مظفراکبروانی سلفی
رکن ختم نبوت فورم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
فقہ کا معنی ومفہوم
لغوی وضاحت:لفظ فقہ،فہم،سمجھ اور دانش کے معنی میں استعمال ہوجاتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل سے واضح ہے:
قَالُوْا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْراًمِمَّا تَقُوْلُ:
ترجمہ
انہوں نے کہا اے شعیب!تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں اۤتیں،،(ھود:91)
فَمَا لِھٰوءُلَاۤءِالْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثَا:
ترجمہ،
انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں‘‘(النساء78)
حدیث نبوی ﷺ ہے کہ:
من یرداللّٰہ بہٖ خیرا یفقہ الدین:
ترجمہ
اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں ‘اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں‘‘
(بخاری۔71_کتاب العلم:باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ الدین۔
یہ لفظ عربی گرامر کے اعتبار سے باب فَقُِہَ(سَمِعَ،کَرُمَ)کا مصدر ہے۔باب تَفَقَّہَ(تَفَعَّلَ) بھی اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔فَقَّہَ،اَفْقَہَ(تفعیل،افعال)یہ ابواب’’سکھانا اور سمجھانا‘‘کے معنی میں مستعمل ہے(القاموس المحیط۔صَ1151۔)(المعجم الوسیط۔ص۔698)
اصطلاحی تعریفالعلم بالاحکام الشرعیۃ العملیۃ المکتسبۃ من ادلتھا التفصیلیۃ)’’ایسا علم جس میں ان شرعی احکام سے بحث ہوتی ہو جن کا تعلق عمل سے ہے اور جن کو تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے،
(ارشادالفحول7/1)(المستصفی للغزالی18/1)(الاحکام لاۤمدی1/50)البحرال محیط للزرکشی110/1)
عموماً علم فقہ کی وہی تعریف کی جاتی ہے جو درج بالاسطور میں موجود ہے۔علاوہ ازیں مختلف فقہاء نے اس کی مخ تلف تعریفیں کی ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم فقہ میں صرف ان مسائل سے بحث کی جاتی ہے جو محض بندوں کے افعال سے تعلق رکھتے ہوں جیسے نماز،روزہ،نکاح،طلاق،خریدوفروخت اور جرائم وغیرہ۔بالفاظ دیگر اس علم میں صرف ایسے احکام شامل ہیں جو عبادات اور معاملات سے متعلق ہوں اور ایسے احکام کا اس میں کوئی دخل نہیں جو عقائد وایمانیات سے تعلق رکھتے ہوں۔
طالب دعا۔مظفر اکبر وانی سلفی
فقہ کا معنی ومفہوم
لغوی وضاحت:لفظ فقہ،فہم،سمجھ اور دانش کے معنی میں استعمال ہوجاتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل سے واضح ہے:
قَالُوْا یَاشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْراًمِمَّا تَقُوْلُ:
ترجمہ
انہوں نے کہا اے شعیب!تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں اۤتیں،،(ھود:91)
فَمَا لِھٰوءُلَاۤءِالْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثَا:
ترجمہ،
انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں‘‘(النساء78)
حدیث نبوی ﷺ ہے کہ:
من یرداللّٰہ بہٖ خیرا یفقہ الدین:
ترجمہ
اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں ‘اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں‘‘
(بخاری۔71_کتاب العلم:باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ الدین۔
یہ لفظ عربی گرامر کے اعتبار سے باب فَقُِہَ(سَمِعَ،کَرُمَ)کا مصدر ہے۔باب تَفَقَّہَ(تَفَعَّلَ) بھی اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔فَقَّہَ،اَفْقَہَ(تفعیل،افعال)یہ ابواب’’سکھانا اور سمجھانا‘‘کے معنی میں مستعمل ہے(القاموس المحیط۔صَ1151۔)(المعجم الوسیط۔ص۔698)
اصطلاحی تعریفالعلم بالاحکام الشرعیۃ العملیۃ المکتسبۃ من ادلتھا التفصیلیۃ)’’ایسا علم جس میں ان شرعی احکام سے بحث ہوتی ہو جن کا تعلق عمل سے ہے اور جن کو تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے،
(ارشادالفحول7/1)(المستصفی للغزالی18/1)(الاحکام لاۤمدی1/50)البحرال محیط للزرکشی110/1)
عموماً علم فقہ کی وہی تعریف کی جاتی ہے جو درج بالاسطور میں موجود ہے۔علاوہ ازیں مختلف فقہاء نے اس کی مخ تلف تعریفیں کی ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم فقہ میں صرف ان مسائل سے بحث کی جاتی ہے جو محض بندوں کے افعال سے تعلق رکھتے ہوں جیسے نماز،روزہ،نکاح،طلاق،خریدوفروخت اور جرائم وغیرہ۔بالفاظ دیگر اس علم میں صرف ایسے احکام شامل ہیں جو عبادات اور معاملات سے متعلق ہوں اور ایسے احکام کا اس میں کوئی دخل نہیں جو عقائد وایمانیات سے تعلق رکھتے ہوں۔
طالب دعا۔مظفر اکبر وانی سلفی