اسدعلی(سابقہ قادیانی)
رکن ختم نبوت فورم
قادیانیت انگریزی استعمار کی ضرورت اور پیداوار
جب انگریزی استعمار اپنے تمام تر مظالم اور جبرواستبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد ختم نہ کرسکا تو 1869ء کے اوائل میں برٹش گورنمنٹ نے ممبران برٹش پارلیمنٹ‘ برطانوی اخبارات کے ایڈیٹرز اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سر ولیم میور کی قیادت میں ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو رام کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کیا جاسکے۔ برطانوی وفد ایک سال تک برصغیر میں رہ کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کرتا رہا۔ 1870ء میں وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا جس میں اس وفد نے برطانوی راج کی ہندوستان میں آمد کے عنوان سے دو رپورٹس پیش کیں۔ جن کاخلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے سوا تمام مذاہب کو کفریہ مذاہب سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مسلح جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دے کر‘ جہاد کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے کے مذہبی عقیدہ کے مطابق انگریزی حکومت‘ کافر حکومت ہے۔ اس لئے مسلمان اس حکومت کے خلاف بغاوت اور جہاد میں مصروف رہتے ہیںجو برطانوی حکومت کے لئے مشکلات کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو انگریز حکومت کے جواز اور اس کے خلاف بغاوت و جہاد کے حرام ہونے کی بابت الہامی سند پیش کردے تو ایسے شخص کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لئے مفید کام لیا جاسکتا ہے۔ ان رپورٹس کو مدنظر رکھ کر برطانوی حکومت کے حکم پر ایسے موزوں شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے سند مہیا کرسکے اور جس کے نزدیک تاج برطانیہ کا ہر حکم وحی کے مترادف ہو۔ ایسے شخص کی تلاش ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ‘ پارنکسن کے ذمہ لگائی گئی۔ جس نے برطانوی ہند کی سینٹرل انٹیلی جنس کی مدد سے کافی چھان بین کے بعد چار اشخاص کو اپنے دفتر طلب کرکے انٹرویو کئے۔ بالاخر ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی کو برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے نامزد کرلیا گیا اور اس کی سرکاری سرپرستی شروع کردی گئی۔ مرزا قادیانی کیوں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے موزوں ترین شخص تھا؟ اس لئے کہ اس کا خاندان شروع سے ہی برطانوی سامراج کی خدمت اور کاسہ لیسی میں مشہور تھا۔ اس کا اعتراف خود مرزا قادیانی نے اپنی متعدد تحریروں میں کیا ہے بطور نمونہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ خاندان
میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا‘ جن کو دربار گورنری میںکرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریز کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے عین زمانہ عذر کے وقت سرکار انگریز کی امداد میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں‘ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے محاذ پر مفسدوں کا سرکار انگریز کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریز کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا
(کتاب البریہ ص 5,4,3‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 13‘ ص 6,5,4 مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
پچاس برس سے وفادار جانثار خاندان
سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کرمجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا
(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 21‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)
سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں پچاس الماریاں
میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی ہیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصراور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں‘ ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں
(تریاق القلوب ص 28,27 مندرجہ ذیل روحانی خزائن جلد 15 ص 156,155 از: مرزا غلام احمد قادیان)
مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے
میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے‘ ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے
(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 19‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)
برطانوی گورنمنٹ کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے
بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے‘ یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے‘ اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔
(اشتہارات القرآن ص 84‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 6‘ ص 380 از مرزا قادیانی)
جیسی خدا تعالیٰ کی اطاعت ویسی اس سلطنت کی اطاعت
سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہرکرتا ہوں‘ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں‘ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو‘ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے
(اشتہارات القرآن ص 84‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد ص 380 از: مرزا قادیانی)
انگریز سلطنت ایک رحمت و برکت ہے
سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریز سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لئے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو
(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 584‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)
دنیا میں آنے کا مقصد گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی
ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیرخواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ۔ ہمارا اصول ہے۔ ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقص امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے
کتاب البریہ ص 17‘ اشتہار مورخہ 20 ستمبر 1897ء مندرجہ روحانی خزائن‘ جلد 13ص 18‘ مصنفہ: مرزا غلام احمد قادیانی
ان حوالہ جات کی روشنی میں قادیانیت کی وجہ تخلیق کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مرزا قادیانی استعماری سیاست کا خود کاشتہ پودا تھا۔ انگریز نے اپنے نظریہ ضرورت کے تحت قادیانی تحریک کو پروان چڑھایا۔ جناب مرتضیٰ احمد خاں مکیش بھی رقم طراز ہیں۔ دین مرزا برطانیہ کی استعماری سیاست کا ایک خود کاشتہ پودا ہے یعنی ایک ایسی سیاسی تحریک ہے جو انگریز کے مقبوضہ ہندوستان میں ایک ایسی مذہبی جماعت پیدا کرنے کے لئے شروع کی گئی جو سرکار برطانیہ کی وفاداری کو اپنا جزو ایمان سمجھے۔ غیر اسلامی حکومت یا نامسلم حکمرانوں کے استیلا کو جائز قرار دے اور ایک ایسے ملک کو شرعی اصطلاح میں دارالحرب سمجھنے کے عقیدہ کا بطلان کرے جس پر کوئی غیر مسلم قوم اپنی طاقت و قوت کے بل پر قابض ہوگئی۔ انگریز حکمرانوں کی قہاریت اور جباریت کو مسلمان ازروئے عقیدۂ دینی اپنے حق میں اﷲ کا بھیجا ہوا عذاب سمجھتے تھے اور ان کی رضاکارانہ اطاعت کو گناہ تصور کرتے تھے۔ انگریز حکمران مسلمانوں کے اس جذبے اور عقیدے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ لہذا انہوں نے اس سرزمین میں ایک ایسا پیغمبر کھڑا کردیا جو انگریزوں کو اولیٰ الامر منکم کے تحت میں لاکر ان کی اطاعت کو مذہباً فرض قرار دینے لگا اور ان کے پاس ہندوستان کو دارالحرب سمجھنے والے مسلمانوں کی مخبری کرنے لگا جس طرح باغبان اپنے خود کاشتہ پودے کی حفاطت و آبیاری میںبڑے اہتمام سے کام لیتا ہے‘ اسی طرح سرکار انگریز نے دین مرزائیت کو فروغ دینے کے لئے مرزائی جماعت کو پرورش کرنا اپنی سیاسی مصلحتوں کے لئے ضروری سمجھا۔ اور اس دین کے پیروئوں سے مخبری‘ جاسوسی اور حکومت کے ساتھ جذبہ وفاداری کی نشرواشاعت کا کام لیتی رہی۔ 1919ء میں جب مولانا محمد علی رحمتہ اﷲ علیہ نے خلافت اسلامیہ ترکی کی شکست سے متاثر ہوکر مسلمانوں کو انگریزوں کے قابو چیانہ گرفت سے چھڑانے اور ارض مقدس کو عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کے لئے تحریک احیائے خلافت کے نام سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی مہم شروع کی اور عام مسلمان مولانا محمد علی اور دیگر زعمائے اسلام کی دعوت ونفیر پر کان دھر کر انگریز حکومت سے ترک موالات کرنے پر آمادہ ہوگئے تو مرزائی جماعت نے اس دور کے وائسرائے کے سامنے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے سرکار انگریزی کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے اس جہاد آزادی کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کے خادم موجود ہیں‘ جو سرکار انگریز کی وفاداری کو مذہبی عقیدہ کے رو سے اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
پاکستان میں مرزائیت صفحہ 25 تا 27 از مرتضیٰ احمد خان مکیش
https://www.facebook.com/asidali500
جب انگریزی استعمار اپنے تمام تر مظالم اور جبرواستبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد ختم نہ کرسکا تو 1869ء کے اوائل میں برٹش گورنمنٹ نے ممبران برٹش پارلیمنٹ‘ برطانوی اخبارات کے ایڈیٹرز اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سر ولیم میور کی قیادت میں ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو رام کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کیا جاسکے۔ برطانوی وفد ایک سال تک برصغیر میں رہ کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کرتا رہا۔ 1870ء میں وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا جس میں اس وفد نے برطانوی راج کی ہندوستان میں آمد کے عنوان سے دو رپورٹس پیش کیں۔ جن کاخلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے سوا تمام مذاہب کو کفریہ مذاہب سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مسلح جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دے کر‘ جہاد کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے کے مذہبی عقیدہ کے مطابق انگریزی حکومت‘ کافر حکومت ہے۔ اس لئے مسلمان اس حکومت کے خلاف بغاوت اور جہاد میں مصروف رہتے ہیںجو برطانوی حکومت کے لئے مشکلات کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو انگریز حکومت کے جواز اور اس کے خلاف بغاوت و جہاد کے حرام ہونے کی بابت الہامی سند پیش کردے تو ایسے شخص کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لئے مفید کام لیا جاسکتا ہے۔ ان رپورٹس کو مدنظر رکھ کر برطانوی حکومت کے حکم پر ایسے موزوں شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے سند مہیا کرسکے اور جس کے نزدیک تاج برطانیہ کا ہر حکم وحی کے مترادف ہو۔ ایسے شخص کی تلاش ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ‘ پارنکسن کے ذمہ لگائی گئی۔ جس نے برطانوی ہند کی سینٹرل انٹیلی جنس کی مدد سے کافی چھان بین کے بعد چار اشخاص کو اپنے دفتر طلب کرکے انٹرویو کئے۔ بالاخر ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی کو برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے نامزد کرلیا گیا اور اس کی سرکاری سرپرستی شروع کردی گئی۔ مرزا قادیانی کیوں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے موزوں ترین شخص تھا؟ اس لئے کہ اس کا خاندان شروع سے ہی برطانوی سامراج کی خدمت اور کاسہ لیسی میں مشہور تھا۔ اس کا اعتراف خود مرزا قادیانی نے اپنی متعدد تحریروں میں کیا ہے بطور نمونہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ خاندان
میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا‘ جن کو دربار گورنری میںکرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریز کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے عین زمانہ عذر کے وقت سرکار انگریز کی امداد میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں‘ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے محاذ پر مفسدوں کا سرکار انگریز کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریز کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا
(کتاب البریہ ص 5,4,3‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 13‘ ص 6,5,4 مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
پچاس برس سے وفادار جانثار خاندان
سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کرمجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا
(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 21‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)
سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں پچاس الماریاں
میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی ہیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصراور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں‘ ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں
(تریاق القلوب ص 28,27 مندرجہ ذیل روحانی خزائن جلد 15 ص 156,155 از: مرزا غلام احمد قادیان)
مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے
میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے‘ ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے
(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 19‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)
برطانوی گورنمنٹ کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے
بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے‘ یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے‘ اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔
(اشتہارات القرآن ص 84‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 6‘ ص 380 از مرزا قادیانی)
جیسی خدا تعالیٰ کی اطاعت ویسی اس سلطنت کی اطاعت
سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہرکرتا ہوں‘ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں‘ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو‘ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے
(اشتہارات القرآن ص 84‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد ص 380 از: مرزا قادیانی)
انگریز سلطنت ایک رحمت و برکت ہے
سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریز سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لئے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو
(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 584‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)
دنیا میں آنے کا مقصد گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی
ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیرخواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ۔ ہمارا اصول ہے۔ ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقص امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے
کتاب البریہ ص 17‘ اشتہار مورخہ 20 ستمبر 1897ء مندرجہ روحانی خزائن‘ جلد 13ص 18‘ مصنفہ: مرزا غلام احمد قادیانی
ان حوالہ جات کی روشنی میں قادیانیت کی وجہ تخلیق کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مرزا قادیانی استعماری سیاست کا خود کاشتہ پودا تھا۔ انگریز نے اپنے نظریہ ضرورت کے تحت قادیانی تحریک کو پروان چڑھایا۔ جناب مرتضیٰ احمد خاں مکیش بھی رقم طراز ہیں۔ دین مرزا برطانیہ کی استعماری سیاست کا ایک خود کاشتہ پودا ہے یعنی ایک ایسی سیاسی تحریک ہے جو انگریز کے مقبوضہ ہندوستان میں ایک ایسی مذہبی جماعت پیدا کرنے کے لئے شروع کی گئی جو سرکار برطانیہ کی وفاداری کو اپنا جزو ایمان سمجھے۔ غیر اسلامی حکومت یا نامسلم حکمرانوں کے استیلا کو جائز قرار دے اور ایک ایسے ملک کو شرعی اصطلاح میں دارالحرب سمجھنے کے عقیدہ کا بطلان کرے جس پر کوئی غیر مسلم قوم اپنی طاقت و قوت کے بل پر قابض ہوگئی۔ انگریز حکمرانوں کی قہاریت اور جباریت کو مسلمان ازروئے عقیدۂ دینی اپنے حق میں اﷲ کا بھیجا ہوا عذاب سمجھتے تھے اور ان کی رضاکارانہ اطاعت کو گناہ تصور کرتے تھے۔ انگریز حکمران مسلمانوں کے اس جذبے اور عقیدے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ لہذا انہوں نے اس سرزمین میں ایک ایسا پیغمبر کھڑا کردیا جو انگریزوں کو اولیٰ الامر منکم کے تحت میں لاکر ان کی اطاعت کو مذہباً فرض قرار دینے لگا اور ان کے پاس ہندوستان کو دارالحرب سمجھنے والے مسلمانوں کی مخبری کرنے لگا جس طرح باغبان اپنے خود کاشتہ پودے کی حفاطت و آبیاری میںبڑے اہتمام سے کام لیتا ہے‘ اسی طرح سرکار انگریز نے دین مرزائیت کو فروغ دینے کے لئے مرزائی جماعت کو پرورش کرنا اپنی سیاسی مصلحتوں کے لئے ضروری سمجھا۔ اور اس دین کے پیروئوں سے مخبری‘ جاسوسی اور حکومت کے ساتھ جذبہ وفاداری کی نشرواشاعت کا کام لیتی رہی۔ 1919ء میں جب مولانا محمد علی رحمتہ اﷲ علیہ نے خلافت اسلامیہ ترکی کی شکست سے متاثر ہوکر مسلمانوں کو انگریزوں کے قابو چیانہ گرفت سے چھڑانے اور ارض مقدس کو عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کے لئے تحریک احیائے خلافت کے نام سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی مہم شروع کی اور عام مسلمان مولانا محمد علی اور دیگر زعمائے اسلام کی دعوت ونفیر پر کان دھر کر انگریز حکومت سے ترک موالات کرنے پر آمادہ ہوگئے تو مرزائی جماعت نے اس دور کے وائسرائے کے سامنے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے سرکار انگریزی کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے اس جہاد آزادی کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کے خادم موجود ہیں‘ جو سرکار انگریز کی وفاداری کو مذہبی عقیدہ کے رو سے اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
پاکستان میں مرزائیت صفحہ 25 تا 27 از مرتضیٰ احمد خان مکیش
https://www.facebook.com/asidali500