• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(فیصلہ مقدمہ بہاول پور)(بنائے مقدمہ)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(فیصلہ مقدمہ بہاول پور)

2118مسماۃ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش ذات ملانہ عمر ۱۸،۱۹ سال
سکنہ احمد پور شرقیہ بمختاری الٰہی بخش ولد محمود ذات ملانہ ساکن احمد پور شرقیہ معلم مدرسہ عربیہ
بنام
عبدالرزاق ولد مولوی جان محمد ذات باجہ عمر۲۳سال ساکن موضع مہند
تحصیل احمد پور شرقیہ، حال مقیم میلسی شہر گیج ریڈر سب ڈویژن انہار میلسی، ضلع ملتان
دعویٰ دلاپانے ڈگری استقرایہ مشعر تنسیخ نکاح
فریقین بوجہ ارتداد شوہرم مدعا علیہ

(بنائے مقدمہ)
2119یہ ایک خاص نوعیت اور اہمیت کا مقدمہ ہے۔ جو سال ۱۹۲۶ء میں دائر ہوکر ایک دفعہ انتہائی مراحل اپیل طے کر چکا ہے اور سال ۱۹۳۲ء سے پھر ایک نئی شان اور نئے اسلوب سے ابتدائی حیثیت میں عدالت ہذا میں زیرسماعت چلا آیا ہے۔ واقعات مختصراً یہ ہیں کہ مولوی الٰہی بخش والد مدعیہ اور مولوی عبدالرزاق مدعا علیہ باہمی رشتہ دار ہیں اور ابتداً یہ دونوں علاقہ ڈیرہ غازیخان میں رہتے تھے۔ عبدالرزاق کی ہمشیرہ مولوی الٰہی بخش سے بیاہی ہوئی تھی اور مولوی الٰہی بخش نے اپنی لڑکی مسماۃ غلام عائشہ مدعیہ کا نکاح اس کے ایام نابالغی میں عبدالرزاق مدعا علیہ سے کر دیا تھا۔
یہ لڑکی اس کی ایک سابقہ بیوی کے بطن سے تھی اور اس کا نکاح وہیں فریقین کے ابتدائی مسکن پر ہوا تھا۔ اس کے بعد مولوی الٰہی بخش وہاں سے ترک سکونت کر کے علاقہ ریاست ہذا میں چلا آیا اور سال ۱۹۱۷ء میں اس نے موضع مہند تحصیل احمد پور شرقیہ میں ایک زمیندار کے ہاں عربی تعلیم دینے پر ملازمت اختیار کر لی۔ مدعیہ کی طرف سے کہا جاتاہے کہ اس سے ایک سال کے بعد مدعا علیہ بھی بمعہ اپنی والدہ اور دو ہمشیرگان کے وہاں سے ترک سکونت کر کے مولوی الٰہی بخش کے پاس موضع مہند میں آگیا اور اپنے کنبہ کو وہاں چھوڑ کر خود حصول معاش کے لئے مختلف مقامات پر پھرتا رہا۔ دوران قیام موضع مہند میں اس نے اپنے سابقہ اعتقادات سے انحراف کر کے مرزائی مذہب اختیار کر لیا اور وہاں اپنے قادیانی مرزائی ہونے کا اعلان بھی کرتا رہا۔ اس کے بعد اس نے مولوی الٰہی بخش سے مدعیہ کے رخصتانہ کے متعلق استدعا کی تو اس نے یہ جواب دیا کہ جب تک وہ مرزائی مذہب ترک نہ کرے گا مدعیہ کا بازو اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ مدعا علیہ کچھ عرصہ مدعیہ کے رخصتانہ کے درپے رہا۔ لیکن اسے یہی جواب دیا جاتا رہا کہ اس کے مرزائی مذہب پر قائم رہنے کی صورت میں مدعیہ اس کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔ جب اسے کامیابی کی امید نظر نہ آئی تو وہ پھر ریاست سے ترک سکونت اختیار کر کے علاقہ برٹش انڈیا میں چلا گیا اور حدود ریاست ہذا کے قریب علاقہ تحصیل لودھراں میں سکونت 2120اختیار کر لی۔
ان سوالات پر کہ مدعا علیہ نے حدود ریاست سے سکونت کب ترک کی اور کہ اس نے مرزائی یا احمدی مذہب کہاں اور کب اختیار کیا؟ آگے بحث کی جائے گی۔ یہاں اب صرف یہ درج کیاجاتا ہے کہ مدعیہ کے اس رختصانہ کے سوال پر والد مدعیہ اور مدعا علیہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی اور والد مدعیہ نے مدعیہ کی طرف سے بحیثیت اس کے مختار کے ۲۴؍جولائی ۱۹۲۶ء کو مدعا علیہ کے خلاف یہ دعویٰ بدیں بیان دائر کیا کہ مدعیہ اب تک نابالغ رہی ہے۔ اب عرصہ دو سال سے بالغ ہوئی ہے۔
 
Top