ‘ ان کی ضروریات و خواہشات بھی ایک اور ان کا پیدا کرنے اور پالنے والا بھی ایک ہی ہے جس کا لازمی تقاضہ یہی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کے لئے طریقہ بندگی و زندگی بھی ایک ہی ہو نا چاہئے جو رب العالمین کا مجوّزہ ہونا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام پوری انسانیت کا دین بنتا جارہا ہے جس کی رفتار کبھی سست تو کبھی تیز ہوجاتی ہے ۔ العلیم ‘ الحکیم ‘ رئوف و رحیم ‘ سبحان ‘ رب العالمین کی ہر گز ہرگز یہ شان نہیں کہ بلا وجہ وبلا ضرورت نبی کو مبعوث کرکے نہ صرف بندوں کو ایمان و کفر کی کڑی آزمائش میں ڈالے بلکہ ان تمام امکانات کو بھی ڈائنامیٹ کردے جو آخری کتاب اور آخری نبی کے ذریعہ انسانوں کو ایک امت و برادری بننے کے لئے پیدا ہوچکے ہیں۔

غور کیجئے قرآن کا آخری کتاب ہونا اور محمد مصطفی ؐ کا آخری نبی ہونا اللہ کی کس قدر زبردست رحمت و نعمت ہے جس کی بدولت ہی دنیا کے تمام مسلمان ایک دائمی و عالمگیر برادری بنے ہیں اور بنتے جارہے ہیں ۔ دشمنانِ اسلام ‘ دین اسلام کی اسی آفاقیت میں رخنہ ڈالنے ( یصدون عن سبیل اللہ ) ( اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ) کی غرض سے رہ رہ کر اپنی سی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت بھی اسی مقصد ( یصدون عن سبیل اللہ )کے حصول کی ایک کوشش ہے ۔ مرزا صاحب اپنے خود ساختہ اصول اور اپنے کشف و الہام کی بنیاد پر اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ حالانکہ یہ بنیادیں ان کے دعوے کی دلیل نہیں بن سکتیں ان کا دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے زید ‘ بکر سے مطالبہ کرے کہ تم نے جو قرض مجھ سے لیا ہے وہ واپس کردو کیونکہ یہ بات مجھ پر منکشف ہوئی ہے یا یہ کہے کہ مجھے الہام کے ذریعہ یہ معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ذمہ میری اتنی رقم واجب الادا ہے ۔ اسی لئے انھوں نے قرآن و حدیث کے خلاف اپنے الہام و کشف کی آڑ میں ان کی من مانی تفسیر کرڈالی جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے ۔ ان کے جھوٹ و فریب کو بتانے کے لئے بھی ہزاروں صفحات درکار ہوں گے جن کا پڑھنا عوام کے لئے ممکن بھی نہیں اس لئے سہولت و آسانی کے لئے مرزا صاحب کے وہ عقائد جو وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق رکھتے تھے ‘ ان کے چند نمونے پیش ہیں۔

۱۔ اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب سے کہا ’’ میں نماز پڑھوں گا ‘ روزہ رکھوں گا ‘ جاگتا ہوں اور سوتا ہوں ۔ (الہامات مرزا صاحب ۔ البشریٰ جلد دوم صفحہ ۷۹)

۲۔ تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے ۔ ( حقیقت الوحی ۔ صفحہ ۸۶)

۳۔ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ‘ تیرا ظہور میرا ظہور ہے ۔ ( مکاشفات مرزا صاحب ۔ صفحہ ۶۵)

۴۔ میں تیری حفاظت کروں گا خدا تیرے اندر اتر آیا تو مجھ میں اور تمام مخلوقات میں واسطہ ہے ۔ (کتاب البریہ صفحہ ۷۵)

۵۔ مسیح موعود ( مرزا صاحب ) ایک موقع پر اپنی یہ حالت ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ( اصلاحی قربانی صفحہ ۱۳۴ قاضی یار محمد قادیانی )

۶۔ مرزا صاحب نے کہا ’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں ۔ میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی ہوں (آئینہ کمالات اسلام ۵۶۴ مصنفہ مرزا صاحب )

غور کیجئے کہ مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (شوریٰ ۔ ۱۱) ’’نہیں ہے اس طرح کا سا کوئی‘‘ اَللّٰہُ الصَّمَدٌ ’’اللہ ہر ایک سے بے نیاز ہے‘‘ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۝۰ۭ (المائدہ ۔ ۷۲)’’ یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عین مسیح ابن مریم ہے۔ ‘‘ لَمْ يَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۝۳ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ (اخلاص )’’نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ اسے کسی نے جنا اور جس کے جوڑ کا کوئی نہیں‘‘ اَنّٰى يَكُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ۝۰ۭ (الانعام : ۱۰۱ )’’ اللہ کو اولاد کیونکر ہوسکتی ہے جب کہ اس کی کوئی بیوی ہے ہی نہیں‘‘ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ (الانعام : ۱۰۰)’’ وہ پاک اور برتر ہے ان تمام باتوں سے جو اس کی شان کے خلاف لوگ بیان کرتے ہیں ‘‘ کا کس طرح مذاق اڑایا ہے۔ جس کا اللہ رب العزت سے بے خوفی کا یہ عالم ہو تو اس کو ’’انا النبی ‘‘( میں نبی ہوں ) کہنے سے کیا چیز روک سکتی ہے۔

انسان کے دل و دماغ میں جب دنیا رچ بس جاتی ہے تو وہ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ (سورہ التین ۔۵)’’پستی کی حالت سے بھی زیادہ پست تر‘‘سے بھی آگے بڑھ کراپنے رب کا باغی و سرکش بننے میں شیطان کو بھی مات کردیتا ہے۔

مرزا غلام احمد احب کی تصانیف کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ اللہ کے وجود ہی کو نہیں مانتے تھے تو یہ ایک حقیقت واقعہ کا اظہار ہی ہوگا۔ جس کا ایک کھلا ثبوت ان کا حشر سے انکار ہے۔کے مطابق برسر باطل ‘ کذاب و دجال ہونا ایک ایسا حقیقت واقعہ بن چکا ہے جس کا انکار ممکن نہیں ۔ جب پیر و مرشد ہی برسر باطل ‘ کذاب و دجال تھے تو پھر ان کے متبعین کیسے برحق ہوسکتے ہیں ۔ آپ کے مباہلہ کو قابل اعتنا سمجھنا آزمودہ را آزمودن جہل است ‘ ہی نہیں بلکہ گمراہی ہے ۔ آپ کا چیلنج مباہلہ ۔ ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مترادف ہے ۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
ڈاکٹر صاحب کیا یہ کوئی کتاب ہے ؟ یا پھر آپ کے مضامین ہیں مجھے اس کے بارے بتائیں کیوں کہ آپ کی لڑیاں مناسب زمرہ میں نہیں لگیں میں ان کو مناسب زمرہ میں منتقل کرنا چاہتا ہوں
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
میرے بھائی میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ فاروق درویش صاحب کی تحریریں یہاں پر پہلے سے موجود ہیں ۔۔۔ اس لیے ان کو نہ لگائیں وہ تحریریں میں یہاں فورم پر لگا چکا ہوں ۔۔۔ اور پوسٹنگ کرتے وقت صحیح سیکشن کا انتخاب کیا کریں ۔ آج آپ نے 7 پوسٹس کی ہیں اور ساری کی ساری کو قرآن مجید کے ایک ہی سیکشن میں لگا دیا ہے ۔۔۔ آپ مجھے بتائیں گے کہ ان پوسٹس کا قرآن مجید کے سیکشن سے کیا تعلق ہے؟؟؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ ان پوسٹس کا قرآن مجید سے کیا تعلق ہے ۔۔۔۔ جبکہ آپ کی ان تمام پوسٹس کا صحیح سیکشن قادیانیت ہے۔ اور جو آپ پوسٹ لکھتے ہیں اس کی فارمیٹنگ بھی کیا کریں تاکہ پوسٹ خوبصورت نظر آئے۔
فلحال میں آپ کی پوسٹس کو منتقل کر رہا ہوں قادیانیت کے سیکشن میں ۔۔۔ نیکسٹ ٹائم حزف کرنے کی صورت میں ہم ذمہ دار نہ ہوں گے ۔ شکریہ
ڈاکٹر صاحب کیا یہ کوئی کتاب ہے ؟ یا پھر آپ کے مضامین ہیں مجھے اس کے بارے بتائیں کیوں کہ آپ کی لڑیاں مناسب زمرہ میں نہیں لگیں میں ان کو مناسب زمرہ میں منتقل کرنا چاہتا ہوں
یہ فاروق درویش صاحب کی تحریریں ہیں جو کہ میں پہلے بھی ختم نبوت فورم پر لگا چکا ہوں ۔۔۔ اور ان کی بعض تحریروں میں موجود حوالہ جات بھی درست نہیں ہیں۔ قادیانیت والے سیکشن میں جو شروع شروع میں میری پوسٹس لگی تھیں وہ یہی تحریریں تھیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اور محترم @ڈاکٹرفیض احمدچشتی صاحب آپ کی ان تینوں پوسٹس کو اکٹھا کر دیا گیا ہے ۔ تاکہ ضرورت کے وقت مواد ایک ہی جگہ سے حاصل کیا جاسکے۔
فتنہ قادیانیت قرآن و حدیث کی روشنی میں اور مرزا کذّاب اعظم کی کذب بیانیاں و کفریات حصّہ اوّل
فتنہ قادیانیت قرآن و حدیث کی روشنی میں اور مرزا کذّاب اعظم کی کذب بیانیاں و کفریات حصّہ دوم
فتنہ قادیانیت قرآن و حدیث کی روشنی میں اور مرزا کذّاب اعظم کی کذب بیانیاں و کفریات حصّہ سوم
 

ڈاکٹرفیض احمدچشتی

رکن ختم نبوت فورم
ڈاکٹر صاحب کیا یہ کوئی کتاب ہے ؟ یا پھر آپ کے مضامین ہیں مجھے اس کے بارے بتائیں کیوں کہ آپ کی لڑیاں مناسب زمرہ میں نہیں لگیں میں ان کو مناسب زمرہ میں منتقل کرنا چاہتا ہوں
قبلہ شاہ صاحب یہ مضامین ہیں مجھے گائیڈ فرما دیں کہ لڑی کہاں ارسال کیا کروں جہاں آپ مناسب سمجھیں وھاں ایڈجسٹ فرما دیں جزاک اللہ خیرا
 
Top