ڈاکٹرفیض احمدچشتی
رکن ختم نبوت فورم
فتنہ قادیانیت قرآن و حدیث کی روشنی میں اور مرزا کذّاب اعظم کی کذب بیانیاں و کفریات خود مرزا کی کتابوں سے ثبوت حاضر ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ انسانوں کا خالق و رب ہے اور رب ہی کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی تمام ضروریات کی تکمیل کا سامان فراہم کرے ۔ چنانچہ مادی ضرورتوں کے لئے کائنات بنایا ۔ اور ان کی سب سے اہم و بنیادی ضرورت یعنی ہدایت و رہنمائی کے لئے آدم ؑ تا عیسیٰ علیہم السّلام تک دنیا کے ہر ملک ‘ علاقے اور قوم میں پیغمبر مبعوث کرکے کتابیں نازل فرماتا رہا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ۰ۚ …… سورہ یونس ۴۷ اور ہر اُمَّت کے لئے رسول ہے ۔
وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ۷ۧ ……… سورہ رعد ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔
اور ہدایت و رہنمائی کے سامان کی حفاظت اہل ایمان ہی کے ذمہ رکھی ۔
بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللہِ …… سورہ المائدہ ۴۴ (بوجہ اس کے کہ ان کو کتاب اللہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا )
جب عیسیٰ ؑ پر ایمان لانے والے بھی کتاب اللہ کی حفاظت نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ’’القرآن‘‘ جس کی قیامت تک حفاظت کرنے کا وعدہ کرکے نازل فرمایا اور اپنے اس وعدہ حفاظت کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ قرآن میں پیغمبروں ‘ صالحین ‘ محسنین ‘ متقین ‘ مصلحین ‘ عباد الرحمن ‘ طالبانِ آخرت و طالبانِ دنیا ‘ کافر و مومن ‘ فرمانبردار و نافرمان ‘ مفسدین اور سرکشوں کے اعمال بیان کرتے ہوئے ہدایت و گمراہی ‘ علم و جہل‘ اصلاح و بگاڑ ‘ اچھائی و برائی ‘ منکر و معروف ‘ نیکی و بدی ‘ اتفاق و اختلاف ‘ ضد و ہٹ دھرمی ‘ ایثار و خود غرضی ‘ بخل و سخاوت ‘ غرض انسان کے ہر اچھے و برے جذبات و خواہشات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے دنیوی و اخروی ‘ عارضی و ابدی انجام کو اپنے قانون جزا کی روشنی میں تفصیل سے بیان فرمادیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا۰ۭ (سورۃ الانعام : آیت ۱۱۴)( وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اتاری ہے ) تَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ … (سورہ یونس : ۳۷) کتاب میں تفصیل کردیا ہے ۔ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ … (سورہ یوسف ۱۱۱) اور (کتاب میں ) ہر چیز کی تفصیل ہے۔ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ (سورۃ النحل ۸۹ ) ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والی کتاب ۔
اور قرآن کو علم کی کتاب فرمایا ہے۔ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ (سورہ النسآء ۱۶۶ )اس کو اتارا اپنے علم کے ساتھ۔ فَصَّلْنٰہُ عَلٰي عِلْمٍ (سورۃ الاعراف ۵۲ )( اس میں ہم نے علم کی تفصیلات دی ہیں) اور یہ بھی بتادیا کہ علم کی باتوں میں تضاد نہیں ہوتا ۔ اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۸۲ (سورۃ النساء ) کیا پس تم قرآن کی باتوں پر غور نہیں کرتے اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں اختلاف کثیر (تضاد بیانی ) ضرور ہوتا ۔ اور یہ طمانیت بھی فرمادی کہ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے ۔
وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا …(سورۃ الکہف ۱ )اور اس میں کسی بھی قسم کی کوئی کجی نہیں رکھی) اور یہ قطعی اعلان بھی فرمادیا کہ : اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (سورۃ المائدہ ۔ ۳ )آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور میں نے اسلام ( اطاعت و فرمانبرداری) کو تمہارے لئے طریقہ زندگی کی حیثیت سے پسند کرلیا ۔
اس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ دین میں اب کسی قسم کی کمی یا اضافہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان تیقنات کے ساتھ ساتھ اللہ نے اپنی آخری کتاب کو محمدؐ پر نازل فرماکر آپؐ کو آخری نبی بنایا ہے اسی لئے آپؐ کو رحمۃ للعٰلمین فرما کر قیامت تک کے لئے ہر قسم کی نبوت کا دروازہ قطعی طور پر بند فرمادیا ۔ آپؐ کے رحمۃ للعٰلمین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت الٰہی کا مستحق بننے کا واحد صحیح طریقہ آپ کے ذریعہ ہی بندوں تک پہنچادیا گیا۔ چنانچہ اس کا ثبوت ان آیات سے ملتا ہے :
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃ ٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِیْدًا۴۱ۭ۬ ( النساء)(اس وقت کا تصور کرو جب کہ ہر امت میں سے ہم ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ان سب پر (اے نبیؐ ) تم کو گواہ بنائیں گے )
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ شَہِيْدًا عَلَيْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَہِيْدًا عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ۰ۭ (سورہ نحل ۔۸۹) ( اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک فرد کو جو ان ہی میں کا ہوگا ان پر گواہ ہوگا اور ان تمام گواہوں پر تم کو گواہ بنائیں گے )
مذکورہ بالا دو آیتوں سے صرف نبی کریم ؐ ہی کا آخری نبی ہونا قطعاً ثابت ہے ۔ آپ کے بعد کوئی اور نبی یا آخری نبی مبعوث کیا جانے والاہوتا تو اس کا تذکرہ قرآن میں لازماً ہوتا اور یہ آیتیں ہرگز نازل ہی نہیں ہوتیں کیونکہ تضاد و خلاف بیانی سے قرآن قطعی پاک ہے اس کے علاوہ : قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا …(سورہ الاعراف ۔۱۵۸)(اے نبی ! اعلان کردیجئے کہ اے تمام انسانو ! میں تم سب کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ ) وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا (سورہ سباء ۲۸)( اور ہم نے اے نبی ؐ ! آپؐ کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری دینے اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔ ) اس کے علاوہ سورہ النساء آیت ۷۹ ‘ سورہ الحج آیت ۴۹ میں بھی آپ کے آخری نبی ہونے کی بات بیان ہوئی ہے۔ اور وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۰ۭ (سورہ احزاب ۔۴۰)(مگر وہ (محمدؐ) اللہ کے رسول اور نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں) کے ذریعہ اپنے قانون بعثت انبیاء و رُسل کی منسوخی کا اعلان فرمادیا ۔
ہر قسم کی گمراہی سے بچنے کے لئے یہ وعید بھی سنادی۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۲۱ (الانعام ) (اس سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹی باتیں گھڑے اور اللہ کی باتوں کو جھٹلائے بلاشبہ ایسا ظلم کرنے والے ہرگز فلاح نہیں پاسکتے ) اس وعید کو بے حد تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ الاعراف آیت ۲۷‘ یونس آیت ۱۷‘ ۶۹ اور سورہ ھود آیت ۱۸ میں اس انجا م بد سے بچنے کے لئے ہدایت فرمائی گئی کہ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ اِلَّا الْحَقَّ۰ۭ (سورہ انساء: ۱۷۱)( اللہ کے متعلق حق کے سوا کوئی بات مت کہو) اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِہٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۹۳ (سورہ انعام) (آج تم کو بدلہ دیا جائے گا دوزخ کے عذاب کا اس وجہ سے کہ تم اللہ کے متعلق غیر حق بات کہتے تھے اوراُس کی آیتوں کے مقابلہ میں اپنی غلط باتوں کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔) اور بتایا گیا کہ شیطان تم کو اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرہ ۔۱۶۹) یہ کہ اللہ کے ذمہ وہ باتیں کہو جن کو تم نہیں جانتے ۔) کی باتیں سکھاتا ہے اور اعراف آیت ۳۳ : قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (آپ فرمادیجئے کہ میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ ہر قسم کی فحش باتوں کو حرام کردیا ہے )میں اللہ کے متعلق بلا دلیل و بلا سند باتیں کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ و رسول کی پوری تعلیمات کا واحد مقصد اور نچوڑ بندوں میں ابدی زندگی کی فکر اور انابت الی اللہ یعنی حنیفیت پیدا کرنا ہے ۔
مندرجہ بالا ارشاداتِ الٰہی سے قطعاً ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن کے کسی لفظ یا آیت کا یا کسی حدیث کا کوئی ایسا مفہوم و مطلب ہوہی نہیں سکتا جو پیغمبروں اور عباد الرحمن کے اسوہ اور قرآن کی بنیادی تعلیم کے ضد یا خلاف ہو۔
ان حقائق کے باوجود اللہ و رسول کی تعلیمات سے اگر کوئی غلط معنی و مفہوم لیتا ہو تو اس کے متعلق صرف دو ہی باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کی فہم و فکر نے ٹھوکر کھائی ہے یا وہ نہایت جھوٹا ‘ فریبی اور شیطان ہے۔
یہی وہ حقائق ہیں جن کی بناء پر ہر مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک یا کسی بھی قوم سے ہو ‘ یہ ایمان یقین رکھتا ہے کہ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے اور محمد مصطفی ؐ ‘اللہ کے آخری نبی ہیں کیونکہ آپ کی تعلیمات بھی حفاظت قرآن کے تحت محفوظ ہیں ۔ اس لئے آپ ؐ کے بعد کسی بھی قسم کے نبی کی ضرورت نہیں۔ ان حقائق کے باوجود کسی پر کسی طرح بھی وحی ٔ نبوت نازل ہونے کو ماننا اللہ کو جھوٹا قرار دینا ہے۔
مرزا غلام احمد کے خاندانی حالات
مرزا صاحب کے جدِّ اعلیٰ سمر قند سے دہلی آئے تھے ان کو بہت سے دیہات جاگیر میں دیئے گئے۔ شہنشاہ بابر کے بعد جب مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی تو انھوں نے اپنی فوجی طاقت کو بڑھا کر بہت سے علاقوں کو قبضہ میں کرلیا۔ مرزا صاحب کے پردادا مرزا گل محمد صاحب سکھوں سے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور ہر دفعہ کامیاب رہے لیکن ان کے فرزند مرزا عطا محمد صاحب کے ہاتھ سے سوائے قادیان اور چند دیہات کے سارا علاقہ نکل گیا اور سکھوں کے جبر و ظلم سے ان کو اپنا مستقر بھی چھوڑنا پڑا ۔ کافی زمانے کے بعد مرزا صاحب کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب دوبارہ قادیان میں جابسے ۔ جن کو ان کے حصہ جدّی سے حکومت برطانیہ نے قادیان اور تین گائوں دیئے ۔ گورنر کے دربار میں ان کو بیٹھنے کے لئے کرسی ملتی تھی جنھوں نے انگریزوں کا حق نمک غدر میں کمپنی کو پچاس 50 گھوڑے سوار مہیا کرکے ادا کیا۔
مرزا صاحب کے دل میں اپنے جَدِّاعلیٰ کی طرح کسی بڑے علاقہ کے رئیس بننے کی تمنا ہونا ایک فطری بات تھی ۔ ہندوستان پر حکومت برطانیہ کا تسلط ہوجانے کے بعد ان کی تمنا کے پورے ہونے کے امکانات قطعی ختم ہوچکے تھے ۔ مرزا صاحب جیسے ذہین و چالاک کے لئے بغیر جدوجہد کئے حالات موجودہ پر قانع ہوجانا ممکن نہ تھا اس لئے انھوں نے سیاسی میدان کے بجائے مذہبی میدان میں اپنی قسمت آزمائی شروع کی ۔ اور یہی ایک ایسا واحد ذریعہ تھا جس سے نہ صرف عزت و شہرت و دولت بلکہ احترام بھی حاصل ہوسکتا تھا ۔ سب سے پہلے ہندوستان کے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ۔ بالخصوص خدائی اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے حالات اور ان کے ہتھکنڈوں سے خوب آگاہی حاصل کی۔
مرزا صاحب کے کارنامے
مرزا صاحب کے مشاہدہ میں تھا کہ جب بھی کوئی نیا مذہب یا سلسلہ نکلتا ہے تو دیگر مذاہب سے نہ سہی مگر مسلمانوں میں سے کچھ نہ کچھ لوگ اس کی طرف مائل ہو ہی جاتے ہیں اور ایسا ہونا اپنے مذہب سے محض جہل کی بنا پر ہی ہوتا ہے ۔ مرزا صاحب جانتے تھے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی ایک عظیم اکثریت اپنے دین سے محض کوری ہے ۔ مسلمانوں کی اس کمزوری سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کا انھوں نے فیصلہ کیا ۔ چنانچہ سب سے پہلے سلسلہ قادریہ ‘ چشتیہ کی طرح اپنا ایک نیا سلسلہ عالیہ احمدیہ قائم کیا ۔ اس طرح مسلمانوں میں سے اپنے مرید فراہم کرلئے اور عام مسلمانوں کی ہمدردیاں و عقیدت اور ساتھ ہی دولت حاصل کرنے کے لئے ایک شاطرانہ چال یہ چلی کہ ایک کتاب ’’مسمیٰ بہ براہین احمدیہ علی ٰ حقیقت کتاب اللہ و النبوہ المحمدیہ ‘‘ لکھی جس میں قرآن کے آخری کتاب الٰہی ہونے اور نبی کریم کے آخری نبی ہونے اور مسلمانوں کے اسلام پر ثابت قدمی کی تعریف کرتے ہوئے حسبِ ذیل ایک اشتہار بھی دے دیا :
’’ میں مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بواعدہ انعام دس ہزار روپے بمقابلہ جمیع ارباب مذاہب وملت کے جو حقانیت قرآن مجید اور نبوت محمدؐ سے منکر ہیں ۔ اتماماً للحجَّۃ شائع کرکے اقرار کرتا ہوں کہ اگر کوئی حسب شرائط مندرجہ اس کو رد کردے تو اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپے پر قبض و دخل دے دوں گا ۔ ‘‘
اور یہ تصریح کی کہ کتاب آریہ برہمو سماج کے خلاف لکھی گئی ہے جو وحی و نبوت کے منکر ہیں جس سے مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ مرزا صاحب اسلام کی طرف سے غیر مسلموں سے برسر مقابلہ ہیں چونکہ حریف کو مرعوب کرنے کے لئے لڑائی میں دھوکہ جائز کے تحت خلاف حقیقت واقعہ بیان کردینا شرعاً و عقلاً ناجائز نہیں ہے اس لئے ان کی یہ کتاب ایسی مقبول ہوئی کہ لوگ تین چار روپے والی کتاب کو پچیس پچیس روپے دے کر خریدے ۔ اس کے علاوہ مال دار حضرات نے طباعت کے لئے کثیر رقومات دیں۔ اس طرح مرزا صاحب ایک طرف تو کثیر رقم کے مالک بن گئے دوسرے بہت سے مسلمانوں کو اپنا معتقد بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ تیسرے اپنی نبوت کے لئے میدان ہموار کرلیا کہ کسی کو اس کے رد کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ چنانچہ اس میں نفس الہام اور مطلق نبوت کی بحث چھیڑ دی۔ اور وحی نبوت اور الہام کو ایک ہی چیز ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ الہام ‘ کشف اور مکالمہ الٰہی کو نبوت کا نام دیا۔ ان کی ان لاف زنیوں کی تردید و نفی اس لئے نہیں کی جاسکتی تھی کہ تصوف اور سلوک اولیائی کے حامل دینی رہنما و بزرگ بھی اپنے صاحبِ الہام و صاحب ِ کشف ہونے اور اللہ سے بات کرنے کے مدعی تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مرزا صاحب نے تصوف ‘ سلوک اولیائی کے اصطلاحات کو ذریعہ بناکر دین اسلام کے مسلمہ بنیادی عقائد کو ڈائنمٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرزا صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ابتداء ہی میں اگر وہ اپنی مستقل نبوت کا دعویٰ کرتے تو کوئی مسلمان بھی ان کے دعوے کو تسلیم نہیں کرسکتا تھا۔ اس لئے ابتداً ظلی ‘ بروزی کا لبادہ بظاہر اوڑھے رہے اور ان کی مستقل نبوت کی راہ میں جو چیزیں مانع و مزاحم تھیں یعنی قرآن و حدیث اس میں اپنے الہام و کشف کے نام پر من مانی تحریف و تفسیر کرڈالی۔ قرآنی آیات کا حسب مرضی معنی و مفہوم متعین کرنے کے لئے براہین احمدیہ کے صفحہ ۱۳۹ میں یہ قاعدہ لکھا کہ کشف سے معنیٰ قرآن نئے طور پر کھلتے ہیں تو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور حدیث لانبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کے بعد ’’الّا نبی ظلی ‘‘ (سوائے نبی ظلی کے ) بڑھا دیا ۔ اور ساٹھ جزوں پر مشتمل ہزاروں صفحات کی کتاب بنام ’’ازالۃ الاوہام ‘‘ لکھ ڈالی جس میں انھوں نے اپنے آپ کو مسیح موعود ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ان کا یہ دعویٰ دو باتوں پر موقوف تھا ایک عیسیٰ ؑ کی موت کا ثبوت ۔ دوسرا مرزا صاحب کا خدا کی طرف سے مامور ہونا ۔ اس کے لئے مرزا صاحب مفسرین پر بے حد خفا ہیں چنانچہ صفحہ ۷۲۶میں لکھتے ہیں کہ کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے مولویوں کو بہت خراب کیا ہے۔
جھوٹے نبی سے دلیل پوچھنا یا سننا یا بیان کرنا اگرچہ کفر ہے لیکن عوام کو ان کے فریب سے بچانے کے لئے ان کے دلائل کے غلط و جھوٹ ہونے کو واضح کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے ان کے اہم دلائل کا جائزہ پیش ہے ۔
۱۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ (سورہ فاتحہ ۔۶) ( ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا۔) انعام یافتہ بندوں کی تفصیل وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۶۹ۭ (سورہ النساء ) ( جو کوئی اللہ اور رسول ؐ کی اطاعت کرتا رہے گا پس ایسے ہی لوگ آخرت میں ان حضرات کے ساتھ رہیں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا جو نبیوں ‘ صدیقوں ‘ شہداء اور صالحین میں سے ہیں اور جو بہترین ساتھی ہیں۔ )
اس آیت سے مرزا صاحب نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ صدیق کی راہ پر چل کر کوئی بھی صدیق ہوسکتا ہے ‘ شہید کی راہ اختیار کرکے شہید بن سکتا ہے اور صالح کے طریقے کو اپنا کر صالح بننا ممکن ہے بالکل اسی طرح نبی کی راہ پر چل کر کوئی بھی نبی بن سکتا ہے۔
چنانچہ مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی کی راہ پر چل کر نبی بنے ہیں۔ مرزا صاحب اپنے اس شیطانی اصول کو صرف نبوت کی حد تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اللہ کی راہ پر بھی چل کر وہ خود اللہ بننے کی بات بھی کہہ چکے ہیں۔ حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ (فاتحہ۔۶) (ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔) بندے کی دعا کا ایک جز ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے التجا کرتا ہے کہ اے رب تیرے انعام یافتہ بندے انبیا ‘ صدیقین ‘ شہداء‘ صالحین جس طرح مرتے دم تک تیری اطاعت کرتے رہے اور آخرت کی فلاح کے لئے دنیا کی ہر تکلیف و نقصان بخوشی برداشت کرتے رہے اور دامے ‘ درمے سخنے تیرے دین کی اشاعت و تبلیغ کرتے رہے دنیا میں اسی طرح زندگی بسر کرنے کی مجھ کو بھی توفیق و ہمت عطا کر۔ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ (النساء : ۶۹) (اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کرتا رہے گا پس ایسے ہی لوگ ا ن کے ساتھ رہیں گے۔) وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا(النساء :۶۹) ( اور جو بہترین ساتھی ہیں ) ۔ یہ خط کشیدہ الفاظ علانیہ بتارہے ہیں کہ اللہ و رسول ؐ کی اطاعت کرنے والاآخرت میں اللہ کے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ رہے گا نہ کہ وہ انعام یافتہ بندوں کی طرح انعام یافتہ ہوجائے گا ۔ چنانچہ امت محمدیہ ؐ کے سابقون الاولون اور جن کو دنیا ہی میں رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۰ۭ ( المائدہ ۱۱۹ ‘ توبہ ۱۰۰ ‘ المجادلہ ۲۲‘ البینہ ۸) جن سے اللہ دنیا میں راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔) کی خوشخبری سنادی گئی تھی۔
ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں صدیق ہوں ‘ شہید ہوں ‘ صالح ہوں یا ہوگیا ہوں کیونکہ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے لحاظ سے حشر کے دن فرمائے گا نہ کہ دنیا میں اور نہ اس کا فیصلہ کرنا بندوں کے اختیار میں ہے چنانچہ یہ حضرات مرتے دم تک معافی اور بخشش کی درخواست ہی کرتے رہے۔ لیکن نبی کا معاملہ بالکل اس کے برخلاف ہے کیونکہ دنیا ہی میں اسے نبی کی حیثیت سے مبعوث کیا جاتا ہے اور نبوت اعمال کی بناء پر نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے تحت عطا فرماتا ہے۔ اس لئے نبی کی راہ اختیار کرکے نبی بن جانے کی بات محض شیطانی بات ہے۔
ملاحظہ ہو کہ جس اصول سے مرزا صاحب نبی بننے کے دعویدار ہیں اس کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھ کر آئندہ کے لئے منسوخ قرار دے دیا ۔ اس طرح اپنے اخذ کردہ اصول کے غلط و جھوٹ ہونے کو خود ہی ثابت کردیا ۔ اس طرح خود اپنے دعویٔ نبوت میں جھوٹے ہونے کا ثبوت فراہم کردیا۔
(۲) نبی کریم ؐ کے بعد بھی نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کے سلسلہ میں يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۰ۙ … (سورہ اعراف : ۳۵) ’’اے اولادِ آدم ! جب کبھی تمہارے لئے رسول کی ضرورت ہوگی وہ تم ہی میں سے تمہارے پاس آتے رہیں گے ۔ میرے احکام تم سے بیان کرتے رہیں گے۔‘‘ پیش کی جاتی ہے اور مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جب تک بنی آدم دنیا میں موجود رہیں گے ان میں بگاڑ پیدا ہوتا رہے گا جس کی اصلاح کے لئے رسول مبعوث کئے جاتے رہیں گے ۔ یہ قطعاً غلط اور تفسیر بالرائے ہے۔ کیونکہ اس آیت کا تعلق بندوں کے اپنے پیدا کردہ بگاڑ سے نہیں ہے بلکہ اللہ و رسول کی تعلیمات کے بگڑ جانے سے ہے جس کو فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۸ (سورہ البقرہ) ( بس جب کبھی تم کو ہدایت کی ضرورت ہوگی تو تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آتی رہے گی پس جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا بس ایسوں ہی کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ) میں بھی بیان کیا گیا ہے جس میں لفظ رسول کی بجائے ھدًی آیا ہے ۔ یہ دونوں آیات جو ایک دوسرے کی تفسیر ہیں ‘ کا تعلق نفسِ دین کی اصل و صحیح تعلیمات بگڑ کر بالکلیہ مسخ ہوجانے سے ہے ۔ دین کے معاملہ میں بندوں میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نہیں۔
کتاب و رسولؐ کی تعلیمات اپنی اصلی شکل و صورت میں موجود ہونے کے باوجود شرک و بدعات کے ذریعہ بندے اپنے اندر جب بگاڑ پیدا کرلیتے ہیں تو اس کی اصلاح علماء دین کرتے ہیں جس پر ان کو مجدّد کہا جاتا ہے ۔ ایسے بگاڑ کی اصلاح کے لئے رسول کی ضرورت ہی نہیں ۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے’’العلماء الامتی کانبیاء بنی اسرائیل ‘‘ (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مانند ہیں ) یعنی علماء اللہ و رسول ؐ کی صحیح تعلیمات کی روشنی میں بگاڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگو ں کو اپنی اصلاح کرلینے کی دعوت دیں گے۔
اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ …(سورہ اٰل عمران ۔۵۵) ( اور جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ ؑ بے شک میں تم کو وفات دینے والا ہوں اور میں تم کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔) یہاں متوفیک و رافعک دونوں اسمِ فاعل ہیں جن کے درمیان ’و‘ ہے۔ اس سے ترتیب پر استدلال کرنا صحیح نہیں یعنی پہلے موت بعد رفع کی دلیل پیش کرنا صحیح نہیں ۔ کیونکہ ’و‘ سے جو عطف ہے اس میں ترتیب لازمی نہیں ہوتی چنانچہ سورہ انعام آیت ۸۴ تا ۸۶ میں اٹھارہ پیغمبروں کے نام ’ و ‘ کے عطف کے ساتھ آئے ہیں ۔ لیکن ان میں ترتیب زمانی نہیں ہے ۔ چنانچہ ابن عباسؓ سے بھی اس آیت کے معنوں میں تقدیم و تاخیر یعنی پہلے رفع کا عمل بعد میں وفات کا عمل ہونا منقول ہے ۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں حشر کے دن عیسیٰ ؑ صرف تَوَ فَّیْتَنِیْ (تو نے مجھے وفات دی ) فرمائیں گے جس سے قطعی ثابت ہے کہ وفات کا عمل رفع کے بعد ہوا نہ کہ وفات کے بعد رفع ۔ چنانچہ عیسیٰ ؑ کا ان کی وفات سے پہلے اٹھائے جانے کا ذکر سورہ النساء کی حسبِ ذیل آیت میں ہے :
وَقَوْلِـہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللہِ۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰكِنْ شُـبِّہَ لَہُمْ۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْہِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ۰ۭ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ يَقِيْنًۢا۱۵۷ۙ (سورہ النساء) ( ان کا یہ کہنا کہ یقیناً ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ؑ ابن مریم کو قتل کرڈالا ( صحیح نہیں ) کیوں کہ انھوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو اشتباہ (شبہ) ہوگیا اور بلا شبہ جو لوگ اس معاملہ میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں ہیں اور ان کے پاس اس کے لئے کوئی دلیل نہیں بجز قیاس و گمان کے ۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَيْہِ۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۱۵۸ (سورہ النساء ) (اور یقیناً انھوں نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑے زبردست حکمت والے ہیں ۔ )
رفع کا لفظ قرآن میں اوپر اٹھانے کے معنی میں آیا ہے ملاحظہ ہو سورہ البقرہ آیت ۶۳ ‘ ۹۳ ‘ سورہ النساء ۱۵۴‘ اعراف ۱۷۱ ۔ لفظ رفع کے معنی ’باعزت موت ‘کے کرنا لغت کی کسی کتاب سے بھی ثابت نہیں۔ اور عیسیٰ ؑ کے وفات پانے سے پہلے تمام اہلِ کتاب آپ پر ایمان لائیں گے ‘کی بات بھی فرمائی گئی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا۱۵۹ۚ (سورہ النساء) (اور اہل کتاب کا ہر فرد عیسیٰ ؑ کی موت سے پہلے آپ پر ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسیٰ ؑ ان پر گواہ ہوں گے۔)یہا ں ’ ہ ‘ سے مراد اہل کتاب کا فرد نہیں بلکہ عیسیٰ ؑ مراد ہیں ۔ اس کے علاوہ سورہ زخرف آیت ۶۱ میں عیسیٰ ؑ کو وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ (اور بلا شبہ وہ ( عیسیٰ ؑ ) قیامت کے لئے یقینی ایک نشان ہے ) قرار دیا گیا ہے کہ جس سے قیامت کے قریب آپ کا آسمان سے نازل ہونے کی بات ہی صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ مزید یہ کہ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۴۶ (سورہ اٰل عمران) ’’ اور وہ لوگوں سے بات کرے گا گہوارہ میں بھی اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وہ صالحین میں سے ہوگا ‘‘کی اطلاع دی گئی ہے۔ گہوارہ میں بات کرنے کی بات تو ایک مسلمہ ہے لیکن ’کَھل ‘ عمر میں لوگوں سے بات کرنا ابھی باقی ہے کیونکہ آپ ۲۵ سال کی عمر میں اوپر اٹھالئے گئے ۔ کھل چالیس سال کی عمر کو کہا جاتا ہے جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ دوبارہ آسمان سے نازل ہوکر ادھیڑ عمر کو پہنچیں گے اور لوگوں سے خطاب کریں گے۔
۴۔ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۰ۭ (المائدہ : ۷۵) ’’مسیح ابن مریم اللہ کے ایک رسول کے سوا کچھ بھی ( اللہ کا بیٹا ) نہیں ۔ تحقیق ان سے پہلے بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں۔ ‘‘
خط کشیدہ الفاظ سے عیسیٰ ؑ کے وفات پاچکنے کی بات کہنا غلط ہے کیونکہ یہاں آپ کی وفات پانے کو بیان کرنا نہیں بلکہ اللہ کا بیٹا ہونے کے عقیدہ کی تردید کی گئی ہے ۔ خط کشیدہ الفاظ سورہ آل عمران آیت ۴۴ میں بھی نبی کریم ؐ کے تعلق سے آئے ہیں جو جنگ احد پر تبصرہ کے سلسلہ میں نازل ہوئے ہیں ۔ ان کے نزول کے وقت آپؐ زندہ تھے اور مزید سات سال تک زندہ رہے ۔ یہ الفاظ نبی کریم ؐ کے وفات پانے کے سلسلہ میں پیش کرنا جس طرح صحیح نہیں اسی طرح عیسیٰ ؑ کے وفات پاچکنے کے ثبوت میں پیش کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔
عیسیٰ ؑ کی پیدائش عام قانون طبعی کے خلاف ہوئی ہے اور آپ کو جو معجزے دیئے گئے وہ کسی اور پیغمبر کو نہیں دیئے گئے ۔ اسی طرح آپ کا آسمان پر اٹھالیا جانا اور قیامت کے قریب نازل ہونا ‘ ایک خصوصی معاملہ ہے جس کا تعلق اللہ کی قدرت سے ہے اور اللہ کی قدرت زیر بحث نہیں آسکتی ۔ سنت الٰہی اور قدرت الٰہی کو ایک سمجھنا صحیح نہیں ۔ بیک نظر سچ و جھوٹ معلوم ہوجانے کیلئے جدول پیش ہے۔
اللہ کی طرف سے نبی ہونے کا ثبوت
مرزا صاحب کے جھوٹے نبی ہونے کا ثبوت
۱ قرآن میں جن پیغمبروں کا ذکر ہے ان سب کے نام منفرد ہیں یعنی ہر نبی کا نام ایک ہی لفظ پر مشتمل ہے۔ نوٹ ۱؎
مرزا غلام احمد صاحب کا نام دو الفاظ پر مشتمل ہے ایک غلام دوسرا احمد ۔ اس لحاظ سے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے
نوٹ ۱؎ : آدم ۔ نوح ۔ ھود ۔ صالح ۔ ابراہیم ۔ لوط ۔ شعیب ۔ اسماعیل ۔ الیسع ۔ ذالکفل ۔ اسحاق ۔ یعقوب۔ یوسف ۔ یونس ۔ ادریس ۔ ایوب ۔ الیاس ۔ موسیٰ ۔ ہارون ۔ دائود ۔ سلیمان ۔ زکریا ۔ یحییٰ ۔ عیسیٰ اور محمد علیھم السلام ۔
۲ قرآن میں جن انبیاء کے نام آئے ہیں ان میں ایک نام کے دو پیغمبر نہیں ہوئے ہیں ۔ نبی کریم ؐ کا نام احمد ہونا قرآن سے ثابت ہے ۔
نوٹ ۲؎اس لحاظ سے ’’احمد ‘‘ نام کا نبی ‘ نبی کریم ؐ کے سوا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا ۔ اس لئے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے ۔
نوٹ ۲؎ : مِنْۢ بَعْدِي اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ( الصف : ۶) ( میرے بعد جو رسول آنے والے ہیں ان کا نام احمد ہوگا) چنانچہ اسی بناء پر دنیا کے تمام مسلمان نبی کریم ؐ کے نام ’’احمد ‘‘ سے واقف ہیں۔
۳ ۔ آدم ؑ تا محمد مصطفیؐ تک جتنے پیغمبر آئے ہیں وہ سب کے سب آزاد تھے وہ کسی کے غلام نہ تھے۔
مرزا صاحب کا اپنے نام ’’غلام احمد ‘‘ ہی سے احمد کا غلام ہونا ثابت ہے۔ غلام چونکہ نبی نہیں ہوسکتا اس لئے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے ۔
۴ اللہ کے نبی جہاں وفا ت پاتے ہیں وہیں دفن کئے جاتے ہیں ۔
نوٹ مرزا غلام احمد صاحب کی وفات لاہور میں ہوئی لیکن دفن قادیان میں کئے گئے اس لحاظ سے بھی مرزا صاحب نبی نہیں ہوسکتے ۔
نوٹ ۳؎ : ( نبی کریم ؐ کی وفات پر آپ کے دفن کرنے کا مسئلہ جب پیدا ہوا تو ابو بکر صدیق ؓ نے یہ ارشاد رسول سنایا ما من نبی یقبض الادفن تحت مصجعہ (اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو جہاں دفن کرانا منظور ہوتا ہے وہیں نبی کو وفات دیتا ہے۔)
۵ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اپنے کسب سے پیغمبر نہیں بنے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنایا ان تمام حضرات کی نبوت وھبی ہے کسبی نہیں ۔
مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان کو نبوت ان کے کسب سے حاصل ہوئی اپنے اس دعوے کی دلیل میں صراط الذین انعمت علیھم پیش کرتے ہیں جس کے غلط ہونے کی تفصیل اوپر گزرچکی ہے۔
۶ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اپنی نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کئے۔ چنانچہ نبی کریم ؐنے اپنی نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے کسی بھی قسم کا اعلان نہیں فرمایا۔
مرزا صاحب ابتداء ً اپنے محدث ‘ مجدد ‘ امام زماں ‘ مہدی ‘ مریم ‘ مثل مسیح ہونے کے دعوے پر دعوے کرتے چلے گئے اس لحاظ سے بھی ان کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے۔
۷ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر نے سابقہ پیغمبروں سے اپنے آپ کو افضل قرار نہیں دیا چنانچہ نبی کریمؐ نے اس معاملہ میں تاکید کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ نوٹ ۴؎
مرزا صاحب نے اپنے آپ کے بشمول نبی کریم ؐ کے تمام نبیوں سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس قسم کی باتیں ایک جھوٹا نبی ہی کرسکتا ہے۔
نوٹ ۴؎ : (الف) مجھ کو نبیوں کے درمیان ممتاز نہ ٹہرائو ( متفق علیہ )
(ب) اللہ کے نبیوں میں کسی کو دوسرے پر فضیلت نہ دو ۔ (بخاری )
(ت) کسی شخص کو نہیں چاہئے کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں( متفق علیہ )
(ج) جس شخص نے کہا کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا (بخاری)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ انسانوں کا خالق و رب ہے اور رب ہی کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی تمام ضروریات کی تکمیل کا سامان فراہم کرے ۔ چنانچہ مادی ضرورتوں کے لئے کائنات بنایا ۔ اور ان کی سب سے اہم و بنیادی ضرورت یعنی ہدایت و رہنمائی کے لئے آدم ؑ تا عیسیٰ علیہم السّلام تک دنیا کے ہر ملک ‘ علاقے اور قوم میں پیغمبر مبعوث کرکے کتابیں نازل فرماتا رہا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ۰ۚ …… سورہ یونس ۴۷ اور ہر اُمَّت کے لئے رسول ہے ۔
وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ۷ۧ ……… سورہ رعد ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔
اور ہدایت و رہنمائی کے سامان کی حفاظت اہل ایمان ہی کے ذمہ رکھی ۔
بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللہِ …… سورہ المائدہ ۴۴ (بوجہ اس کے کہ ان کو کتاب اللہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا )
جب عیسیٰ ؑ پر ایمان لانے والے بھی کتاب اللہ کی حفاظت نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ’’القرآن‘‘ جس کی قیامت تک حفاظت کرنے کا وعدہ کرکے نازل فرمایا اور اپنے اس وعدہ حفاظت کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ قرآن میں پیغمبروں ‘ صالحین ‘ محسنین ‘ متقین ‘ مصلحین ‘ عباد الرحمن ‘ طالبانِ آخرت و طالبانِ دنیا ‘ کافر و مومن ‘ فرمانبردار و نافرمان ‘ مفسدین اور سرکشوں کے اعمال بیان کرتے ہوئے ہدایت و گمراہی ‘ علم و جہل‘ اصلاح و بگاڑ ‘ اچھائی و برائی ‘ منکر و معروف ‘ نیکی و بدی ‘ اتفاق و اختلاف ‘ ضد و ہٹ دھرمی ‘ ایثار و خود غرضی ‘ بخل و سخاوت ‘ غرض انسان کے ہر اچھے و برے جذبات و خواہشات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے دنیوی و اخروی ‘ عارضی و ابدی انجام کو اپنے قانون جزا کی روشنی میں تفصیل سے بیان فرمادیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :
وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا۰ۭ (سورۃ الانعام : آیت ۱۱۴)( وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اتاری ہے ) تَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ … (سورہ یونس : ۳۷) کتاب میں تفصیل کردیا ہے ۔ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ … (سورہ یوسف ۱۱۱) اور (کتاب میں ) ہر چیز کی تفصیل ہے۔ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ (سورۃ النحل ۸۹ ) ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والی کتاب ۔
اور قرآن کو علم کی کتاب فرمایا ہے۔ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ (سورہ النسآء ۱۶۶ )اس کو اتارا اپنے علم کے ساتھ۔ فَصَّلْنٰہُ عَلٰي عِلْمٍ (سورۃ الاعراف ۵۲ )( اس میں ہم نے علم کی تفصیلات دی ہیں) اور یہ بھی بتادیا کہ علم کی باتوں میں تضاد نہیں ہوتا ۔ اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۸۲ (سورۃ النساء ) کیا پس تم قرآن کی باتوں پر غور نہیں کرتے اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں اختلاف کثیر (تضاد بیانی ) ضرور ہوتا ۔ اور یہ طمانیت بھی فرمادی کہ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے ۔
وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا …(سورۃ الکہف ۱ )اور اس میں کسی بھی قسم کی کوئی کجی نہیں رکھی) اور یہ قطعی اعلان بھی فرمادیا کہ : اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (سورۃ المائدہ ۔ ۳ )آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور میں نے اسلام ( اطاعت و فرمانبرداری) کو تمہارے لئے طریقہ زندگی کی حیثیت سے پسند کرلیا ۔
اس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ دین میں اب کسی قسم کی کمی یا اضافہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان تیقنات کے ساتھ ساتھ اللہ نے اپنی آخری کتاب کو محمدؐ پر نازل فرماکر آپؐ کو آخری نبی بنایا ہے اسی لئے آپؐ کو رحمۃ للعٰلمین فرما کر قیامت تک کے لئے ہر قسم کی نبوت کا دروازہ قطعی طور پر بند فرمادیا ۔ آپؐ کے رحمۃ للعٰلمین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت الٰہی کا مستحق بننے کا واحد صحیح طریقہ آپ کے ذریعہ ہی بندوں تک پہنچادیا گیا۔ چنانچہ اس کا ثبوت ان آیات سے ملتا ہے :
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃ ٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِیْدًا۴۱ۭ۬ ( النساء)(اس وقت کا تصور کرو جب کہ ہر امت میں سے ہم ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ان سب پر (اے نبیؐ ) تم کو گواہ بنائیں گے )
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ شَہِيْدًا عَلَيْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَہِيْدًا عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ۰ۭ (سورہ نحل ۔۸۹) ( اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک فرد کو جو ان ہی میں کا ہوگا ان پر گواہ ہوگا اور ان تمام گواہوں پر تم کو گواہ بنائیں گے )
مذکورہ بالا دو آیتوں سے صرف نبی کریم ؐ ہی کا آخری نبی ہونا قطعاً ثابت ہے ۔ آپ کے بعد کوئی اور نبی یا آخری نبی مبعوث کیا جانے والاہوتا تو اس کا تذکرہ قرآن میں لازماً ہوتا اور یہ آیتیں ہرگز نازل ہی نہیں ہوتیں کیونکہ تضاد و خلاف بیانی سے قرآن قطعی پاک ہے اس کے علاوہ : قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا …(سورہ الاعراف ۔۱۵۸)(اے نبی ! اعلان کردیجئے کہ اے تمام انسانو ! میں تم سب کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ ) وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا (سورہ سباء ۲۸)( اور ہم نے اے نبی ؐ ! آپؐ کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری دینے اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔ ) اس کے علاوہ سورہ النساء آیت ۷۹ ‘ سورہ الحج آیت ۴۹ میں بھی آپ کے آخری نبی ہونے کی بات بیان ہوئی ہے۔ اور وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۰ۭ (سورہ احزاب ۔۴۰)(مگر وہ (محمدؐ) اللہ کے رسول اور نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں) کے ذریعہ اپنے قانون بعثت انبیاء و رُسل کی منسوخی کا اعلان فرمادیا ۔
ہر قسم کی گمراہی سے بچنے کے لئے یہ وعید بھی سنادی۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۲۱ (الانعام ) (اس سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹی باتیں گھڑے اور اللہ کی باتوں کو جھٹلائے بلاشبہ ایسا ظلم کرنے والے ہرگز فلاح نہیں پاسکتے ) اس وعید کو بے حد تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ الاعراف آیت ۲۷‘ یونس آیت ۱۷‘ ۶۹ اور سورہ ھود آیت ۱۸ میں اس انجا م بد سے بچنے کے لئے ہدایت فرمائی گئی کہ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ اِلَّا الْحَقَّ۰ۭ (سورہ انساء: ۱۷۱)( اللہ کے متعلق حق کے سوا کوئی بات مت کہو) اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِہٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۹۳ (سورہ انعام) (آج تم کو بدلہ دیا جائے گا دوزخ کے عذاب کا اس وجہ سے کہ تم اللہ کے متعلق غیر حق بات کہتے تھے اوراُس کی آیتوں کے مقابلہ میں اپنی غلط باتوں کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔) اور بتایا گیا کہ شیطان تم کو اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرہ ۔۱۶۹) یہ کہ اللہ کے ذمہ وہ باتیں کہو جن کو تم نہیں جانتے ۔) کی باتیں سکھاتا ہے اور اعراف آیت ۳۳ : قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (آپ فرمادیجئے کہ میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ ہر قسم کی فحش باتوں کو حرام کردیا ہے )میں اللہ کے متعلق بلا دلیل و بلا سند باتیں کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ و رسول کی پوری تعلیمات کا واحد مقصد اور نچوڑ بندوں میں ابدی زندگی کی فکر اور انابت الی اللہ یعنی حنیفیت پیدا کرنا ہے ۔
مندرجہ بالا ارشاداتِ الٰہی سے قطعاً ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن کے کسی لفظ یا آیت کا یا کسی حدیث کا کوئی ایسا مفہوم و مطلب ہوہی نہیں سکتا جو پیغمبروں اور عباد الرحمن کے اسوہ اور قرآن کی بنیادی تعلیم کے ضد یا خلاف ہو۔
ان حقائق کے باوجود اللہ و رسول کی تعلیمات سے اگر کوئی غلط معنی و مفہوم لیتا ہو تو اس کے متعلق صرف دو ہی باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کی فہم و فکر نے ٹھوکر کھائی ہے یا وہ نہایت جھوٹا ‘ فریبی اور شیطان ہے۔
یہی وہ حقائق ہیں جن کی بناء پر ہر مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک یا کسی بھی قوم سے ہو ‘ یہ ایمان یقین رکھتا ہے کہ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے اور محمد مصطفی ؐ ‘اللہ کے آخری نبی ہیں کیونکہ آپ کی تعلیمات بھی حفاظت قرآن کے تحت محفوظ ہیں ۔ اس لئے آپ ؐ کے بعد کسی بھی قسم کے نبی کی ضرورت نہیں۔ ان حقائق کے باوجود کسی پر کسی طرح بھی وحی ٔ نبوت نازل ہونے کو ماننا اللہ کو جھوٹا قرار دینا ہے۔
مرزا غلام احمد کے خاندانی حالات
مرزا صاحب کے جدِّ اعلیٰ سمر قند سے دہلی آئے تھے ان کو بہت سے دیہات جاگیر میں دیئے گئے۔ شہنشاہ بابر کے بعد جب مغلیہ سلطنت کمزور ہوگئی تو انھوں نے اپنی فوجی طاقت کو بڑھا کر بہت سے علاقوں کو قبضہ میں کرلیا۔ مرزا صاحب کے پردادا مرزا گل محمد صاحب سکھوں سے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور ہر دفعہ کامیاب رہے لیکن ان کے فرزند مرزا عطا محمد صاحب کے ہاتھ سے سوائے قادیان اور چند دیہات کے سارا علاقہ نکل گیا اور سکھوں کے جبر و ظلم سے ان کو اپنا مستقر بھی چھوڑنا پڑا ۔ کافی زمانے کے بعد مرزا صاحب کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب دوبارہ قادیان میں جابسے ۔ جن کو ان کے حصہ جدّی سے حکومت برطانیہ نے قادیان اور تین گائوں دیئے ۔ گورنر کے دربار میں ان کو بیٹھنے کے لئے کرسی ملتی تھی جنھوں نے انگریزوں کا حق نمک غدر میں کمپنی کو پچاس 50 گھوڑے سوار مہیا کرکے ادا کیا۔
مرزا صاحب کے دل میں اپنے جَدِّاعلیٰ کی طرح کسی بڑے علاقہ کے رئیس بننے کی تمنا ہونا ایک فطری بات تھی ۔ ہندوستان پر حکومت برطانیہ کا تسلط ہوجانے کے بعد ان کی تمنا کے پورے ہونے کے امکانات قطعی ختم ہوچکے تھے ۔ مرزا صاحب جیسے ذہین و چالاک کے لئے بغیر جدوجہد کئے حالات موجودہ پر قانع ہوجانا ممکن نہ تھا اس لئے انھوں نے سیاسی میدان کے بجائے مذہبی میدان میں اپنی قسمت آزمائی شروع کی ۔ اور یہی ایک ایسا واحد ذریعہ تھا جس سے نہ صرف عزت و شہرت و دولت بلکہ احترام بھی حاصل ہوسکتا تھا ۔ سب سے پہلے ہندوستان کے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ۔ بالخصوص خدائی اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے حالات اور ان کے ہتھکنڈوں سے خوب آگاہی حاصل کی۔
مرزا صاحب کے کارنامے
مرزا صاحب کے مشاہدہ میں تھا کہ جب بھی کوئی نیا مذہب یا سلسلہ نکلتا ہے تو دیگر مذاہب سے نہ سہی مگر مسلمانوں میں سے کچھ نہ کچھ لوگ اس کی طرف مائل ہو ہی جاتے ہیں اور ایسا ہونا اپنے مذہب سے محض جہل کی بنا پر ہی ہوتا ہے ۔ مرزا صاحب جانتے تھے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی ایک عظیم اکثریت اپنے دین سے محض کوری ہے ۔ مسلمانوں کی اس کمزوری سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کا انھوں نے فیصلہ کیا ۔ چنانچہ سب سے پہلے سلسلہ قادریہ ‘ چشتیہ کی طرح اپنا ایک نیا سلسلہ عالیہ احمدیہ قائم کیا ۔ اس طرح مسلمانوں میں سے اپنے مرید فراہم کرلئے اور عام مسلمانوں کی ہمدردیاں و عقیدت اور ساتھ ہی دولت حاصل کرنے کے لئے ایک شاطرانہ چال یہ چلی کہ ایک کتاب ’’مسمیٰ بہ براہین احمدیہ علی ٰ حقیقت کتاب اللہ و النبوہ المحمدیہ ‘‘ لکھی جس میں قرآن کے آخری کتاب الٰہی ہونے اور نبی کریم کے آخری نبی ہونے اور مسلمانوں کے اسلام پر ثابت قدمی کی تعریف کرتے ہوئے حسبِ ذیل ایک اشتہار بھی دے دیا :
’’ میں مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بواعدہ انعام دس ہزار روپے بمقابلہ جمیع ارباب مذاہب وملت کے جو حقانیت قرآن مجید اور نبوت محمدؐ سے منکر ہیں ۔ اتماماً للحجَّۃ شائع کرکے اقرار کرتا ہوں کہ اگر کوئی حسب شرائط مندرجہ اس کو رد کردے تو اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپے پر قبض و دخل دے دوں گا ۔ ‘‘
اور یہ تصریح کی کہ کتاب آریہ برہمو سماج کے خلاف لکھی گئی ہے جو وحی و نبوت کے منکر ہیں جس سے مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ مرزا صاحب اسلام کی طرف سے غیر مسلموں سے برسر مقابلہ ہیں چونکہ حریف کو مرعوب کرنے کے لئے لڑائی میں دھوکہ جائز کے تحت خلاف حقیقت واقعہ بیان کردینا شرعاً و عقلاً ناجائز نہیں ہے اس لئے ان کی یہ کتاب ایسی مقبول ہوئی کہ لوگ تین چار روپے والی کتاب کو پچیس پچیس روپے دے کر خریدے ۔ اس کے علاوہ مال دار حضرات نے طباعت کے لئے کثیر رقومات دیں۔ اس طرح مرزا صاحب ایک طرف تو کثیر رقم کے مالک بن گئے دوسرے بہت سے مسلمانوں کو اپنا معتقد بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ تیسرے اپنی نبوت کے لئے میدان ہموار کرلیا کہ کسی کو اس کے رد کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ چنانچہ اس میں نفس الہام اور مطلق نبوت کی بحث چھیڑ دی۔ اور وحی نبوت اور الہام کو ایک ہی چیز ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ الہام ‘ کشف اور مکالمہ الٰہی کو نبوت کا نام دیا۔ ان کی ان لاف زنیوں کی تردید و نفی اس لئے نہیں کی جاسکتی تھی کہ تصوف اور سلوک اولیائی کے حامل دینی رہنما و بزرگ بھی اپنے صاحبِ الہام و صاحب ِ کشف ہونے اور اللہ سے بات کرنے کے مدعی تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مرزا صاحب نے تصوف ‘ سلوک اولیائی کے اصطلاحات کو ذریعہ بناکر دین اسلام کے مسلمہ بنیادی عقائد کو ڈائنمٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرزا صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ابتداء ہی میں اگر وہ اپنی مستقل نبوت کا دعویٰ کرتے تو کوئی مسلمان بھی ان کے دعوے کو تسلیم نہیں کرسکتا تھا۔ اس لئے ابتداً ظلی ‘ بروزی کا لبادہ بظاہر اوڑھے رہے اور ان کی مستقل نبوت کی راہ میں جو چیزیں مانع و مزاحم تھیں یعنی قرآن و حدیث اس میں اپنے الہام و کشف کے نام پر من مانی تحریف و تفسیر کرڈالی۔ قرآنی آیات کا حسب مرضی معنی و مفہوم متعین کرنے کے لئے براہین احمدیہ کے صفحہ ۱۳۹ میں یہ قاعدہ لکھا کہ کشف سے معنیٰ قرآن نئے طور پر کھلتے ہیں تو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور حدیث لانبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کے بعد ’’الّا نبی ظلی ‘‘ (سوائے نبی ظلی کے ) بڑھا دیا ۔ اور ساٹھ جزوں پر مشتمل ہزاروں صفحات کی کتاب بنام ’’ازالۃ الاوہام ‘‘ لکھ ڈالی جس میں انھوں نے اپنے آپ کو مسیح موعود ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ان کا یہ دعویٰ دو باتوں پر موقوف تھا ایک عیسیٰ ؑ کی موت کا ثبوت ۔ دوسرا مرزا صاحب کا خدا کی طرف سے مامور ہونا ۔ اس کے لئے مرزا صاحب مفسرین پر بے حد خفا ہیں چنانچہ صفحہ ۷۲۶میں لکھتے ہیں کہ کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے مولویوں کو بہت خراب کیا ہے۔
جھوٹے نبی سے دلیل پوچھنا یا سننا یا بیان کرنا اگرچہ کفر ہے لیکن عوام کو ان کے فریب سے بچانے کے لئے ان کے دلائل کے غلط و جھوٹ ہونے کو واضح کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے ان کے اہم دلائل کا جائزہ پیش ہے ۔
۱۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ (سورہ فاتحہ ۔۶) ( ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا۔) انعام یافتہ بندوں کی تفصیل وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۶۹ۭ (سورہ النساء ) ( جو کوئی اللہ اور رسول ؐ کی اطاعت کرتا رہے گا پس ایسے ہی لوگ آخرت میں ان حضرات کے ساتھ رہیں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا جو نبیوں ‘ صدیقوں ‘ شہداء اور صالحین میں سے ہیں اور جو بہترین ساتھی ہیں۔ )
اس آیت سے مرزا صاحب نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ صدیق کی راہ پر چل کر کوئی بھی صدیق ہوسکتا ہے ‘ شہید کی راہ اختیار کرکے شہید بن سکتا ہے اور صالح کے طریقے کو اپنا کر صالح بننا ممکن ہے بالکل اسی طرح نبی کی راہ پر چل کر کوئی بھی نبی بن سکتا ہے۔
چنانچہ مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی کی راہ پر چل کر نبی بنے ہیں۔ مرزا صاحب اپنے اس شیطانی اصول کو صرف نبوت کی حد تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اللہ کی راہ پر بھی چل کر وہ خود اللہ بننے کی بات بھی کہہ چکے ہیں۔ حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ (فاتحہ۔۶) (ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔) بندے کی دعا کا ایک جز ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے التجا کرتا ہے کہ اے رب تیرے انعام یافتہ بندے انبیا ‘ صدیقین ‘ شہداء‘ صالحین جس طرح مرتے دم تک تیری اطاعت کرتے رہے اور آخرت کی فلاح کے لئے دنیا کی ہر تکلیف و نقصان بخوشی برداشت کرتے رہے اور دامے ‘ درمے سخنے تیرے دین کی اشاعت و تبلیغ کرتے رہے دنیا میں اسی طرح زندگی بسر کرنے کی مجھ کو بھی توفیق و ہمت عطا کر۔ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ (النساء : ۶۹) (اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کرتا رہے گا پس ایسے ہی لوگ ا ن کے ساتھ رہیں گے۔) وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا(النساء :۶۹) ( اور جو بہترین ساتھی ہیں ) ۔ یہ خط کشیدہ الفاظ علانیہ بتارہے ہیں کہ اللہ و رسول ؐ کی اطاعت کرنے والاآخرت میں اللہ کے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ رہے گا نہ کہ وہ انعام یافتہ بندوں کی طرح انعام یافتہ ہوجائے گا ۔ چنانچہ امت محمدیہ ؐ کے سابقون الاولون اور جن کو دنیا ہی میں رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۰ۭ ( المائدہ ۱۱۹ ‘ توبہ ۱۰۰ ‘ المجادلہ ۲۲‘ البینہ ۸) جن سے اللہ دنیا میں راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔) کی خوشخبری سنادی گئی تھی۔
ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں صدیق ہوں ‘ شہید ہوں ‘ صالح ہوں یا ہوگیا ہوں کیونکہ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے لحاظ سے حشر کے دن فرمائے گا نہ کہ دنیا میں اور نہ اس کا فیصلہ کرنا بندوں کے اختیار میں ہے چنانچہ یہ حضرات مرتے دم تک معافی اور بخشش کی درخواست ہی کرتے رہے۔ لیکن نبی کا معاملہ بالکل اس کے برخلاف ہے کیونکہ دنیا ہی میں اسے نبی کی حیثیت سے مبعوث کیا جاتا ہے اور نبوت اعمال کی بناء پر نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے تحت عطا فرماتا ہے۔ اس لئے نبی کی راہ اختیار کرکے نبی بن جانے کی بات محض شیطانی بات ہے۔
ملاحظہ ہو کہ جس اصول سے مرزا صاحب نبی بننے کے دعویدار ہیں اس کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھ کر آئندہ کے لئے منسوخ قرار دے دیا ۔ اس طرح اپنے اخذ کردہ اصول کے غلط و جھوٹ ہونے کو خود ہی ثابت کردیا ۔ اس طرح خود اپنے دعویٔ نبوت میں جھوٹے ہونے کا ثبوت فراہم کردیا۔
(۲) نبی کریم ؐ کے بعد بھی نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کے سلسلہ میں يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۰ۙ … (سورہ اعراف : ۳۵) ’’اے اولادِ آدم ! جب کبھی تمہارے لئے رسول کی ضرورت ہوگی وہ تم ہی میں سے تمہارے پاس آتے رہیں گے ۔ میرے احکام تم سے بیان کرتے رہیں گے۔‘‘ پیش کی جاتی ہے اور مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جب تک بنی آدم دنیا میں موجود رہیں گے ان میں بگاڑ پیدا ہوتا رہے گا جس کی اصلاح کے لئے رسول مبعوث کئے جاتے رہیں گے ۔ یہ قطعاً غلط اور تفسیر بالرائے ہے۔ کیونکہ اس آیت کا تعلق بندوں کے اپنے پیدا کردہ بگاڑ سے نہیں ہے بلکہ اللہ و رسول کی تعلیمات کے بگڑ جانے سے ہے جس کو فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۳۸ (سورہ البقرہ) ( بس جب کبھی تم کو ہدایت کی ضرورت ہوگی تو تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آتی رہے گی پس جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا بس ایسوں ہی کے لئے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ) میں بھی بیان کیا گیا ہے جس میں لفظ رسول کی بجائے ھدًی آیا ہے ۔ یہ دونوں آیات جو ایک دوسرے کی تفسیر ہیں ‘ کا تعلق نفسِ دین کی اصل و صحیح تعلیمات بگڑ کر بالکلیہ مسخ ہوجانے سے ہے ۔ دین کے معاملہ میں بندوں میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نہیں۔
کتاب و رسولؐ کی تعلیمات اپنی اصلی شکل و صورت میں موجود ہونے کے باوجود شرک و بدعات کے ذریعہ بندے اپنے اندر جب بگاڑ پیدا کرلیتے ہیں تو اس کی اصلاح علماء دین کرتے ہیں جس پر ان کو مجدّد کہا جاتا ہے ۔ ایسے بگاڑ کی اصلاح کے لئے رسول کی ضرورت ہی نہیں ۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے’’العلماء الامتی کانبیاء بنی اسرائیل ‘‘ (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مانند ہیں ) یعنی علماء اللہ و رسول ؐ کی صحیح تعلیمات کی روشنی میں بگاڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگو ں کو اپنی اصلاح کرلینے کی دعوت دیں گے۔
اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ …(سورہ اٰل عمران ۔۵۵) ( اور جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ ؑ بے شک میں تم کو وفات دینے والا ہوں اور میں تم کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔) یہاں متوفیک و رافعک دونوں اسمِ فاعل ہیں جن کے درمیان ’و‘ ہے۔ اس سے ترتیب پر استدلال کرنا صحیح نہیں یعنی پہلے موت بعد رفع کی دلیل پیش کرنا صحیح نہیں ۔ کیونکہ ’و‘ سے جو عطف ہے اس میں ترتیب لازمی نہیں ہوتی چنانچہ سورہ انعام آیت ۸۴ تا ۸۶ میں اٹھارہ پیغمبروں کے نام ’ و ‘ کے عطف کے ساتھ آئے ہیں ۔ لیکن ان میں ترتیب زمانی نہیں ہے ۔ چنانچہ ابن عباسؓ سے بھی اس آیت کے معنوں میں تقدیم و تاخیر یعنی پہلے رفع کا عمل بعد میں وفات کا عمل ہونا منقول ہے ۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں حشر کے دن عیسیٰ ؑ صرف تَوَ فَّیْتَنِیْ (تو نے مجھے وفات دی ) فرمائیں گے جس سے قطعی ثابت ہے کہ وفات کا عمل رفع کے بعد ہوا نہ کہ وفات کے بعد رفع ۔ چنانچہ عیسیٰ ؑ کا ان کی وفات سے پہلے اٹھائے جانے کا ذکر سورہ النساء کی حسبِ ذیل آیت میں ہے :
وَقَوْلِـہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللہِ۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰكِنْ شُـبِّہَ لَہُمْ۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْہِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ۰ۭ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ۰ۚ وَمَا قَتَلُوْہُ يَقِيْنًۢا۱۵۷ۙ (سورہ النساء) ( ان کا یہ کہنا کہ یقیناً ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ؑ ابن مریم کو قتل کرڈالا ( صحیح نہیں ) کیوں کہ انھوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو اشتباہ (شبہ) ہوگیا اور بلا شبہ جو لوگ اس معاملہ میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں ہیں اور ان کے پاس اس کے لئے کوئی دلیل نہیں بجز قیاس و گمان کے ۔ بَلْ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَيْہِ۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا۱۵۸ (سورہ النساء ) (اور یقیناً انھوں نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑے زبردست حکمت والے ہیں ۔ )
رفع کا لفظ قرآن میں اوپر اٹھانے کے معنی میں آیا ہے ملاحظہ ہو سورہ البقرہ آیت ۶۳ ‘ ۹۳ ‘ سورہ النساء ۱۵۴‘ اعراف ۱۷۱ ۔ لفظ رفع کے معنی ’باعزت موت ‘کے کرنا لغت کی کسی کتاب سے بھی ثابت نہیں۔ اور عیسیٰ ؑ کے وفات پانے سے پہلے تمام اہلِ کتاب آپ پر ایمان لائیں گے ‘کی بات بھی فرمائی گئی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكُوْنُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا۱۵۹ۚ (سورہ النساء) (اور اہل کتاب کا ہر فرد عیسیٰ ؑ کی موت سے پہلے آپ پر ایمان لے آئے گا اور قیامت کے دن عیسیٰ ؑ ان پر گواہ ہوں گے۔)یہا ں ’ ہ ‘ سے مراد اہل کتاب کا فرد نہیں بلکہ عیسیٰ ؑ مراد ہیں ۔ اس کے علاوہ سورہ زخرف آیت ۶۱ میں عیسیٰ ؑ کو وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ (اور بلا شبہ وہ ( عیسیٰ ؑ ) قیامت کے لئے یقینی ایک نشان ہے ) قرار دیا گیا ہے کہ جس سے قیامت کے قریب آپ کا آسمان سے نازل ہونے کی بات ہی صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ مزید یہ کہ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۴۶ (سورہ اٰل عمران) ’’ اور وہ لوگوں سے بات کرے گا گہوارہ میں بھی اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وہ صالحین میں سے ہوگا ‘‘کی اطلاع دی گئی ہے۔ گہوارہ میں بات کرنے کی بات تو ایک مسلمہ ہے لیکن ’کَھل ‘ عمر میں لوگوں سے بات کرنا ابھی باقی ہے کیونکہ آپ ۲۵ سال کی عمر میں اوپر اٹھالئے گئے ۔ کھل چالیس سال کی عمر کو کہا جاتا ہے جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ دوبارہ آسمان سے نازل ہوکر ادھیڑ عمر کو پہنچیں گے اور لوگوں سے خطاب کریں گے۔
۴۔ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۰ۭ (المائدہ : ۷۵) ’’مسیح ابن مریم اللہ کے ایک رسول کے سوا کچھ بھی ( اللہ کا بیٹا ) نہیں ۔ تحقیق ان سے پہلے بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں۔ ‘‘
خط کشیدہ الفاظ سے عیسیٰ ؑ کے وفات پاچکنے کی بات کہنا غلط ہے کیونکہ یہاں آپ کی وفات پانے کو بیان کرنا نہیں بلکہ اللہ کا بیٹا ہونے کے عقیدہ کی تردید کی گئی ہے ۔ خط کشیدہ الفاظ سورہ آل عمران آیت ۴۴ میں بھی نبی کریم ؐ کے تعلق سے آئے ہیں جو جنگ احد پر تبصرہ کے سلسلہ میں نازل ہوئے ہیں ۔ ان کے نزول کے وقت آپؐ زندہ تھے اور مزید سات سال تک زندہ رہے ۔ یہ الفاظ نبی کریم ؐ کے وفات پانے کے سلسلہ میں پیش کرنا جس طرح صحیح نہیں اسی طرح عیسیٰ ؑ کے وفات پاچکنے کے ثبوت میں پیش کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔
عیسیٰ ؑ کی پیدائش عام قانون طبعی کے خلاف ہوئی ہے اور آپ کو جو معجزے دیئے گئے وہ کسی اور پیغمبر کو نہیں دیئے گئے ۔ اسی طرح آپ کا آسمان پر اٹھالیا جانا اور قیامت کے قریب نازل ہونا ‘ ایک خصوصی معاملہ ہے جس کا تعلق اللہ کی قدرت سے ہے اور اللہ کی قدرت زیر بحث نہیں آسکتی ۔ سنت الٰہی اور قدرت الٰہی کو ایک سمجھنا صحیح نہیں ۔ بیک نظر سچ و جھوٹ معلوم ہوجانے کیلئے جدول پیش ہے۔
اللہ کی طرف سے نبی ہونے کا ثبوت
مرزا صاحب کے جھوٹے نبی ہونے کا ثبوت
۱ قرآن میں جن پیغمبروں کا ذکر ہے ان سب کے نام منفرد ہیں یعنی ہر نبی کا نام ایک ہی لفظ پر مشتمل ہے۔ نوٹ ۱؎
مرزا غلام احمد صاحب کا نام دو الفاظ پر مشتمل ہے ایک غلام دوسرا احمد ۔ اس لحاظ سے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے
نوٹ ۱؎ : آدم ۔ نوح ۔ ھود ۔ صالح ۔ ابراہیم ۔ لوط ۔ شعیب ۔ اسماعیل ۔ الیسع ۔ ذالکفل ۔ اسحاق ۔ یعقوب۔ یوسف ۔ یونس ۔ ادریس ۔ ایوب ۔ الیاس ۔ موسیٰ ۔ ہارون ۔ دائود ۔ سلیمان ۔ زکریا ۔ یحییٰ ۔ عیسیٰ اور محمد علیھم السلام ۔
۲ قرآن میں جن انبیاء کے نام آئے ہیں ان میں ایک نام کے دو پیغمبر نہیں ہوئے ہیں ۔ نبی کریم ؐ کا نام احمد ہونا قرآن سے ثابت ہے ۔
نوٹ ۲؎اس لحاظ سے ’’احمد ‘‘ نام کا نبی ‘ نبی کریم ؐ کے سوا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا ۔ اس لئے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے ۔
نوٹ ۲؎ : مِنْۢ بَعْدِي اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ( الصف : ۶) ( میرے بعد جو رسول آنے والے ہیں ان کا نام احمد ہوگا) چنانچہ اسی بناء پر دنیا کے تمام مسلمان نبی کریم ؐ کے نام ’’احمد ‘‘ سے واقف ہیں۔
۳ ۔ آدم ؑ تا محمد مصطفیؐ تک جتنے پیغمبر آئے ہیں وہ سب کے سب آزاد تھے وہ کسی کے غلام نہ تھے۔
مرزا صاحب کا اپنے نام ’’غلام احمد ‘‘ ہی سے احمد کا غلام ہونا ثابت ہے۔ غلام چونکہ نبی نہیں ہوسکتا اس لئے مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے ۔
۴ اللہ کے نبی جہاں وفا ت پاتے ہیں وہیں دفن کئے جاتے ہیں ۔
نوٹ مرزا غلام احمد صاحب کی وفات لاہور میں ہوئی لیکن دفن قادیان میں کئے گئے اس لحاظ سے بھی مرزا صاحب نبی نہیں ہوسکتے ۔
نوٹ ۳؎ : ( نبی کریم ؐ کی وفات پر آپ کے دفن کرنے کا مسئلہ جب پیدا ہوا تو ابو بکر صدیق ؓ نے یہ ارشاد رسول سنایا ما من نبی یقبض الادفن تحت مصجعہ (اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو جہاں دفن کرانا منظور ہوتا ہے وہیں نبی کو وفات دیتا ہے۔)
۵ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اپنے کسب سے پیغمبر نہیں بنے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنایا ان تمام حضرات کی نبوت وھبی ہے کسبی نہیں ۔
مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان کو نبوت ان کے کسب سے حاصل ہوئی اپنے اس دعوے کی دلیل میں صراط الذین انعمت علیھم پیش کرتے ہیں جس کے غلط ہونے کی تفصیل اوپر گزرچکی ہے۔
۶ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اپنی نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کئے۔ چنانچہ نبی کریم ؐنے اپنی نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے کسی بھی قسم کا اعلان نہیں فرمایا۔
مرزا صاحب ابتداء ً اپنے محدث ‘ مجدد ‘ امام زماں ‘ مہدی ‘ مریم ‘ مثل مسیح ہونے کے دعوے پر دعوے کرتے چلے گئے اس لحاظ سے بھی ان کا دعویٔ نبوت جھوٹا ہے۔
۷ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر نے سابقہ پیغمبروں سے اپنے آپ کو افضل قرار نہیں دیا چنانچہ نبی کریمؐ نے اس معاملہ میں تاکید کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ نوٹ ۴؎
مرزا صاحب نے اپنے آپ کے بشمول نبی کریم ؐ کے تمام نبیوں سے افضل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس قسم کی باتیں ایک جھوٹا نبی ہی کرسکتا ہے۔
نوٹ ۴؎ : (الف) مجھ کو نبیوں کے درمیان ممتاز نہ ٹہرائو ( متفق علیہ )
(ب) اللہ کے نبیوں میں کسی کو دوسرے پر فضیلت نہ دو ۔ (بخاری )
(ت) کسی شخص کو نہیں چاہئے کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں( متفق علیہ )
(ج) جس شخص نے کہا کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا (بخاری)